الہام الہٰی اور الہام ارواحی

Eastern View of Jerusalem

Inspiration of God and Inspiration of Spirit

By

G. L. Thakur Das

علامہ جی ایل ٹھاکرداس

Published in Nur-i-Afshan July 27,1894

نور افشاں مطبوعہ۲۷جولائی ۱۸۹۴ ء

اکثر   صاحبان  باخبر سے  یہ بات  پوشیدہ  نہ ہو گی۔   کہ قدیم   زمانہ   سے غیب   دانی ۔ اور نادر  (ناياب)کام کرنے  کا بعض لوگوں  کوشوق  رہا ہے۔  بلکہ یہاں  تک کہا جا  سکتا ہے۔  کہ ہر انسان   چاہتا   ہے۔ کہ کل   کی خبر   ہو  کہ کیا ہو گا۔  ہاں   دل  تو یہ   بھی   چاہتا  ہے ۔ کہ نقل مکان  بھی   اس  تیزی   اور شہوات    کے  (خواہشوں)ساتھ  کر سکیں۔   جیسا  طيور(پرندے)   کرتے ہیں۔   معلومات   غیبی  کے لئے   انسان  نے قدیم  سے طرح طرح  کی باتیں  ایجاد   کی ہیں۔ جن میں  سے کئی ایک ڈھنگ   اس زمانہ  میں بھی  موجود  ہیں واضح   ہو ۔  کہ علم ِطب  کا تجربہ   اس  شفا ء  کا جو ہنوز(اب تک) نا پدید(پوشيدہ)  ہو  پتا لگا  دیتا ہے۔  اور مطالعہ   نیچر    سے  بھی کئی   غائب  نتیجوں   کی پہلے  ہی سے خبر مل  جاتی ہے۔ اور انسان   نے ایسا کیا  بھی ہے۔  اور  الہیات(علمِ الٰہی)   کی رو سے  بھی  ہم کہہ سکتے  ہیں۔ کہ خُدا تعالیٰ   نے اپنے تئیں   دو طریق   سے ظاہر  کیا ۔ یعنی   اپنی قدرت  کے کاموں  اور اپنے  مکاشفہ   کے وسیلے   سے۔ اور کئی  قسم  کی غیبی  باتوں  کی خبر دی۔ لیکن  لوگوں نے غیب    دانی   کے  جو  اور طریقے   خود تجویز کئے ہوئے تھے۔ الہٰی   مکاشفہ  کے آنے  پر بھی ان کو  نہ چھوڑا  ۔ اور  اب   تک ان پر اپنا    اعتقاد    اور عمل  رکھے  جاتے ہیں۔ اور  لطف   یہ ہے۔  کہ جو کوئی ان  طریقوں  میں  مہارت  حاصل  کرتا ہے۔ تو وہ لوگوں  کو یہی جتا تا ہے کہ  جو کچھ کہتا  ہے۔ خُدا  ہی   کے کشف(الہام۔ظاہر کرنا)   سے کہتا  ہے۔ اور خلقت   بھی ان کے  پیچھے  جان نثار  ہو جاتی ہے۔ حالانکہ    ان لوگوں کو  خُدا تعالیٰ   سے کچھ بھی   سرو کار   نہیں ہے۔  یہی  راز  میں اس تحریر   میں فاش(کھولنا)   کرنا چاہتا  ہوں۔

پس واضح  ہو ۔ کہ الہامِ  الہٰی   وہ ہے۔ جو خُدا  کی روح کے وسیلے   سے ظاہر   کیا  جاتا  ہے ۔ خُداوند   نے خود اپنی مرضی  کے موافق   بعض لوگوں  کو یہ  کشف   بخشتا تھا۔  اس میں صحت   ہمیشہ   لازم  ہے۔ اور انسان  کی بھلائی    اور ترقی   اس  کی غرض  ہے۔  وہ جن  کو  یہ کشف   عنایت  ہو ا  خُدا کے نبی  اور رسول  کہلائے۔

اس کے برعکس   وہ الہام  ہے۔ جس  کو عنوان  میں الہام  ارواحی لکھا  گیا ہے۔ موسیٰ   اور دیگر  انبیاء  کے الہام   سے یہ الہام   اور پُرانا  ہے۔ مطلب  اس کا یہ  ہے۔ کہ انسان  اپنی موجود ہ جسمانی   حالت  میں خاص  خاص ریاضت    یا جادو کے ذریعہ   سے ان  ارواح  کے ساتھ   ہم کلام  ہو سکتا ہے۔   جواب جسم  نہیں رکھتی   ہیں۔   وہ ارواح  خواہ  نیک ہوں خواہ  بد۔  اور  اس  طور سے علم  اور عجائب  کاموں  کے لئے  قدرت    حاصل  کرتا ہے۔ یہ الہام لوگوں کا اپنا کسب(ہنر۔پيشہ)  ہے۔  ایسا  نہ  کریں تو   وہ حاصل  بھی نہ  ہو۔    اس الہام  ارواح  کے تحت   میں   ان  سب باتوں  کو شامل  کرتا ہوں۔ جو انگریزی  میں Necromancy ( نکرومینسی ) اور   Spiritualism (  سپریچوال ازم )  کہلاتی  ہیں۔ محمدیوں  کے درمیان  اہلِ تصوف   میں وہ  جس کو کشف  باطنی   کہتے ہیں۔ اس میں داخل  ہے۔  ہندوؤں اور بد ھ مذہب   والوں  میں يوگ  بھی اسی   مطلب   کی مشق   ہے۔ رمل (غيب کا علم)اور فال(پيشن گوئی) بھی اسی   فہرست  میں شامل  ہیں۔ مسلمانوں  میں قبرپرستی  ۔ اور ہندوؤ ں   میں پتری  پوجا اس سے باہر   نہیں ہیں۔  بدروحوں  کی تعلیم  اور تاثیر   جس  پر  یہودیوں  کا بڑا  اعتقاد(يقين)  تھا ۔ الہام  ارواحی کی ایک ڈرونی   صورت  ہے۔ میں نہیں  کہہ سکتا ۔  کہ ان باتوں کے امکان   کا انکار   درست   ہے  یا نہیں   البتہ   ان میں  سے کئی    ایک کے متعلق   غلطی   ، اور  دھوکے  بازیاں  ثابت  ہوئی ہیں۔  تاہم   ان کے امکان   کو مان لینا  ایک بات ہے۔  اور ان کے محسن  اور مرغوب(پسنديدہ)  اور بے خطر ہونے کو ماننا   دوسری  بات   ہے۔ اور ان باتوں سے ہمیں بے  شک انکار ہے۔  یعنی  اس الہام  ارواح  کو ماننا   اچھا  نہیں  ہے۔  پسند   کے لائق   نہیں ہے۔  اور خطر ناک   ہے۔ بہترین  بات یہ ہے۔  کہ ہم کشف  الہٰی  کو مانیں  اور وہ بائبل  ہے۔

بیشتر  اس سے کہ الہام  ارواحی  کے اقسام  کی کیفیت   سناؤں  مناسب  معلوم ہوتا  ہے کہ ہم سنیں ۔ کہ کلامِ  اللہ   بائبل   اس کی بابت   کیا کہتی  ہے۔ اصل   میں  صحیح  فیصلہ   ہم بائبل   ہی سے  پا سکتے   ہیں۔  کیونکہ   الہام   ِارواحی  کے مقابل  میں الہام  ِ  الہٰی   وہی  ہے ۔ اور  بائبل  کو اس بات   پر فیصلہ  دینے کا حق  بھی پہنچتا   ہے۔ کیونکہ  وہ نہ صرف   اور الہاموں   کےمقابل   میں الہامِ  الہٰی   کو مقدم اور  بہتر   اور سچا   قرار  دیتی  ۔ بلکہ   وہ ایک  روحانی  عالم  کا ذکر بھی کرتی ہے۔ اور  یہ  بھی اظہار   کرتی ہے۔ کہ انسان   کے لئے   نگہبان   روحیں ہیں۔  اور ایسی  لوگوں  کی نظریں   بھی  دیتی ہے۔ جن کو   روحوں  ( بدروحوں )  نے گرفتا ر   کیا تھا۔  اس سے یہ بھی   حاصل   ہے ۔ کہ الہام  ارواحی  کوئی  نئی بات  نہیں ہے۔

لیکن  اس پاک   کلام  سے معلوم ہوتا  ہے کہ دو  قسم   کے الہام  ہیں۔

  ایک  وہ جو خُدا کی  مرضی  اور  حفاظت  اور ہدایت   کی وجہ  سے ہے۔  جس میں   خُداوند   خود   اور  اس  کے فرشتے   اپنے تئیں  بندوں   پر ظاہر کرتے ہیں۔   اور سچائی  کی باتیں   بتلاتے   ہیں۔ اور  رویتوں  میں آسمان  کے باشندوں  سے   باتیں کرواتے ہیں جیسے  یوحنا   رسول  کے ساتھ   ہوا تھا۔  اس الہام  کے لئے  بندے کی طرف سے کوئی کوشش نہيں ہوتی تھی ۔ ليکن کسی خاص مطلب کے لئے  وہ چُنا جاتا تھا۔

دوسری قسم الہام کی وہ ہے ۔جس کو بے قاعدہ  اور زبوں(عاجز،کمزور)   بیان  کیا گیا ہے۔ اور اس  سے بھلائی   نہیں ملتی  ۔ اس الہام  کی تفصیل اور ممانعت  (منع ہونا)بائبل  اقدس   میں یوں   کی گئی ہے۔ تم ان  کی طرف  جن  کا  یار  دیو   ہے توجہ  نہ کرو۔  اور نہ جادو   گروں کے طالب    ہو ۔ کہ  ان کے سبب سے ناپاک   ہو جاؤ گے۔  میں خُداوند    تمہارا  خُدا ہو ں ۔ احبا ر   ۱۹: ۳۱ پھر  ۲۰: ۶  میں یوں   حکم ہے۔  کہ جو انسان  اس شخص  کی  جس کا یاردیوہے۔   اور جاد و گروں  کی پیروی  (پيچھے چلنا)کرتا ہے۔  تا کہ  ان کی طرف  زنا کرے۔  میرا   چہرہ  اس  کا مخالف   ہو گا۔   اور  میں اسے   اس  کی  قوم میں  سے کاٹ ڈالوں گا۔   پھر  استثنا  ۱۸ : ۱۰ ، ۱۲   میں ہے  ۔ تم میں کوئی نہ پایا   جائے۔ جو اپنے بیٹے   یا بیٹی   کو آگ   میں گذر   کرائے  ۔ یا غیب  گو ۔  یا نجومی ۔ یا فال کھولنے والا ۔ یا ڈائن  ہے۔  نہ منتر  پڑھنے  والا  ہے۔  نہ  یار دیو  سے سوال   کرنے والا   ۔ اور  نہ رمال۔ اور نہ ساحر(جادو گر)  ہو ۔ کیونکہ  وہ  سب   جو ایسے   کام  کرتے ہیں۔  خُداوند   کی نفرت   کے باعث  ہیں۔ ان  احکام  سے ظاہر  ہے۔ کہ الہامِ  ارواحی کے پیشہ  ور لوگ  ملک  کنعان  میں تھے۔  پیشتر   اس  سے کہ توریت   فرمائی گئی۔  اور   بنی اسرائیل  اس ملک  میں آباد  ہوئے ۔  پھر دیکھو   یسعیاہ  ۸:  ۱۹۔ ۲۰ اور جب وہ   تم  کو کہیں  ۔ تم دیوؤں   کے یاروں  ۔ اور  افسو ن گروں  کی جو  پہسپہساتے  اور  بڑبڑاتے  ہیں تلاش   کرو  تو  تم کہو۔   کہ کیا لوگوں  کو مناسب   نہیں ۔  کہ اپنے خُدا  کو ڈھونڈ   یں؟   کیا زندوں کی بابت  مُردوں  سے سوال  کریں؟  شریعت   پر اور شہادت   پر نظر کریں  ۔ اگر وہ   اس سخن  (بات)کے مطابق  نہ بولیں۔   تو ان پر   پونہ پھٹے گی ۔  وغیرہ   باوجود  ان  احکام   کے قوم  یہود   میں بہتیروں  کو ان کاموں   کی عادت  ہو گئی تھی ۔

اب  خیال   کرنا  چاہیے  ۔ کہ اگر روحوں  سے باتیں کرنا   بُرا   نہ ہوتا ۔  تو ایسی  تا کید  کے ساتھ   اس کی ممانعت  نہ کی جاتی ۔ اور اگر یہ کام   اس  زمانہ   میں زبوں  تھا تو اب بھی   زبوں  ہے۔ اور جب   زبولون   اور نفتالی  کی  سر زمین   میں ماسوائے  اور بدکاموں  کے اس تیرگی  کی مار پڑی تھی۔   جس کا  یسعیاہ   ۸:  ۱۹ ۔ ۲۲ اور   ۹:  ۱ میں ذکر کرتا ہے ۔ یہاں تک   کہ مسیح  کے  زمانہ   میں ان   اطراف  میں بہتیرے    ایسے لوگ  تھے۔  جن پر بد  روحوں  نے قبضہ کیا ہو ا تھا۔  اور اپنی  خواہشوں  کے اظہار  کا ذریعہ  بنا یا تھا۔   تو مسیح   خُداوند   نے ان روحوں  کو  آدمیوں  میں سے    نکالا ۔   اگر روحوں  کے ساتھ   یہ ہمکلامی ۔ او ریگانگت  مناسب   اور فائدہ    مند ہو تی ۔  تو خُداوند    ان کو دو ر  نہ کرتا  ۔  اور کیا ذی  عقل(عقل مند)  انسان   کو واجب   ہے۔ کہ الہام  ارواحی(مُردوں کی رُوحوں  سے پوچھ  گچھ کرنا )   کا خواہش  مند ہو ۔ یا  اس کی تحصیل   (حاصل کرنا )کے لئے طرح طرح   کی بدنی  ریاضت(کوشش)    کیا کرے؟

معلوم  کرنا چاہیے   کہ  کیا سبب   ہے۔  کہ خُداوند   نے  الہام   ِارواحی  کو منع  فرمایا ۔  اور قابلِ   سزا  ٹھہرایا  ؟  کوئی معقول  سبب تھا ۔ یا نہیں  ؟ جو  مقامات   اُوپر   پیش   کئے گئے  ہیں  ان سے ظاہر ہوتا  ۔ کہ الہام    ِارواحی   کی تلاش    محض  بے ایمانی  کے سبب   سے ہوتی تھی۔  یعنی  لوگ  خُدا   پر  بھروسہ  رکھنے  کے بجائے  مُردوں  کی روحوں  ۔ اور  شیاطین  کا آسرا  تا  کتے تھے۔ اس کے برخلاف     خُداوند  نے فرمایا ۔  کہ میں خُداوند   تمہارا   خُدا ہوں ۔ اور پھر  یہ  ۔ کہ  کیا مناسبت   نہیں۔   کہ لوگ  اپنے خُدا   کو ڈھونڈ   ھیں ؟  دیکھو   اگر ارواح   سے علم  حاصل   کرنے   کی خواہش   اور کوشش   اس  وقت   بے ایمانی   تھی ۔ تو کیا   آج کے دن بے   ایمانی   نہیں ہے؟    بے شک   ہے ۔  دوسری   وجہ   اس  کے ناجائز ہونے  کی  اس مذکور   میں پائی  جاتی   ہے۔ جو  یسعیاہ   ۸: ۲۰  سے پیش کیا   گیا  ۔ کہ   شریعت   پر اور  شہادت   پر نظر  کریں۔   اگر وہ   اس  سخن   کے مطابق   نہ بولیں   تو ان پر    پو  نہ پھٹے  گی ۔ پھر  عہدِ  جدید   میں  اور  سبب   اس کے منع   ہونے کےبیان  کئے  گئے  ہیں۔    روح صاف   فرماتی  ہے۔ کہ آخر  ی  زمانہ   میں کتنے  لوگ   گمراہ  کرنے  والی   روحوں   اور  دیوؤں   کی تعلیم  سے جا لپٹیں   گے۔ اور ایمان  سے برگشتہ   ہوں گے۔  ( ا تیمتھیس  ۴:  ۱)۔  اس مقام   میں اس   کو بُرا   کہنے کی  یہ    وجہ ہے۔  کہ مسیحی   ایمان  سے برگشتہ   ہو ں گے ۔ اور ظاہر  ہے   کہ مسیح سے   برگشتہ  ہونا ۔ ویسا ہی زبون    (نکما۔کمزور)ہے جیسا   خُدا سے  برگشتہ   ہونا  ہے۔ خُداوند    تعالیٰ   نے عہدِ   عتیق   کے زمانہ    میں اپنی   وحدت  اور خُدائی  ایسے  واضح   طور سے  ثابت  کی تھی۔  کہ وہ تعلیم  جھوٹے  اور سچے  نبی  کا نشان  ٹھہر چکی  تھی۔ جو اس   کے برخلاف   سکھلائے  ۔ اور خُدا  کی طرف سے بے ایمان  کرے ۔  تو ایسا   کام   خلاف   ِقاعدہ   مقرر   شدہ   کے ٹھہرتا   ہے۔  اور عہد ِ  جدید   کے زمانہ   میں مسیحی   ایمان  ۔ یعنی   مسیح   پر ایمان  لانا  جھوٹھے  اور سچے  نبی  ۔  اور جھوٹے   اور   سچے الہام  کا پیمانہ     ٹھہرایا گیا ہے۔    کیونکہ   مسیح نے   اپنے تئیں   نہایت   واضح   طور  سے  خُدا  کا بیٹا   ثابت   کیا تھا۔   اس لئے  یوحنا   رسول  اس ایمان   کو کسوٹی   ٹھہراتا  ہے۔ اے  پیارو  تم ہر ایک  روح کا  یقین   نہ کرو ۔  بلکہ  روحوں کو آزماؤ ۔ کہ وہ   خُدا کی  طرف   سے ہیں کہ نہیں ۔ کیونکہ   بہت سے  جھوٹے   پیغمبر   دنیا   میں آئے  ہیں ۔  اس  سے تم خُدا   کی روح  کوپہچانتے ہو  ۔ (  یعنی اور  روحوں   سے )  کہ ہر ایک  روح جو  اقرار   کرتی  ہے۔   کہ یسوع  مسیح جسم میں  ہو کے آیا ۔  وہ خُدا  کی طرف   سے ہے۔  ( ۱  یوحنا    ۴:  ۱، ۲ ) الہام   ارواحی کے   پیرؤں  کو یہ بات   یاد  رکھنی   چاہیے ۔  اور اسی  ثابت   اور  مسلم   قاعدہ   کی رو سے  ہم مسز   میسنٹ  کی  تھیو صوفی  کو  اور  مرزا   غلام  احمد   صاحب   کے الہام   اور غیب   گوئی کو  باطل   قرار   دیتے ہیں۔   ان لوگوں  کی باتیں   الہام   ارواحی  ہیں۔  اور یہ الہام   منع  ہے۔ اور  اس کے تلاش  کرنے والوں   کو  اللہ    تعالیٰ   لعنتی  ۔ اور جھوٹا  ۔ اور بے ایمان  قرار  دیتا  ہے۔   ایسی   غیب   گوئی  کا انسان   کو قدیم  سے شوق  ہے۔ اور لطف  یہ ہے۔ کہ یہ  شوق  مُردوں  کی  روحوں  اور شیاطین  کے  ذریعہ   پورا  ہوتا رہا ہے۔  اور لوگوں کو  دھوکا   دینے  کے لیے اس  کی ہرزمانہ   میں لوگ   آپس  میں تعریف  کرتے گئے  ہیں۔  اور اپنے  تئیں   دانا   کہتے  گئے ہیں۔ ہاں  معرفت   کو پہنچے ہوئے سمجھتے ہیں۔ 

 اب یہ جاننا   چاہیے ۔ کہ دونوں  قسم  کےالہاموں   سے اصل غرض  یہ ہے۔ کہ اعلیٰ علم  ۔ یا اعلیٰ   طاقت    حاصل   ہو ۔ فرق  ذریعہ   میں ہے۔  اور نیز مدعا   میں  ہے۔ الہام  ِالہٰی   کا ذریعہ اور  مدعا (مقصد)   اختصار(مختصر طور پر )  کے ساتھ   بیان کیا گیا ۔ اب الہام  ارواحی  کے ذریعوں  اور مدعا   کا بیان  سنا تا  ہوں۔

ہندوستان  میں یوگ   مت   مشہور  ہے۔   اور مسیح  سے  قریبا ً پانچ  سو   بر س    پہلے اس   کا رواج   ہوا ۔  گو تم  بدھا  اگر چہ  اس کا بانی نہیں تھا۔  تاہم    اس کی کتابوں  میں ایسی    ہداہتیں  پائی جاتی ہیں۔ جن  کی بنا   پر اس  کے پیرؤں    نے یوگ مت کی تائید   (ہاں میں ہاں ملانا)اور  تقلید(پیروی کرنا )  کی ۔ اور قریباً   کل ہندو   اس تعلیم  کے قائل  ہیں ۔ جو  گیوں   اور سناسیوں  کی  منتاہی سے یہ بات  ظاہر ہوتی  ہے۔ یوگ  مت  کا مدعا(مقصد )   یہ تھا۔   کہ اوّل  اعلیٰ   گیان  حاصل  ہو۔اور پھر اعلیٰ   قوا  اور طاقتیں   معجزے  کرنے کی حاصل ہوئیں ۔ اس مدعا   کو حاصل کرنے کے ذریعے مشہور عالم سر  مانئیر ولمیس  صاحب نے   بدھ مت   کی بابت   بڑی  تحقیق   کے ساتھ  لکھے ہیں ۔ اور مسئلہ  یوگ  کی بابت   پتنجلی   کے بیان   سے آٹھ   بڑے  امور کا   ذکر کرتے  ہیں  جو  تحصیل   یوگ   کے لئے  درکار ہیں۔

۱۔ پانچ  بُرے  کاموں سے پرہیز  کرنا ( یعنی   یم )

۲۔  پانچ   مقرری   فرائض   ( نی  یم  )  ادا کرنا ۔

۳ ۔  آسن جمانا ۔

۴۔ دم روکنا    اور سدہ کرنا  یعنی پرانا   یام۔

۵۔  حواس  کو  اشیاء   کی حس  سے ہٹانا   یعنی پرت یا ہار ۔

۶۔ دہارنا    یعنی سوچ  کو ٹکانا ۔

۷۔  دھیان

۸۔ بے خودی یا بے ہوشی  ۔

پہلے امر   میں یہ  باتیں  شامل ہیں ۔ یعنی خون نہ کر ۔  چوری نہ کر ۔ ناپاکی  کا کا م نہ کر۔  جھوٹ  نہ بول ۔  شراب  نہ پی۔ 

دوسری  مطلوبہ  بات میں یہ  فرائض  ہیں۔   ظاہر ی اور باطنی صفائی ۔  قناعت   ۔ تپ کرنا ۔ یعنی جسم کو  دکھ دینا۔  جپ  کرنا  ۔  یعنی دعاؤں  کو بار بار  بولتے  رہنا۔  اور یا ایسے    الفاظ  یا سچے  بولتے  رہنا  جن میں کچھ   بھید   ہے۔ مثلاً  لفظ   اوم بڑا تاثیر   گر سمجھا جاتا ہے۔  یہ لفظ    بدھ مذہب   میں برہمن  مذہب   سے  لیا گیا ہے۔  ہوم  بھی ایک ایسا  ہی بے   معنی پُر   بھید ۔  اور تاثیر گر   لفظوں میں سے  ہے۔  اسی قسم کے اور لفظ  بھی ہیں۔  جیسے  سم  یم ۔ رم ۔ لم    ۔ ان   میں کچھ  پوشید ہ  بھید  ہے۔

تیسری   مطلوبہ  بات   آسن ہے۔  اس کی یہ   وجہ بیان  کی جاتی ہے۔ کہ بعض   طریقے   بیٹھنے  کے اور ہاتھ پاؤں  کے دہرنے   کے ایسے    ہیں۔ کہ جسم   سے بے چینی    کو دو ر  کرنے والے    ہیں۔   اورجسمانی   قرار  پیدا کرنے  والے ہیں۔    بعض  آسنوں  کے نام یہ  ہیں۔ پدماسن  یعنی کنول  کے پھول  کا آسن  ۔ سنگھاسن یعنی  شیر  کا  آسن  ۔  کُرما  سن  یعنی کمے   کا آسن  ۔ ککوٹا سن  یعنی  مرغ  کا آسن  وغیرہ۔

پہلا  آسن  یوں رکھا  جاتا ہے۔ کہ چوکڑی  مار  کے بیٹھیں  ۔ ایسا  کہ دہنا   پاؤں  بائیں   ران  پر رکھا   جائے  ۔ اور بایاں  دہنی ران پر   ۔

حاشیہ  ۔ یعنی   جس   کو کچھو  کُماکہتے ہیں۔

خاص  طور پر آسن  جمانے  کی بابت   خیال  کیا جاتا ہے۔ کہ ان  سے جسم  ایک بے حرکت  حالت   میں  ہو جاتا ہے۔  اور رُوح  کو  بالکل   جُدا   کر دینے  کے واسطے   نہایت  ضروری  تیاری  ہے۔

ایک  اور مدد  اس مدعا  کے لئے  بازوؤں  ۔ ہاتھوں  ۔ اور انگلیوں  کا گھمانا ہے۔   یہ ورزش  بھی تاکیدی  ہے۔ محمدی   ملکوں  میں بھی  اعضاء  کی بعض حرکات  درویش   لوگ  اس غرض  سےکرتے  ہیں۔ کہ  انسانی  روح الہٰی  روح  میں مل  جائے ۔  قاہرہ   کے ناچنے  والے    درویشوں  کا حال  مشہور  ہے۔   وہ شور مچاتے ۔  اور ورزش   کرتے ۔  اور خُدا   کا نام   لیتے   ۔ اور  بے  ہوش   ہو جاتے ہیں۔ اور یہ بے   ہوشی  کی حالت   وصلِ   الہٰی (خُدا سے ملاقات)  کی حالت   سمجھی   جاتی  ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بموجب  ہندوؤں  کے ویدوں    اور جدید کتابوں کے انسانی روح  برہم     مایا  کے سبب اس  مٹی  کے قالب   میں آئی تھی۔  اس حال میں ہمارے آسن  اور لفظی  بک   بک  وغیرہ ہماری   روح کو کیا   فائدہ  پہنچا   سکتی ہیں؟  وہ مراد  اس طریق  سے حاصل  ہو ہی نہیں سکتی   ۔ کیونکہ   جب تک برہم  مایاناس(ختم  ہونا )  نہ ہوئے۔  ہم ایسی  کرتوتوں  سے برہم میں نہیں مل  سکتے۔

چوتھا  ضروری  ذریعہ۔  یعنی  دم سدہ  کرنا اور دم روکنا   سب سے بڑی اور ضروری  بات ہے۔  اس کو ہٹہہ و دیا  بھی کہتے ہیں۔ یورپ  کے لوگ  اس  ورزش  سے ناواقف  نہیں ہیں۔

ہندوؤں  کا اعتقاد  ہے۔ کہ سانس   کو دیر تک اندر  کھینچنا   خیال بندی  کے لئے  بڑا  فائدہ  رکھتا   ہے۔ اور بیرونی  چیزوں  کو  روکنے میں مدد  دیتا ہے۔  اور پانچ  قسم کی ہوا انسان کے جسم  میں مانی جاتی  ہے۔  دم  سدہ کرنے   میں ہوا  کو ایک نتھنے  سے اوپر  کو کھینچنا   چاہیے۔  اور دوسرے  کو انگلی   سے بند  رکھنا  چاہیے۔ ہوا  جو اندر  کھینچی   گئی   پھپھڑوں   میں رو کی جائے ۔ اور بعد ازاں   دوسرے   نتھنے سے نکالی  جائے۔ دونوں  نتھنوں  سے باری   باری اسی طرح مشق   کی جائے۔   پھر دونوں  نتھنوں   کے ساتھ  دم  زور  سے کھینچا  جائے۔  اور  جس   قدر عرصہ تک ہوا    پھیپھڑ  وں میں قید    کی جا  سکے۔  قید  کی جائے۔  اور وہاں  سےاپنی مرضی  کے موافق  جسم کے  اندرونی   اعضا   کی طرف  اتاری  جائے   یا  مغز  کے  بیچ   میں   چڑھائی جائے۔

ہندو لو گ  ہوا  اور روح  کو ایک  ہی قرار  نہیں دیتے   ۔ ان کا یقین  یہ ہے۔  کہ کھوپڑی  کے اوپر   ایک شگاف   ہے اور موت  کے وقت    روح   اسی رستے    نکل جاتی ہے۔  اور اس لئے  موت کے وقت یوگیوں   کی کھوپڑی  کو  پھوڑ   دیتےہیں۔   تا کہ  روح آسانی  سے نکل  جائے ۔ اور  شریر   آدمی  کی روح کہتے ہیں۔   کہ بدن  کے نچلے  سوراخ  سے نکلتی  ہے۔

جس  قدر ہوا سانس  لینے  کےلئے درکار  ہے۔ اس سے زیادہ   ہوا  اندر  کھنیچنا  ۔ اور بدن میں اس  کو  قید  رکھنا   دم سدہ  کرنے  میں نہایت    ضروری  ہے۔ کہتےہیں کہ   ہندویوگی  ایسی مشق  کے ذریعہ   سے پانی  کے اندر   جی سکتے  ہیں۔ یا  رزمین  میں مدفون   ہو کر بہت عرصہ تک زندہ  ر ہ سکتے ہیں۔   ۱۸۳۷ء   میں مہا راجہ  رنجیت    سنگھ۔  اور سر کلو  ڈو ید صاحب  بہادر ۔  اور  ڈاکٹر   کمگریگر  کے رو برو   ایک ہندو یوگی  اپنی درخواست   پر ایک تہ  خانہ   میں زندہ   دفن  کیا گیا ۔  اور چالیس  دن اس میں رہا ۔  اس کے کان   اور آنکھیں  اور بدن  کا ہر ایک سوراخ   موم کے ڈاٹ   سےبند کیا گیا۔   اور  چالیس   دن اس  میں رہا ۔   اور اس بات  کی خوب  نگرانی  کی گئی۔  کہ دھوکے   بازی نہ کی جائے۔  دن اور رات برابر   اس جگہ مہاراجہ  رنجیت  سنگھ   کے حکم   سے پہرا   مقرر  ہوا ۔  چالیس    دن کے  بعد وہ  باہر نکالا گیا ۔ بدن  لکڑی  کی طرح سوکھ   گیا تھا۔ اور زبان   حلق  کی طرف الٹ   گئی تھی۔  اور ایک سینگ   کے ٹکڑے  کی مانند   ہو گئی تھی۔  اس کےچیلوں  نے رفتہ  رفتہ اس کی سابقہ   ہدایتوں  کے موافق   اس میں  زندگی   بحال  کی۔ یوگی  نے ان  سے کہا کہ  میں اور یوگیوں  اور سنتوں  کی سنگت   میں با  ہو ش رہا ۔  ٹھیک   نہیں کہا  جا سکتا ۔  کہ اس  میں کہاں تک   دھوکے   بازی ہوئی   تھی۔ اور عوام   کے لئے  اور خاص  کر ان کےلئے   دھوکے   کی گرفت  کرنا  مشکل  ہے   ۔ جن کو   اس قسم   کے ہنر  میں  دخل  نہ  ہو۔   جیسا   ہم  خود   مداریوں   کو دیکھتے  ہیں۔ کہ وہ ایسے تماشے   نہایت  چستی    کے ساتھ کرتے ہیں۔   کہ لوگ  حیران  رہ جاتے ہیں۔ نہ ان کی  چالاکی  اور نہ  لاگ(جادو  ۔منتر)  پکڑی  جا سکتی   ہے۔

پانچویں  ذریعہ   میں یہ   خوبی  بتلائی  جاتی ہے۔  کہ حواس  کو  چیزوں  کے حس  کرنے سے ہٹانا   ایسا ہے  جیسا کچھوا  اپنے  اعضاء   کو اپنے اندر  کر  لیتا ہے۔

چھٹا  ذریعہ  یعنی  چت   جمانا۔   اس میں یہ  بات شامل ہے۔ کہ سوچنے  کی قوت   ( یعنی   چت )   کو جسم کے مختلف   اعضا   کی طرف   لگانا  ۔  مثلاً  دل کی طرف   ۔ یا سر کے چاند  کی طرف  یا  قوتِ    ارادہ  کو دونوں  بھنوؤں  کے درمیان کے میدان  پر قائم  کرنا۔   یا آنکھوں  کو خوب  غور  سے ناک  کی نوک   پر لگانا ۔  (دیکھو   بھا گوت   گیتا   ۶: ۱۳)۔

    ساتویں اور آٹھویں  ذریعے  یعنی  باطنی  سوچ   نفسی   یعنی اپنے آپ پر  دھیان  جمانا جب  چھٹے   ذریعے  کے ساتھ عمل  میں آئے۔  تو نہایت   ہی فائدہ مندہے۔  کہ  اس طور سے فوق  العادت(عادت سے بڑھ کر ۔بساط سے بڑھ کر)  طاقتیں   حاصل  ہوتی ہیں۔  جن میں  سے یہ مشہور   ہیں۔ یعنی  ۔

۱۔  آنی مان یعنی بدن  کو ایک ذرہ  کے برابر   کر نے کی طاقت ۔

۲۔ مہی  مان یا گزی مان  ۔ قدیا وزن  کو اپنی مرضی   سے بڑھانا ۔

۳۔  لگنہی مان یعنی  بدن   کو اپنی مرضی  کے موافق  ہکار   کر لینا۔

۴۔ پر اپتی یعنی   کسی چیز  یا جگہ   کو پہنچنا  ۔ یا چھونا  ۔ خواہ   بظاہر    کتنی دور ہو ۔

۵۔ اشٹو ا  یعنی   اپنے اور دوسروں کے اوپر  اختیار   مطلق   حاصل  کرنا ۔

۶۔ وشی   ٹا یعنی عناصر  کو تابع  میں لانا۔

۸۔  کا  ماوسیتا  یعنی تمام  خواہشوں کو قابومیں لانے کی قدر ت ۔

جو گی  جس نے یہ قوتیں  حاصل   کی ہیں وہ فلک  کی طرف  اونچا چڑھ  سکتا ہے۔  اس پلا ڑ میں   اُڑ  سکتا ہے۔  دروازے  کے سوراخ میں گذر  سکتا ہے۔ سیاروں  اور ستاروں  کے بھیدوں  کو جان سکتا ہے۔ طوفان  اور بھونچال لا سکتاہے۔ جانوروں  کی  بولی   سمجھ سکتا  ہے۔ جو کچھ دنیا  کے کسی حصہ  میں گذرتا  ہے  معلوم  کر سکتا ہے۔  اپنی موجودہ  زندگی  کو دراز  (بڑھانا)کر سکتا ہے۔ گذشتہ  اور آئندہ   میں دیکھ   سکتا ہے۔ دوسروں  کے خیال  دریافت    کر سکتا ہے۔ جس شکل   کا چاہے   بن سکتا ہے۔ غائب  ہو سکتا  اور پھر  نظر آ سکتا  ہے۔ اور رکایا   بدل سکتا  ہے۔

ملک تبت    میں  اب بھی ایک  مدرسہ  ہے جہاں یوگ  مت کی تعلیم  دی جاتی ہے۔ اور براہمنوں   کے خیالات  بھی ایسے  ہی ہیں۔ کہتےہیں   کہ رشی  شنکر اچاریا  کو یہ شکتی   حاصل تھی ۔ کہ وہ ایک راجا   کی لاش   میں  داخل  ہو گیا ۔  اور کئی  ہفتوں تک اس   میں رہا۔

اور تبت    کے مہاتموں   کو بھی کہتے ہیں کہ ایسی   قوتیں   حاصل ہیں۔ کر مل الکاٹ اور مسند  بسنٹ  ان ہی مہاتہموں   کے واعظ  بنےہیں۔

پس اعلیٰ   علم حاصل   کرنے کےلئے  ایشیاء   کے ایک بڑے حصّہ  میں اس قسم   کی ورزشوں  کا خیال  و رواج  پڑا  ۔ اس کو  ہم اعلیٰ علم    حاصل  کرنےکےلئے  ایک قدرتی   طریقہ کہہ  سکتےہیں۔   جو آسمانی  طریقہ  نہیں کہا  جاسکتا ۔ اور اسی لئے وہ لوگ   الہام  ِارواحی  کے خیال  میں پڑے  ہیں۔   اعلیٰ  الہام   کی پروا نہیں کرتے۔ اس کی تحقیر   کرتےہیں۔  مگر ہمارا   کام ہے۔ کہ ان   کو منوائیں ۔  کہ اعلیٰ   الہام  سچ  ہے۔  اور یہ  اکتسابی   الہام  (ذاتی محنت سے حاصل کیا ہوا لہام)اگرچہ    سچ   بھی ہو۔  تو بھی الہٰی   الہام  کو ضرر  (نقصان)نہیں پہنچا  سکتا ۔  اور اس کی  مذکورہ  تحصیلات  ہمار ی روحانی   زندگی  میں کچھ   پہنچا  سکتا ۔  اور اس کی  مذکورہ   تحصیلات    ہماری  روحانی زندگی   میں کچھ  مدد نہیں   دے سکتی  ہیں۔   دنیا   میں ہنر   بہت قسم   کے ہیں بازی    گر ہیں۔ نٹ  ہیں ۔  سرکس والے ہیں  ۔   مداری ہیں۔ ایسا ہی  ہنر یوگ  بھی ہو گا۔  یورپ میں۔  سپری جو الزم  کا چرچاہے۔  اورجس نے یوگ   کی ورزش  کی ہے وہ ارواح   سے کلام  کر سکتا ہے۔  اور ان  کو قابو بھی  کر سکتا ہے۔ اب ذرا   یہودیوں   کے الہام   ارواح کا  حال   سُنا  چاہیے ۔ یہودیوں  کی احادیث   طالمود  سےڈاکٹر   الفر  ڈایڈر شائم جو قوم  یہود  میں سے مسیحی   ہوا ہے اپنی   کتاب  تواریخ  Life and Times of Jesus the Messiah  جلد دوم کے ضیمہ   ۱۳، ۱۶ میں ربی  لوگوں  کے خیالات  تحریر  کرتا ہے۔ جو بھلی اور   بُری ارواح  کی بابت  تھے۔ ذیل  کا بیان   میں اسی   کتاب  سےاقتباس  کرتاہوں۔

عموما ً   یہ گمان  کیا جاتا ہے۔ کہ بدروحیں  ( شیدیم  ) پانی   پر یا کسی   اور چیز  پر  جو رات  بھر ننگی   ۔ یابن   ڈھنکی  رہی ہو ہوتی   ہیں۔ اور ہاتھوں   پر ہوتی  ہیں۔  جب عبادت  سے پہلے بن دھوئےہوتے ہیں۔  ( غالباً  اسی خیال  سے یہودیوں  میں وضو   کا رواج   پڑ گیا ۔  اور ان سے محمدصاحب  کےپیرؤں  میں) اور اس پانی میں ہوتی   ہیں جس  میں ہاتھ  دھو ئے جائیں۔   اور روٹی  کے ٹکڑوں   پر  ہوتی ہیں۔ جو فرش  پر  گرے  ہوئے ہوں۔  جو کچھ نبیوں   اور  زمانہ   کے بزرگوں نےکیا تھا۔  بدروحیں   اس سب کی نقل کر سکتی ہیں۔   یا وہی کام  کر سکتی ہیں ۔ مصر  کے جادو  گروں  نے بدروحوں  کی طاقت  سے موسیٰ   کے معجزوں  کی طرح معجزے  کئے تھے۔  ہمارے  خُداوند  کے زمانہ   میں بدروحوں   پر ۔ اور ان  کو کام  میں   لانے کی طاقت   پر ایسا عام   یقین  تھا۔ کہ یوسیفس   مورخ  بھی مدعی   (دعویٰ کرنے والا)اس بات   کا  ہوا  کہ بدروحوں  کو جادو  سےبلانے۔  اور  نکالنے  ۔ اور جادو  کے ذریعہ  سےعلاج کرنےکی قدرت   حزقیاہ   بادشاہ سے شروع   ہوئی  تھی ۔ اور  اس کو خُدا نے  بخشی تھی۔ یوسیفس  جادو کے منتر  کے ذریعہ  سے  شفا یابی  کی ایک نظیر   (مثال)دیتا ہے۔   جو اس نے خو دیکھی  تھی۔ اس  اعتقاد  سے اس بات  کی تشریح  ملتی    ہے۔ کہ کیوں   فقیہوں   نے ہمارے خُداوند  کے معجزانہ  علاجوں کو شیاطین کی مدد  سے کہا تھا۔

بدروحوں  کا زور  کل   جفت عددوں  پر پہنچتا  ہے۔ اس لئے اس  کی بابت  بڑی   چوکسی   کی جاتی  تھی۔ کہ سوائے  عید   فسح   والی رات  کے اور کسی   وقت   جفت   تعداد   کے پیالے  نہیں پیئے  تھے۔

یہ کا لا ہنر ۔  یعنی  جادو گر ی ۔  یا ٹونے  بازی   دو طریقے  سے کی  جاتی تھی۔ یعنی  بدروحیں  کے ذریعے  سے۔  یا دیگر   جادو  وانے ذریعوں  سے ۔ طالمود  میں کئی  قسم  کے   جادوگروں کا بیان ہو ا ہے۔

۱۔ مُردوں کو  جادو سے بلا نا   اور یہ پاؤں اوپر   اور سر نیچے کے ہو  ئے نظر آتے تھے۔  سبت  کے دن اس  جادو   کی ممانعت تھی۔ بدروحیں  ایک قسم  کی خوشبو  سے بلائی جاتی  ۔ اور پھر  ان سے جادو میں  کام لیا جاتا تھا۔

۲۔    ایک اور قسم   جادو گروں  کی وہ  تھی۔   جو ایک قسم   کی ہڈی   منہ میں لے کر  غیب گوئی   کرتے تھے۔ 

۳۔  سانپ کا منتر  پڑھنے  والے تھے۔

۴۔  بھلے    اور بُرے     شگن   بتلانے   والے تھے۔  پھر وہ لوگ  جو قبروں  پر جا کے روزہ  رکھتےتھے۔   تا کہ کسی بدروح  سے ہم کلام  ہو ں۔

بہت  بیماریاں  جادو  کے ذریعہ سے مانی جاتی تھیں۔ اور  ان کا علاج  بھی جادو  کے   ذریعہ۔   یا جھاڑ پھونک  سے کیا جاتا  تھا ۔کئی ایک  چیزیں بھو توں  ۔ یا بدروحوں کے باعث   خطر  ناک بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ ہے۔ یعنی   دو  کھجو ر   کے درختوں   کے درمیان   سے گذرنا  ۔  اگر  ان کا درمیانی   فاصلہ  چار ہاتھ  سے زیادہ   ہوا ۔ دوسرے اس پانی پر سے  اُلا   نگھنا   جو بہا یا  گیا ہو۔  اگر اس پر   مٹی نہ ڈالی  گئی ہو۔ یا  اس  پر تھوکا  نہ گیا  ہو۔ یا پاؤں  سےجوتی  نہ اُتاری  گئی ہو۔   تیسرے   پینے کا پانی   مانگنا  ۔ یا ا دھارلینا۔  اسی طرح چاند  کا سایہ ۔ اور بعض   درختوں  اور اشیاء  کا سایہ خطر ناک ہے۔ اس لئے  کہ بدروحیں   ان میں چھپنا   پسند  کرتی ہیں۔

بہت قسم  کے جادو   والے علاج  بیان کئے گئے ہیں۔  اور وہ یہی ایسے نا  معقول  اور بےہودہ  ذریعوں  کے استعمال  سے جو مرض  پر کسی طرح   اثر نہیں کر سکتے  ۔

۱۔  تعویذوں  کا بڑا  رواج  ہے کیا  اس بات  میں بھی محمدیوں  کا یہودیوں  کی رسومات  کے   پیرو   ہونا  ظاہر  نہیں ہے؟  یہ بیماری   کو روکنے  کے واسطے    یا شفا  کےلئے ہوتے تھے۔ چمڑے  کے کاغذ   کے ٹکڑے  پر الفاظ  سحر   (جادو)لکھتے   تھے۔ ان  بد روحوں   کے نام     اور تعداد  اس پر لکھے جاتے تھے۔ جن  کی تاثیر   کو روکنا   منظور   ہوتا تھا۔   بعض   وقت  تعویذ   پر بائبل کی کوئی آیت  لکھی  جاتی تھی۔  اور دیگر  الفاظ  جو لکھے  جاتےتھے۔ اکثر    بےمعنی ہوتے تھے۔

لیکن  وہ جو علم سحر  (جادو)میں دخل  رکھتے تھے۔  وہ ان  کے پوشیدہ  مطلب  کو سمجھتے تھے۔

۲۔  جھاڑ پھونک  کرنا  ( پنجابی   میں جھاڑ   ا کرنا   کہتے ہیں اور  اس   کاہندوؤں   ۔ اور مسلمانوں  میں رواج  ہے ۔ بدروحوں  کے برخلاف   جھاڑ   پھونک   کرنے کا  یہ منتر   ہے۔ شیر   کے سر پر   اور شیرنی  کی   نتھنے    میں میں  نے بدروح  بر شریفہ پرند   ہ کو پایا۔  اور اس  کو  گدھے   کے جبڑے  سے مارا ۔

نظر لگنے   کو روکنے  کےلئے  کہا جاتا ہے۔  کہ دہنے   ہاتھ  کا انگو ٹھا بائیں ہاتھ میں لینا۔  اور یہ کہنا   چاہیے  کہ میں م ن   یوسف    کے گھرانے  کاہوں   جس پر بُری  نظر کا   کچھ  اختیار   نہیں ہے۔ پھر دو  جادو   گرنیوں   کے درمیان   سےگذرتے   ہوئے یوں  بولنا   چاہیے  کہ  آگرتھ۔   ازملہتھ ۔ آسیا ۔  بلو  سیا تیروں  سےمار  دئیے  گئے ہیں۔ تیل   کی  بدروح چہرے  پر پھوڑے   پیدا کرتی ہے۔   لیکن یہ  خطر ہ  دور   ہو جاتا ہے ۔ اگرتیل  ہتھیلی   میں ڈال   کر استعمال  کریں۔  نہ کہ کسی برتن  سے۔

اس بیان سے ظاہر   ہے۔ کہ یہودی   لوگ بدروحوں  کے زور و تاثیر  کو مانتے تھے۔  اور اپنی  افسوس  گری (جادو گری)سے  ان کے حملوں  کو روکتےتھے۔ اور زیادہ  علم اور قدرت  کے کام کرنے  کے لئے  ان کو منتروں  سے بلا  لیتے تھے۔  اور یوں  وہ لوگ  توریت   اور انبیاء   کی ہدایتوں  کے برخلاف  چلتے   اور مانتے تھے۔  بلکہ  اس علم  اور قدرت  کے علاوہ  جس کا بائبل   میں کافی  طور سے  الہٰی   کشف  ہو چکا تھا۔  زیادہ   علم  حاصل   کرنے کے لئے  کشف  ارواحی   کے معتقد(اعتقاد)   ہو گئے۔  اور تعجب  نہیں  ۔  کہ کشفِ  ارواحی  کی بعض  باتیں   صحیح   ہو جاتی  ہوں  گی۔ جیسا   کہ آج  کل   کے غیب  گوؤں   کی کوئی نہ کوئی  بات سچ ہو جا تی ہے ۔  اور جھاڑپھونک   درست   آتے ہیں مگر   یہ کشفِ  شیطانی کشفِ  الہٰی    کو باطل(جھوٹ)   نہیں کر سکتا  ۔ اور نہ کشف   شیطانی  کے جو از  کے لئے دلیل   ہو سکتا ہے۔

بڑا  نقص   اس الہام   میں یہ ہے کہ  خُدا  کی طرف  سے بےا یمان  کرنے والا  ہے۔ یہودیوں  میں اس بات کا عتقاد  زیادہ  تر  فارسیوں  کی صحبت   سے  ہوا تھا ۔

تیسرا   طریقہ  کشف(غیب کی باتوں کا اظہار)  ایک اور طریقہ  کشف  ہے۔ جو ہندوؤں   کے و یدانت  سے  نسبت   (تعلق)رکھتا  ہے۔ اور مسلمانوں  میں اس کا  برتاؤ  ہے۔  اس  کو تصوف(دل سے خُواہشوں کو دور کرکے خُدا کی طرف دھیان لگانا)  کہتے   ہیں ۔ جس  کے معنی حکمت   کے درویشوں   کا طریقہ ہے۔   سیل صاحب اس    کے اصول  اور ریاضت (محنت ۔کوشش)کا احوال   یوں بیان   کرتےہیں۔  کہ اصل   مقصد   اور انجام   انسان   کی زندگی  کا یہ ہے۔  کہ اپنی ہستی  کو  بحر معرفت ِالہٰی میں   غرق  کر دے جیسے  پانی کا  بلبلہ  کہ دریا  کے کنارے   پر اُٹھتا  ہے اور دم    بھر میں غائب  ہو جاتا ہے۔

اگر صوفیوں  کے طریقہ  کے موافق   کوئی  طالب  معلومات   حاصل   کرنا چاہتا  ہے ۔ تو درویشوں  کے متعدد  مسالک  میں سے ایک  کو اختیار  کر تا ہے۔  اور مرشد   سے مناسب  ہدایت   پانے کے بعد   طریقت  میں  داخل ہوتا  ہے ۔ پھر اسےسالک  یعنی   اس راہ   پر چلنے  والا کہتے ہیں ۔ سالک   کا کام   سلوک  ہے۔ یعنی   صرف ایک خیال میں معرفت    الہٰی   کے محو  ہو جائے ۔( اس  کے ساتھ  ناظرین ویدانت   اور یوگ مت کا بھی خیال رکھیں۔   کیونکہ   تصوف  میں اور ان  میں فر ق  نہیں ہیں)۔

اس راہ   میں آٹھ   منزلیں  قطع(کاٹنا)  کرنی پڑتی ہیں۔   (یوگ   مت  کے آٹھ  ذریعوں  کا بھی دھیان  رکھنا )۔

۱۔  خدمت  ہے۔ اس میں خُدا  کی بندگی اور  احکام   شرع کی پابند ی  لازم ہے۔  کیونکہ   ابھی شریعت  کی قید  سے  آزاد   نہیں ہو تا  ہے۔

۲۔  عشق   ہے۔ یہ بھی ایک  ذو معنی   لفظ  ہے۔  کہتے  ہیں کہ جب   سالک مقام   ِعشق   میں   پہنچتا  ہے۔ تو تاثیر   ِالہٰی   سےاس  کی روح اس  قدر   متاثر  ہو جاتی ہے ۔ کہ دل  سے خُدا  کا عشق   رکھتا ہے۔ 

۳۔ قناعت ۔ جب   عشق   سے دنیا  کی تمام   خواہشیں  دُور   ہو جاتی ہیں۔  تو اس مقام   پر پہنچتا   ہے۔ اور تصوف   (صوفيوں کا عقيدہ)کے جو کچھ   دقیق  تر(مشکل ترين) مسائل   ذاِت   الہٰی   کی نسبت  ہیں۔  ان کے  سوچنے  میں وقت   صرف  کرتا ہے۔ یعنی   اس مقام  پر پہنچ کر   تصوف   کے معین   قاعدوں   (مقررہ  قانون)کے موافق   خُدا کا  تصور  باندھتا  ہے۔

۴۔ معرفت  ۔ مقام  سابق   کا  تصور ۔  اور ذہنی  فکروں  سے خُدا کی ذات   و صفات  وغیرہ   کی تحقیق  اسے عارف(ولی) کے مرتبہ  پر پہنچا   دیتی ہے۔ عارف  کے معنی پہچاننے والا۔

۵۔ مقامِ  وجد (بے خودی کی حالت)ہے۔  دقیق(گہرے)   مضامین   پر متواتر   ذہنی  رغبت(خواہش)  کا موجب (واجب) ہو کر ایسا   ولولہ  خوشی   کا پیدا کرتا ہے۔ جو خُدا  کی طرف دل  کے منور  ہو نے کی  علامت   سمجھی   جاتی ہے۔  اس کیفیت   کو حال  اور  وجد  کہتے  ہیں۔ اس منزل   کی رسائی  بڑی   نعمت  ہے۔ کیونکہ   دوسرے   مقام کا  یقینی  داخلہ  ہے۔

میں اس بات  کا بیان  کرتا ہوں۔ کہ مقامِ  وجد  کی حالتیں   ہم نے بھی دیکھی  ہیں۔  اور ناظرین   میں سے   بھی   بہتیروں   نے دیکھی   ہوں گی ۔   جہاں  کسی بڑے  فقیر   کی خانقاہ  ہے۔ وہاں   میلے  لگا کرتے ہیں۔  اور پیر  مرید جمع    ہوتے ہیں۔   ڈھول    (چو ہڑوں   میں ربا نہ اور دو تارہ )  بجتا  ہے اور کوئی  کافی   وغیرہ   گاتے ہیں۔ سنتے  سنتے بعضوں  کو حال(بے خودی کی کيفيت)  آنے لگتا ہے۔  اور گھنٹوں  سر گھماتے  ۔ اور ہلاتے  رہتے ہیں۔  جب   حال  اتر جاتا  ہے تو ایسے   نظر آتے  ہیں ۔  کہ نہ وہ معرفت   رہی ۔  اور نہ وہ وجد ہی رہا۔  جیسے تھے۔  ویسے   ہی ہو جاتے  ہیں۔  نو شاہی فقیروں  ۔ اور ان  کے چیلوں  میں اس  قسم  کا شغل   خاص کر ہوا کرتا ہے ۔ الحق   الحق  منہ   سے  دفعتاً   بول  دیا کرتے  ہیں۔ محمدیوں  میں تصور  اور ہندوؤں  میں دھیان  کے لئے کونڈا  (پرات)ڈنڈا  خوب چلتا ہے۔ اور یہ ضرور  اس  لئے کرتے  ہوں گے ۔  کہ منشی  اشیاء  (نشے والی  چيزوں )کی مدد سے   آنکھیں  بند ۔ یا پریشان   اور سربزانو(سوچ ميں ۔شرمندہ)نظر   آئے  ۔ اے لوگو ں سے  کیوں  دھو کا   کھاتے ہو ؟

 ۶۔ حقیقت۔   اس  وقت  میں سالک   (راہ چلنے والا)پر خُدا  کی حقیقت   کھل جاتی  ہے۔ اور اب   وہ اس چیز   کی حقیقت   سیکھتا  ہے۔ جس  کی   جستجو  (کوشش)میں اتنی   مدت   سےمصروف   ہے۔ یہ  سلوک   کا اعلیٰ  مقام ہے۔

یہی سبب ہے کہ امرتسر   والے مباحثے   میں مرزا   غلام  احمد  صاحب  پر بھی خُدا کی  حقیقت   کھُل   کُھل   پڑتی  تھی۔ جو اپنے  کشف  (الہام)کی طرف    اشارہ   کرتےتھے۔   ان کی  تقریر  سے ظاہر    ہو تا ہے۔   کہ وہ  اس  مسئلہ   کے قائل  ہیں۔ شاید  فنانی اللہ   آپ کا   اعتقاد   نہیں ہے۔  کیونکہ رضا الہٰی   کا کبھی کبھی  چرچا  کیا تھا۔

۷۔ وصل ہے۔  خُدا سے ایک دروازہ   تھا۔ جس کی  کنجی   میں نے  نہیں پائی تھی۔  ایک حجاب (پردہ)حائل  تھا۔  کہ  میں دیکھ  نہیں سکتا  تھا۔ سالک   اس منزل  سے آگے  نہیں بڑھ  سکتا  ۔ اور بہت تھوڑے   ایسے اعلیٰ  مقام  پر پہنچتے  ہیں۔

( یہ  قاعدے   ہر  ایک   کے واسطے  متصور    (تصور)بھی  نہیں   ہیں۔ صرف  کا م  چور ، کاہل  وجود  ایسے شغل   پسند کر  سکتےہیں۔  یا  جیسا   پادری  سیل  صاحب  لکھتے ہیں۔  کہ آغاز   ِاسلام   میں صوفیوں  نے شریعت    کے سخت   احکام  کی پابند ی   سےآزاد  رہنے  کو یہ طریقہ   اختیار  کیا تھا۔

۸۔  مقام فناہے۔  طالب(اُميد وار۔چاہنے والا)   تمام   جستجو   کے بعد ۔ اور سالک تمام   دشوارگذار ر ا ہوں(مشکل راہوں) کو طے  کرنے  کےبعد جب  پردہ  اُٹھا   دیکھتا  ہے۔ تو کچھ   نہیں پاتا ۔  افسوس  کا مقام   ہے ۔ کیونکہ   ساری  محنت  سے آخر  فنا  حاصل ہوئی ۔ بدھ  مت  اور ویدانت  کا بھی  آخری   مقام یہی   ہے۔

 عقائد  اسلامیہ  ۔ تیسرا  با ب 

بعد  اس کے سیل  صاحب   نے ایک مبتدی(ابتدا کرنے والے) کا  حال لکھا  ہے ۔ کہ وہ کس طرح  فقیروں  میں داخل  ہوا۔ اور کس  طرح  کی مجاہدی(جان فشانی کرنے والے) اور   اشغال  اس کو کرنے  پڑے ۔  حتی   کہ شیخ    مولا  شاہ نے فرمایا ۔  کہ  رو برو  بیٹھ  کر میری صورت کا تصور   باند ھ ۔ اور اس  کی آنکھیں  بند کر کے حکم دیا۔   کہ اپنے  کُل خیالات   کو  مجھ پر  رجوع  کر ۔ اس کے بعد طالب   تو کل بیگ   نے اقرار کیا۔ کہ شیخ   کے فیض  باطن  (نيک دل )سے میرا دل  کھل گیا ۔   اور مولا شاہ نے کہا۔   کہ اب تو  عالم ارواح  کی سیر  تجھے  خوب  کروا دی ۔ یہ اس لئے  کہا  ۔  کہ عبدالقادر  جیلانی  کا نورانی  پیکر  اس کو نظر  آیا تھا۔   دوسرے    روز  تو کل بیگ   نے نبی کو ۔   اور  ان کے اصحاب   کو ۔ اور اولیا۔  اور ملائک(فرشتے) کو دیکھا۔ یہ   وہی بات  ہے۔ یا مثل  اس کے ہے جو یہودیوں  میں مُردوں  کی روحوں سے ہم کلامی    تھے۔  اور شیخ   نے کہا کہ اب تُو وصل   کے مقام پر پہنچ  گیا ہے۔ 

اگر یہ گپ   نہیں ہے۔ تو ایسی باتوں  کی صداقت(سچائی)  کا کیا ثبوت  ہے۔  کیا  اسی  کشف ِ  ارواحی  کے واسطے  اہلِ تصوف   ایسی جدوجہد  کرتے اور  اپنی اپنی  خاص   قسم  کی ریاضت  بدنی  اور عقل سے اس کو حاصل  کرنا چاہتے  ہیں؟

اس موقع پر میں سویڈن  برگ   کے کشف   کا بیان کرنا  مناسب سمجھتا ہوں۔  تا کہ معلوم  ہو ۔ کہ سارے الہام   اور کشف   جو ماسوائے   ُروح  القدس  کے ہوتے ہیں۔ اور فقط    بعض  چيدہ  رسولوں   اور نبیوں   کو خاص  مطلب  کے لئے ہوئے  تھے۔ نہ   کہ اپنی اپنی دل لگی  کے لئے ہوئے تھے۔  اور سارے کشف   ارواحی  باہم  جوتا پیزار  (جوتی)کی نوبت  پر ہیں۔    سویڈ ن  برگ   یاد رہے کہ یہ  مشہور  شخص  خود اپنی مکاشفہ   یابی   کا مدعی (دعویٰ کرنے والا) تھا۔   ملک  سویڈن    کا  رہنے  والا۔  اور شہر   سکر ا کے بشپ  کا بیٹا تھا۔  اُپسل  کی یونیورسٹی   میں اس نے  نہایت    اعلیٰ   درجہ  کی  علمی  لیاقت   (قابليت)حاصل کی۔ اور بہت سی کتابوں  کا مصنف   ہے۔   ۱۷۴۳ء   میں جب اس کی عمر   پچیس  برس کی تھی۔  اس کا باطن کھل    گیا تھا ۔  کہ روحانی   عالم کی چیزوں  کو دیکھے ۔ اور عالم   ارواح   کی  سیر تیس   برس تک  کرتا رہا ۔ اور  اس عرصہ میں خُدا  کے کلام  کے  روحانی   معنی بتلاتا  لکھتا  رہا  ۔ اور  یہ بھی  اس کشف(الہام)  کی مدد سے   جو خُدا نے   اس کو عطا کیا۔  بہتیرے  لوگ   اس کے خیالوں  کےمعتقد(اعتقاد رکھنے والے)  ہیں۔

سویڈن  برگ نے روحانی   عالم میں تین آسمانو ں کو دیکھا  ۔   اور ان کا بیان  کیا ۔ جن کے سارے  باشندے  خُداوند  یسوع  مسیح  کو خُدا مانتے  ہیں۔ اور پاک   نوشتوں  کو خُدا کا  مکاشفہ   مانتے    اور ہر بات  میں خُدا  کے حکموں  کی تعمیل   کرتے رہتے ہیں۔ اس  نے ان  تین بہشتوں  کے سامنے تین  اور گروہ   دیکھے۔ جن کو وہ   دوزخی  کہتا ہے۔  جو خُداوند   یسوع   مسیح کی الوہیت(خُدائی)    کا انکار  کرتے اور پاک نوشتوں  کو نہیں مانتے ۔ اور ہر  بات  میں   خود غرضی سے کام   کرتے ہیں۔   بہشت  اور دوزخ  کے درمیان   اس نے عالم  ارواح  کو دیکھا۔  جو ان  سب  کے رہنے  کی جگہ ہے۔ جو اس دُنیا سے  جاتے ہیں۔ جہاں وہ ترقی  کرتے  یا ابتر  (بد حال)ہوتے ہیں۔  اور  پھر بہشت  یا دوزخ  میں جاتے ہیں۔   اس عالم میں جھوٹی  اور فریب  دینے والی  روحیں   بہت ہیں۔  جو خُداوند   کا انکار  کرتی ہیں۔   اور  پھر کہتا ہے۔ کہ بہتیرے  اس بات   کا یقین    کرتے ہیں۔    کہ ارواح   کے ساتھ انسان  کو ہم کلام   کروا  کے خُدا انسان  کو تعلیم دے سکتا ہے۔ لیکن    وہ جو اس بات کو مانتے  اور اس  کی  آرزو (خواہش)کرتے ہیں۔ وہ اس کے خطرے   سے آگاہ   نہیں ہیں۔  ایسے ہی تھے قدیم  زمانہ   کے غیب  داں   اور مصر اور بابل  کے جادو  گر  جو ارواح  کےساتھ  ہم کلامی   کے باعث   اور اپنے اوپر  ان کے اثر   کےسبب  اپنےتئیں  دانا غیب  گو سمجھتے تھے۔ اور ارسطو   سے خُدا  کی عبادت   شیاطین  کی عبادت سے بدل گئی۔ اور اسی لئے  بنی اسرائیل  کو ارواحی ہم کلامی  کی ممانعت  کی گئی تھی۔

اب ناظرین  کو میں یہ   بتانا چاہتا  ہوں۔   کہ  میں نے سویڈن  برگ   کے خیالات   کو اس لئے پیش نہیں  کیا۔   کہ میں ان   کو الہامی  مانتا ہوں۔   سو نہیں   اس کے الہام   کی بابت   میں یہ کہوں گا ۔   کہ جس طرح جان   ملٹن   مشہور   انگریزی   شاعر   نے آدم   و حوا   کے مختصر   احوال   پر جو موسیٰ  نے قلمبند  کیا ہے   تصور  باندھا ۔   اور پارا   ڈائنیر  لاسٹ  لکھی۔  اسی طرح عالم  ارواح  اور بدروحوں  کی تاثیر   جس کا  عہدِ عتیق   اور جدید  میں ذکر  ہو ا ہے۔ اس پر سویڈن  برگ  نے تصور   باندھا  ۔ اور خیالات  نے پروازی (فخر)اختیار  کی ہو گی ۔   اور اس  کو خود    یہ یقین  ہوا  ۔ کہ مجھے ان  باتوں کےلئے  کشف  ہو رہا ہے ۔  یعنی ویسی  حالت   میں پڑ گیا   ہو گا۔  جس  کو اہل ِتصوف  وجد   کہتے ہیں۔   ایک   فرق   ہے کہ  سویڈن   برگ   اس کشف   کو اپنے اوپر  ختم  کرتا ہے۔ اور اہلِ  تصوف   کشف  کےلئے  کسب(کام) کرتے ہیں۔   جیسے  ہندوؤں  میں یوگ   مت  والے کرتے  ہیں۔  اور خلق   خُدا  کا  ایک بہت    بڑا  حصّہ ان کا  اب تک معتقد( اعتقاد رکھنا) ہے۔

غیب  گوئی  کے اور طریقے   رمل،  اور فال   اور سرودا اور جو تش  ہیں۔  جن میں سے   موخزالذکر(جس کا ذکر بعد ميں آئے)    کا  دو  شخصوں  نےمیرے   سامنے   دعویٰ   کیا۔ اور بار ی باری   دونوں  نے تھوڑے   عرصہ  میں یعنی   دو دو مہینے     کے عرصہ میں اپنے اپنے علم کا   مجھے تجربہ   دکھایا۔  جو تش   والے نےمیرے ایک کام   میں ناکامیاب    ہونے  اور سخت  دکھ پانے  کی خبر دی ۔  اس کےوقو ع میں آنے  سےپہلے  دوسرے نے اسی قسم  کی خبر  دی ۔   اس کے وقوع   میں آنے  سے پہلے  دوسرے  نے اسی  قسم  کی کامیابی   اور خوشی   کی خبر  دی ۔ پہلے   جو تش والے    کی پیشین گوئی  پوری   ہوئی۔  اور بعد   اس کے سرودا والے کی۔  وہ دونوں  شخص   ہنوز(ابھی تک)   زندہ   ہیں۔  اگر وہ دونوں  شخص  اپنے اپنے   علم کا  ذریعہ   مجھ سے   چھپاتے ۔  اور بجائے  اس کے یہ کہتے  ۔ کہ ہمیں  تمہاری   نسبت خُدا کی  طرف  سے   یہ کشف(ظاہر)   ہوا ہے۔ اس لئے ایک جو مسلمانوں  تھا کہتا ۔ کہ تم اسلام   کی صداقت  کو  مان لو ۔ کیونکہ  مجھ عیسائی  نے سچی    غیب  گوئی کی تھی۔ اور دوسرا  کہتا ۔   کہ  وہ جھوٹا  ہے  تم  عیسائی   رہو۔   کیونکہ   مجھ  عیسائی   نے سچی    خبر دی تھی۔  تو ناظرین  بتلا  دیں   کہ میں کیا کہتا  ۔

مذکورہ  ساری  تدبیروں  کی بابت  میرا  یہ  اعتقاد(يقين)  ہے۔  کہ  ساری غیب   گوئیاں    جو ہر فن   کے ماہر نے اپنی اپنی حالت  میں کی ہیں۔   اور سارے  عجیب   کام  جو انہو ں  نے دکھائے  ہیں۔ ان میں  سے ایک نہ ایک   تجویز  (صلاح)کے ذریعہ  سےکئے ہیں۔  نہ  کہ خُدا  کی روح  کی مدد سے  ۔ جیسا  بعضوں  نےلوگوں کو دھو  کا  دے    رکھا   ہے۔  اور میں چاہتا   ہوں ۔  کہ مرزا   غلام  احمد  صاحب  بھی  سعاد  تمندی  (فرمانبرداری)سے اپنی   حیلہ  بازیوں(مکاريوں)  کا اقرار  کریں۔

کیونکہ  بائبل مقدس کے کشف(الہام)   کے تمام ہونے  پر  یہ بات   ممتنع  الا مکاں(منع کرنے والا)   کے پایہ (درجہ)پر ہے۔ کہ خُدا  تعالیٰ  کسی کو اپنی  طرف   سے الہام  بخشے ۔ اور اس  کے ساتھ  یہ بھی سوچنا    چاہیے  ۔   کہ مرزا   صاحب  کی وہ کون سی  انوکھی  باتیں ہیں۔    جن  کے لئے    خُدا کو پروا   ہو سکتی ہے؟  جو کچھ آپ  کہتے ہیں  خود غرضی  کی باتیں ہیں۔

اے  ناظرین  مزرا  صاحب  کی غیب  گوئی سے دھوکا  نہ  کھاؤ  اور اور کچھ  تعجب   نہ کر  و  ۔ کہ اس قدر   لوگ  ان کےپیرو(پيچھے چلنے والے)  ہو گئےہیں۔  یہ سب محمدیت  کے   بھیس  میں کسی خاص   مطلب  کی پیروی ہے۔  پیرو  محمدیوں  ہی میں سے ہیں۔ ہندووں  کو اس پیروی  کی پروا نہیں۔  کیونکہ  ان کے    اپنے  جو گی اور سیناسی کثرت   سے ہیں۔ جو مرزا  صاحب  سے بڑھ  کر کار روائیاں    کرتے ہیں۔ ان   کے یوگ   شاستر  دیکھو اور    تذکرۃ  الاولیا  کے ساتھ   مقابلہ  کرو۔ اور عیسائیوں  کو  تو یہ   سب باتیں  نفرتی   معلوم  ہوتی ہیں ۔  جس طرح پولس   رسول  نے فلپی    شہر کی  اس چھوکری   کو قرار   دیا تھا۔   جس میں   غیب   دانی  کی روح  سمائی تھی۔  اور  اس  کے ذریعہ  سے  وہ اپنے مالکوں  کے لئے   بہت کچھ کمایا  کرتی تھی ۔ اعمال  ۱۶ : ۱۶ ۔ اور اگر چہ رومن  کیتھولکوں   میں سنتوں  اور راہبوں   کی تعظیم  کثرت   سے کی جاتی ہیں۔  اس  لئے  کہ وہ ان   میں خُدا  کے اعلیٰ    فیض مانتے ۔  اور بڑے بڑے   کام ان کو منسوب   کرتے ہیں۔  مگر سچے  عیسائی   اس  قسم کی باتوں   کو  دیوؤں   اور بدروحوں کا اغوا جانتے ہيں۔(۲ تھسلنيکيوں ۲: ۲ تا ۱۰ ۔۱تيمتھس۴ :۱ )  اور محمديوں میں ایسے  اعتقاد(يقين)  کی پیروی   کچھ تعجب    کی بابت  نہیں ہے۔  کیونکہ    حضرت   محمد صاحب  کی وفات    کے بعد کئی  ایک عرب  اور فارس کے محمدیوں  میں اس قسم   کے آدمی  برپا   ہوئے۔  اور الہام  اور غیب   گوئی کا دعویٰ  کیا۔ اور ہر ایک نے کئی   ہزار  اور کئی کئی  لاکھ  آدمی اپنے  معتقد   (ٌاعتقاد رکھنے والے)بنائے۔  اور ہر دفعہ  نتیجہ   یہ ہوتا رہا۔   کہ محمد صاحب والے  اسلام   اور خلیفوں  کے برخلاف  فوج  کشی   کرتے رہے۔  مرزا  صاحب   اور  ان کے پیرو   کس  فکر   میں ہیں۔

چندسال  ہوئے  کہ  مرزا  غلام  احمد  صاحب  نے اپنی تصنیف   براہین   احمدیہ  کے ذریعہ  سے اپنے  الہام  کا شور  مچایا تھا۔  اور جواب  پانے پر اس کے لئے دس  ہزار  روپیہ  کی بازی  ہارنے  کا اشتہار  دیا۔ شہرت  پانے کےلئے   یہ اچھا  فیشن   سوچا تھا۔  ایک  آدہ  ضربوں سے کتاب   عاجز کر دی  گئی تھی۔  مگر آپ  نے کسی  کے ساتھ وعدہ  پورا  نہ کیا ۔ اشتہار  دینے سے پہلے ہی ٹھان  لیا ہو گا۔  کہ نہ مانیں گے  نہ   روپیہ   نکالیں گے۔ گذرے سال میں جناب  ڈپٹی عبد اللہ آتھم  صاحب  کے ساتھ دینی   مباحثہ  کرتے ہوئے  جب اور کچھ  بن نہ پڑا   ۔ تو مباہلہ   کی طرف رجوع  کیا اور ایک بداندیش  بات ڈپٹی  صاحب کے  حق  میں  کہہ دی۔  کہ   ان دنوں  سے پندرہ   ماہ کے عرصہ  میں ڈپٹی  صاحب  مرجائیں گے۔   اس بد خواہی   کے بجائے  ڈپٹی   صاحب  نے بموجب   انجیل    مقدس  کے نیک  جواب  دیا  ۔ اور کہا  کہ موت  تو ہر طرح  آتی ہی ہے۔  جلدی   آئی  تو کیا۔  اور دیر میں آئی تو کیا۔ ہم تیار ہیں۔  مباہلہ کا رواج  دیہاتی جاہل  عورتوں  میں بہت ہے۔ ایک کہتی  ہے۔  نی تیرے بچے  مرن  دوسری   کہتی ہے ۔ نی تیرا   خصم مرے۔  وغیرہ  اس قسم  کی سب گالی   گلوچ  مباہلہ  ہے۔ اور غیب  گوئی ہے۔ اور کوئی  نہ کوئی  پوری  بھی ہو جاتی  ہے۔ پھر  ہر ایک   عجیب  کام کرنے یا دکھلانے میں غیب   دانی  پہلے لازم   ہے۔ یعنی  عجائب   کام   دکھلانے  والا پہلے سے جانتا  ہے۔ کہ اس کے طریقہ   کاروائی کا نتیجہ کیا ہو گا۔  چنانچہ  جب کوئی آدمی  یا عورت  کسی ُملانے  کے پاس   پانی  دم کروانے۔ یا جھاڑ   ا دلوانے کو جا ئے۔ تو ملاّں  صاحب  اپنے ہنر  کےنیتجے    کی بابت  غیب   داں   ہوتےہیں۔ کہ  فلا ں کلمے     پڑھنے  سے فلاں   نتیجہ   ہو گا۔  ورنہ    جھاڑ پھونک   ہر گز  نہ کرے۔ اور نتیجہ  بعض  وقت حسب   ِمنشا  (مرضی کے مطابق)ہوتا ہے۔  لوگ  ٹونے بھی کرتے ہیں۔ اور  اس سے بعض  وقت   بھلے   یا برے   نتیجے  ہوتے ہیں۔اور اس لئے لوگوں کا    اعتقاد  ۔ ہندوہوں    خواہ  محمدی   جما رہتا ہے۔ اب میں پوچھتا  ہوں۔ کہ کیا  وجہ ہے۔  کہ ہم  مرزا صاحب کے مباہلہ  کو اس قسم کی  غیب   دانی ۔ یا غیب   گوئی   نہ قرار   دیں۔     اور یا الہام   کی ان قسموں  میں نہ گردانیں ۔  جن کا پہلے ذکر   ہوا ؟  کیونکہ   ہم   نے واضح   کیا ۔  کہ عہدِ   جدید کے بعد الہام   الہٰی  منع ہے۔

مرزا صاحب   نے اپنی اس  غیب  گوئی کو اسلام  کی صداقت یا بطالت  (بے ہودگی،نکما پن)  کے لئے دلیل قرار دیا ہے ۔ اخبار   اور اشتہار   کے ذریعہ سے ۔  میں اس   منطق(بات)  میں ذرہ  بھی عقلمندی   نہیں دیکھتا  ۔  کیا اس واسطے    کہ مرزا   صاحب  اپنے تئیں  اسلام  کے پیرو  کہتے ہیں۔   اور اگر ان کی  یہ بات پوری   ہو جائے ۔ تو اسلام  کے لئے ایک اور دلیل (گواہی)ٹھہرے   گی۔  اور اگر  پوری نہ  ہو۔ تو اسلام  باطل (جھوٹا)ٹھہرے گا۔   کس نے مرزا  صاحب کو اسلام  کا پیمانہ   ٹھہرایا  ہے؟ اسلام  کی صداقت   یا بطالت  کا انحصار   قرآن  پر ہے۔ نہ   کہ مرزاصاحب  کی باتوں پر ۔ اور اس لئے اگر مرزا  صاحب کا مباہلہ   چرّ جائے ۔ تو ہم اہل  اسلام   کو ترک اسلام  کے لئے   دعوت  نہیں کر سکتے ۔  ایسا کرنے کی   وجوہات   اور ہیں۔ صرف   اتنا   ہی کہنے کی گنجائش   ہو گی۔  کہ مرزا  صاحب  کی بات سچ ہوئی   ہے یا جھوٹی  نکلی   ہے۔ اور پھر اس بات   کا بھی اندیشہ(خطرہ)  ہے۔ کہ اگر  مرزا صاحب کی بتلائی  ہوئی میعاد   گذرگئی۔  اور ڈپٹی  صاحب    صحیح   سلامت  رہے۔ تو مرزا  کو میعاد   بڑھانے  کے لئے  دوسرا الہام   نہ آ جائے ۔ اور اس  طور سے تو ڈپٹی   صاحب   مرزا   صاحب  کے الہام  سے بھاگ نہ  سکیں گے۔   اور غالباً  بھی اہتمام  منشی   بدر  الدین   کو مرزا صاحب کی موت   کی بابت  کرنا پڑے۔  اور وہ اپنے دوبارہ  اور سہ بارہ الہام  سے  مرزا  صاحب  کا ان  کی موت   تک تعاقب(پيچھا کرنا)  کرتا جائے۔  اور آخر مار ہی کر  چھوڑے۔ اور پھر کیا  سارے لوگ   اسی طرح اپنے اپنے  الہام  کی بندوقیں   بھر  کر ایک  دوسرے  پر چاند   ماری  نہ کریں گے۔  مرزا  صاحب کو اپنے بیٹے   عمانوائیل کی خبر   کے لئے اسی طرح  کی تاویل(بيان )   کرنی پڑی تھی ۔جب بیٹے کے بجائے    بیٹی  پیدا ہوئی تھی۔ سواگر  اب بھی  ایسا ہی  کریں گے۔  تو کیا کسی  کو ان کا منہ  پکڑ لینا  ہے؟

اب میں ناظرین  کو اس  امر  سے خبر   دار کرتا ہوں۔  کہ ایک طرف الہامِ  الہٰی  ہے۔ جو نبیوں  اور رسولوں  کو خُدا تعالیٰ  نے آپ  ہی بخشا ۔ تا کہ بنی   آدم  کی ہدایت   کے لئے ایک   دائمی   اور مستند   قانون   ہو۔ اور دوسری  طرف  الہام ِ ارواحی ہے۔  جس کی  کئی  شاخیں    ہیں۔   اور جو لوگوں نے اپنے  کسب(محنت)   سے نکالا  تھا۔   اور جاری کر رکھا   ہے۔ اور عوام  کو دھوکا  دیتے  ہیں۔   کہ ان کو خُدا کی طر ف  سے   بخشش  ہے۔ سو لوگوں کا پہلا  کام یہ  ہے ۔ کہ دھو کا  نہ کھائیں۔  دھوکا کھانا  ویسا   ہی بُرا ہے۔ اور منع  ہے۔ جیسے   دھو کا  دینا اور دریافت کریں۔   کہ پائی نہان   اور یوگیوں۔   اور مہاتموں  اور  احمدوں   اور مداریوں وغیرہ  کے الہام  اور کام  کس الہام   کے تحت   میں ہیں۔   بموجب اس ہدایت  کے ۔ کہ ہرایک   روح کو یقین   نہ کرو  ۔  بلکہ روحوں  کو آزماؤ ۔ کہ وہ  خُد اکی طرف   سے ہیں کہ نہیں  اور اپنے ایمان  کو مصر کے جادو  گروں  یا کنعان  کے کسی غیب  گو یا نجومی    ۔ ( جوتشی )  یا فال  گیر ۔  یارمال ۔  یا ساحر(جادو گر)۔  یا بدروح کے حوالے  نہ کرو  ( استثنا   ۱۸: ۱۰ تا ۱۲ )   کیونکہ   یہ کام  خُداوند  کی نفرت   کے باعث  ہیں۔

اَے میرے اہلِ ایمان   مسیحی  بھائیو ایمان  میں قائم  رہو۔ اور خبردار  ہو۔  کیونکہ  خُداوند  نے ہمیں آگے  ہی سے   جتا  دیا تھا۔ کہ جھوٹے مسیح  اور جھوٹے  نبی  اُٹھیں  گے۔  اور ایسے   بڑے  نشان  اور کرامتیں  دکھائیں گے ۔ کہ اگر  ہو سکتا  تووہ   برگزیدوں  کو بھی   گمراہ  کرتے ۔ متی  ۲۴: ۲۴ یہ  خبر    ہر زمانہ   میں پوری ہوتی  رہی  ہے۔ اور ہم   اپنے زمانہ   میں اپنی آنکھوں  سے دیکھ  رہے ہیں۔ 

اَے  میرے بھائیو  خُداوند   اور اس  کی قدرت  کی قوت سے زور  آور  ہو ۔ کیونکہ  ہمیں  اس  دُنیا کی  تاریکی  کے قدرت  والوں سے اور  شریر  روحوں  سے جو  بلند   مکانوں  میں ہیں۔   مقابلہ  کرنا   ہے۔   افسیوں   ۶: ۱۰ تا ۱۳  ۔   اقسام   الہام   ارواحی  شیطان  کے چلتے تیروں   میں سے    ہیں جن   کو بجھاتا  ہمارے   ذمے کیا گیا ہے۔  (آیت ۱۶   )  اس امر میں  تحقیق  کا یہ مستند  قاعدہ ہمیشہ  پیش نظر   رکھنا   چاہیے  ۔ کہ جو روح  اقرار  کرتی  ہے۔ کہ یسوع مسیح جسم میں ظاہر  ہوا۔ وہ خُدا کی طرف سے ہے۔   اور جو روح اقرار  نہیں کرتی  ۔ کہ یسوع  مسیح جسم  میں  آیا  ۔ خُدا  کی طرف سے نہیں(۱ یوحنا  ۴: ۲تا ۳ )۔

Leave a Comment