کام کی محبت

Eastern View of Jerusalem

Love of Work

By

Talib

طالب

Published in Nur-i-Afshan Dec 17, 1891

نور افشاں مطبوعہ۱۷دسمبر ۱۸۹۱ ء

  ارادہ کردہ شدہ فعل کی محبت ہے۔ جس طرح ہمت اور جوش کی عدم )غير )موجودگی میں کسی کام کو انجام دینا مشکل ہے۔ا س طرح اس صفت کی غیر حاضری میں اس کو پورا کرنا غیر ممکن ہو گا۔ بچپن کا زمانہ غور کے لائق ہے۔ ہم وہ وقت یاد دلانا چاہتے ہیں ۔ جب کہ ماں باپ آپ کو سکول بھيجتے تھے ۔ مگر آپ چوری چھپے گلی کوچوں میں گولیاں کھیلنے ۔ یا پتنگ اُڑانے ۔ یا آسمان پر کبوتروں کی قلابازیاں دیکھنے لگ جاتے تھے۔ اور گھنٹوں وہیں گذار دیتے تھے۔ اس وقت سکول سے گریز کرنے کا سوائے اس کے کہ پڑھنے سے الفت نہ تھی۔ کوئی اور سبب نہ تھا ۔اگر ان دنوں والدین کی طرف سے گوشمالی(تنبيہ کرنا) ۔ اور اُستاد کی صورت ملک الموت (موت کا فرشتہ)کی طرح ڈرانے والی نہ ہوتی تو آپ قاعدے کتاب کو تو بالائے طاق رکھتے۔ بلکہ اس کی بھی گولیاں بنا کر کھیل میں ایسے مصروف ہوتے کہ صبح سے کھیلتے کھیلتے شام کر دیتے۔ اور پھر نہ تھکتے ۔ پڑھنے سے اُنس(محبت) نہ تھا۔ اس لئے اس سے پہلوتہی(دامن بچانا) کرتے تھے۔ کھیلنے سے طبیعت کو لطف ملتا تھا۔ اس واسطے اس میں مشغول رہتے تھے۔ لیکن اُستاد کی صورت موصوف (تعريف کے قابل)نے اتنی عنایت (مہربانی)کی کہ کچھ کچھ پڑھتے بھی رہے۔ اتنے میں وہ وقت آپہنچا کہ شاعروں کے جادو بھر ے خیالات اور مصنفوں کی عشق انگیز تصنیفات سمجھنے کا (صلاحيت)مادہ پیدا ہوا۔ طبیعت کچھ شباب (جوانی)کے لحاظ سے ۔ کچھ سمجھ کے زیادہ ہو جانے کے سبب سے ادھر راغب(مائل) ہوئی شوق پیدا ہوا ۔ تو اور بھی قسم قسم کی کتابیں دیکھنے لگے ۔ پھر تو ایسے مصروف ہوئے کہ رات دن ایک کر کے دکھا دیا۔ اور جدھر رجوع ہوئے۔ کمال ہی پیدا کرکے چھوڑا ۔ اگر شاعری کی طرف جھکے تو شاعروں میں نام حاصل کیا۔ اگر فلسفہ کی طرف گئے توا فلاطون اور ارسطو سے پانی بھر وایا ۔ اگر سائنس کی طرف میلان (رجحان)ہوا۔ تو وہاں بھی اپنا سکہ جما(رُعب  جمانا) کر ہٹے۔ اس ترقی اور کمال کا باعث ماں باپ کی سرزنش(تنبيہ) ۔ یا اُستاد کی دھمکی نہ تھی ۔ اس کا باعث وہی محبت تھی۔ جو تحصیلِ علم (علم حاصل کرنا)کے لئے آپ کے دل میں پیدا ہوئی ماں باپ کی سختی اور استاد کا غضب اس رتبہ تک پہنچانے میں قاصر (لا چار)ہے۔ آپ کو ضرور کسی ایسے لڑکے کا حال یاد ہو گا۔ جس کے ماں باپ نے ہر طرح سے کوشش کی کہ وہ علم حاصل کرے۔کبھی اس کو مٹھائی لے دی۔ کبھی عمدہ کپڑے بنوادیئے۔ کبھی گھڑی خرید دی ۔ کبھی نصیحت سے سمجھا یا اور جب یوں نہ مانا تو مشکیں کس (بازو باندھ)کر دھوپ میں ڈال دیا۔ یا کبھی کوٹھری میں بند کر دیا۔ کبھی کھانا نہ دیا۔ کبھی پِیٹ ڈالا غرضیکہ لاڈ دُلار(پيار محبت) سے زور جبر(سختی ز بردستی) سے ۔ جو کچھ کر سکتے تھے۔ انہوں نے سب کچھ کیا۔ لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اگرہوا تو یہ  کہ اور بھی چکنا گھڑا (بے شرم)بنا دیا۔ اگر اس میں پڑھنے لکھنے کی محبت ہوتی ۔ تو وہ خود بخود علم حاصل کرنے میں لگا رہتا ۔ اور ایسی درشتی (سختی)اور نرمی کی چنداں حاجت (بالکل ضرورت)نہ ہوتی۔ مگر چونکہ علم سے اُنس نہ تھا۔ اس عنایت (مہربانی)اور سختی نے بھی کچھ کام نہ کیا  اور وہ خالی رہا۔ صرف علم ہی میں نہیں بلکہ ہر ایک ہنر۔ ہر ایک حرفہ(پيشہ) اور ہر ایک کام میں اس بات کی تصدیق(ثبوت) ہوتی ہے۔

نہ وہ کبھی تھکتا اور نہ کبھی شکایت ہی کرتا ہے۔

کام سے لذت اُٹھانے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اس میں زیادہ تو جہ صرف کرتا ہے۔ ہمیں ایک لطیفہ یاد آتا ہے۔ گو وہ ظرافت(مذاق) سے بھرا ہوا ہے۔ تاہم اس موقع پر نہایت نصیحت آموز معلوم ہوتا ہے۔ کہتےہیں کہ ایک نوجوان صاحب کمرے میں بیٹھے اپنی منسوبہ (منگيتر)کے محبت نامہ کی راہ دیکھ رہے تھے۔ مگر اتفاق سے نامہ بر(خط لانے والا)کو دیر لگ گئی۔ ایک ایک پل صدیوں کے برابر گذرنے لگا۔ کبھی اندر آتے ۔ کبھی باہر جاتے ۔ کبھی آہ سرد بھر کر کرسی پر گر پڑتے تھے۔ کبھی پھر اُٹھ کر دریچہ(کھڑکی) سے جھانک لیتے تھے۔ اس طرح بہت ہاتھ پاؤں مارے ایڑیاں رگڑیں۔ لیکن نامہ برکی بُوتک نہ آئی ۔ آخر اس اضطراب (بے چينی)میں صاحب کو یہ سوجھی کہ چٹھی رساں تو کیا جانے کب آئے چلو ہم ذرا خط (حجا مت بنانا)ہی بنا لیں۔ ۔ آئینہ ڈھب (طريقہ)سے رکھ کر صابن ملنا شروع کیا۔ جب ریش مبارک (داڑھی)کے بال خوب بھیگ گئے۔ تو آپ نے اُستر ااُٹھایا۔ اور صفائی شروع کی ۔لیکن دھیان چٹھی رساں  کی طرف اب بھی لگا ہوا ہے۔ دروازہ کی طرف بار بار دیکھتے جاتے ہیں۔ مونچھوں کے نزدیک جب اُسترا پہنچا۔ تو کسی نے کواُڑ(دروازہ) کھٹکھٹا کر کہا۔ حضور چٹھی ۔ چٹھی کانام سنتے ہی بے اختیار منہ پھیرا۔ اور یہ بھول گئے کہ ہاتھ میں اُسترا بھی ہے۔ منہ پھیرنا تھا  کہ نصف ناک ندارد(آدھی ناک کٹ گئی) گھبرا کر اُٹھے۔ تو اُسترا ہاتھ سے نکل کر پاؤں پر بیٹھا۔ وہاں انگوٹھا قلم (کٹ)کر دیا۔ اب فکر یہ لگی کہ چٹھی رسان کے سامنے ہوں تو کیونکر ہوں۔ سوچتے سوچتے یہ ٹھہری ۔ کہ ناک کا ٹکڑا اس کی جگہ ۔ اورا نگوٹھا اس کی جگہ لگادُوں۔ اور پھر چٹھی لینے جاؤں۔ جھک کر اُٹھانے لگے مگر یہ بھی بے تو جہی (لا پرواہی)سے ۔ جلدی جوکی تو ناک کا ٹکڑا پاؤں میں ۔ اور پاؤں کا انگوٹھا ناک میں لگ گیا ۔ عجیب الخلفت(انوکھی شکل کا) بن گئے۔ چاہے یہ بات سچ ہو یا نہ ہو۔ لیکن اس امر کا انکار کوئی نہیں کر سکتا ۔ کہ بے توجہی کے نتیجے اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ اگر اس لطیفہ کا ہیرو(بہادر) ایک کام توجہ اور رغبت (دلچسپی)سے کرتا ۔یعنی اگر انتظاری کرنے لگا تھا۔ تو انتظاری ہی کرتا یا اگر خط بنانے لگا تھا۔ تو خط ہی توجہ سے بناتا ۔ تو ناک اور پاؤں کی کھنڈت(ٹکڑے) نہ ہوتی ۔

ایک اور فائدہ کام سے لذت اُٹھانے کا کہ ہوتا ہے  کہ جتنا حصّہ اس کام کا دل کی خوشی اور رضامندی سے کیا جاتا ہے۔ وہ نکتہ چینی  اور عیب گیری(نقص) سے برّی (پاک)ہوتا ہے۔ بلکہ اعلیٰ درجہ کی خوبصورتی  اور کمالیت ظاہر کرتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ کچھ لکھ رہے تھے۔ قلم آندھی کی طرح چل رہا تھا۔ اور روشنائی(سياہی) کسی جگہ تو اتنی گر پڑتی تھی کہ ساری جگہ کالی ہو جاتی تھی۔ اور کسی جگہ اتنی تھوڑی کہ عینک لگا کر بھی دیکھتے  تو حروف مشکل سے نظر آتے ۔ اُن سے پوچھا کہ بھائی اتنی جلدی کیوں کرتے ہو؟ کوئی تلوار تو لئے نہیں؟ جواب دیا ۔ ارے بھئی خاموش ہی رہو۔

بلا کو سر سے ٹلنے دو۔ ادھر وہ یہ جواب دیتے تھے۔ اور اُدھر ان کا دست خط(ہاتھ سے لکھا ) زبان حال سے یہ کہہ رہاتھا۔ میاں تم نے تو مفت میں جواب دینے کی تکلیف اُٹھائی۔ یہ تو صرف سر بطرف دیکھنے سے معلوم ہو جاتا  کہ آپ نےبلا ہی ٹالی ہے۔ اگر ایسے خط کے مقابل ایک نستعلیق(فارسی کا رسمِ الخط  جو صاف اور سيدھا ہوتا ہے) خوشخط رسالہ رکھ دیا جائے ۔ تو اس کا ایک ایک نقطہ اور شوشہ پکار کر یہ کہے گا۔ کہ مجھ کو یہ خوبصورتی اور خوش اسلوبی ۔ اور میرے لکھنے والے کو تحسین و آفریں(تعريف و مرحبا) ہرگز نصیب نہ ہوتی ۔ اگر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مجھ کو محبت کے ساتھ نہ لکھتا ۔ اور میری خوبصورتی کو بہم پہنچانے میں زر زور (پيسہ ، قوت)اور مغز (دماغ)خرچ نہ کرتا ۔ کیسی کیسی تصویریں نظر سے گذرتی ہیں۔ جن کا دلکش کمال دیکھنے والوں کو حیرت کا پتلا بنا دیتا ہے۔ کیسی کیسی عمارتیں آنکھوں کے سامنے آتی ہیں۔ جن کی بے مثلی اور بے نظیری پر لوگ عش عش(بہت خوش ہو کر تعريف کرنا) کرتے تھکتے نہیں۔ کیسی کیسی الوالغرمیاں سننے میں آتی ہیں۔ جن کا فقط تذکرہ سامعین (سننے والے)کے اندر امنگوں کے دریا جاری کر دیتا ہے۔ کیسی کیسی جان نثاریاں واقع ہوتی ہیں۔ جن کا محض علم دل میں جوش کی آگ بھڑکا دیتا ہے۔ پر اگر ان تمام علمی اور جنگی  اور مذہبی کاموں کی تہ میں نظر کریں۔ تو ان کی بنیاداسی محبت پرپا ئیں گے۔ جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں۔

جب کہ وہ تمام و کمال اس کا م کو انجام دے چکتا ہے

سب سے بڑا فائدہ کام کی محبت سے سے یہ ہوتا ہے کہ اپنے کام کو کرنے والا پورا کرکے چھوڑتا ہے۔ وہ نصف یا تین چوتھائی پورا کرنے سے خوش نہیں ہوتا ۔ اس کی خوشی اس وقت کامل(پوری) ہوتی ہے۔ جب کہ وہ تمام و کمال اس کا م کو انجام دے چکتا ہے۔ نہ وہ کبھی تھکتا اور نہ کبھی شکایت ہی کرتا ہے۔ اب ہم ان احباب کی طرف مخاطب ہو نا چاہتے ہیں۔ جو مسیحی مذہب کے فیض و فضل سے ۔ اور اس کی لذت سے واقف ہو چکے ہیں۔ مگر دینوی پابندیوں کے سبب سے اپنے ایمان  اور نجات کے کام کو پورا نہیں کرتے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس لذّت کا گھٹانا ۔ اور بڑھانا بیرونی اسباب پر بہت منحصر ہے۔ اگر آپ شہد کھاتے کھاتے حنظل  (تمّاں کڑوا پھل)کا لقمہ بھی لے لیں۔ اور پھر شہد کی خالص شیرینی چاہیں۔ تو یہ ناممکن ہے۔ اگر صاف اور شيریں لذت درکار ہو۔ تو اسی اکیلے کو استعمال کرنا چاہیے۔ پیارو مسیح کا اقرار کرو۔ کیونکہ اس کا اقرار کرنا ایمان کے کام کو پورا کرنا ہے۔ دل ميں ماننا  اور ظاہر میں اقرار نہ کرنا ۔ گویا ایک عمارت کو نصف حصہ تک تيار کرکے چھوڑ دینا ہے اگر مکان کی دیواریں تیار کی جائیں۔ کھڑکیاں اور دروازے انداز سے لگا دیئے جائیں۔ آئینے موقعہ بموقعہ سلیقہ سے جڑ دیئے جائیں۔ قالينوں کے فرش ٹھاٹھ سے بچھائے جائیں ۔ لیکن اگر اس نیم تیار سجے ہوئے مکان پر چھت نہ ہو۔ تو اس زیبایش سے کیا سود(فائدہ)؟ عزیزو ایمان کے مکان کو ضرور پورا کرنا چاہیے تا کہ خداوند کے لئے ہیکل تیار ہو۔ تاکہ وہ اس میں بسے اور اس کی  سلطنت اس میں قائم ہو۔ اور دُنیا جانے کہ تم اس ميں حظ(لُطف)اُٹھاتے ہو اوروہ تم میں ۔ ڈاکٹر پنٹی کاسٹ صاحب نے ایک اور دن اپنے لکچر میں ذیل کا قصہ بیان کیا۔ اور چونکہ اس جگہ بھی اس  کابیان زیبا (مناسب)معلوم ہوتا ہے اس لئے ہم پیش کرتے ہیں۔ ملک سکاٹ لینڈمیں جب اس بات کا چرچا ہوا کہ ہندوستان ، چین  اور جاپان میں مشنریوں کے بھیجنے کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ وہاں جا کر انجیل مقدس کی بشارت(خوش خبری) دیں تو ایک نوجوان لڑکی کے دل میں يہ آرزو پیدا ہوئی  کہ میں بھی وہاں جاؤں ۔ اورجا کر اپنی بہنوں کو مسیح کے فضل اور محبت کی خبردُوں۔ ماں کو چپکے سے کہا۔ پیاری ماما ( اس ماماکو دائی والی نہ سمجھیں ۔ اہل برطانیہ ماں کو کہتے ہیں)  میری پیاری ماما  ميں تو ہندوستان جاؤں گی۔ ایک تو دل کی مامتا کچھ حسب و نسب  اور مال و دولت کا غرور ۔ بڑھیا نہایت ملول(غمزدہ) ہوئیں۔ تھوڑی دیر تک سکتّہ (بے ہوشی)کے سے عالم میں رہیں۔ مگر جب بیٹی کو بار بار یہی کہتے سنا تو جھڑک کر یہ جواب دیا۔ ارے لڑکی ۔ تو کہیں دیوانی ہو گئی ہو؟ یہ کیا رٹ لگائی ہے؟ ہندوستان جاؤں گی۔ ہندوستان جاؤں گی ۔ باؤلی(پاگل) ! کہیں تیری عمر کی لڑکیاں بھی ایسے ایسے کام کر سکتی ہیں؟ ہاں میں مانتی ہوں کہ یہ کام بہت اچھا ہے ۔ پر بیٹی تم ایسی ناز پروردوں (لاڈ سے پلی ہوئی)سے نہیں ہو سکتا ۔ اگر چاہو تو روپیہ سے۔ پیسے سے مدد دو۔ ہم تم کو نہیں روکیں گے۔ مگر جانے کانام نہ لو۔ بیٹی نے روتے اور ماں کی بلائیں (پيار کرنا)لیتے ہوئے کہا۔ پیاری ماں مجھے جانا ہے۔ اور میں ضرور جاؤ ں گی ۔ ماں نے  باپ نے  دوستوں نے ہر چند منع کیا لیکن وہ کب مانتی تھی۔ اس کے اندر یہ صدا آرہی تھی اُٹھ  اور اس مبارک کام کو انجام دے۔ اس نے اس آواز کو سُنا ۔ اور اس کے بموجب عمل بھی کیا ۔ اس طرح کے اور ہزاروں تاریخی قصے موجود ہیں۔ مثلاً شہد ا کے احوال جن کے مطالعہ سے دل اُمڈ آتا ہے۔ اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ ان کا سولی دیا جاتا ۔ شکنجوں میں کھینچا جانا۔ پتھراؤ کیا جانا۔ قید میں ڈالا جانا۔ اور آروں سے چیر اجانا اس بات پر شہادت دے رہا ہے کہ وہ اپنے ایمان سے اور اقرار سے لذّت اُٹھاتے تھے اور اس لذّت کے مقابل ان تمام مصیبتوں کو ناچیز سمجھتے تھے۔ عزیزو تم بھی مسیح کا اقرار کرو ۔ اور اس مبارک کام کو انجام دو ۔

Leave a Comment