Man of God Moses Vs Illiterate Prophet Mohammad
By
Kedarnath
کیدارناتھ
Published in Nur-i-Afshan Sep 6,1895
نور افشاں مطبوعہ ۶ستمبر ۱۸۹۵ ء
ہمارے خیالات کے سلسلہ کی پہلی جنبش (حرکت۔گردش)سے بخوبی ثابت ہو چکا ۔کہ محمد یوں کا رسول محمدؐ کسی نہج(روشن اور کشادہ راستہ) پروہ نبی نہیں ہو سکتا جو کہ موسیٰ کی مانند ہے ۔اور اُسی کے ضمن (تعلق۔)میں خاتمہ پر حکیم نور الدین بھیروی کے وہم(شک)کا ازالہ (مٹانا۔دور کرنا)بھی کر دیا گیا ۔کہ آیندہ ایسی فاش (صريح۔ظاہر)غلطی نہ کریں ۔اب ارادہ تھا کہ خُداوند یسوع مسیح کی نسبت جو کچھ خُداہی کے کلام سے واضح ہوتا ہے۔ ناظرین کے ملاحظہ کی واسطے پیش کیا جائے ۔ مگر پھر خیال آیا کہ محمدؐیوں کے امام صاحب سید ابو المنصور نے بزعم خود اپنی کتاب نو يد جاوید کے صفحہ ۴۵۸ پر چند مشابہتیں موسیٰ اور محمدؐ میں ملا کر دکھلائی ہیں۔ اور گو کہ محمدیوں کا ایسا گستاخی کے ساتھ موسیٰ کا مقابلہ کرنا کوئی عجیب بات نہیں جب کہ وہ لوگ خُدا کے ساتھ اپنے کلمہ میں محمدؐ کو ملاتے ہوئے نہیں ڈرتے۔ پر تو بھی بعض کم فہم (کم عقل)محمدؐیوں کو ان کےدام فریب اور روغن قاز(چکنی چپڑی باتوں سے) ملنے سے بچایا جائے مناسب معلوم ہوا کہ امام مذکورہ کے خیالات فاسد (فالتو)اور توہمات کا سدہ (شک۔ناقص)کے کاٹنے کو اپنے خیالات کے سلسلہ کو دوسری جنبش دی جائے اور وہ یہ ہے۔
۱۔ حضرت نبی آخرالزمان نے جہاد کیا جیسے حضرت موسیٰ نے جہاد (دين کی حمايت کے ليے ہتھيار اُٹھانا)کیا تھا۔ جواب یہ آپ کا گل (معاملہ)سر سید ہے یہ پہلی مشابہت آپ کو خوب سوجھی ۔ کہاں محمدؐ صاحب کی لڑایاں اور کہاں موسیٰ کا غیر اقوام کو سز ادینا جو بالکل خُدا کے حکم سے تھا۔
۲۔ حضرت صلعم پر شریعت نازل ہوئی ۔ جیسے حضرت موسیٰ پر ۔ جواب اوّل دکھا دیا ہوتا کہ محمدؐی شریعت یہ ہے تب موسیٰ کی شریعت کا مقابلہ کر کے معلوم ہوتا ہم نے تو اب تک نہیں سُنا کہ موسیٰ کے سوا کسی اور پر بھی شریعت اُتری ہو ۔
۳۔ حضرت صلعم قضائے فیصل(فيصلہ) کرتے تھے۔ جیسے حضرت موسیٰ ۔ جواب خروج ۱۸: ۱۹ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ موسیٰ خُدا کی جگہ ہو کر ایسا کرتا تھا۔ اور پھر ۱۸: ۲۶ میں یوں مرقوم ہے کہ مشکل مقدمہ موسیٰ کے پاس لاتے تھے۔ پر چھوٹے مقدمہ آپ ہی فیصل کرتے تھے۔ جناب ابو المنصور صاحب یہاں کس امر میں موسیٰ اور محمدمیں مشابہت آپ نے دکھلائی ہے آپ تو اپنے مطلب کی باتوں کو ایسے بے تحاشہ(بے حد ۔بہت زيادہ) نگلتے جاتے ہیں۔کہ ذرا مکھی بال کا بھی خیال نہیں کرتے ۔ کیا آپ کے خیال میں کوئی محض اِنسان موسیٰ کی مانند ہو سکتا ہے اور کیا محمدؐ صاحب بھی خُدا کی جگہ ہیں۔ ذرا سوچ سمجھ کر مشابہت پیدا کیجئے ۔
سنبھل کر پاؤں رکھنا محفل رنداں ميں اے زاہد یہاں پگڑی اُچھلتی ہے اسے مے خانہ کہتے ہیں۔
۴۔ حضرت نے مدینہ میں ہجرت کی۔ جیسے موسیٰ نے مدیان میں۔ جواب یہ مشابہت شاید مدینہ اور مدیان کے قریب المخرج ہونے سے آپ کے دماغ میں متخیل(خيال کيا گيا) ہو گئی ہو گی ۔مگر اتنا تو خیال کر لیا ہو تا کہ مویشی اپنی جان بچانے کو بھاگا تھا نہ انتقام کی فکر میں۔ مگر محمدؐصاحب تو مدینہ میں اس غرض سے فرار ہوئے تھے۔ کہ وہاں جمعیت بہم پہنچا کر اہل مکہ پر حملہ آور ہوں۔ یہاں تو ہم کو مولوی روم کے اشعار آپ کے حسب حال یاد آتے ہیں۔
کارپاکاں راقیاس از کو دیگر ۔ وربمانددرنوشتن شیر و شیر۔ آں یکے شیریکہ مردم میکورد۔
آں یکے شیر یکہ مردم میخورد ۔ دیکھئے آخری شعر کے دونوں مصرع کیسے ایک دوسرے کی مانند ہیں۔ پرتو بھی جب اس کے معنی اور مفہوم پر غور کیا جاتا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک خوراک ہے۔ اور دوسرا خورندہ ایک میں شیر نظر آتا ہے جو آدمی کو کھاتا ہے اور دوسری میں دو دہ جس کو آدمی کھاتا ہے۔ اسی طرح اس چوتھی مشابہت میں موسیٰ بچارا اپنی جان بچا کر بھاگا اور محمدؐ نے مدینہ میں جا کر ہزار ہا بے گناہ بندگان خُدا کا ناحق خون کرایا۔
۵۔ حضرت نے معراج میں اکیلے خُدا سے کلام کیا ۔جیسے حضرت موسیٰ نے طُورپر۔ جواب محمدؐ کا معراج میں اکیلے خُدا سے کلام کرنا ۔ آپ دیکھ رہے ہوں گے ۔ عثمان مصنف ہذا القرآن تو اس کی بابت دم بھی نہیں مارتا ۔پھر موسیٰ کی ملاقات چالیس دن رات بھوک پیاس کے ساتھ تھی مگر محمدؐ صاحب کی مدت ملاقات ایسی ہے۔ کہ کچھ بھی نہیں یعنی جب محمدؐ صاحب زنجیر کھول کر براق (تعزيہ جس کا دھڑ گھوڑے اور چہرہ آدمی سا ہے)پر سوار ہوئے اور جب لوٹ کر واپس آئے تو وہ ہلتی تھی۔ اور بچھونا بھی گرم تھا اب میں اپنے تجربہ سے عرض کرتا ہوں کہ زنجیر کھلنے کے بعد شاید زیادہ سے زیادہ دوسٹ ہلے تو ہلے ورنہ وہ بھی نہیں تو آپ ہی انصاف کیجئے ۔کہ اس کہہ مکرنی میں اور محمدؐ ی معراج میں کیا تفادت(جُدا ہونا۔ فرق ) ہے ۔
موسیٰ کی ملاقات کا حال یوں لکھا ہے اور سب لوگوں نے دیکھا کہ بادل گرجے بجلیاں چمکیں قرناء(ترم) کی آواز ہوئی پہاڑ سے دھواں اُٹھا اور سب لوگوں نے جب یہ دیکھا تو ہٹے اور دُور جاکھڑے رہے۔ تب انہوں نے موسیٰ سے کہا کہ تو ہی ہم سے بول اور ہم سُنیں ۔لیکن خُدا ہم سے نہ بولے۔ جناب امام صاحب آپ کے پیغمبر کی معراجی ملاقات اور کلام کرنا ایسا ہے جیسے کلھیا میں گڑٹوٹا(چھُپ کر کوئی کام کرنا۔نا ممکن کام کرنا)۔
۶۔حضرت نے چاند کو انگشت ِشہادت اُٹھا کر دو ٹکڑے کیا۔ جیسے موسیٰ نے عصا اُٹھا کر بحرقلزم کو دو حصہ کیا جواب ابھی تک تو ثابت ہوا ہی نہیں کہ دُنیا میں کبھی چاند دو ٹکڑے ہوا خود قرآن ہی سے نہیں ثابت ہو تا قرآن میں چاند کا پھٹنا قیامت پر موقوف(منحصر) ہے۔ اگر بالفرض چاند پھٹ جاتا تو ممکن نہ تھا کہ نظام ِعالم میں گڑبڑ نہ پڑتی۔ ہم سب کے سب سورج میں یا کسی اور سیارہ یا ثوابت (وہ ستارے جو گردش نہيں کرتے)میں ایک دوسرے سے ٹکرا کر نیست (تباہ)ہو جاتے یہ علم قوتِ کشش کے بالکل خلاف ہے۔
۷۔حضرت کی انگلیوں سے پانی کے سوتے (چشمے)جاری ہوئے جیسے موسیٰ نے چٹان سے پانی نکالاتھا۔ اب یہاں موسیٰ سے مشابہت پیدا کرنے کو اور نہ سہی یہی سہی کہ موسیٰ کی چٹان اور محمدؐ کی انگلیاں ۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔
۸۔ حضرت نے اپنے بھائی علی کو بمنزلہ ہارون کہا ۔ جواب حضرت موسیٰ نے ہارون کو بھائی نہیں کہا بلکہ خود جناب باری نے فرمایا دیکھو خروج ۴: ۱۴ کیا نہیں ہے لاویوں میں سے ہارون تیرا بھائی میں جانتا ہوں۔ کہ وہ بھی تیری ملاقات کو آتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ ۱۶۔ آیت میں تو اُس کے لئے خُدا کی جگہ ہوگا ۔ جناب مولوی صاحب محمدؐ کب علی کے لئے خُدا کی جگہ تھے۔ یہ کیسی مشابہت آپ نے پیدا کی۔
۹۔ حضرت کی پشت مبارک پر مہر نبوت تھی۔ جیسے حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں ید بیضا(حضرت موسیٰ کا معجزہ نما ہاتھ۔) ۔ جواب خروج ۴: ۶ میں یوں ہے کہ پھر خُداوند نے اسے کہا کہ تو ہاتھ اپنی چھاتی پر چھپا کے رکھ چناچہ اس نے اپنی چھاتی پر چھپا کے رکھا ۔ اور جب اس نے اسے نکالا تو دیکھا کہ اس کا ہاتھ برف کی مانند سفید مبروص(پھلبہری کا مريض) تھا ۔ پھر ۷ آیت میں ہے کہ پھر اس نے کہا کہ تو اپنا ہاتھ پھر اپنی چھاتی پر چھپا کے رکھ اس نے پھر رکھا جب باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ پھر ویسا ہی تھا جیسا اس کا سارا بدن تھا ۔ہو گیا اب آپ کا کیا مطلب ہے آیا وہی ہے جو منشی اندر من مراد آبادی نے ادا کیا ہم تو اس کو آج تک گو نہ گستاخی(کسی قدر بے ادبی) اور سور ادبی سمجھتے تھے۔ مگر اب اس مشابہت سے پورا یقین ہو گیا کہ منشی صاحب کا فرمانا ہے کہ وہ کوڑھ تھا جیسا کہ موسیٰ کے ہاتھ کے نشان کے حق میں اُردو ترجمہ مروجہ میں لفظ مبروص تحریر ہے۔ سچ ہے ہمارے بھائی محمدی ہم سے ناراض نہ ہوں گے کیونکہ ان کے مولوی صاحب نے خود محمدؐ صاحب کو ایسا بنا یا۔ مگر تاہم روز اوّل ہے اور ہنوز دلّی دُور ہی ہے(ابھی منزل دور ہی ہے) جب کہ موسیٰ کا نشان تھا اور نہ تھا ۔مگر محمدؐ صاحب کی مہر کی نسبت کہا جاتا ہے کہ تادم زیست(زندگی۔عمر) رہی۔
رہا یہ کہ وہ داغِ برص مہر نبوت تھا ایسا ہی ہے جیسا آپ سا خوش اعتقاد گھوڑے پری کو براق (صاف شفاف۔چمکدار)یا گدھے کو دُلدل کہے باقی اور کچھ نہیں۔
۱۰۔ حضرت نے کعبہ کے بُت پرستوں میں نشوونما پائی۔ جیسے موسیٰ نےفرعون کی صحبت(مددگاری۔پاس رہنا) میں ۔ جواب نہیں جناب کعبہ کے بُت پرستوں میں نہیں بلکہ ابوطالب کی گود میں جو خود ان کا حقیقی چچا تھا ۔جس کے معاوضہ میں اس کے فرزند علی نے باوجود یکہ محمدؐ صاحب کا چچيرابھائی(چچا زاد بھائی) تھا۔ دامادی کا ہا رپایا اور چوتھے درجہ میں خلافت کا کُل کاروبار ۔لیکن حضرت موسیٰ بے کس پانی میں چھوڑے ہو ئے تھے۔ دشمن خُدا اور خُدا کے لوگوں کی مخالف فرعون کی بیٹی کے زیر ِ نظر پرورش پائی اور مصریوں کا کُل علم و حکمت اس کو سکھلائے گئے وہ اُمی(ان پڑھ) نہ تھا جیسے آپ کے پیغمبر صاحب۔
۱۱۔ حضرت باعیال تھے جیسے حضرت موسیٰ جواب تو بھی اس مشابہت میں کچھ کسر رہے گی یعنی حضرت موسیٰ نے سپر خواندہ(پڑھا لکھا کی آڑ ميں ) خود کی جو روکو گھر میں نہیں ڈالا اور نہ اُٹھا رہ جو روئيں رکھیں نہ عام طور سے موسیٰ کی جو رو کسی اُمتی کی ماں تھی۔ جیسے محمدؐ صاحب کے ازدواج اُمہات المومنین کہلاتی ہیں ۔ اور اس سبب سے کسی مسلمان کو روانہ تھا کہ بعد وفات ان کی عائشہ سے نکاح کر سکتا ۔اگر چہ خود محمدؐ صاحب اپنے مسلمانوں کی رانڈوں یا بیواؤں سے جو کہ ان کی جوروؤں کی بیٹیاں یا نواسیاں تھیں شادی کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ نے کبھی ایسانہیں کیا۔ پس عیال داری میں بھی آپ کی مشابہت ناقص نکلی۔
۱۲۔ حضرت کے جانشین فرماں روا ہوئے ۔ جیسے حضرت موسیٰ کے ۔ جواب اگرچہ حضرت یشوع موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کو کنعان میں لے گئے تو بھی یہ بات ابوبکر اور عمر اور عثمان اور علی اور حضرت معاویہ اور حضرت یزید اور حسن و حسین کی خلاقت سے ذرا بھی علاقہ نہیں رکھتے مجھے اس وقت یاد نہیں آتا کہ یہ شعر کس کا ہے۔
چوں صحابہ جاہ و حشمت یا فتند مصطفے را بے کفن اندا ختند ۔
مجھے حضرت محمدؐ معاف فرمائیں لیکن اتنا تو ظاہر ہے کہ اس خلافت کی بدولت کتنے محمدیوں کی جانیں ہلاک ہوئیں ۔اور اگر ہم ان واقعات کو بھی مد نظر رکھیں جن کا بیان رو رو کر اہل تشع کرتے ہیں۔ اور باغ فدک اور قرطاس کا مقدمہ بھی پھر زیر تجویز ہو تو معلوم ہو گا کہ یہاں بھی زمين و آسمان کا فرق ہے۔ حضرت یشوع کو خُدا نے مقرر کیا تا کہ بنی اسرائیل کو ملک موعود میں داخل کرے۔ اور یہاں محمدؐ کی وفات کے بعد کل مسلمان جم غفیر(زبر دست ہجوم) ہو کر مقام ثقفہ میں جمع ہوئے سوائے حضرت علی اور ان کے چند خاص احبابوں کے ا س بات پر متفق ہوئے کہ ابوبکر کو خلافت(خليفہ کا عہدہ) ملنا چاہیے۔ چونکہ اس کا نصیب سکندر تھا جب کہ بی بی عائشہ جو حضرت کی پیار ی بی بی تھیں ابو بکر کی لخت جگر تھی معاملہ درست ہو گیا ۔ اور اس نے اپنے مرتے دم عمر کو نامزد کیا عثمان کی خلافت میں مصر کا فتنہ اُٹھا بیچا را مارا گیا ۔ اگر چہ اس کے قصاص(انتقام) میں بی بی عائشہ اور طلحہ وغیرہ نےجنگ جمل میں بہت عرق ریزی(کمال محنت کرنا) کی۔ پر تن بہ تقدیر معاملہ نے علی کی طرف رُخ کیا اور جب وہی خلافت نحل مخافت جس سے منتقل ہوتے ہوتے معاویہ کے سپوت یزید تک پہنچی تو بے چارے حسین کا خون پی کر ختم ہوئی زیادہ جھگڑا کون کرے۔ اور بہت سا دُکھڑا کون رو دے ہم تو نہ ا نيس ہیں جو سوز اُوڑائیں اور نہ دبیر جو مرثیہ پڑھیں۔
حضرت موسیٰ کے جانشین یشوع اور اس کے بعد اس کے جانشینوں نے تمام ملک یہودیہ کو فتح کر کے بنی اسرائیل کو بارہ خاندانوں میں ایسا تقسیم کیا کہ داؤد سے بادشاہ اور سلیمان سے فرمانروا اپنا جھنڈا گاڑ گئے۔ پس اس مشابہت سے بھی آپ کو سوائے ذلت اور خواری کے کچھ نصیب نہیں ہوا۔
۱۳ ۔ حضرت چالیس برس کی عمر میں نبی ہوئے جیسے حضرت موسیٰ نے پورے چالیس برس کی عمر میں مصری کو مارڈالا ۔ جواب چلئے جھگڑا ہی ختم ہوا اب باعتقاد شے جو کوئی چالیس برس کی عمر میں کسی کو مارڈالے وہ نبی ہے اور کیسا نبی کہ موسیٰ کی مانند جس کی مانند آج تک کوئی نبی نہیں اُٹھا ۔ لیکن خُدا کے کلام سے یوں ثابت ہوتا ہے ۔ کہ جب موسیٰ پورے اسی(۸۰) برس کا ہوا ۔اعمال ۷: ۲۳، ۳۰ ۔ تب خُدا سا ہو کر مصر کو گیا جناب مولوی صاحب ہوش کہاں ہیں آپ ثابت کیا کرتے ہیں۔
اور ثابت کیا ہوتا ہے خاک بھی نہیں ۔ جناب من عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کرنا بہت دُشوار ہے محمدؐ صاحب کو دھمکائے تحفہ اثنا و عشریہ ملاحظہ فرمائے ابھی تو گھر ہی کے جھگڑے نبیڑنے پڑے ہیں تمہارا کوئی شاعر کہتا ہے ۔
جبرائیل کہ آمد زیر خالق بيچوں در پیش محمدؐ شد و مقصود علی بود ۔ آپ کی دیکھا دیکھی اور حرصا حرصی کوئی شیعی علی کو نہ موسٰی سا ثابت کرنے لگے تو اور لینے کے دینے پڑجائیں ۔
۱۴۔ حضرت دُنیا میں مدفون (دفن)رہے ۔ جیسے حضرت موسیٰ ۔ جواب دُنيا میں تو سب مدفون ہیں۔ مگر آپ کے محمدؐ صاحب مدینہ میں بی بی عائشہ کے حجرہ میں اور حضرت موسیٰ اگرچہ دُنیا میں مدفون ہیں پر تو بھی معلوم نہیں کہ کہاں اور حضرت مسیلمہ کذاب صلعم رحمان الیمامہ بھی تو اسی دُنیا میں مدفون ہیں اُن کو بھی حضرت موسیٰ سے ملا دیجئے ۔
۱۵۔ حضرت یروشلم سے باہر نبوت کرتے رہے جیسے حضرت موسیٰ ۔ جواب یروشلم سے آپ کی کیا مراد ہے آیا حقیقی تو پھر موسیٰ کے مصر میں جانے اور محمدؐ کے مکہ میں آنے والی مشابہت کو یاد کیجئے۔ وہاں مصر کے معنی مجازی (نقلی۔غير حقيقی)اور یہاں یروشلیم کے معنی حقیقی آپ نے تو خوب ہی اندھا دھند مچائی ہے۔ بقول شخصے جہاں کو راست چاہے میتواں کند۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ابھی تک محمدؐ صاحب کی نبوت ہی ثابت نہیں۔ اب ساری دُنیا خدیجہ تو ہے نہیں۔ کہ ہرایک وہمی طبیعت پر نبوت کا پلاستر چڑھا دے۔ محمدؐ صاحب نے عربستان میں اگر کچھ کیاہو تو یہ کہ بُت پرستی ادنیٰ عقل بھی منظور نہیں کر سکتی۔ خواہ وہ سنگ اسود(وہ سياہ پتھر جو کعبہ شريف کی ديوار ميں نصب ہے اور جسے مسلمان بوسہ ديتے ہيں) ہو یا سالگرام کا بیٹا آتش کشتن و اخگر گذاشتن وافعی کشتن و بچہ اش را نگاہد اشتن کا رخر دہنداں نیست ۔ اگرچہ حضرت نے کعبہ کے ۳۶۰ بتوں کے خلاف نبوت کی مگر سنگ اسود کو اسی طرح رہنے دیا ۔جس طرح ہمارے ملک میں رامانند کے چیلہ کبير نے بُت پرستی پر حملہ کرتے ہوئے رام و کرشن کو رہنے دیا لیکن حضرت موسیٰ کی نبوت یروشلیم کے باہر نہ صرف باہر تھی مگر اندر بھی دیکھو خروج سے استثنا تک۔
۱۶۔ حضرت نہایت حسین تھے۔ جیسے حضرت موسیٰ۔ جواب بے شک حضرت موسیٰ خوبصورت تھے۔ مگر اعمال ۷: ۲۰ کو غور سے پڑھو وہاں یوں لکھا ہے۔ یونانی میں خوبصورت خُدا کے سامنے ۔ اور جناب پادری عمادالدین صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یوسفس مورخ یہودی کہتا ہے کہ جب موسیٰ باز اروں میں پھر تا تھا تو لوگ کام چھوڑ کر اس کی طرف دیکھتے تھے۔ کیونکہ نہایت خوبصورت تھا مگر خُدا کے سامنے نہایت خوبصورت تھا۔
اب ذرا حضرت داؤد بادشاہ سے جو خود پیغمبر تھے اس محبوب کی تعریف بنیں اور ان سے پوچھیں کہ وہ کون ہے دیکھئے۔ زبور ۴۵: ۲ تو حُسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے پھر زبور ۴۵: ۶ تیرا تخت اے خُدا ابد الآباد ہے۔ یہاں تو صاف ثابت ہو گیا کہ وہ جو نہایت خوبصورت بلکہ بنی آدم سے زیادہ خوبصورت ہے خُدا ہے ۔کیا آپ کے خیال میں محمدؐ صاحب نعوذباللہ من ذالک ۔ خُدا ہیں مولوی صاحب ہم آپ کو کہاں تک یاد دلائیں موسیٰ خُدا ساتھا اور نہایت خوبصورت تھا اب سوائے حقیقی خُدا کے نہایت خوبصورت ہو کے موسیٰ کے مشابہہ اور کوئی فرد بشرنہیں ہو سکتا یوں تو لیلی را بچشم مجنوں باید دید و الا ضرب المثل فقرہ اس شیطان کو بھی یاد تھا جو ایک مینڈ ک کو سب سے زیادہ خوبصورت سمجھتا تھا۔
۱۷۔ حضرت بڑے موحد(پکا مسلمان) تھے۔ جیسے حضرت موسیٰ ۔ جواب جناب من موحد وہابیوں کا خطاب ہے۔ محمدؐ صاحب تو چھوٹے موحد بھی نہ تھے۔ ہمارے غزنی کے سلطان محمود بُت شکن کوصدآفريں(واہ واہ۔کيا کہنا) ۔ کہ بے انتہا دولت پاتے ہوئے بھی سومنات کے بُت کو توڑ دیا مگر آپ کے بڑے موحد نے تو نہ صرف سنگ ِاسود ہی کو باقی رکھا۔ بلکہ کوہ صفا اور مروہ کی بھی رعایت رکھی۔ اور قبور(قبر کی جمع) کی زیارت اور ان سے طلب دُعا کیا شرک (خُدا کے ساتھ کسی اور کو شريک جاننا)تک نہیں پہنچانی اور خود حضرت کا کلمہ لا الہ الا للہ محمدؐ رسول اللہ کیا پورا شرک نہیں ۔ لیکن حضرت موسیٰ نے تو کہیں ایسا جلی شرک روا نہیں رکھا پر تو بھی اگر جھاڑی والے خُدا کو حضرت موسیٰ نے سچا زندہ ابراہام اور اسحاق اور یعقوب کا خُدا مان لیا ۔اور اسی کے آگے اپنے کو خم (جھکاؤ)کیا ۔اور محمدؐ صاحب اسی خُدا کی الوہیت(خُدائی) کے بطلان(ترديد) میں یوں فرماتے ہیں ۔ کہ وہ دونوں کھایا کرتے تھے۔ تو محمدی علمِ الہٰی کے مطابق حضرت موسیٰ بڑے موحد نہ تھے۔ بلکہ ہم مسیحیوں کے ساتھ توبہ توبہ بقول شما وہ بھی مشرک تھے۔ جناب مولوی صاحب محمدی توحید حضرت موسیٰ نے خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ پس یہ مشابہت بھی غزبود سے کم پایہ کی نہیں ہے۔
۱۸۔ حضرت کے سہ ہجری جاری ہوئے ۔ جیسے حضرت موسیٰ کے۔ جواب مولوی صاحب کیوں مٹھیوں خاک بھر بھر کر بھلے مانسوں کی آنکھوں میں ڈالتے ہو۔ تھوڑی دیر گذری ہو گی کہ ۴ مشابہت میں محمدؐ کی ہجرت مدینہ کو موسیٰ کی ہجرت مدیان سے مشابہہ ٹھہرایا تھا ۔اب یہاں ۱۸ مشابہتيں ہیں ۔ بنی اسرائیل کے خروجی سنہ کو محمدؐی ہجری سنہ سے مشابہہ ٹھہراتے ہو آپ کی عقل تو مجھ سے زیادہ ہے آپ کو کیا ہو گیا ہے کبھی محمدؐ کو موسیٰ کی مانند ٹھہراتے ہو اور کبھی بنی اسرائیل کی مانند۔ چاہیے یوں تھا کہ موسیٰ کے مدیانی سنہ ہجری اور محمدؐ کے مدینی سنہ ہجری مشابہہ کئے ہوتے۔ پس یہ مشابہت نہ موسیٰ سے بلکہ بنی اسرائیل سے ثابت ہو ئی سو بھی محض بے معنی ۔
۱۹ ۔ حضرت نے گلہ بانی(نگہبانی۔محافظت۔ريوڑ کی رکھوالی) کی جیسے حضرت موسیٰ نے ۔جواب چند روز دائی حلیمہ اور بچوں کے ساتھ چراگاہ کو جاتے تھے۔ نہ کہ خود گلہ بان(چرواہا) تھے۔ مگر حضرت موسیٰ نے تو قریب چالیس برس تک گلہ بانی کی اور خود تمام بنی اسرائیل کا آبائی پيشہ يہ ہی تھا ۔ اور یہی پیشہ ان بے چاروں پر مصر میں فرعونی وہم سے قوم ہکسا س کےدھو کے میں سخت مصیبت لایا ۔لیکن محمدؐ صاحب کے باپ دادا نے تو مکہ کے بُت خانہ کے پروہت(برہمن يا پنڈت) یا پنڈ ا تھے۔ یہ مشابہت کہاں ہوئی۔
۲۰ ۔ حضرت یروشلیم سے باہر مدفون ہوئے جیسے حضرت موسیٰ ۔ جواب حضرت موسیٰ کا مدفن کسی کو نہیں معلوم ۔یہ کیا مشابہت ہے حضرت سیلمہ کذاب بھی یروشلیم سے باہر يمامہ میں مدفون ہیں۔
۲۱۔ حضرت نے کعبہ کے بتُوں کو توڑا جیسے موسیٰ نے اس بچھڑے کو جو اب کیا کعبہ کے بُت مسلمانوں کے بُت تھے کیونکہ بچھڑا تو بنی اسرائیل کا بُت تھا ۔ واہ صاحب ع۔ گوسالہ پایر شدہ گاو شد۔
۲۲۔ جس طرح خُدا نے قوم یہود کو دنیا کی تمام قوموں سے چُنکر حضرت موسیٰ کی معرفت اپنی وحدانیت کی تعلیم میں ممتاز فرمایا ۔ اس طرح خُدا نے مسلمانوں کو یہود و نصارا سے چُنکر حضرت محمدؐ کی معرفت برگزیدگی اور تعلیم تو حید میں ممتاز فرمایا ۔ جواب دنیا کی تمام قوموں سے نہیں چُنا ہے اور نہ اس وقت کوئی قوم یہود بنائی گئی آپ توریت کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ خُدا نے ابراہام کو فرمایا کہ تو اپنے ملک اور اپنے ناتے داروں کے درمیان سے اور اپنے باپ کے گھر سے اس ملک میں جو میں تجھے دکھاؤں گا۔ نکل چل اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا ۔ پیدائش ۱۲: ۱ جناب ابھی تو موسیٰ پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور ابراہام کی اولاد کا بڑھاؤ صرف اسی کی ذات سے اس طرح ہوا کہ ابراہام سے اضحاق اور اضحاق سے یعقوب اور یعقوب سے بارہ گھرانوں کے سردار پیدا ہو ئے اعمال ۷: ۸ بنی اسرائیل کا یہودی نام تو اس وقت سے ہوا ہے جس وقت کہ ستر برس کی اسیری کے بعد پھر اپنے ملک کو واپس آئے ان میں فرقہ یہودکی کثرت تھی پس وہ یہودی کھلائے۔ اگر چہ یہ سچ ہے کہ یہودیوں کے سوا تعلیم توحید میں ساری دنیا کی اقوام بے بہرہ ہیں لیکن ابراہام کی بُلاہٹ اور قوم یہود کی برگزیدگی کی علت غائی(وجہ ) تعلیم توحید نہیں ہو سکتی اس لئے کہ اس کی توحید سے نہ کسی اسود پرست (پتھر کی پوجا کرنے والے )کو انکار ہے اور نہ کسی مورت پرست کو تکرار سب بلا تفاق ایک خُدا ایک پرمیشر پکارتے ہیں ۔ ابراہام کی برگزیدگی کا مطلب تھا یہ کہ دنیا کے سب گھرانے اس سے برکت پائيں گے پیدائش ۱۲: ۳ یعنی خد کی نجات جس کا وعدہ پیدائش ۳: ۱۵ میں تھا۔
قوم یہود اوروں کو پہنچے گی چنانچہ ظاہر ہے کہ جب تک خُدا وند یسوع مسیح جو عورت کی نسل ہے نہ آیا تب تک قوم یہود اپنے ملک میں آباد اور ہیکل میں قربانیاں چڑھا چڑھا کر دل شاد تھے لیکن جب وہ برکت ان سے ہو کر اوروں کو پہنچی ہیکل مسمار ہوئی اور وہ قوم نہایت ذلیل اور خوار ہوئی کیونکہ اب اس کا وجود محض بے معنی تھا کیونکہ مطلب نکل گیا مولوی صاحب آپ دھوکہ بہت دیا کہ کرتے ہیں اب اپنے حضرت کی سنئے آپ کا یہ قول کہ مسلمانوں کو یہود و نصار ا سےچُنکر تعلیم توحید میں ممتاز فرمایا بالکل جھوٹا ہے آپ خود لکھ چکے کہ دنیا کی ساری قوموں سے یہودیوں کو چُن کر خُدا نے تعلیم توحید میں ممتاز فرمایا فرمائيے ۔ کہ وہ کون سی تعلیم توحید تھی جو یہودیوں کو نہ ملی تھی وہ تو خود تعلیم توحید میں بقول شما ساری دنیا کی قوموں سے ممتاز تھے ۔ جب کہ محمدؐ کے باپ دادوں تک کا وجود نہ تھا پھر محمدؐ ی تعلیم توحید کو کیا جانیں محمدؐ صاحب نے عیسائیوں سے تعلیم پائی انہیں کے ساتھ آپ یہ سلوک کرتے ہیں سعدی سچ کہا ۔
کس نہ آموخت علم تیرازمن۔ کہ مرا عاقبت نشانہ نکرو ۔
اب بقول ایک انگریز نو مسلم کی کہ جو تو حید میرے دماغ میں گونج رہی تھی وہ بائبل میں نہ ملی مگر قرآن میں اور اسی لئے میں مسلمان ہو گیا۔ چہ خوش داد ی آپ کی توحید ذرا کلمہ تو پڑھے تو محمدؐی توحید کی ساری قلعی (ظاہری سجاوٹ)کھل جائے۔
اندر من چہ خوش فرمود کہ محمدؐ یا ں در کلمہ نام محمدؐ ابا نام خُدا یکجا کردہ اندر دبدیں نمط راہ شرک پمیودہ اند
لیجئے ایک مشرک جس کو آپ کا فر کہتے ہیں وہ بھی شاہد کہ آپ مشرک ہیں نہ موحد افسوس تشریک کے پرستار توحید کے دعویدار ع۔ برعکس نہ ہند نام زلگی کا فور ۔ چلئے یہ تشبیہ بھی گھوڑے کے سینگوں پر جا بیٹھی ۔
۲۳۔ حضرت میں مطلق انسانیت تھی ۔ جیسے حضرت موسیٰ میں محض انسانیت جواب پہلی مخالفت اس مشابہت میں مطلق اور محض کی رفع کیجئے پھر آگے بڑھئے کیونکہ بیوہ کے پسر(بيٹا) کو سہاگن کے فرزند سے کیا مناسبت ہے۔
۲۴ ۔ حضرت موسیٰ سے خُدا پرستی کے لئے عبادت خانہ کا آغاز اور حضرت سے اس کا تکملہ(ضميمہ جو اصل مضمون کو مکمل کرے )۔ چنانچہ بیت المقدس اور کعبہ شریف دونوں پر نظر کرنا چاہیے ۔ جواب ہم تو نہ صرف کعبہ شریف بلکہ اجمیر شریف اور مدینہ منورہ اور کر بلائے معلی اور نجف اشرف ان سب پر بھی عینک لگا کر نظر کر رہے ہیں۔ مگر آپ بالکل آنکھیں موندے بیٹھے ہیں کجا ہیکل پاک حضرت سلیمان پیغمبر کی بنائی ہوئی ۔خُدا کا گھر جس میں لوگوں کے دیکھتے خُدا نے اپنی حضوری ظاہر کی جس وقت کہ سلیمان اسے محضوص کر رہا تھا اور کجا بُت پرستوں کا چوکھونٹا بُت خانہ آپ کو ذرا بھی خُدا کا خو ف نہیں۔ یہ مشابہت محض خانہ خُدا سے گستاخی ہے اور کچھ نہیں ۔
۲۵ ۔ یہودیوں میں تین سالانہ عیدیں تھیں عید فسح عید خیمہ عید پنتیکوست ۔ مسلمانوں ميں عيد الضحیٰ عید الفطر اور شبرات ۔ جواب مشابہت پیدا کرنے کو شب برات بھی عید بنائی واہ مولوی صاحب واہ خوب مشابہتیں پیدا کرتے ہو ہم آپ کو دو عیدیں اور بتاتے ہیں ایک عید عذيراور ایک عید شجاع ان سب کو بھی کسی عید یہود سے ملا دیجئے ۔
۲۶ ۔ حضرت موسیٰ کی اولاد اور کاہنوں کے زیر حکم تھی ۔ جیسے خلفا ء راشدین کے حال سےاس کا ثبوت ظاہر ہے۔ جواب اب معلوم ہوا کہ ابوبکر عمر عثمان علی محمدؐی مذہب کے کاہن ہیں ۔یک نہ شد دوشد۔
۲۷۔ یسوع نے ملک کنعان میں تصرف(قبضہ۔ اختيار) کیا اور عمر نے وہیں تسلط (قبضہ)کرکے مسجد اقصیٰ بنوائی۔ جواب طیطس شہزادہ روم نے وہاں تسلط کر کے ہیکل کو منہدم (گرانا)کر دیا پس ان دونوں میں کوئی مابہ الامتیاز(وہ چيز جس سے شناخت ہو سکے ) بتلا دیجئے ۔ جیسا طیطس ویسا عمر دونوں خُدا کو جواب دیں گے ۔ اور جو ان کے اس فعل قبیحہ (بُرا کام) کے مداح(تعريف کرنا ) ہیں ۔ وہ بھی منافع میں ان کے ہمراہ ہوں گے اس میں مشابہت نہ موسیٰ کے بلکہ طیطس بُت پرست کے ساتھ ہوئی۔
۲۸۔ دُنیا میں تین ہی قومیں خُدا پرست گنی جاتی ہیں یعنی یہود اور نصارا اور مسلمان اور ان تینوں قوموں کی جو الہامی کتابیں ہیں ان کا شروع حضرت موسیٰ سے اور خاتمہ حضرت محمدؐ سے ہوا ۔ کیونکہ اس خُدا کی طرف سے جو ابراہام و اضحاق و یعقوب کا خُدا ہے اور کسی مذہب کے بانی نے کوئی کتاب ظاہر نہیں کی ۔ جواب یہود ۔ نصارا کے ساتھ اپنا نام کیوں ملا دیتے ہو۔ جب کہ قرآن کے ساتھ توریت و زبور و انجیل کو نہیں ملاتے اگر بقول شماو ہ منسوخ ہیں تو لابدوہ بھی مردود ہیں لیکن آپ ہی کی دلیل سے جو کتاب کہ ابراہام و اضحاق و یعقوب کے خُدا کی طرف سے نہ ہو وہ الہامی نہیں ہے تب تو قرآن بھی اس خُدا کی طرف سے نہیں کیونکہ اسمٰعیل کا خُدا بائبل میں کہیں نہیں لکھا پس اگر اسمٰعیل کے خُدا کی کتاب الہامی ہو سکتی ہیں ۔ تو کیوں دایواگنی اندر امگرہ کے خُدا کی کتاب الہامی نہ ہو اور ہمارے دیس کے بابا نانک اور سادھوں کے گرو اور کبیرہداس اور پنڈت اگنی ہو تری کے خُدا کی کتابیں بھی کیوں الہامی نہ ہوں۔ جواب یہ ہو گا کہ صرف ابراہام و اضحاق و یعقوب کے خُدا کی نہ اسمٰعیل وغیرہ کی ۔پس اس مشابہت نے تو آپ کو با لکل ہی صداقت سے محروم کر دیا ۔ ۳۰۔ ۳۱۔ ۳۲ ۔۳۳۔ یہ چاروں محض قرآن کے کلام ِالہٰی ہونے پر موقوف ہیں اور اس کا ثبوت آج تک نہیں ہوا الہذا ہم مولوی صاحب کی طرح بے فائدہ کاغذ کے منہ کو سیا ہ نہ کریں گے ۔ آخری ۳۴مشابہت چونکہ ایک انگریز کی کتاب سے مولوی صاحب نے نکالی ہے اس کا جواب دیتا ہوں۔ حضرت محمدؐ بے پڑھے تھے۔ جیسے موسیٰ جواب محض جھوٹ حضرت موسیٰ پڑھے تھے۔ یہ چونتیس مشابہتیں ۳۳ فاقوں میں ابوالمنصور صاحب نے پیدا کی تھیں وہ یاروں کے ایک ہی نوالہ میں ہضم ہو گئیں اب اور کچھ باقی نہیں رہا۔ ہم جانتے ہیں کہ محمدؐ ی لوگ اپنے حضرت کی محبت میں ایسے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان کو کچھ پرواہ نہیں کہ کسی نبی کی یا خود خُدا کی بے عزتی ہوتی ہے۔ ان کا تویہ حال ہے ۔ اب ان کے سپوت سید نصرت علی کا حال سنئے جو کچھ ابو لمنصور سے بچا تھا اس کو انہوں نے پورا کیا بقول شاعر اگر پدر نتواند پسر تمام کند ۔
کلمتہ الحق مصنفہ سید نصر ت علی میں کسی منصور نامی حلاج کو خُدا وند ربنا یسوع المسیح سے مطابق کیا ہے اس حدیث کے مطابق میری اُمت کے مولوی ایسے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے انبیاء ۔ لاحول و لاقوۃ این خانہ تمام آفتاب است جب یہ نہ خُدا سے ڈرتے ہیں اور نہ اس کے بھیجے ہوئے سے تو جو چائیں سو کہیں مسیحی سلطنت آ زادی کا چسکہ قلم دوات کا غذ موجود آئیں بائیں شائیں جو چاہیں سولکھیں ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اب ہم اس جنبش میں ثابت کریں گے کہ صرف خُداوند یسوع المسیح ہی وہ نبی ہے جو موسیٰ کی مانند ہے خُداوند اپنے فضل سے تو ہمارے محمدی بھائیوں کو عربی وحشت سے نکال کر اپنی سچی دانائی عنایت کر اور ان کی آنکھوں کو کھول تا کہ وہ خُدا کے پیارے بیٹے مسیح مصلوب کو اپنا معبود مسجود (خُدا ۔جسے سجدہ کريں )جان کر سجدہ کریں ۔ آمین