Learn from Me
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Jan 18, 1895
نور افشاں مطبوعہ۱۸جنوری ۱۸۹۵ ء
ميرا جُوا اپنے اوپر لے لو۔اور مجھ سے سيکھو۔کيونکہ مين حليم اور دل سے خاکسار ہوں۔تو تم اپنے جئوں ميں آرام پاؤ گے۔
متی ۱۱۔۲۹
گزشتہ ايشو ميں ہم نے ايک نمونہ کی ضرورت کا ذکر کيا۔ جس کو پيشِ نظر رکھ کر اور جس کے نقشِ قدم پر چل کر بگڑا اور گرا ہوا انسان سُدھر سکے۔اور انسانيت کے درجہ اعلیٰ پر سرفراز ہو کر قربت ِالہیٰ کے لائق بن سکے۔ليکن ايسے نمونہ کی تلاش اگر آدم سے تااِيں دم جنس بشر ميں کی جائے۔تو کوئی نہ ملے گا۔اور بجز مايوسی اور کچھ نتيجہ تلاش نہ نکلے گا۔بيشک دنيا کی تواريخ قديم ميں بڑے بڑے جليل القدر اور فتاحِ اعظم بادشاہوں اور شہنشاہوں کے نام پائے جاتے ہيں۔شہہ زور پہلوانوں اور بہادروں کی خبر ملتی ہے ۔حکيموں ،داناؤں اور عالموں کا پتہ لگتا ہے۔ليکن کسی کامل راستباز انسان کا نام ۔جو تمام بنی آدم کے لئے قابل نمونہ ہو۔کہيں نہيں ملتا۔جو ناقص انسان سے يہ کہنے کی جرأت کر سکے۔کہ’’تو ميرے حضور ميں چل۔اور کامل ہو‘‘۔تو پاک ہو۔کيونکہ ميں پاک ہوں۔تو راستباز ہو ۔جيسا کہ ميں راستباز ہوں۔پھر اس بات کے مکرّر(دوبارہ) کہنے کی ضرورت نہيں۔کہ موجودہ خراب حالت ميں انسان کو صرف يہ تعليم دينا کہ تو نيک بن۔اعمالِ حسنہ کر۔بالکل بے فائدہ ہے۔کيونکہ جب تک کوئی نيک وپاک نمونہ اُس کے ہم جنسوں ميں اُس کے پيشِں نظر نہ ہو۔وہ ہرگز نيک وپاک بن نہيں سکتا۔نمونہ نصيحت و تعليم سے بہتر ہے۔اور ہم اس مقولہ کے قائل نہيں۔کہ اُنظُرالح ما قال و لا تنظر الیٰ من قال اور نہ ہم ايسے لوگوں کو قابلِ نمونہ سمجھ سکتے ہيں۔جو بقول فارسی شاعر:
ترک دنيا بمر دم آموزند+خويشتن سيم وغلہ اندوزند
کيونکہ قايل کے اقوال کيسے ہی مفيد و عمدہ کيوں نہ ہوں۔کچھ اثر پيدا نہيں کر سکتے۔اگر وہ اُس کے مطابق خود عامل ہو کر اپنے کو ايک نمونہ دوسروں کے لئے نہ بنا دے۔
پس جب کہ ہم بگڑے ہوئے انسان کسی کامل نمونہ کی تلاش اپنے تمام ہم جنسوں ميں کرتے۔تا کہ اُس پر نظر کر کے اور اُس کے نقشِ قدم پر چل کر ہم سُدھر جائيں۔اور اس تلاش ميں مايوس و ناکام ہو کر نظر اُٹھاتے ہيں ۔تو ايک ابنِ آدم دکھلائی ديتا ہے۔جو ہم ميں سے ہر ايک کو فرماتا ہے۔’’ميرے پيچھے ہو لے‘‘ اور اگر ہم اُس کی پُر محبت بلاہٹ کو سُن کر اور سبھوں کو چھوڑ کر صرف اُسی کی پيروی کريں۔
توبيشک وہ ہم کو بدی اور گناہ سے بچا کر نيکی اور سلامتی کی صراط ِمستقيم(سيدھی راہ) پر چلائے گا۔اور تب ہم داؤد کے ہم آہنگ ہو کر نغمہ سراہوں گے۔کہ ’’خُدا وند ميرا چوپان ہے۔ مجھ کو کمی نہيں۔وہ مجھے ہريالی چراگاہوں ميں بٹھاتا ہے۔وہ راحت کے چشموں کی طرف مجھے لے پہنچاتا ہے۔وہ ميری جان پھير لاتاہے۔اور اپنے نام کی خاطر مجھے صداقت کی راہوں ميں لئے پھرتا ہے۔بلکہ جب ميں موت کے سايہ کی وادی ميں پھروں ۔تو مجھے خوف و خطرہ نہ ہو گا۔کيونکہ تو ميرے ساتھ ہے۔تيری چھڑی اور تيری لاٹھی ہی ميری تسلی کے باعث ہيں‘‘۔ليکن اگر ہم اعمالِ حسنہ پر بھروسہ کر کے ايسی بڑی نجات سے غافل رہيں تو بجز ہلاکت وکف افسوس ملنے کے اور کچھ حاصل نہ ہو گا۔خُداوند کے رسول پولوس کے يہ اقوال و سوال نہايت غور طلب ہيں۔
ديکھو۔تم اُس فرمانے والے سے غافل نہ رہو۔کيونکہ اگر وہ بھاگ نہ نکلے۔جو اُس سے جو زمين پر فرماتا تھا غافل رہے۔تو ہم بھی اگر اُس سے جو ہميں آسمان پر سے فرماتا ہےمُنہ موڑيں۔کيونکہ بھاگ نکليں گے؟ عبرانيوں ۱۲۔۲۵