اچھا چرواہا میں ہوں

Eastern View of Jerusalem

I am the Good Shepherd

By



One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan February 2,1894

نور افشاں مطبوعہ ۲فروری ۱۸۹۴ ء

اچھاچرواہا   میں ہوں۔  اچھا چرواہا   بھیڑوں  کے لئے اپنی جان  دیتا ہے (یوحنا  ۱۰ : ۱۱)۔

کلام اللہ   کے اکثر مقامات   میں خُدا  تعالیٰ  کو گڈرئیے   یا چوپان  سے ۔ اور اس  کے ایماندار  بندوں  کو بھیڑوں  سے تشبیہ   دی گئی ہے۔  اور جماعت   مومنین  کو گلہ  کہا گیا  ہے ۔ چنانچہ داؤد   نے فرمایا  کہ ’’  خُداوند  میرا چوپان  ہے ۔ مجھ  کو کچھ   کمی  نہیں ‘‘  ۔ اور اپنے کو بھیڑ    سے تشبیہ   دے کر  کہا ۔’’   وہ مجھے  ہر یالی   چراگاہوں میں بٹھا تا ہے۔ وہ راحت  کے چشموں  کی طرف  مجھے  لے  پہنچاتا ہے‘‘۔   زبور   ۲۳ :  ۲،۱  پھر  وہ  اپنی دُعاؤں   میں کلیسیاء   کی پریشانی  کے لئے منت  کرتا  ۔ اور یوں  خُدا سے   ملتجی (التجا کرنا) ہوتا ہے۔ اے اسرائیل  کے گڈریئے   ۔ تو جو یوسف   کو گلے  کی مانند    لے چلتا  ۔  اور کروبیم   (فرشتے)کے اوپر  تخت   نشین  ہے  جلوہ  گر ہو ۔ زبور  ۸۰ ۔ ۱  ۔ پس خُداوند   مسیح نے بھی اپنے کو تمثیلاً   فرمایا  کہ وہ اچھا  گڈریا   میں ہوں ۔  اور میرا اچھا گڈریا   ہونے کا ثبوت  یہ ہے۔ کہ میں اپنی  بھیڑوں کو بچانے  کے لئے اپنی جان  تک دینے سے  دریغ(انکار۔)  نہ کروں گا  ۔ وہ اچھا  گڈریا  ہو کر اپنے دُنیا   میں آنے   کا  یہ سبب بتاتا  ہے۔ کہ اس کے  لوگ  جو اس  دُنیا  کے جنگل  میں ان بھیڑوں  کی مانند  تھے جن  کا کوئی  چرواہا    نہ ہو ۔  اور  وہ ہلاک   ہونے کے خطرہ  میں ہوں۔  زندگی  اور نجات  حاصل کریں ۔چنانچہ   خُداوند   فرماتا ہے ۔ دیکھ   میں ہی  اپنی  بھیڑوں کی تلاش  کرو ں گا ۔ او ر انہیں  ڈھونڈوں   نکال   لو  ُں گا۔  جس طرح   سے گڈریا ۔  جس دن کہ وہ بھیڑوں  کے درمیان  ہو جو  پراگندہ   ہو گئی  ہیں   اپنے گلے   کو ڈھونڈتا ہے۔اسی طرح   میں اپنی   بھیڑوں   کو ڈھونڈتا  ۔ اور انہیں  ہر کہیں   سے جہاں  وہ  ابرا ور  تاریکی   کے دن تتر   بتر  ہو گئی  ہیں بچالاؤں گا  ۔ حزقی ایل  ۳۴: ۱۱، ۱۲، ۱۳ ۔

’’اچھاچرواہا میں ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے ‘‘۔

اب وہ لوگ   جو کہا کرتے ہیں ۔ کہ اگر مسیح    خُدا ہے۔ تو  اس کو ایسی    کیا غرض  اور ضرورت  تھی  ۔  کہ  وہ   اوروں کے  بدلے دنيا میں   آ کر  دُکھ   اُٹھائے  ۔  اور صلیبی   موت  کو   اختیار    کرے ۔ گم  شدہ   اِنسان کی  قریب    الہلاکت   حالت  پر ۔ اور   خُداوند   کی محبت   اور  اس کے رحم  و کرم  پر کچھ غور و  فکر کریں۔   تو معلوم ہو گا   کہ مسیح  کا مجسم   ہو کر دُنیا  میں آنا ۔  اور گنہگاروں  کے بدلے میں  اپنی   جان  دينا کیا معنی رکھتا  ہے۔ اس میں شک نہیں  کہ مسیح  کا انسانی   صورت   کو اختیار   کر کے دُکھ   اُٹھانا  ۔ اور مارا  جانا  مجبوری  و بے مقدوری کی وجہ سے  نہ تھا۔  اور جیسا  کہ اس  نے اسی باب  کی  سولہویں اور سترہویں     آیتوں   ميں فرمایا کہ ۔  ’’ باپ  مجھے اس لے پیا ر  کرتا  ہے۔ کہ میں اپنی   جان دیتا ہوں۔  تاکہ  میں اسے پھر لوں ۔ کوئی شخص   اسے مجھ  سے نہیں لیتا۔   پر میں آپ اسے دیتا ہوں۔   میرا اختیار  ہے۔ کہ اُسے  دُوں ۔  اور میرا اختیار  ہے کہ اسے پھر لوں  یہ حکم   میں نے  اپنے  باپ سے پایا ۔  یہ بات   روزِ  ازل  سے قرار پر چکی  تھی  ۔ کہ گنہگار  بنی آدم   کے کفارہ  کےلئے ابن  ِاللہ  بصورت  انسان ظاہر   ہو کے ایک کامل   (مکمل)قربانی   گذارنے ۔ اور خُدا  اور اِنسان میں صلح   کرا کے  دو کو ایک کرے ۔جیسا   لکھا  ہے کہ ’’  مسیح   نے اپنا  جسم  دے کر   دشمنی  کو یعنی   شریعت   کے حکموں   اور رسموں   کو  کھو دیا۔  تا کہ وہ صلح  کر ا کے  دو سے آپ میں ایک نیا  اِنسان بنا دے  ۔  اور آپ   میں دشمنی   مٹا  کےصلیب  کےسبب   سے دونوں   کو ایک تن   بنا کر  خُدا  سے ملائے۔   افسیوں   ۲: ۱۵، ۱۶۔

لیکن متعصب(تعصب کرنے والا)   اور نفسانی   (خود غرض)آدمی  ان باتوں  کو ہر گز    قبول  نہیں کرتا ۔  اور انجیل   کی زندگی  بخش   تعلیمات   کے مقصد   و معنی  کو نہ سمجھ  کر اپنے تاریک   فہم  و عقل(دانائی و عقل)  کے مطابق  ان کی تفسیر     و تشریح   کرتا ہے۔  چنانچہ  تحفہ   محمد  یہ  میں یہ  کسی  مسلمان  نےلکھا ہے۔  کہ  ’’ حضرت   مسیح کسی   طور سے راضی  نہ تھے    مصلوب   ہوں  ‘‘  اور  اپنے  اس خیال   کے ثبوت   میں خُدا   وند  مسیح  کی اس دُعا   کو جو اس نے  گتسمنی  میں مانگی ۔  انجیل  سے اقتباس (اخذ کرنا)  کیا ہے۔   اور لکھا ہے کہ  ’’  اس کے گڑ گڑ ا  کر یہ دُعا مانگنے   سے کہ  ’’   اے باپ اگر   ہو سکے   تو یہ پیالہ مجھ   سے گزر  جائے ‘‘۔   ثابت   ہو تا ہے کہ  مسیح کسی   طور سے راضی نہ تھے۔

افسوس  ہے کہ  اس قسم  کے اعتراض   اور خیال کرنے والے اشخاص  مقدس   نوشتوں  سے بخوبی  واقفیت   نہیں رکھتے ۔ اور صرف  اپنے مطلب   کے پورا کرنے  کے واسطے  کہیں سے کوئی بات نکال   کر اپنے حسب  ِمنشا (مرضی کے مظابق) اس کی شرح  و بیا ن   کرتے ہیں۔  معترض   نے شاید   اس دُعا ئیہ آیت  کے   آخری  الفاظ   پر غور نہیں کیا  جو یہ ہیں۔ تو  بھی میری   خواہش   نہیں۔  بلکہ تیری   خواہش  کےمطابق   ہو ‘‘ ۔   بات یہ ہے  کہ جب تک  مسیح کی ُروح   پاک   اِنسان کے ذہن  کو نہ کھولے ۔ وہ کلام اللہ   کی ان باتوں  کو ہر گز   سمجھ  نہیں سکتا ۔  اور نہیں  جانتا  کہ ’’   یوں لکھا  ۔ اور یوں ہی ضرور  تھا۔  کہ مسیح  دُکھ   اُٹھائے  اور تیسرے   دن مُردوں  میں سے   جی  اُٹھے  ‘‘(  لوقا   ۲۴:  ۴۶)۔

Leave a Comment