![]() |
Not everyone who says to me, ‘Lord, Lord,’ will enter the kingdom of heaven
By
John Emmanuel
جان اعمانیول
Published in Nur-i-Afshan October 4,1895
نور افشاں مطبوعہ ۴اکتوبر ۱۸۹۵ ء
یہ مضمون اس سبب سے تحریر کیا گیا ہے کہ جب بازاروں میں وعظ کیا جاتا ہے تو اکثر سامعین (سُننے والوں) نے یہ اعتراض کیا ہے۔ کہ اجی عیسائیوں کے واسطے تو حضرت عیسیٰ نے اپنی جان دے دی۔ کفارہ ہو گئے ۔ پس اب یہ جو جی چاہے سو کریں ۔ چند روز ہوئے کہ ایک صاحب نے جن کی روحانی آنکھوں میں شاید موتیا ہو رہا تھا ۔ اپنے لب ہائے قہر بار سے یہی رطوبت چھانٹی ۔ اب چونکہ ہمارا اخبار صداقت آثار مناواں و مبشراں مسیحی کی طرف سے ڈائریکٹر ہے یعنی اخبار فرحت آثار افشاء انوار موسوم بہ نورِافشاں ۔ ہر ہفتہ چہاردانگ براعظم ایشیاء میں مثل آفتاب عالمتاب(سورج کی طرح دنيا کو روشن کرنے والا) دواں(بھاگنا۔دوڑنا) ہے۔ شہر شہر گلی گلی کوچہ کوچہ اس کا نقارہ بج رہا (اعلان ہونا)ہے۔ اس کے سپرد ۔ یہ پُڑیہ سرمے کی کی جاتی ہے تا کہ معہ ان انوارِ روحانی کے جن کو لے کر یہ ہزاروں روحانی اندھوں ۔ چندہوں ،کا نوں اور موتیا اور بغلگند(بغل کی بُو جو ايک بيماری ہے )والوں کو بينا کرتا پھرتا ہے۔ اور سینکڑوں اس کی عمر دارزی کے دُعا گو ہیں ۔ بعض ان اندھوں پر اس کو بھی آزمائے ۔
شاید کہ اس کے ہاتھ سے اس نسخہ کے وسیلے بھی سب کو آرام ہو جائے آمین۔ کیونکہ اس کے اکثر مرکبات القادر ۔ حکیم الحکما ۔ شاہزادہ عمانوائیل کے دارا الشفاء حامرہ سے لئے گئے ہیں۔ شاہزادہ عمانوائیل حکیم حاذق کا اشتہار روحانی اندھوں کے واسطے یہ ہے ۔ میں جہاں میں نور ہو کر آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔ جو صاحبان متبرک (پاک)اور لاثانی (بے مثل)اور لا جواب(جس کا جواب نہ ہو) کتاب سے جو بائبل مقدس کہلاتا ہے۔ جو کہ فقط اکیلا اور سچا کلام خُداوند کریم لاتبدیل کا ہے۔ نہ کہ( اللہ الماکرین کا) وہ خوب واقف ہیں کہ جب اُمید انبیا ء ۔ ذات کبریا (خُدائے تعالیٰ کا ايک صفاتی نام)۔ خُداوند دو جہاں مالک ِارض و سماء(زمين و آسمان کا مالک) سلطان شاہان نبی آخر الزمان منجی بنی نوع انسان اس دارِنا پائیدار میں آفتاب ِ صداقت(سچائی کا سورج) ہو کر جلوہ گر ہوئے۔ تا کہ اس کی ظلمت(اندھيرا) اور تاریکی کو اور لشکر کفاراور شیطان ان کے سردار کو ۔ برسردار نابکار کفارہ ہو کر اور پانچ ضرب شدید برائے نشان و علامت عاشق صادق لے کر ۔ داخل کرۂ نارکر کے ۔ اپنے برگزیدوں خوں خریدوں کو لُو لوُی آبدار ۔ فرزندِ پروردگار (خُدا کے بيٹے)۔ بلکہ ایک عروس خوش اطوار ۔ نیک کردار ۔ رشکِ پری و حور بنا کر ۔ آسمان پر مان فردوس بریں پر اُٹھا لے ایک دفعہ جب اپنے حواریانِ مقد س ( جن پر سلسلہ کشف وحی۔ و الہام رسالت و نبوت تا ابد موقوف ہوا ) ساتھ تھا ۔ بہت بھیڑ ۔ جن میں بہت سے خونی زانی عیارو ں(فريبی) کا ۔ جو اس کے خون ِمقدس کے پیاسے تھے بھی موجود تھے دیکھ کر ایک کوہ والا شکوہ پر چڑھ گئے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایسے احمق (بے وقوف)بھی تھے کہ یہ توریت اور نبیوں کی کتابوں کو منسوخ (رد)کرنے آیا ہے ۔ اس مقام پر خُداوند مسیح نے اپنی زبان ِنجات و حیات و شفا بخش سے وہ نادر و لاثانی (ناياب و بے مثال)وعظ فرمایا ۔ جو ابد تک برگزیدوں(چُنے ہوئے) کی نجات کے واسطے کافی و وافی ہے۔ اس میں انہوں نے ناسخ (کاتب۔مٹانے والا)اور منسوخ خُدا والوں سے یوں فرمایا کہ یہ گمان مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ (رد)کر نے آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں۔ غرض عیسائی ہونے سے شریعت منسوخ نہیں ہوتی اور نہ عدول(انکار)۔ بلکہ کامل(مکمل) ہوتی ہے۔ اب بادب ملمتس (ادب سے التماس کرنا) ہوں کہ ناظرين پر تمکین بہ نظرِ عنایت خوابِ غفلت سے بیدار(جاگنا۔ہوشيار) ہو کر تعصب(طرف داری) کی رطوبت اپنی چشم ہائے انصاف بین میں سے صاف کر کے انجیل متی باب ۷: ۲۱، ۲۳ کو بغور پڑھیں ۔ اور گوش ہوش (ہوشياری)سے ان آیات پر جو بطور تشریح آیات مذکورہ گوش ہائے صدف وار میں گوش گزار ہیں مثل لُولُوئے بے بہا پنہا ں(چھپے ہوئے موتی) کیجئے ۔ اور دریائے انصاف میں غوطہ زن ہو کر در صداقت(سچائی کا دروازہ) کو حاصل کریں اُمید ہے کہ صاحبان فہم و ذکا (سمجھ دار ۔عقل مند حضرات)جو ہر حقیقت سے بہرہ و ر(خُوش قسمت)ہوں لیکن وہ جن کے خُدا نے ان کے دل پر مہر کر دی ہے کہ اندھے ،بہرے ، گونگے رہیں۔ اور عذاب درد ناک ان کا حصہ ان کے خُدا نے مقرر کیا ہے۔ ان کے واسطے سوائے افسوس کے چارہ نہیں ہے۔
![]() |
پر حقیقت شناسو ں کو معلوم ہو جائے گا ۔ کہ مسیحی ہونا یہ نہیں کہ شریعت سے رہا ہو گئے ۔ اور گناہ کی اجازت دُنیا میں اور حور پرستی جنت میں جائز ہو گئی۔ بلکہ طبیعت نفسانی ۔ روحانی ہو جاتی ۔ اور مسیح میں ہو کر شریعت ایماندار کی طبیعت بن جاتی ہے۔
آغاز مضمون ۔ متی ۷ : ۲۱ ۔جو مجھ سے اَے خُداوند اَےخُداوند کہتے ہيں اُن ميں سے ہر ايک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہو گا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔
کلام میں یوں لکھا ہے کہ بغیر رُوح القدس کی مدد کے کوئی خُداوند مسیح کو خُداوند نہیں کہہ سکتا ہے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ خُداوند مسیح کا یہ فرمان عموماً تمام بنی آدم کے واسطے جو زبانی یا لکڑی کے دانوں کے وسیلے اس کے نام کو بے فائدہ لیتے ہیں۔ پر دل دُور ہیں۔ اور خصوصاً اپنے شاگردوں کو یعنی ان دیرینہ شاگردوں کو ( جن کے نام بّرے کی حیات کی کتاب میں درج ہیں۔ اور جنہوں نے آخر ی الہامی تصنیفات سے جہان پر الہام اور وحی کے دفتر کو بند کیا۔ اور سلسلہ نبوت کا خُداوند مسیح کی دوسری آمد تک بند ہو ا سوائے جہاں کے سردار کے یعنی شیطان کے جس نے شہوت اور نفس پرستی اور خون اغلام (لونڈے بازی)کو جائز فرمایا ۔ جو اس کے لاثانی جمال(بے مثال حُسن) کا جلوہ(نظارہ) حاصل کر رہے تھے۔ تا کہ یہوداہ جیسے بو الہوس شاگرد (لالچی۔ حريص)اور ہر زمانہ کے مولویان غلام تعصب اور پنڈتان ہٹ دھرم پرشاد پر واضح ہو جائے ۔ کہ مسیحیت کا گھر دُور ہے۔ سائیں کا گھر دُور ہے جیسے
لمبی کھجورچڑھے تو چاکھے پریم رس۔ اور گرے تو چکنا چور ۔
اس آیت کا مضمون ۔ ہر ایک ریا کار عیسائی ۔ اور ہر ایک متلاشی(تلاش کرنے والا) دین ِالہٰی یعنی مسیحی۔ اور نومریدوں ۔ اور متعرضاں کو تاہ اندیش (کم فہم اعتراض کرنے والے ) بدکیش(بے دين) ۔ کوہلاہلا کر جگاتا۔ اور خوفناک اور درد ناک آواز سے یوں فرماتا ہے۔ کہ دھوکا مت کھاؤ ۔ خُدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا ۔
ہر گز ہرگز غفلت(لاپرواہی) میں مت ر ہو ۔ اور جلد ی سے کسی کو بہشت کا وارث مت جان لو ۔اگر تم کسی کو دیکھو کہ اس نے سرکاری ڈگریاں حاصل کر لی ہیں کہ وہ فصاحت(خوش کلامی) اور بلاغت(حسبِ موقع گفتگو) میں بانگ دُہل بہ چرخ بریں رسیدہ ہے ۔ اور اس کی ظاہر پرستی پر بڑے بڑے خُدا ترسوں نے دھوکا کھایا ہے۔ تو یہ آیت یوں فرماتی ہے ہر پیشہ گمان سرکہ خالیست شاید کہ پلنگ خفتہ باشد ۔ اس وقت مناسب ہے کہ رسول ِ مقبول پولوس کا خط اوّل کرنتھیوں کو باب ۱۳: کا ورد کریں ۔ وہ فرماتا ہے اگر میں آدمی یا فرشتوں کی زبانیں بولوں اور محبت نہ رکھوں ۔ تو میں ٹھنٹھنا تا پیتل یا جھنجھناتی جھانج ہوں اور اگر میں نبوت کروں اور اگر میں غیب کی سب باتیں جانوں ۔ اور سارے علم جانوں اور میرا ایمان کامل ہو یہاں تک کہ میں پہاڑوں کو ہٹا دوں پر محبت نہ رکھوں تو میں کچھ نہیں ہوں ۔ اور اگر میں اپنا سارا مال خیرات میں دُوں یا اگر میں اپنا بد ن دُوں ۔ کہ جلایا جائے پر محبت نہ رکھوں تو مجھے کچھ فائدہ نہیں ۔ يہی تمام چیزیں ہيں جو اس دُنیا میں دینداروں اور بے دینوں میں امتیاز(فرق) ہونے نہیں دیتی ہیں سو رسول نے ایک ایک کا نام لے کر ان کو باطل(جھوٹا) ٹھہرایا۔
پھر وہ خط رومیوں کو باب ۸: ۱، ۱۰ ۔
میں یوں فرماتا ہے ۔ پس اب ان پر جو مسیح یسوع میں ہیں اور جسم کے طور پر نہیں بلکہ رُوح کے طور پر چلتے سزا کا حکم نہیں۔ کیونکہ اس رُوح ِزندگی کی شریعت نے جو مسیح یسوع میں ہے۔ مجھے گناہ اور موت کی شریعت سے چھڑا یا۔ اس لئے کہ جو شریعت سے جسم کی کمزوری کے سبب نہ ہو سکا سو خُدا سے ہوا۔ کہ اس نے اپنے بیٹے کو گنہگار جسم کی صورت میں گناہ کے سبب بھیج کر گناہ پر جسم ميں سزا کا حُکم کيا۔تاکہ شريعت کی راستی ہم ميں جو جسم کے طور پر نہيں بلکہ روح کے طور پر چلتے ہیں پوری ہو۔ کیونکہ وہ جو جسم کے طور پرہيں ان کا مزاج جسمانی ہے ۔ پر وہ جو رُوح کے طور پر ہیں اُن کا مزاج روحانی ہے ۔جسمانی مزاج موت ہے پر روحانی مزاج زندگانی اور سلامتی ہے۔اس لئے کہ جسمانی مزاج خُدا کا دشمن ہے کیونکہ خُدا کی شریعت کے تابع نہیں اور نہ ہو سکتا ہے اور جو جسمانی ہیں خُدا کو پسند نہیں آسکتے۔
ان آیات میں رسول صاف فرماتا ہے کہ جسمانی مزاج میں اور روحانی مزاج میں بڑی مخالفت ہے۔ وہ یعنی جسمانی مزاج شریعت کے تابع نہیں ۔وہ خُدا کا دشمن ہے۔ وہ موت ہے ۔جسمانی مزاج خُدا کی بادشاہت کو دیکھ بھی نہیں سکتا ہے۔ پر رُوحانی مزاج زندگانی اور سلامتی ہے۔ اور وہ خُدا وند مسیح پر سچا ایمان لانے سے حاصل ہوتا ہے جب مسیحی خُداوند مسیح پر ایمان لاتا ہے۔اپنی بدیوں سے واقف اور نادم اور پشیمان(شرمندہ اور پچھتانا ) ہو کر توبہ کرتا تب خُداوند مسیح کی رُوح اسے ملتی ہے یعنی رُوح زندگی ۔
![]() |
وہ ایماندار میں نئی پیدائش کو شروع کرتی ہے۔ وہ ایماندار کو خُداوند مسیح میں پیوند (جوڑنا۔لگانا)کرتی ہے۔ وہ خُداوند مسیح ميں پرورش پاتا ہے وہ نیا مخلوق ہے وہ مرد ِ نوزاد ہے ۔ وہ شریعت سے آزاد ہے۔ پر شریعت کی آزادی کو جسم کے لئے فرصت نہیں جانتاہے۔ ہاں بھائی معترض (اعتراض کرنے والا)اگر کوئی مسیحی ۔ تمہاری مدنظر ہو ۔جو اس آزادگی کوجسم کے واسطے فرصت جانتا ہو۔ اور اب تک جسم حرام کی پیروی کرتا ہے۔ اور جرائم سنگین اب تک اس سے سر زد ہوتے ہیں ۔ میں اور تم نہیں بلکہ اگر ساری دنیا اس سے واقف نہیں۔ پر وہ جس کی آنکھ نے عکن کاگناہ دیکھا۔ دیکھتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ شخص ملعون(لعنتی) ہے۔ دیکھو خط عبرانیوں ۱۰: ۲۶ کیونکہ اگر بعد اس کے کہ ہم نے سچائی کی پہچان حاصل کی ہے۔ جان بوجھ کے گناہ کریں تو پھر گناہوں کے لئے کوئی قربانی باقی نہيں ۔ مگر عدالت کا ایک ہولناک انتظار اور آتش غضب(غضب کی آگ) جو مخالفوں کو کھائے گی باقی ہے۔
پر بھائی معترض ان باتوں سے ٹھوکر نہ کھانا چاہے کیا تم نہیں جانتے ہو کہ سلح دار خار ست بادشاہ گل شمعدان کے نیچے ہمیشہ اندھیرا ہوتا ہے بادشاہی باغ میں۔ جنگلی پودے بھی ہوتے ہیں ۔ گیہوں کے ساتھ کڑو ا دانہ بھی تو ہوتا ہے خُداوند کا حکم ہے دونوں کو ساتھ بڑھنے دو ۔در وکے وقت(فصل کی کٹائی ) گیہوں کھلیان میں ۔ اور کڑوا دانہ بھٹی میں۔ پیارے بارہ میں ایک ملعون (لعنتی)تھا۔
دوست خُداوند نے ہم کو تم کو منصف نہیں ٹھہرایا انصاف کرنا اسی کا کام ہے وہ خود فرماتا ہے ۔ اس دن بہتیرے مجھے کہیں گے اے خُداوند ۔ اے خُداوند کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی ۔ اور تیرے نام سے بد رُوحوں کو نہیں نکالا ۔ اور تیرے نام سے بہت سی کرامات (معجزے) ظاہر نہیں کی اس وقت میں ان سے صاف کہوں گا۔ کہ میں کبھی تم سے واقف نہ تھا ۔ اے بدکارو میرے پاس سے دُور ہو ۔
پس پیارے۔ اب تم کو خوب معلوم ہو ا کہ عیسیٰ کے کفارہ پر ایمان لانا ۔ یہ نہیں ہے زندگی بھر نفسانیت میں کٹی خوب دل کے ارمان نکالے اور مرتے دم کلمہ پڑھا اور جنت لے لی ۔ رات بھر خوب پی ۔ صبح ہوئی تو تو بہ کر لی۔ رند کے رند رہے جنت ہاتھ سے نہ دی ۔ دیکھو مقام اور کلام الہٰی کے نہایت قابلِ غور ہیں۔ دیکھو خط گلتیوں ۵: ۱۹ ۔ اور جسم کے کام تو ظاہر ہیں یہی ۔ زنا ۔ حرامکاری ۔ ناپاکی ۔ شہوت ۔ بُت پرستی ۔ جادوگری ۔ دشمنياں ۔ قیضٔے رشک ۔ غضب ۔ جدائیاں ۔ بدعتیں(مذہب ميں نئی بات نکالنا)۔ ڈاہ ۔(دشمنی۔حسد) خون ۔ مستیاں ۔ اوباشیاں اور جو کام ان کی مانند ہیں۔ اور ان کی بابت میں تمہیں آگے سے جتا تا ہوں جیسا میں نے اس وقت بھی آگے سے جتایا ۔ کہ ایسے کام کرنے والے خُدا کی بادشاہت کے وارث نہ ہوں گے۔
اب میری منت آپ سے یہ ہے۔ آپ کے استاد نے آپ کے واسطے کفارہ دیا ۔ کیا آپ گناہوں سے چُھوٹ گئے کیا آپ کے دل میں آسمانی تسلی ہے ۔ کیا آپ کے اُستاد نے کہیں فرمایا ہے۔ کہ اے تھکے اور بڑے بوجھ کے تلے دبے ہو میرے پاس آؤ میں تمہیں آرام دُوں گا ۔ کیا اس نے مو ت کو فتح کیا ہے کہ تم کو بھی اُٹھائے گا ۔ کیا وہ گناہ سے برّی (آزاد)تھا ۔
کیا تمہارے اُستاد نے کبھی گناہ کی معافی نہیں مانگی۔ کیا اس کا تعلق اور رشتہ خُدا سے وہی تھا ۔ جو انجیل یسوع ناصر ی کا بتاتی ہے۔ اگر ہے تو مبارک ہو ۔ اگر نہیں تورات بہت گذرگئی ۔ آفتاب صداقت(سچائی کا سورج) تم پر طلوع ہو چکا ہے ۔ اس پیارے کی آواز سنو ۔ اگرچہ آج تک تم اس کے مخالف رہے اس کا ٹھٹھا کیا۔ اس کے نام پر کفر بکا۔ اس کے ایلچیوں کو ہنسی میں اُڑایا خیر غلطی سے کیا جو کچھ کیا۔ آج نجات کا دن ہے آج مقبولیت کا ایام (دن)ہے بخشش کا دروازہ کھلا ہے ۔ وہ کہتا ہے درواز ہ میں ہوں ۔ کوئی بغیر میرے وسیلے باپ کے پاس جانہیں سکتا ۔ میں سچے انگور کا درخت ہوں۔ جو مجھ میں قائم رہتا ہے وہی بہت میوہ لاتا ہے ۔ میں زندہ پانی ہوں جو مجھ کو پیتا ہے کبھی پیاسا نہ ہوگا ۔ میں آسمانی روٹی ہوں۔ جو مجھ کو کھاتا ہے کبھی بھوکا نہ ہو گا۔ اور میں جہاں کا نور ہوں ۔جو میری پیروی کرتا ہے اندھیرے میں نہیں چلتا ہے جو میرے پاس آتا ہے میں کبھی اس کو نکال نہ دوں گا ۔ پیارے رو رو کر خُداوند سے دُعا مانگ ۔ انجیل مقدس کو لے۔ اس کو کھول کر پڑھ دُعا پر دُعا کر خُداوند ضرور تجھ پر فصل کرے گا ۔ سینکڑوں ہزاروں شہید اور زندہ اس کے گواہ میں جو تمہارے واسطے دعا گو ہیں میں بھی اور ہر ایک مسیحی ناظرین ایسے کسی کے واسطے دعا کرے ۔