Jacob left Bathsheba and set out for Harran
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-e-Afshan 11 Jan,1895
نور افشاں مطبوعہ ۱۱جنوری ۱۸۹۵ء
۱۰ویں آیت پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان میں یہ ایک عجیب خاصیت ہے کہ موجود ہ حالت کی بہ نسبت جب اسے کچھ تکلیف پیش آتی ہے اپنی پچھلی حالت کو اکثر یاد کرتا ہے چنانچہ یعقوب کے حال سے ہم کو اس کی شہادت بھی ملتی ہے جیسا لکھا ہے کہ وہ حاران کی طرف گیارہ شہر حاران کسیون کے اور سے جنوب مغرب کی طرف ۲۰ میل کے فاصلہ پر ہے جہاں تارہ معہ اپنے خاندان کے ۱۵ برس رہا اور جس کو ابراہام نے تارہ کی موت کے بعد بالکل چھوڑ دیا تاکہ وہ خدا کے حکم کے مطابق ملک موعود کو جائے۔ اسی طرح بنی اسرائیل جب کہ مصر سے نکل کر بیابان میں سفر کر رہے تھے ذرا ذرا سی تکلیف کے خیال سے ہائے مصر ہائے مصر پکارنے لگتے تھے باوجود یہ کہ مصر میں وہ غلامی کی حالت میں تھے اور جوکچھ خدا ان کے ساتھ مہربان کرتا تھا ان سے یوں واقف تھے لیکن یہاں یعقوب اور بنی اسرائیل اگرچہ مصر کو لوٹ نہیں گئے پر تو بھی سوائے یشوع اور کالب کےسب کے سب بیابان ہی میں ہلاک ہوئے اور یعقوب اگرچہ حاران کو گیا بھی اور وہاں رہا بھی فریب سے برکت بھی حاصل کی ۔ لیکن خداوند نے اسے نہایت برکت جو روان اولاد مال اسباب چارپائے سب کچھ مرحمت فرمایا اور پھر کنعان میں واپس لایا۔ اب اگر کوئی پوچھے کہ ایسا کیوں ہوا تو ہم کہینگے کہ خدا کی مرضی یہاں سے برگزیدگی کی تعلیم کی تائیدہوتی ہےکہ برگزیدوں کو خدا کبھی ہلاک نہ ہونے دے گا یہ پس یاد رکھنا چاہیے کہ اسی صورت سے ہم میں بھی یہی کمزوری پائی جاتی ہے لیکن جسے خدا نے چن لیا ہے اس کو اس سے کچھ نقصان نہ ہوگا پر شرط یہ ہے کہ خدا کی روح کو رنجیدہ نہ کریں ۔ بلکہ اس کی ہر ایک ہدایت پر عمل کرنے کو تیار رہیں جیسا کہ ۱۲ ویں آیت میں یعقوب کو سیڑھی دکھائی گئی ۔ سیڑھی کے بیان سے پیشتر ہم پریہ ظاہر کریں گے کہ ایماندار پر مصیبت کا آنا ضروری ہے۔
۱۔ آدم پر غور کرو خدا نے اسے اپنی صورت پر بنایا وہ ہر دم خدا کی حضوری میں نہال رہتاتا سوائے خوشی کے رنج نام کو بھی نہ تھا پر جب گناہ آیا تو وہ سخت مصیبت میں پڑ گیا باغ عدن سے نکالا گیا خدا کی قربت سے محروم ہوا۔
۲۔ ہابل راستباز جس کی قربانی خدا نے قبول کی جان ہی سے مارا گیا۔
۳۔ ابراہام کو جب خدان نے بلایا تو اسے اپنا وطن ، اپنا شہر ، اپنا خاندان ، زمین، جگہ سب کچھ چھوڑنا پڑا۔
۴۔ پھر اضحاق اپنے باپ کا اکلوتا جو وعدہ کہلاتاہے اس کے ذبح کئے جانے کو حکم ہوا۔
۵۔ یعقوب برکت پاتے ہی حاران کو بھاگا۔
۶۔ یوسف سورج چاند اور ستاروں کا مسجود ہو کر غلامی کی حالت میں مصرکو گیا قیدمیں پڑا۔
۷۔ موسیٰ مصر سے جان کو بچا کر بھاگا۔
۸۔ خداوند یسوع مسیح کو جبکہ وہ گنہگاروں کے بچانے پر مقرر ہوا آسمانی تخت چھوڑنا اورانسانی بدن غریبی کی حالت میں اختیار کرنا پڑا پھر جب بپتسمہ پاتے وقت روح پاک اس پرنازل ہوئی تب بیابان میں ۴۰ دن تک شیطان سے آزمایا گیا۔
۹۔ مسیح کے رسول بھی روح القدس پاتے ہے سخت اذیتوں میں پڑے مصلوب ہوئے مقتول ہوئے ۔
۱۰۔ زمانہ بزمانہ مسیح کے شاگرد بت پرست بادشاہوں حاکموں رعایا سے ستائے گئے۔ یہاں تک کہ شہیدوں کا خون کلیسا کا بیج ہوا۔ پس سوال ہے کہ برگزیدوں کے لیے مصیبتیں کیوں ضروری ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں اور جب فرزند ہوئے تو وارث بھی اور میراث میں مسیح کے شریک بشرط یہ کہ ہم اس کے ساتھ دکھ اُٹھائے تاکہ اس کے ساتھ جلال بھی پائیں۔ (روم ۲۸ : ۱۷،۱۶) کیونکہ میری سمجھ میں زمانہ حال کے دکھ درد اس لائق نہیں کہ اس جلال کے جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے مقابل ہوں۔ (روم ۱۸:۸)
اب ہم سیڑھی پر غور کرتے ہیں۔ (یوحنا ۱۵:۱) کے لحاظ سے اگرچہ اس سیڑھی سے ابن ٓدمی مرادہ ہے۔ پر ہماری رائے میں یہاں سیڑھی کو صلیب سے زیاد ہ مناسبت پائی جاتی ہے کیونہ وہ ملاپ جو خدا اور انسان میں از سر نو(نئے سرے سے ) پھر قائم ہوا وہ ابن آدم کے وسیلہ سے ہے لیکن اس کے قائم ہونے کا طریق مسیح کا دکھ اور اسکی صلیبی موت ہے کیونکہ جو کاٹھ پر لٹکایا گیا سو لعنتی ہے۔ اسی نے ہم کو مول لے کے شریعت کی لعنت سے چھڑایا ۔ کہ وہ ہمارے بدلے مصلوب ہو کر لعنتی ہوا۔ جس طرح یعقوب نے خداوند کو اس کے اوپر کھڑا دیکھا اسی طرح ہم مسیح خداوند کو صلیب پر دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے برگزیدوں کو بلاتاہےکہ آؤ خدا سے ملاپ کرو۔ دنیا میں بھی ملاپ کا یہی نشان ہےکہ جب وہ مخالف باہم میل کرتے ہیں تو چھاتی سے لگا لیتے ہیں۔ ۱۳ ویں آیت میں خداوند یعقوب سے کہتاہے کہ میں تیرے باپ ابراہم کا خدا ہوں حالانکہ رشتہ کے لحاظ سے وہ اس کا دادا تھا۔ یہاں ا سکے ملاپ کے حاصل کرنے کا وسیلہ بتایا جاتاہےکہ ابراہام ایمانداروں کا باپ ہے۔ جو ایمان لاتاہے وہ ابراہام کا فرزند ہے اب جو ایمان لاتاہے وہ ابرہام کا فرزند ہے اب جو ایمان لاتاہے خداوند اس کا خدا ہےاور وہی اس ملاپ کو حاصل کر سکتاہے۔
۱۴ویں آیت میں ہے کہ تیری نسل کو ۔ یہاں نسل سے خاص طور پر مسیح مراد ہے کیونکہ ابتدا ہی سےہاں باغ عدن کے وعدہ سے وہ نسل کہلایا اورعام طور پر اس کی کلیسیاہ کیونکہ لکھا ہے کہ تو پورپ ، پچھم ،اُتر ، دکھن کو پھوٹ نکلے گا سو دیکھ لو کہ مسیح کی کلیسیا کا یہی حال ہے۔ لیکن یعقوب کی جسمانی اولاد یہودی جواب صرف ستر لاکھ ہیں مراد لیں تونہایت مشکل ہے۔ کہ دنیا کے تمام گھرانے ان سے برکت پائیں وہ تو ٓپ ذلیل و حقیر ہو رہے ہیں۔ خدا ان پر رحم کرے کہ وہ بھی مسیح سے برکت پائیں۔ ۱۵ ویں آیت میں ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں تیری نگہبانی کروں گا اور تجھے اس ملک میں پھر لاؤنگا نہ یہاں ایمانداروں کے لیے بڑی تسلی کی بات ہے کہ خدا ان کےساتھ ہے مسیح نے فرمایا کہ تمام ہونے تک ہر روز تمہارے ساتھ ہوں کچھ پروا نہیں کہ ماں باپ بھائی خوش و اقارب سب چھوڑ دیں لیکن خدا ساتھ ہے۔ وہ ان کی نگہبانی کرتاہے جس طرح گڈریا بھیڑ کی تاکہ وہ بھیڑ یا جو شیطان ہے یا جو اس کے ہم شکل ہیں پھاڑ نہ کھائیں اور سب سے زیادہ یہ کہ اس جہان کی مسافرت اور دوڑ دھوپ کے بعد حقیقی کنعان میں پھر لانے کا وعدہ کرتاہے ۔ جہاں ہمیشہ کام آرام ہمیشہ کی زندگی سب کچھ موجود ہے۔
حاصل کلام
خدا ایمانداروں کو پیار کرتاہے اس نے ان کو چن لیا ہے اور ایک خدا کے وسیلہ سے جو ہماران نجات دہندہ یسوع مسیح ہے اس نے ہمارے ساتھ پھر ملاپ قائم کیا ہے۔ پر ضرور ہے کہ ہم اپنے ملاپ کو اس طور سے ثابت کریں کہ ایمانداروں کے ساتھ ملاپ رکھیں کیونکہ اگر ہم بھائیوں سے جنکو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ملاپ نہیں رکھتے تو خداسے جس کو دیکھ نہیں سکتے کیونکہ ملاپ رکھ سکتے ہیں اور جب ہم مسیح سے ملاپ رکھنے والوں کے ساتھ ملاپ نہیں رکھتے بلکہ اس کے برعکس مسیح کے مخالفوں سے ملاپ رکھتے ہیں تو یہی مسیح کا مخالف ہے پس بھائیو ایسے کے ساتھ نہ سلام کرو نہ اسے گھر میں آنے دو ۔ نہ اسے مال کھلاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی بھیڑ یا بھیڑ کے بھیس میں تم کو پھاڑ ڈالے تمہاری نظر صلیب پر رہے ۔ او اپنی صلیب اُٹھا کر مسیح کا پیچھا کرو تاکہ اس کے ساتھ جلال پاؤ۔