Our Life
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan March 23,1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۳مارچ ۱۸۹۴ ء
زندگی کے تین بڑے حصے
اِنسان کی زندگی میں خاص تین حالتیں ہیں یا یوں کہو کہ اِنسان کے ایام ِزندگی تین بڑے حصوں میں منقسم (تقسيم) ہیں۔ بچپن ۔ جوانی ۔ بڑھا پا ۔ ان میں سےعمر کا پہلا حصّہ والدین کی نگرانی اور اُستادوں کی سپردگی میں گزرتا ہے ۔ اور نابالغ ہو نے کی صورت میں دوسروں کی مرضی اور خواہش کے موافق چلنا پڑتا ہے باقی عمر دو حصوں کا بہت کچھ دارو مدار(انحصار) اسی پر منحصر (متعلق۔وابستہ)ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ زندگی کا حصّہ مثل بیج کے بونے کا وقت ہے اور باقی دونوں وقت اس بوئے ہوئے کے کاٹنے کا وقت ہیں تو درست ہے۔پیدا ہوتے ہی جب کہ اِنسان اپنے حواسِ خمسہ(پانچ حواس۔ديکھنے،سُننے،سونکھنے،چکھنے اورچھونے کی پانچ قوتيں) کو کام میں لانے لگتا ہے۔ اس وقت سے وہ اس دُنیا کی باتوں کو سیکھنے لگتا ہے ۔بچپن کا زمانہ گویا سیکھنے کا زمانہ ہے بچہ اس عمر کےحصّہ میں چاہے کچھ سیکھ لے علم یا ہنر ۔ نیکی یا بدی ۔ اورجو کچھ چاہو اس کو سکھا لو ۔ سیکھنے کا مادہ اس میں خالق نے بنا دیا ہے۔ دو طرح سے اِنسان کا بچہ سیکھتا ہے ایک تو سکھانے پڑھانے سے دوسرا صحبت سنگت سے۔اگر پہلی طرح کی تعلیم اچھی اور واجبی طور پر کی جائے ۔ اور اس کےمعلم اور اتالیق (اُستاد)صاحبِ لیاقت (قابليت)اور دیندار ہوں تو وہ دانا(عقلمند) اور ہوشیار ہو جاتا ہے اور خوشی اور فارغ البالی (خوش حالی)سے باقی عمر کے حصّے گذرانتا ہے ۔ پر اگر تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو بلکہ کوئی بُرا پیشہ یا گناہ کا کام کہ جس کا کرنا اخلاقی اور ملکی شرع کی رو سے مناسب نہ ہو سیکھ لے ۔ تو تمام عمر برباد ہو جاتی ہے ۔ صحبت بھی دو طرح کی ہیں نیک صحبت اور بد صحبت ۔ جس طرف بچے کو لگا لو وہ ویسا ہی بن جائے گا ۔ زندگی کے اس حصّے میں بڑی بھاری ہو شیاری اور خبر داری لازم و مناسب ہے اور جن کے جو بچے سپرد ہیں ان کا بگڑنا اور سنورنا ان کے ہی اختیار میں ہے۔ کلام الہٰی میں زندگی کے اس حصّہ کےلئے بچوں کو بڑی عمدہ نصیحتیں ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کرنا خاص کرنا نورِافشاں کے ناظرین طالب علموں کےلئے جو زندگی کے اس حصّے میں ہیں فائدہ مند ہو ں گی ۔
بچوں کے واسطے ہدایتیں ۔
اَے میرے بیٹے اپنے باپ کی تربیت کا شنوا (سُننے والا)ہو۔ اور اپنی ماں کی تاکید(تعليم) کو مت ترک کر ۔ امثال ۱: ۸ ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ یہ تیرے سر کے لئے رونق کا تاج اور تیری گردن کے لئے طوق(گلے کا ہار) ہیں ۔ امثال ۱: ۹۔
اَے لڑکو باپ کی تعلیم سُنو اور عقل مندی کے حاصل کرنے پر دھیان رکھو۔ امثال ۴: ۱ ۔ اَے میرے بیٹے میری شریعت کو فراموش مت کر پر تیرا دل میرے حکموں کو حفظ کر ے ۔ امثال ۳: ۱ ۔
اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ عمر کی درازی اور پیری اور سلامتی تجھ کو بخشیں گے۔ تو تُو خُدا اور خلق کا منظورِ نظر ہو کے نعمت اور بڑی قدر پائے گا ۔ امثال ۳: ۴۔
اَے میرے بیٹے اگر گنہگار لوگ تجھے پھُسلا دیں تو مت مان ۔ امثال ۱: ۱۰ ۔
اپنے سارے دل سے خُدا وند پر توکل کر اور اپنی سمجھ پر تکیہ مت کر اور اپنی ساری راہوں میں اس کا اقرار کر اور وہ تیری رہنمائی کرے گا۔ امثال ۳: ۵، ۶ ۔
اپنی نگاہ میں آپ کو دانش مند مت جان ۔ خُداوند سے ڈر۔ اور بدی سے باز رہ ۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا۔ کہ یہ ناف کے لئے صحت اور تیری ہڈیوں کے لئے تراوٹ ہو گی ۔ امثال ۳: ۷، ۸۔
شریروں کی راہ میں داخل مت ہو اور خبیثوں کے رستے پر مت جا۔ اس سے بازرہ اور اس کے نزدیک گزر نہ کر ۔ اُدھر سے پھر جا اور گزر جا ۔ امثال ۴: ۱۴، ۱۵ ۔
دانش مند بیٹا باپ کو خوشنود کرتا ہے پر بے دانش فرزند اپنی ماں کا بار خاطر ہوتا ہے۔ امثال ۱۰: ۱۔
دانشور بیٹا اپنے باپ کی تعلیم سنتا ہے پر ٹھٹھا کرنےو الا سر زنش پر کان نہیں دھرتا ۔ امثال ۱۳: ۱۔
ہو شیار بیٹا باپ کو خوشنو دکرتا ہے پر بے وقوف آدمی اپنی ماں کی تحقیر کرتا ہے۔ امثال ۱۵: ۲۰۔
اَے میرے بیٹے تو سن اور دانشمند ہو اور اپنے دل کی راہبری کر ۔ امثال ۲۳: ۱۹ ۔
اپنے باپ کی بات جس سےتو پیدا ہوا ہے سُن اور اپنی ماں کو اس کے بڑھاپے میں حقیر نہ جان ۔ امثال ۲۳: ۲۲۔
اَے میرے بیٹے تو خُداوند سے اور بادشاہ سے ڈر اور ان لوگوں کے ساتھ صحبت نہ رکھ جو تلو ن مزاج ہیں۔ امثال ۲۴: ۲۱۔
کاش کہ تمام بچے لڑکپن میں داؤد کی طرح کہیں میں پیدا ہوتے ہی تجھ پر پھینکا گیا۔ جب میں اپنی ماں کےپیٹ سے نکلا تب ہی سے تو میرا خُدا ہے ۔ زبور ۲۲: ۱۰۔
جوانی کے ایام۔
ہماری زندگی میں یہ وقت نہایت قیمتی اور بھاری اور نازک ہے۔ اور خطر ناک آزمائش میں مبتلا ہونے کے بڑے اندیشے(خطرے) کا وقت ہے۔ اِنسان کے قوائد بدنی تندرست اور مضبوط ہوتے ہیں۔ اور نفسانی اور حیوانی خواہشیں زور پر ہوتی ہیں۔ اِنسان بڑی آسانی سے ہر ایک کام انجام کر سکتا ہے۔ چاہے بُرا ہو چاہے بھلا ۔ لیکن چونکہ اِنسان کی بگڑی طبیعت کا پھیلا ن بڑائی کی طرف زیادہ ہو گیا ہے عموماً بُرے کام کرنےمیں جوانوں کے قدم بڑے تیز اور چالاک ہو جاتے ہیں۔ داؤد زبور کی کتاب میں ایک سوال پیش کرتا ہے جو حقیقت میں ایک بھاری سوال ہے کہ جوان اپنی راہیں کس طرح صاف کر رکھے؟ زبور ۱۱۹: ۹ ۔
شاید کوئی اس کا جواب دیتا لیکن داؤد خود و ہیں اس کا جواب یوں دیتا ہے ۔ اس پر خوب نگاہ کرنے سےتیرے کلام کے مطابق زبور ۱۱۹ : ۹ ۔ جو انوں کےلئے واعظ سب سے بڑی ہدایت یہ دیتا ہے۔ جو ہر ایک جوان کے لئے غور طلب ہے۔ اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر۔
بڑھاپا ۔
اِنسان کی زندگی میں یہ وقت تکلیف اور دقت(مشکل) کا ہے۔ انسا ن کے بدن کی طاقت زائل (ضائع)ہو جاتی ہے۔ اعضاء بے کار ہو جاتے ہیں ۔ کام کاج ہو نہیں سکتا ۔ گزراوقات مشکل ہو جاتی ہے۔ زندگی بے لطف(بے مزہ) معلوم ہوتی ہے۔ طبعیت کو کوئی چیز خوش معلوم نہیں ہوتی ۔ اس عمر کی بخوبی تشریح واعظ نے اپنی کتاب کے ۱۲ باب میں خوب عمدہ طور سے کی ہے ۔ وہ اس عمر کو ’’بُرے دن ‘‘ کہتا ہے۔ جیسا کہ لکھا ہےجب کہ بُرے دن ہنوز نہیں آئے اور وہ برس نزدیک نہ ہوئے جن میں تو کہے گا ۔ کہ ان سے مجھے کچھ خوشی نہیں۔ جب کہ ہنوز سورج اور روشنی اور چاند اور ستارے اندھیرے نہیں ہوتے ۔ اور بدلیاں پھر بارش کے بعد جمع نہیں ہوتیں۔ جس دن کہ گھر کے رکھوال تھر تھر انے لگیں ۔ ( یعنی ٹانگیں کمزور ہو جائیں) ۔ اور زور آور لوگ ہو جائیں ( یعنی پیٹھ ) اور پیسنے والیاں بے کاج رہیں ( یعنی دانت ) اس لئے کہ وہ تھوڑی سی ہیں اور وہ جو کھڑکیاں سے جھانکتی ہيں دھندلا جائیں۔ (یعنی آنکھیں ) اور گلی کے کواڑے بند ہو جائیں ( یعنی کان ) جب چکی کی آواز دھیمی ہوتی اور و ہ چڑیا کی آواز سے چونک اُٹھے اور نغمہ کی ساری بیٹیاں ضعیف ہو جائیں۔ ( یعنی گانے کی طاقت نہ رہے) اور جب وہ چڑیوں سے بھی ڈرجائیں اور دہشتیں راہ میں ہوں ۔ اور بادام نا پسند ہوئے اور ٹڈی ایک بوجھ معلوم ہو اور خواہش نفس مٹ جائے ۔ کیونکہ اِنسان اپنے دائمی مکان میں چلا جائے گا ۔ اور ماتم کرنے والے گلی گلی پھر یں گے۔ پیشتر اس سے کہ چاندی کی ڈوری کھولی جائے ( یعنی جان ) اور سونے کی کٹوری توڑی جائے اور گھڑا چشمہ پر (یعنی جسم ) پھٹ جائے ۔ اور حوض کا چرخ ٹوٹ جائے۔ اس وقت خاک خاک سے جاملے گی ۔ جس طرح آگے ملی ہوئی تھی اور روح خُدا کے پاس پھر جا ئے گی ۔ جس نے اسے دیا ۔ واعظ۔
اکثر بعض اِنسان اپنی جوانی خرابی اور بڑائی اور ہر طرح کے نجس (ناپاک)کا موں میں صرف کر دیتے ہیں اور بڑھاپے میں ما لایا تسبیح لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں ۔ کہ اب ہم بندگی کر کے خُدا کو خوش کر لیں گے یہ ایسے لوگوں کا خیال بالکل غلط ہے اگر ایک لڑکا آم کےپھل یا کسی اور قسم کے پھل کا گود آپ کھا لے ۔ اور خالی گٹھلی اپنے باپ کو دے۔ تو کیا اس کا باپ اس کو قبول کر لے گا ۔ ہر گز نہیں بلکہ ایسے خیال پر وہ ایسے نادان لڑکے کو خوب تنبیہ کرے گا۔
اگر ہم اپنی بچپن کی عمر اور جوانی کے ایام خُدا کی راہ پر چلنے میں کاٹیں تو ہمارا بڑھاپا مبارک ہو گا۔ اور ہم داؤد کی طرح سے کہہ سکیں گے۔ میں جوان تھا اب بوڑھا ہوا پر میں نے صادق کو ترک کئے ہوئے اور اس کی نسل میں سےکس کو ٹکڑے مانگتے نہ دیکھا ۔ زبور ۳۷: ۲۵۔