قرض دار ہوں!

Eastern View of Jerusalem

I am Borrower

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Noor-e-Afshan Feb 8, 1895

نور افشاں مطبوعہ ۸فرورفروی ۱۸۹۵ ء بروز جمعہ

جناب اڈیٹر صاحب نہ سمجھا کہ ہمیں کسی بنئے بقال(آٹا دال بیچنے والا،کنجوس) کا قرض دار ہوں ۔ کبھی نہیں ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان سے قرض لینا دعا بندگی کو کبھی جواب دینا ہے۔

ہاں اگرچہ میں یونانیوں ، اور بریریوں،د اناؤں اور نادانوں کا قرضدار ہوں ۔ لیکن اس وقت تو میں جسم اور روح کا قرضدار ہوں۔ ان دونوں کے تقاضوں کا مختصر حال سُنئے۔ دیکھئے کس صورت سے ان کو ادا کرتاہوں۔ اور میں چاہتاہوں ۔ کہ ہمارے ناظرین نور افشاں بھی  ان دونوں کی ادائیگی قرض کا فکر کریں۔ اول جسم کے تقاضے یہ ہیں۔

 خداوند خدا نے ہمارے جسموں کو ایسی حالت پر پیدا کیا ہے۔ اور ایسا ان کو بنایا ہے کہ کم سے کم دوبارروز ہم پر تقاضا رہتاہے کہ کھانے کو لاؤ۔ کوئی صورت کیوں نہ ہو۔ اس کا پیٹ بھر دو۔ دنیا کے سارے کاروبار پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ سے گدا تک، عالم سے جاہل تک، کالے سے گورے تک سب کے سب کسی نہ کسی پیشہ یا حرفت۔ کاشت یا ملازمت و دستکاری یا گداگری سے جسم کے تقاضے کو رفع کرتے ہیں۔ بادشاہ وزیر، امیر ،متمول اہل دول اگر دن میں چار بار ترنوالوں سے آسودہ ہوتے تو بےچارے مفلس قلاش ، ٹکر گدے روکھے سوکھے ٹکڑوں سے شکم پُری کر لیتے ہیں۔ آج تک ہر زمانہ میں عالموں اور داناؤں نے اس امر کی تنقیح کی  کہ سب سے بہتر اور اعلیٰ طریق روٹی کمانے کا کیا ہے۔ اور آخر اب تک یہ تصفیہ(فیصلہ) سُننے میں آیا کہ تحصیل علم سے بڑھ کر اور کوئی وسیلہ معاش عمدہ اور قابل ِتعریف نہیں۔ اور یوں تو ڈلیا ڈھونا گویا کتّا بھی اپنا پیٹ بھر لیتا ہے۔ متفرق اقسام کے صیغہ معاش اور ان میں ترقی و تنزلی کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ کہ جب ایک شخص کا پیٹ اس وسیلہ سے جس کو وہ اب تک استعمال میں لاتا رہا نہ بھرا۔ تب یا تو اسی میں ترقی کا ڈھنگ ڈالا۔ یا دوسرے وسیلہ کو اختیار کیا۔ اسی طرح بقول سعدی :

حتٰی کہ بعض اشخاص کم ہمت حرص پسند(لالچی) نے جسم کے اس تقاضا ناشدنی کے ادا کے اداکرنے میں یہاں تک تیز دستی دکھائی۔ اور بے شرمی اختیار کی کہ وہ وسائل بھی جو عقلاً و مذہباً ہر طرح نجس اور ناپاک ہیں استعمال میں لانے شروع کئے۔ جن کے انسداد(بندش،روک تھام) کے لیے اب خیر خواہ بنی نوع انسان سر گریباں اور دست بز نخداں ہیں۔ پر کیا کیجئے بقول شخص ’’ مرتا کیا نہ کرتا‘‘۔

 ہمار ے جسم نہ صرف خوراک چاہتے ہیں۔ بلکہ میرے پر دُرے پوشاک کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔ گرمیوں میں ململ ، تنزیب ، خاصہ، نین سکہہ، شربتی ، ادھی ، بک اورجاڑوں میں مخمل ، بانات ، فلالین، کم سے کم( ۱۲) پیسہ گز کی چھینٹ کی تو شک ، لحاف، اور اس کے اندروئی، اور وہ بھی دُہنی ہوئی۔ مجھے جسم کے پوشاکی تقاضا پر ایک افغانی کا قصہ یاد آتا ہے۔ جس کا لکھنا یہاں مذاق سے خالی نہ ہوگا۔ کہتے ہیں۔ کہ موسم سرما میں ایک افغانی ہندوستان میں وارد ہوا۔ چلّہ کے جاڑے تھے رات کو افغانی صاحب کو سردی سے پالا پڑا۔ تو یوں دعا مانگنے لگے۔ کہ بار الہٰا صدقہ اپنے رسول مقبول کا اس جاڑے کو مجھ سے دور کر ۔ مگر دعا قبول نہ ہوئی۔ اماموں کا واسطہ دیا ۔ شہیدوں کو درمیان لاتا۔ لیکن دعا کا جواب ندارو۔ علی الصباح کسی ہندو ستانی سے افغانی مذکور نے بیان کیا کہ رات کو جاڑے نے مجھے سخت تکلیف دی اور میں خد ا سے بھی مدد مانگتا رہا۔ پر اُدھر سے صدائے برنخاست ہندوستانی بولا۔ کہ آغا! تمہارے پاس کچھ روپیہ بھی ہے؟ وہ بولا ہاں۔ اچھا ہے مجھے دیجئے اس کا ابرا، استر ، گوٹ ، اور روئی لاکر درزی سے سلوا کر دُھنئے سے روئی دھنوا کر بھرو ا کر افغانی کو دی ۔ تورات کو افغانی صاحب بجائے ہینگ گویا گھوڑے بیچ کر سوئے۔ صبح کو فرمایا۔ اے جاڑے تجھ پر خدا کی لعنت۔ تو خدا کو بھی نہیں مانتا۔ اب اس کے مقابل روح کے تقاضے بھی سنئے۔

ہر ایک بشر کی روح تقاضا کرتی ہے۔ کہ مجھے میرے خدا کو دکھاؤ۔ اور یہ تقاضا ایسا سخت ہے کہ اس کے ادا کرنے کے لیے دنیا کے جس حصہ میں جاؤ۔ خواہ عر ب کے بدؤوں میں۔ خواہ افریقہ کے ریگستانوں میں یا ہمالیہ کےسلسلوں میں۔ یا ہندوستان کے باشندوں میں کسی نہ کسی صورت میں یہ تقاضا میں یہ تقاضا ادا کیا جاتاہے۔ کتنے ہی جوان گھڑے پتھروں کو خدا سمجھ کر روح کو آسودہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور کتنے ہیں جو عرب میں کعبہ کے گرد نہایت ذوق شوق سے ایک چوکھنٹے گھر کا طواف دے کر سنگ ِاسود کو چوم کر  روح کوبہلاتے ہیں۔ وہ روح کو اس بچہ کی مانند خیال کرتے ہیں جو سو رہا ہے۔ بہتیرے ملیں گے جو ہمارے ہی شہر سے کبھی اجؔودھیا، اور کبھی دوار کؔا، کبھی گؔیا اور کبھی ہر دؔوار کو بھاگے جاتے نظر آتے ہیں۔ ہزارہا پردہ نشیں مستورات ہنود(ہندو کی جمع) ننگے پاؤں دودھ پیتے بچے گودمیں یا پیادہ ، منہ اندھیرے ، خاندانوں کو گھر سوتا چھوڑ گھر کے کاروبار سے منہ موڑ گنگا کی طرف بھاگی جاتی ہیں۔ پر روح کا تقاضا وہی ہے۔ کہ خدا کو دکھاؤ۔ میری پیاس کو بجھاؤ۔ لیکن ان سار ی کاروائیوں اور دوڑ  دھوپ سے روح کا حال بجائے اس کے کہ کچھ آسودگی نظر آتی ہو۔ اس شخص کا سا نظر آتا ہے۔ جسے استقا (پانی مانگنا، جلندر کا روگ)کی بیماری ہو۔ پر شکر خدا کا کہ ایک آیا جو روح کے تقاضے کو مع سودادا کرتا ہے۔ وہ آپ ہی خدا ہے۔ اور خدا کا فرزند ہو کر انسان بن گیا۔ اور فیلبوس سے کہا  کہ’’ جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کو دیکھا‘‘۔ ہم نے تو آزمایا۔ پر کھا اور اس سوتے سے پیا۔ جس کے پینے سے نہ صرف تشنگی بجھی۔ بلکہ زندہ پانی کا سوتا ہم میں ہو گیا۔ جو اوروں تک بھی پہنچتا ہے ۔

Leave a Comment