Look at you sufferings
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan July 15, 1895
نور افشاں مطبوعہ ۱۵جولائی ۱۸۹۵ ء
یونان کی تواریخ میں ایک سپاہی کا ذکر ہے۔ جو کہ انٹی گونس بادشاہ کی فوج میں بھرتی تھا۔ اُس کے بدن میں شدت سے در درہتا تھا۔ جس کے باعث وہ نہایت بے چین اور بے قرار تھا ۔ جنگ کے وقت وہی سپاہی سب سپاہیوں سے زیادہ دلیری سے لڑتا اور بے دھڑک دشمنوں پر حربہ (داؤ۔حملہ)کرتا تھا۔ اُس کا درد اُس کو لڑاتا تھا کیونکہ جب تک وہ سخت جنگ میں مصروف رہتا تھا ۔ اپنے درد کو بھولا رہتا تھا۔ یہ بھی اس کا خیال تھا۔ کہ خواہ درد سے خواہ دشمن کی گولی سے اس کی موت قریب ہے ۔
پس اپنی زندگی کو ہیچ (کم تر)سمجھ کر بے خوف میدان جنگ میں اپنے دشمنوں سے مقابلہ کرتا تھا۔ انٹی گونس بادشاہ نے اسی سپاہی کی بہادریاں دیکھ کر اس کی قدر کی اور اس کا حال و چال دریافت کیا ۔ اور جب معلوم ہوا کہ وہ درد میں مبتلا رہتا ہے تو اس کو ایک ہوشیار حکیم کے سپرد کیا۔تاکہ اس کا علاج کیا جائے ۔ بادشاہ نے کہا کہ ایسے اچھے سپاہی کو درد سے رہا ہونا چاہیے کیونکہ جب وہ درد سے رہائی پائے گا تو اور بھی زیادہ کاروائی کرے گا۔ پس حکیم نے اس سپاہی کا علاج کیا اور اس کا درد جاتا رہا ۔ لیکن جب وہ اچھا ہو گیا تو اس کی دلیری اور سپاہی گری میں فرق آگیا ۔ وہ اپنے آرام کی طرف رجوع ہوا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ کہ اب میں کیوں اپنی جان کو میدانِ جنگ کے خطروں میں ڈالوں ؟ اب کیوں اپنی زندگی کو کھوؤں جب کہ تندرستی ، آرام اور خوشیاں حاصل ہیں۔
اے ناظرین مذکورہ بیان سے ذیل کی نصحتیں حاصل ہوتی ہیں جن پر آپ کی توجہ مبذول ( توجہ دلانا) کرانا چاہتا ہوں۔
۱۔ بعض دفعہ خُدا تکلیفوں کے ذریعہ ہم کو اپنے نزدیک بلاتا ہے۔ تکلیف و مصیبت کے وقت ہی زیادہ خُدا کی طرف دیکھتے ، اس پر بھروسا رکھتے اور دل سے اس کی خدمت کرتے ہیں۔
۲۔ جیسے پانی کے سیلاب نے نوح کی کشتی کا نقصان نہ کیا اس کو اُوپر اُٹھایا گو یا آسمان کے نزدیک پہنچایا ویسے ہی مصیبتیں خُدا پر ستوں کو اُوپر کی جانب اُٹھاتیں اور خُدا کے نزدیک پہنچاتی ہیں ۔
۳۔ بعض قسم کے پودے ایسے ہوتے ہیں کہ جتنا زیادہ اُن کو کُچلو اتنا ہی زیادہ خوشبو دیتے ہیں۔ یوں ہی ایماندار جتنا زیادہ مصیبتوں سے کُچلا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ خوشبو دیتا ہے۔
۴۔ دُکھ ہمارے دل کو دُنیا سے ہٹا تا اور آسمان کے ابدی آرام کی طرف رجوع کراتا ہے ۔ رُوح اپنے بازؤوں کو پھیلاتی اور آسمان کو اُڑ جانے کے لئے مشتاق(خواہش مند) ہوتی ہے۔
۵۔ اکثر تندرستی و آرام و خوشیوں کے وقت دُنیا دل میں گھسی آتی ہے۔ آدمی دنيا اور اس کی چیزوں کے لئے جیتا اور پیروی کرتا اور خُدا اور اس کی چیزیں دل سے دور ہوجاتی ہیں۔ پس خُد جو کچھ ہمارے لئے کرتا اس میں اس کی مصلحت(نيک صلاح) اور ہماری بہتری ہے۔ لہذا مزمور نویس کے ساتھ ہم آواز ہو کر یوں کہیں ۔ کہ بھلا ہو ا کہ میں نے دکھ پایا تا کہ تیرے حکموں کو سیکھوں ۔ زبور ۱۱۰: ۷۱ ۔ آیت۔