Lecture
By
One Disciple
Published in Nur-i-Afshan Dec 14, 1894
ایک شاگرد
نور افشاں مطبوعہ ۲۱ دسمبر۱۸۹۴ ء
تب پولوس اریوپس کے بیچ کھرا ہو کے بولا۔ اے اتینیوالوں میں دیکھتا ہوں ۔ کہ تم ہر صورت سے دیوتوں کے بڑے پوجنے ولاے ہو۔ ۲۲ کیونکہ میں نے سیر کرتے اور تمہارے معبودوں پر نظر کرتے ہوئے ایک قربان گاہ پائی جس پر یہ لکھا تھا۔ کہ نامعلوم خدا کے لیے پس جس کو تم بے معلوم کئے پوجتے ہو میں تم کو اسی کی خبر دیتا ہوں ۲۳۔
ان پہلی دو آیتوں میں رسول کے وعظ کی تمہید(کسی مضمون کی اٹھان)جاتی ہے۔ یہ الہامی تمہید ایک عجیب دل کش تمہید ہے۔ رسول اس تمہید کو ایسی سنجیدگی کے ساتھ بیان کرتاہے۔ کہ سُننے والوں کے خیالات خواہ وہ کیسے ہی پراگندہ (پریشان، حیرانی) کیوں نہ ہوں فوراً مقناطیسی کشش کی مانند کھینچ کر دل و جان سے سننے کے واسطے مرکز بن جائے۔ اور جو کچھ وہ بیان کرنا چاہتاہے وہ سامعین کی موجودہ حالت پر بخوبی اثر پذیر ہو۔ ایسی تمہید(کسی بات کا آغاز) نہ صرف بیان کرنے والے کی قور بیانیہ کو وسعت (پھیلانا ، بڑھانا) بخشتی ہے۔ بلکہ سامعین کو بھی تیار کرتی ہے۔ کہ وہ تہ دل سے سننے کو مخاطب ہوں۔ تمہید کی دوسری آیت کے درمیانی حصہ میں رسول و جملہ استعمال کرتاہے جوکہ اس کے وعظ کا موضوع ہے۔ اور وہ جملہ رسول نہ اپنی طرف سے پیش کرتاہے۔ بلکہ انہیں کے قربان گاہ کے کتابہ کواقتباس (کانٹ چھانٹ) کر کے اس کی اصلیت کی طرف ان کو رجوع کرتاہے یعنی
’’نامعلوم خدا کے لیے‘‘
یہ دستور ہمارے ہندوستانی بت پرستوں میں بھی رائج ہے۔ کہ جب وہ سارے جانے ہوئے دیوی دیوتاؤں کو پوجا پاچڑھا لیتے ہیں۔ تب بھولے ہوئے دیوتا کے نام پر بھی چڑھاتے ہیں۔ محمدی فرقہ بھی باوجود یہ کہ ایک خدا پر بہت زور دیتا ہے۔ اس بھول بھلیاں میں پڑ کر خدا کے اسم (نام) اعظم (بزرگ و برتر) سے نا واقف ہے۔ اور شب برات میں جب نام بنام فاتحہ خوانی ہو چکی ہے۔ تب وہ بھی ہندوؤں کی تقلید پر انجانے ہونے کے نام پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ پس کچھ شک نہیں کہ ان تینوں میں بھی ایک ایسی قربان گاہ ہو۔ جو نا معلوم خدا کے لیے ان کے درمیان قائم ہوئی۔
یہاں کس قدر مشکل ہے تو صرف اس بات میں۔ کہ اسی خدا۔ اور نامعلوم خدا میں کیونکر تطبیق(مطابق کرنا، مقابل کرنا) ہو سکتی ہے۔اور کہ ان تینوں کے نامعلوم خدا کی بابت رسول کا یہ دعویٰ ۔ کہ میں تمہیں اسی خدا کی خبر دیتاہوں۔ کہاں تک واجب اور واقعی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ شکل اس طور سے حل ہو جاتی ہے۔ کہ دنیا کے حالات اور مختلف اقوام کی تواریخ پر نظر کر نے سے ایک ایسی ہستی کا وجود ضرور ثابت ہوتا ہے۔ جس کاکم سے کم وحشی اقوام میں بھی کسی نہ کسی طور پر خیال پایا جاتا ہے۔ اور نیز اس کی ان صفتوں(خوبیوں) پر جن کی طرف خود رسول ۔ اپنے وعظ میں اشارہ دیتاہے۔ اور خاص کر کے خط رومیوں کے (۱باب ۱۹،۲۰ آیات) میں قابل کرنے والی دلیل کی صورت میں بیان ہوا ہے۔ سخت سے سخت بت پرست بھی اقرار کرتا ہے۔اور وہ اقرار نہ کسی منطقی دلیل یا فلسفی وجوہ پر بلکہ ہر ایک شخص کے ضمیر اور حواس ِ خمسہ (انسان کی پانچ بنیادی سُننے، بولنے،سونگھنے، چکھنے اور چھُونے کی حس) کی بنیاد پر موقوف ہے۔ اگر ممکن ہوتاتو کسی دہریہ ( جو مذہب پر اور خدا پر یقین نہ رکھتا ہو) کے دل کو چیر کر دکھا دیتے۔ کہ اس نامعلوم خدا کی بابت اس کی زبانی نہیں نہیں اس کی باطنی ہاں ہاں پر کس قدر زور دیتی ہے۔ الہامی کتابوں کے سلسلہ میں آستر کی کتاب جو طومار نیچر۔ یا اوراق فطرت کا ایک حصہ ہے ۔ ہم کو صاف بتا دیتی ہے ۔ کہ وہی جس کا نام اس کتاب میں نہیں ۔
’’خلاصی اور یہودیوں کے واسطے نجات دوسری طرف سے طلوع کریگا‘‘ (آستر ۱۴:۴) ۔
’’اور جیسا کہ خود خدا نے موسی ٰ سے فرمایا ۔ کہ میں وہ ہوں جو میں ہوں وہ وہ جو ہے‘‘ (خروج ۱۴،۱۵:۳) ۔
پس صاف ظاہر ہے کہ پولوس اسی خدا کی منادی کرتاتھا۔ جو خاص طور سے یہودیوں کا ۔ اور عام طور سے تمام جہان کا خلاصی اور نجات دہندہ ہے۔ گو دنیا کے لوگ ا س سے نا واقف رہیں۔
’’ کیونکر ہمارے خداوند نے دنیا میں سے انہیں آدمیوں پر خدا کے نام کو ظاہر کیا جو اسے دئیے گئے‘‘ (۱۶:۱۷) ۔
پس اس دلیل سے بھی ثابت ہوا۔ کہ نا معلوم خدا وہی خدا ہے۔ جس کو مسیح اپنا باپ کہتا ہے۔ اور کہ وہ دنیا کے لوگوں پر نامعلوم ہے (۲۴ آیت) ۔
’’خدا جس نے دنیا اور سب کچھ جو اس میں ہے پیدا کیا۔ جس حال میں کہ وہ آسمان و زمین کا مالک ہے ہاتھ کی بنائی ہوئی ہیکلوں میں نہیں رہتا‘‘۔
یہاں رسول خدا کی لامحدودی پر حوالہ دے کر ثابت کرتا ہے کہ وہ جو خاص جگہ میں رہتاہے۔ خدا نہیں ہوسکتا ہے اور دو لامحدود ہستیوں کا ہونا عقلاً محال ہے۔ پس نا معلوم خدا کے سوا اور جتنے خدا ہیں۔ وہ خدا نہیں ہیں۔ کیونکہ اول تو محدود ہیں۔ دوئم لا محدود ۔ ایک سے زیادہ ممکن نہیں۔
۲۵۔ا ٓیت میں ہے کہ:
’’ نہ آدمیوں سے خدمت لیتا گویا کہ کسی چیز کا محتاج ہے۔ کیونکہ وہ تو آپ سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ بخشتا ہے‘‘۔
اس بیان سے بتوں کی محتاجی پر زور دے کر ان کی الوہیت(ربانیت) کو رد کر دیتا ہے ۔ اور خدا کی بخششوں کا ذکر کے کے صاف ظاہرکرتا ہے۔ کہ دیوتاؤں میں یہ صفت پائی نہیں جاتی ۔ پس وہ اپنے پوجا ریوں کو کچھ دے نہیں سکتے۔
۲۶ ویں ٓیت میں ہے کہ ’’ اور ایک ہی لہو سے آدمیوں کی سب قوم تمام زمین کی سطح پر بسنے کے لیے پیدا کی۔ اور مقرروقتوں اور ان کی سکونت کی حدو ں کو ٹھہرایا‘‘۔
اس میں کئی باتیں ہیں۔
اول ۔
زمین کی تمام مخلوق سے اعلیٰ مخلوق آدمیوں کی سب قوم کی نسبت بتایا جاتا ہے کہ خد انے ایک ہی لہو سے بنایا۔ پس یہ خیال کہ ذات میں اونچائی اور نچائی ہے ایک اعلیٰ ہے اور دوسرا ادنیٰ ہے۔ یہ خدا کی طرف سے نہیں بلکہ آدمیوں کی بناوٹ ہے۔
دوئم ۔
کہ اس سے خدا کی عجیب قدرت بھی ظاہر ہوتی ہےکہ باوجود یہ کہ سب ایک ہی لہو سے بنائے گئے ہیں۔ تو بھی ایک دوسرے سے صورت میں مختلف ہیں۔
سوئم۔
کہ خدا کی دانائی اور اس کی عالم الغیبی (غیب کا علم ہونا،چھپی ہوئی ، پوشیدہ ) اور ازلی تقدیریں ایسی لازم و ملزم (ضروری) ہیں کہ بغیر ان کو خدا میں مانے ہوئے ہم کو اطمینان نہیں ہوتا۔ کہ دنیا کےسارے واقعات نہ اتفاقی ۔ بلکہ اسی لامحدود و ہستی کے ٹھہرائے ہوئے اراد ہ کے موافق ہوتے ہیں۔ لیکن دیوتاؤں کے پوجاری ان باتوں سے محض بے خبر اپنی ہی کاریگری کو کہتے ہیں کہ تم ہمارے خدا ہو۔
۲۷ ویں ۔ آیت میں ہے۔ کہ ’’ خداوند کو ڈھونڈہیں شاید کہ ٹٹول کر اسے پائیں۔ اگر چہ وہ ہم میں کسی سے دور نہیں‘‘۔
اس آیت میں رسول ثابت کرتاہے ۔ کہ نامعلوم خدا جس کی خبر میں تم کو دیتا ہوں مادی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہر طرح کے مادہ سے خواہ کثیف ہو۔ خواہ لطیف۔ جسکو ہم حواس ظاہری یا باطنی سے چھو سکتے ہوں علیحدہ ہے۔ یہاں ٹٹولنے کا لفظ وارد ہے۔ اس طرز پر ہمارے خداوند نے اپنے جی اُٹھنے کے بعد جب کہ شاگرد گھبرا کے اور خوف سے خیال کرتے تھے۔ کہ کسی روح کو دیکھتے ہیں استدلال کیا۔ کہ
’’ میرےہاتھ پاؤں کو دیکھو ۔ کہ میں ہی ہوں۔ اور مجھے چھوؤ اور دیکھو ۔ کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا مجھ میں دیکھتے ہو‘‘(لوقا ۳۹:۲۴) ۔
پھر یہ کہ ’’ وہ ہم میں کسی سے دور نہیں‘‘
اگرچہ اس جملہ سے خدا کی ہمہ جا حاضری صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے۔لیکن اس سے بڑھ کر یہ بتایا جاتاہے۔
جیساکہ ۲۸ آیت میں ہے۔ کہ ’’ اسی سے ہم جیتے ۔ اور چلتے پھرتے ۔ اور موجود ہیں‘‘۔
یعنی خدا کی یہ ہر جا(ہر جگہ ) حاضری اور سب کے ساتھ موجودگی اس لیے اور بھی ضروری ہے۔ کہ ہمارا ہستی میں رہنا اور چلنا پھرنا صرف خدا پر موقوف ہے۔ پس بعض نادانوں یہ خیال ۔ کہ خدا نےخلقت میں ایک مشین بنادی ہے۔ کہ وہ از خود چلی جاتی ہے۔ خدا کے حاضر و ناظر ہونے کی کچھ ضرورت نہیں۔ غلط ثابت ہوتاہے۔ اسی آیت میں رسول ان کے ایک شاعر کا قول نقل کرتاہے۔
کہ ’’ ہم تو اسی کی نسل ہیں‘‘۔
معلوم ہوتاہے کہ رسول نے یہ فقرہ قلؔقیہ کے شاعر مسمی اراتؔس کی تصنیف سے اقتباس کیا ہے۔ ۲۹ ٓیت میں اس فقرہ سے غیرت دلانے ولا نتیجہ ظاہر کیاجاتاہے۔ کہ
’’ پس خدا کی نسل ہوکے ہمیں مناسب نہیں کہ یہ خیال کریں۔ کہ خدا سونے روپے یا پتھر کی مانند ہے جو آدمی کے ہنر اور تدبیر سے گھڑے ہے گئے‘‘۔
اب ۳۰ ویں آیت میں رسول بہت گہری نیو کھودنے کے بعد جس میں بیان ہوا ہے۔ کہ
’’ غرض خدا جہالت کے وقتوں سے طرح دہ کہ اب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتاہے۔ کہ توبہ کریں‘‘
ایک ایسے پتھر کی جو کونے کا سرا ہے۔ اور جسے معماروں نے رد کر دیا۔ بنیاد ڈالتا ہے۔ جو اس کے تمہیدی بیان میں نا معلوم خدا کہلاتاہے۔ مگر ساتھ ہی اس کے رسول کا طرز خاتمہ بھی عمیق(گہرا ، دباؤ) نظر سے دیکھنے کے قابل ہے۔ کہ جس حالت میں۔ کہ وہ اریوپگس کی عدالت گاہ میں وعظ کرتا تھا۔ بہ نظر سنجیدگی اور مناسبت مقام عدالت کا ذکر کرنے لگا۔ اور اس سے بڑھ کر یہ بات بھی ۔ کہ بیان کا سلسلہ خود ہم کو یہاں پہنچاتاہے۔ تاکہ ظاہر ہو جائے۔ کہ ایسے بیہودہ کام کرنے والے کیونکر اس عدالت سے بچ نکلیں گے ۔ جس کا بیان ۳۱ ویں آیت میں یوں ہوتاہے ۔ کہ اس نے ایک دن ٹھہرایا ہے۔ جس میں وہ راستی سے دنیا کی عدالت کرے گا۔ اس آدمی کی معرفت (پہچان ) جسے اس نے مقرر کیا۔ اور اسے مردوں میں سے اُٹھا کے یہ بات سب پر ثابت کی۔ کہ جس نے گنہگاروں کے واسطے اپنی جان دی وہ اس لائق ہے۔ کہ زندوں اور مردوں کی عدالت کرے ۔