مرزا غلام احمد قادیانی کا الہام

Eastern View of Jerusalem

Inspiration of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Sep 21, 1894

نور افشاں مطبوعہ ستمبر ۱۸۹۴ ء

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

چوچیر ا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

بڑی دھوم ۔ بڑی دھام ۔ بڑی شہرت ۔ بڑا اہتمام ۔ مرزا قادیانی کا الہام ۔ لینا لینا۔ جانے نہ پائے ۔ وہ مارا چاروں شانے چت ۔ کجامیروی باش باش کہ رسیدم ۔ این خیر ماشد ۔ یہ آپ کو کیا ہو گیا جو لگے بے تکی ہانکنے ۔ کہیں شیطان نے تو آپ کو انگلی نہیں دکھائی۔ لاحول پڑھ کے زمین پر تھوک دیجئے  ۔ اجی کچھ نہیں ہے ۔ بندہ ہوش میں ہے۔ دیکھئے نیچر کی سب کارروائی باقاعدہ ہو رہی ہے۔ سورج نکلنے پر ہے۔ ستارے رفتہ رفتہ غائب ہو چلے ۔ روشنی آہستہ  آہستہ یہ کہتی ہوئی بڑھنے لگی ۔ اُٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں۔ اُجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بھینی بھینی (خُوشبو دار)  ہو ا چل رہی ہے۔ ملاّنے اذان کی ہانک لگا دی پنڈت جی مہاراج سنکہ بجانے پوٹلے بیٹھے ہیں۔ یہ لووہ صبح ہو گئی ۔ گڈمورننگ ۔ آخاہ آپ ہیں آئے آئے۔ تشریف کا ٹوکرا فرق مبارک سے موڑھے پر جماد یجئے  ۔ بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی ۔ مزاج تو اچھا ہے؟ کوئی ڈال کی ٹوٹی تازہ خبر بھی لائے ہو یا خالی بھیجا کھانے کے واسطے آبیٹھے ؟ قبلہ خبر تو وہ سناؤں ۔ کہ آپ بھی پھول کر کُپا    (مو ٹا ہونا، خفا ہونا )ہو جائیں۔ بھلا سب ہندوستان اس خبر کے لئے ہمہ تن (پو ری توجہ سے)منتظر ۔ اور ایک آپ ہیں کہ کانو ں میں تیل ڈالے بیٹھے ہیں۔ لیجئے عینک چڑھائے اور سنئے۔

ریش دراز شیخ کی صافی بنا ئیں گے

گاڑی چھنے گی آج ہماری رقیب سے

مرزا قادیانی کو جب وہ پچھلے سال امرتسر کے جنگِ مقدس میں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب سے زک (شکست،شرمندگی)اُٹھا چکے۔ الہام  ہوا ۔ کہ ڈپٹی صاحب پندرہ مہینے  کے اندر عدم گنج کو پہنچ  جائیں گے۔ وہ میعاد (مدت)تو گزر گئی اور ڈپٹی صاحب ( عمر ش درازباد )  بفضل خدا جُوں کے تو صحیح و سالم ہیں ۔ ہت تیری الہام کی دُم  میں نمدا        (وہ اونی کپڑا جوگھوڑے کی پيٹھ پر زين کے نيچے ڈالتے ہيں )۔ الہام ہے يابند ر کی ٹوپی جو سر تک پہنچتی ہی نہیں یا کنکوے کی سٹریل ڈور جس کو لوگ کہتے ہیں چچوند ر چھوگئی۔ یا گند ھک کا سرد پایا ہو ا پٹاخہ جو رنجک(بارود) چاٹ کر رہ گیا۔ جس کو مرزا صاحب ڈائنا میٹ (دھما کہ دار بارود) سمجھے ہوئے تھے۔ تڑاق پڑاق کیا معنی سٹ پٹ بھی تو نہ ہوئی یونہی سُر سُر  ا کر رہ گیا ۔ الہام ہے۔ کہ لدّ و گھوڑا(وہ حيوان جو بوجھ اُٹھانے کے کام آئے )جس پر مرزا صاحب نے مماثلت ِمسیح کی زین  کس (چار جامہ کسنا)کر عالم بالا (آسمان)پر پہنچنا چاہا۔ مگر آپ جانئے لدّو  ٹٹو کو لاکھ ڈنڈی رسید کرو۔ تو بڑا دکھاؤ یہ اپنی ہٹ(ضد) سے کب باز آئے۔ کیا معنی پہلے آپ کو الہام  ہوا کہ گھر میں لڑکا ہو گا۔ مگر قسمت میں تو لکھی تھی لکڑی تو بہ لڑکی۔ لڑکا ہوتا تو کس طرح۔ کھسیا (شرمندہ ہونا)کر رہ گئی۔ اور آپ کی مرتبہ  تو بڑے معرکہ کا الہام تھا ۔ یہاں بھی مذامت(شرمندگی) ہی اُٹھائی پڑی ۔

مرزا صاحب ایک حکمت بھول گئے آپ کی قیافہ شناسی(علامات سے بُرے بھلے کی پہچان کا علم) ۔ حکمت رمل(جوتشی کا علم ) ۔ اور دوسرے ناجائز و سائل ۔ مثلاً زہریلے سانپوں کا ڈپٹی صاحب موصوف کے مکان کے دھوکے میں دوسرے صاحب کے مکان پر چھڑوانا ۔ چوروں کا گروہ ڈپٹی صاحب کے واسطے مقرر کرنا ۔ بددعا کر نا اور کرانا تو دم دے گئے ۔

اے زاہد ريائی(منافق پرہيزگار) دیکھی نماز تیری ۔ نیت اگر یہی ہے تو کیا ثو اب ہو گا ۔ اگر آپ اپنے مریدوں (پيروکاروں)کو بھی الہام کا لٹکا بتا دیتے ۔ تو شاید یہ جائنٹ سٹاک کمپنی کچھ کر دکھائی ۔ ایک تاؤکی کسر رہ گئی ۔مگر حق تو یہ ہے ع وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ نہ تو آپ کا الہام کچھ کر سکتا ہے۔ نہ علمِ رمل و حکمت کو اس معاملہ میں دخل ہے ‘‘۔  بھنگی(نشئی) کے کہنے سے گائے بھینس  مر نہیں جاتی ‘‘  اب تو مرزا خود کو پہچان گئے ہو گئے۔ اب تو بھرم اچھی طرح کھل گیا۔

ناظرین نور ِافشاں مرزا صاحب کی الہام کی کیفیت سے بخوبی  واقف  ہیں۔ آپ کا الہام نہیں ہے۔ یہ تو مدتوں کے مشورہ کا نیتجہ  ہے۔ کیا معنی کہ آپ کے بھائی صاحب نے تو بھنگیوں(نشئی) کو سدھارنے کا بیٹرا اُٹھایا ۔ اور آپ مسیحیوں اور محمدیوں کی طرف جھکے۔ وہ تو لا ل بیگ  بن بیٹھے اور یہ مثیل مسیح(مسيح کی طرح) ۔

 ع ببین نفاوت رہ از کجاست تابہ کجا

 بھلا وہ دماغ ہی کیا جس میں اختراع کی (نئی بات ايجاد کرنا)قوت نہ ہو ۔ ہندی بھائی  تو بھولے لوگ ہیں۔ جہاں مداری کی ڈگڈ گی سُنی اور پہنچے تُو بھی چل وہ بھی چل تو تلے میں اُوپر ۔ تماشہ دیکھنا ہے ضرور خواہ گانٹھ گرہ میں کوڑی (ايک سکہ)بھی نہ ہو۔ مگر مرزا صاحب نے ایک نئی ڈگڈگی بجائی اور دو چار ناچنے والے بھی آپ کو دستیاب ہو گئے۔ تب ہی تو اوروں کی نسبت کچھ زیادہ ہی  اینٹھا(دھوکہ دے کر حاصل کرنا)۔ بغیر منی آرڈر کے نوالہ ہی نہ تو ڑا ۔ مُٹھی الگ  گرم ہو تی رہی۔ اور پلاؤ اور قورمہ پر الگ  ہا تھ   صاف ہوتا  ر ہا۔ ع روٹی تو کما کھائے کسی طور مچھندر(مسخرہ) ۔ مگر ڈپٹی صاحب کا کیا کہنا۔ مرزا کے الہام کی مطلق پر وانہ کی۔ مسیحی طاقت میں وہی دلیر کے دلیر  بنے رہے ۔

ع                                                        اس کا ر از تو آید مرواں چنیں  کنند۔ پریشان ہونا کیا معنی

 آنکھ تک تو نیچی نہ کی ۔ نیچی رقیب سے نہ ہوئی آنکھ عمر  بھر

میں جھکتا کیوں نظر میں تمہارا غرور تھا  ۔ صبر و استقلال (ثابت قدمی)کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ تمہاری تیغ   (تلوار)کا منہ چڑھاکے لے لیا بوسہ ۔ کبھی نہ آپ سے ہم دب کے با نکپن (ٹيڑھا پن ،سر کشی) میں رہے۔ر خصت اب کیا مرزا صاحب کے ٹانکے ڈھیلے کرنا ہیں بخئیے  اُدھيڑنا۔ دھجیاں اُڑانا یا کچھ اور بھی ہے  لوٹٹوآگے بڑھائے۔

ہاں ایک منہنی سی بات اور بھی ہے۔ حافظ ولی محمد جون پیٹرولیمس ( نابینا)  کو بھی اس بارے میں الہام ہوا تھا کہ ڈپٹی صاحب موصوف اس عرصہ کے اندر نہیں مریں گے  بلکہ زندہ رہیں گے۔ ليجئے صاحب الہام ہے یا اجتماع نقیضین (مخا لفين)۔ ایک کی کھوپڑی تو کچھ کہتی اور دوسرے کی کچھ اور نہ حافظ صاحب نے سوچا۔ کہ مرزا تو اپنا کر تب دکھا چکے۔ میں کیوں رہ جاؤں ۔ بگالہ کی لکڑی سو نگھ کر سو گئے۔ اور کہاں پہنچے ۔ عالم بالا پر ۔ خبر مل گئی اور واپس آتے ہی اپنے الہام کا نتیجہ  کھٹ سے مشتہر (اشتہار دينا)کر دیا۔ بھینس  نہ کُودی کُودی گون۔ اب تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ الہام گلی گلی مارا پھر ے گا۔ ٹکے سیر  (دو پيسے کا ايک کلو) بھی تو کوئی نہ پوچھے گا۔ سلامتی سے لگا تو لگ  گیا ہے۔ ڈپٹی صاحب جو زندہ ہیں یہ کچھ حافظ  صاحب کے الہام کی بدولت  نہیں ہے۔ اور اگر وہ (خدا نخواستہ )  انتقال کر جاتے تو مرزا کے الہام کی وجہ سے نہیں۔ یہ سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آدمی ان باتوں کو نہیں جان سکتا ۔ مگر ہاں اتنا تو ضرور ہوا۔ کہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے منہ میں خاک تو پڑ گئی۔ اگر کچھ غیرت ہو۔ تو وہ اب بھی اس الہامی ڈہکو سلہ (فريب ،دھوکہ)کو چھوڑ  کر راہ راست پر آسکتے ہیں۔

Leave a Comment