I WAITED WITH PATIENCE
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Jul 20, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۰جولائی ۱۸۹۴ ء
یہ زبور کی آئت ایک نو تصنیف رسالہ کے سرورق پر مندرج ہے۔ جس کو اخوند محمد یوسف صاحب ساکن میرٹھ نے ،جو ۲۰ ۔مئی سنہ رواں کو بمقام امرتسر مشرف بہ مسیحیت ہوئے ہیں شایع کیا۔ اَور جس کو اُنہوں نے مختصر’’ کوائف یوسفی ‘‘ سے موسوم کیا۔ اس رسالہ میں اُنہوں نے اپنی محمدی زندگی کے گزشتہ حالات کی کیفیت کا خلاصہ اپنے احباب کو بتانے کے لیے لکھا۔ اَور اُس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اُن کو اسلام ترک ۔ اَور مسیحیت کو قبول کی کیا وجہیں (وجہ کی جمع،صورت،باعث)ہوئیں۔ ہم نے اس رسالہ کو اوّل سے آخر تک بغور دلچسپی تمام پڑھا۔ اور اگرچہ اس میں اُنہوں نے اپنی( ۳۳) سالہ تاریک زندگی میں سے ( ۲۳) سال کے واقعات کا ۔ جو وہ محمدیت اُن پر گزرے ہیں بہت مختصر بیان کیا ہے۔ تاہم بعض واقعات نہائت مایوسی آمیز اَور رقت انگیز(جس پر رونا یا رحم آئے) ہیں۔ جن پر خیال کرنے سے اس امر کا بخوبی تمام اندازہ ہو سکتا ہے کہ کسی محمدی متلاشی ِ نجات کی راہ میں سد راہ (روک،حائل ہونا،مانع آنا)ہوتی ہیں۔ اُن پر غالب آنا فضل خدا وندی اَور طالب ِحق کے ہمت و استقلال پر منحصرو موقوف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ محمدیوں کو گویا روزِ پیدائش ہی سے یہ بات گھٹّی(عادت،طبیعت،دوا جو بچے کا پیٹ صاف کرنے کے لیے جوش دے کرپلاتے ہیں) میں ملا دی جاتی ہے۔ کہ وہ بجز(مگر ،بغیر) قران و دین ِاسلام کے دنیا میں کسی کتاب و مذہب کو مطلق قابلِ توجہ نہ سمجھیں اَور کسی دیگر دین و عقیدہ کی تحقیقات کریں۔ خواہ وہ اُن کے منجانب، اللہ ہونے کی نسبت قرانی تصدیق ہی موجود کیو نہ ہو۔ اَور یہ متعصب طبیعت ہر ایک محمدی میں ابتدائے پیدائش سے اُس کے قدوقامت اَور عمرو عقل کے بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمدیوں میں تحقیقات کا مادہ بہت ہی کم ہے۔ اَور وہ بجائے(التحقیق اولی امن التقلید) کی بجائے( التقلید اولی امن التحقیق) پر عمل کیے ہوئے ہیں۔ یہی حال اخوند صاحب موصوف کا بھی تھا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ کہ
’’ یہ بات گویا مجھ کو پیدائش کے روز سے سمجھا دی گئی تھی کہ تورات، زبور تو دنیا میں ہے ہی نہیں۔ اَور انجیل مقدس کو پادریوں نے بد ل ڈالا ہے۔ صرف قران ہی خدا کا کلام ہے۔ اَور جامع الکتب ہے۔ جو کچھ ہے اس میں ہے۔ ورنہ کچھ نہیں۔ دوسرے حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا تھا۔ کہ حضرت محمد صاحب خلیفہ عمر پر توریت پڑھنے سے ناراض ہو گئے تھے۔ اس لیے غیر مذہب کی کتاب دیکھنا بالکل ناجائز ہے۔ میں نےان وجوہات سے کبھی حقیقی کلام اللہ یعنی بائبل کی طرف توجہ نہ کی ۔ اَور جو ایک مرتبہ میرے ایک دوست شیخ عبدالغفور گھڑی ستہ صدر بازار میرٹھ نے مجھے اپنے خیال میں پابند شرع اوراچھا آدمی سمجھ کر بائبل شریف یا صرف انجیل مقدس دیکھنے کو کسی عیسائی صاحب سے لادی ۔ جس سے شائد اُن کو یہ غرض تھی ۔ کہ دینِ محمدی میں تو کچھ نہیں۔ اسے ہی دیکھ کر کچھ نکال۔ تو میں نے اُس کو اپنے گھر میں لا کربغیر دیکھے آنکھ مند کرکے آٹھ ورق پھاڑ جلاے اَور اُن کے پاس جانا ترک کر دیا۔ اَور یہ اپنی دانست میں بڑی بہادری کا کام کیا‘‘۔
وہ اپنے رسالہ’’ کوائفِ یوسفی ‘‘کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ۔
’’ ترک اسلام کی وجوہات تو یہ ہے۔ کہ فی الحقیقت محمد صاحب کی نبوت ثابت نہیں۔ بلکہ عدم ثبوت پر دلائل قاطع (قطع کرنے والا،کاٹنے والا)موجود ہیں۔ حضرت کا رویہ ۔ نیت ۔ کاروائی و تاثیرات اورتابعین اور بعض بیانات قران و احادیث میں ایسے ہیں جن سے یک لخت دل بیزار ہو گیا۔ تب اسلام خود بخود دل سے نکل گیا‘‘۔
مسیحی دین قبول کرنے کی یہ وجہ ہوئی۔ کہ کتب انبیا ءمندرجہ بائبل کی وقعت(اہمیت) مجھ پر کھلی کہ اصل کلام خدا وہی ہے۔ جو بتوسل حقیقی الہٰام بذریعہ انبیا ءآیا اَور قدیم سے یہودی و مسیحی اُمتوں میں مسلم رہا۔ اسی کی اطاعت فرض عین ہے۔ اَور تمام بائبل خداوند یسوع مسیح کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ کہ وہی ہمارا مالک و منجی ہے۔ پس اُس کی قدرت و قدوسیت اَور محبت اَور خیر خواہی نے دل کو پکڑا ۔تب میں اُس کے قدموں میں آکر گر گیا۔ اُس کا وہ قول۔ ( جو متی ۱۱: ۲۸۔۲۹ )آئت میں ہے۔ کہ’’ تم لوگو جو تھکے اَور بڑے بوجھ سے دبے ہو میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دوں گا۔ میرا جوا اپنے اوپر لے لو اَور مجھ سے سیکھو ۔ کیونکہ میں حلیم اور دل سے خاکسار ہوں۔ تو تم اپنے جیون میں آرام پاؤگے‘‘۔ صحیح اور کامل اَور اُس کی شان مجید کے مناسب اَور سب آدمیوں کی جان کا لنگر ہے۔
لہٰذا میں آیا بار عصیاں(گناہوں کا بوجھ) سے دل ہلکا ہوا۔ آئندہ غضب سے نجات پائی۔ روح میں آرام آیا اس کے سایہ سے جو ایماندار پر ہوتا ہے۔