میں کیونکر جانوں کہ تم مجھے پیار کرتے ہو

Eastern View of Jerusalem

How Do I Know You Love Me?

By

Rev. Talib-u-Den

پادری طالب الدین

Published in Nur-i-Afshan Aug 6, 1891

نور افشاں مطبوعہ۶اگست ۱۸۹۱ ء

ہائے میں کہتا جو ہوں ۔ دیکھو تمہارے لئے میں نےکیسے کیسے دُکھ سہے۔ تمہیں ابھی معلوم نہیں ؟

گو ہمارے مضمون کے پڑھنے والے ہم سے بہت دُور ہیں۔ تو بھی ہم قیاس کی دُوربین لگائے۔ گھر بیٹھے ایک عجیب تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کہ عنوان کے جملے پڑھ کر کئی ایک کے چہرے تمتمار ہے ہیں۔ آنکھیں خون کی طرح لال ہوئی جاتی ہیں ۔ پیشانی پر مارے غصے کےبل پڑ رہے ہیں۔ زبان سے اگر کوئی کلمہ نکلتا ہے تو بس یہی ۔ ایں نور افشاں اور یہ فقرے تو بہ توبہ ! اگرچہ اس غصہ اور غضب کا سوردھم ہی ہیں۔ تو بھی ہم بڑے جوش سے اپنے غصہ فرما دوستوں کی تعریف کرتے ہیں۔ کہ اُن کے دلوں میں نور افشاں کی غیرت تو ہے ۔ مگر معلوم ہو کہ ان جملوں کے اقتباس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ہم الفاظ کی بندش  یا معثوق جفا پیشہ کا ناز دا دا یا عاشق دل فگار کا حال زار ۔ ناظرین کو دکھائیں نہیں ہرگز نہیں۔

چند دن ہوئے کہ ہمیں اس زمانے کے ایک نامی گرامی مصنف کی تصنیف دیکھنے کا اتفاق ہوا۔تھا تو وہ ایک قصہ  مگر ایسا نہ تھا جیسے پچھلے زمانہ کے قصے کہانیاں۔ جن کے بعض بعض حصوں کا پڑھنا نہ صرف عورتوں کے لئے ناجائز ہے۔ بلکہ اس قدر مردوں کے لئے بھی۔ لیکن اس کتاب میں جس کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ ایسے دو شخصوں کا حال مندرج ہے۔ جنہوں نے اپنے اپنے دل کو ایک دوسرے کے ہاتھ فقط اداؤں کی قیمت پر بیچ کر عمر بھر کے لئے رنج اور راحت کا شریک بنے۔ اور وفا میں ثابت قدمی دکھانے کا وعدہ کیا ہے۔ خیر اس سے ہمیں کیا۔ ہمارا کام صرف سرخی کے سوال اور جواب سے ہے اس سوال کو پڑھ کر ’’ میں کیونکر جانوں کہ تم مجھے پیا ر کرتے ہو ‘‘؟اُس ضرورت کا خیال دل میں پیدا ہوتا ہے ۔ جو ایک خاص حالت میں ہر ایک انسان کو اپنی صورت دیکھا ئی جاتی ہے۔ قدرت نے ہمارے دلوں پر ایک ایسا موٹا اور ضخیم پر دہ ڈال رکھا ہے کہ پیارے سے پیار ااور عزیز  سے عزیز اُ س کو چیرنے ۔ اور ہمارے خیالات سے واقف ہونے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ بیٹا باپ کے۔ باپ بیٹے کے۔ دوست دوست کے خیالات سے ہرگز واقف نہیں ہو سکتا ۔ تاوقتیکہ زبان کو کام میں نہ لائیں ۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو ہماری زندگی کے ہر ایک رشتے اور علاقے میں موجود ہے۔ محبت اور اتحاد کا رشتہ چاہے کیسا ہی مضبوط ہو۔ لیکن اپنے دل کا حال جب تک خود نہ بتاؤ ۔ کوئی نہیں جان سکتا ۔ ماں کی محبت سے بڑھ کر اور کون سی محبت ہو گی؟ پر وہ بھی اپنے بچہ کی بھوک سے واقف نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ خود بلک کر ظاہر نہ کرے کہ میں بھوکا ہوں۔ جو رو اور شوہر زندگی بھر کی مسافت میں چاہے رنج ہو یا خوشی ۔پستی ہو یا بلندی ۔ افلاس ہو یا دولتمندی ۔ گردنوں میں باہیں ڈالے ایک دوسرے کو تسلی دیتے ۔ زمانہ کے دیئے ہوئے زخموں پر محبت اور دلاسے کے مرہم لگاتے گذر جاتے ہیں لیکن یہاں بھی یہ ضرورت موجود ہے۔ ہزاروں ایسے ایسے دوست ہم نوالہ اور ہم پیالہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ جو ایک دوسرے سے کوئی بھید پوشیدہ نہیں رکھتے چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جس کے خفیہ رکھنے سے اُ ن کی یگانگت میں کچھ فرق نہیں آسکتا بے بتائے نہیں رہتے۔ اور ایک دوسرے پر جان فدا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ پر وہاں بھی یہ ضرورت حاضر ہے۔

چاہے ہم قصہ نویسوں کو بُرا ہی سمجھیں۔ لیکن ایک بات تو ہم کو ضرور ہی ماننی پڑتی ہے جس طرح سرجن یہ جانتا ہے کہ دل کی یہ شکل ہے۔ اُس میں اتنا خون ہے۔ اتنے وقت میں اتنی حرکت کرتا ہے۔ اُسی طرح یہ بھی یعنی شاعر اور قصہ نویس  کس قدر اُن علاقوں سے واقف ہوتے ہیں۔ جو وہ جسم کے ساتھ نہیں پر خیال اور وہم کے ساتھ رکھتا ہے۔ سچ ہے۔ عدم سے ہستی کی طرف آتے وقت نیچر اُن کو قسم قسم کی پیالیاں طرح طرح کے رنگوں سے پُر دیتی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ کہہ دیتی ہے۔ لو جاؤ صفحہ تجربہ پر انسان کے رنج و غم ۔ شادی اور خوشی ۔ قہر اور غصہ ۔ کمزوری اور لاچاری زور آور طاقت کی جیسی تصویر کھینچی  ہوئی دیکھو۔ ویسی تم بھی اپنے ذہن خدا داد اور ان رنگوں کے استعمال سے کھینچ کر دکھا یا کرو۔ مگر افسوس ان میں سے اکثر اس عطیہ بیش بہا کو بہت بُر ے طور پر بر تتے ہیں۔ ہاں تصویر تو بہت کھینچتے ہیں اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اُن کی مصوری اپنی قسم میں بڑھ کر ہوتی ہے۔ لیکن جس پیرا یہ میں وہ اُس کو دکھاتے ہیں ۔ یا جو آئینہ اُس پر چڑھاتے ہیں۔ وہ صاف اور عیب سے بری نہیں ہوتا ۔ یاتو جگہ جگہ بد اخلاقی کے پتھر کھا کر ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ یا کسی اور قسم کی گرد اُس پر لگی ہوتی ہے۔ کاش ہمارے آج کل کے شاعر جیسی اخلاق کی صورت دیکھتے ہیں۔ ویسی چمکتی جھلکتی اُ س کی فوٹو پھر کھینچ کر دکھائیں ۔ ان لفظوں میں کہ ’’ میں کیونکر جانوں تم مجھے پیار کرتے ہو؟‘‘ کیا ہی ٹھیک اور سچی تصویر ہماری کمزوری کی کھینچی ہوئی ہے۔ اور تجربہ یہ کہہ کر شہادت دے رہا ہے۔ سچ ہے۔ ہم کسی کے دل کا حال ہرگز نہیں جان سکتے ۔ جب تک کہ وہ خود نہ بتائے ۔ ہمارے عنوان کے حبیب نے طرح طرح کے حادثہ سہے ۔ ہزاروں رنج جھیلے ۔ گھر چھوڑ چھاڑ کر خانہِ ویران ہونا منظور کیا۔ لیکن تو بھی اُ س کے محبوب کو اُس کی محبت کی خبر اب تک نہیں ہوئی ۔ کیوں ؟ کبھی بتلایا نہیں ۔ خواہ کوئی کو ہکنی میں جان شیریں برباد کرے۔ خواہ جنگلوں میں دیوانہ وار مارا مارا پھرے۔ اور بھوک پیاس سہے۔ یہاں تک کہ سوکھ کر کانٹا سا رہ جائے۔ خواہ اتھاو سمندر میں گر کر زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔ لیکن جب تک اس شخص کو  جس کے لئے یہ سب تکلیفیں گوارا کیں۔ یہ معلوم نہ ہو کہ ان سب مصیبتوں کا باعث میں ہوں۔ تب تک کبھی اُس کی آنکھ سے غم کا آنسو دل سے درد کی آہ ۔ لب سے افسوس کا کلمہ نہ نکلے گا۔

محبت کا ظاہر کرنا لازمی تو ہے لیکن کافی نہیں

اگر اس مضمون کے پڑھنے والوں سے میں کوئی باپ ہونے کا رتبہ رکھتا ہو۔ تو ذراسی دیر کے لئے لوٹ کر اپنی طے کی ہوئی ۔ زندگی پر نظر ڈال کر دیکھے ، کیا اُس میں کوئی ایسا موقعہ اُسے نظر نہیں آتا جب کہ وہ اپنے بیٹے کی چال و چلن کے یا اُ س کے اِدھر اُدھر آوارہ رہنے کے یا کسی اور معاملہ کے متعلق کوئی بات دریافت کیا چاہتا تھا۔ پر بیٹا بات کو چھپاتا تھا۔ ہاں اگر کوئی ایسا موقعہ نظر میں ہو تو یاد کرے کہ اُ س کے گریز کرنے اور بات کے صحیح صحیح پتا نہ دینے پر اس کے دلیر کیا کچھ گذرتا تھا۔ کیا برچھیاں نہ چلتی تھیں اور کبابار بار یہ آواز نہ نکلتی تھی۔ ہائے اگر میرا بس چلتا تو اس کے دل کا ایک ایک کونا دیکھ ڈالتا ۔ پر کچھ نہ کر سکتا تھا ۔یا اگر اُس کا کوئی دوست ہو تو اُ س وقت کو یاد کرے جب اُ س کا دوست اُس سے کوئی بات چھپاتا تھا۔ کیا اُس وقت اُ س کا دل بے تابی کے بھنور میں نہ ڈوبا جاتا تھا۔ اور کیا اس میں سے دمبدم یہ صدا جلتی آگ کی طرح نہ نکلتی تھی؟ کاش مجھے قدرت ہوتی تو اس کے پر زے پرزے کر ڈالتا۔ رگ و ریشہ میں سے چھان بین کر اُ س با ت کو جسے چھپاتا ہی نکال لاتا۔ عزیز و یہ ہمارا حال ہے جس عقل پر جس دوربین پر ۔ ہم اکثر فخر کیا کرتے ہیں اُ س کی ایسی رویّ حالت ہے کہ دوست دوست کے دل کا حال نہیں جان سکتا ۔ مگر اس پر طرّہ یہ کہ ہم میں سے ہزاروں ا س بات کا دم بھرتے ہیں کہ خدا کی بابت ہم خود ہی سب کچھ دریافت کر سکتے ہیں۔ الہٰام کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ یاد رہےجب کہ ہم اُن لوگوں کے خیالات سے جو ہر وقت ہمارے سامنے رہتے ہیں۔ جو شیر و شکر سے زیادہ ہم سے وابستہ ہیں۔ جو ہماری ہڈی اور ہمارا خون ہیں۔ واقف نہیں ہو سکتے ۔ تو کب ممکن ہے کہ خدا کی محبت اور اس کے اوصاف سے خود بخود کماحقہ واقف ہو سکیں۔ اُ سے تو ہم نے دیکھا بھی نہیں ۔ اگر دوسرے آدمی کا ارادہ دریافت کرنا مشکل ہے۔ تو خدا کا ارادہ دریافت کرنا ہزار چند مشکل تر ہونا چاہئے ۔ اگر دوسرے آدمی کے حالات جاننے کے لئے یہ امر لازم ٹھہرتا ہے کہ وہی بتائے تو ہم جانیں۔ تو ہزار لازم تر یہ امر ٹھہرتا ہے کہ خدا ہی اپنے فضل سے اپنے ارادات ہم پر ظاہر کرے تو ہم جانیں۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف اُ س کی صنعت ہی سے سب کچھ دریافت ہو سکتا ہے ۔ اُ ن کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ البتہ اس بات کے ہم بھی قائل ہیں کہ اس کی صنعت پر غور کرنے سے اس کی قدرت حکمت اور دانائی  ہم پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔ لیکن کیا یہ کافی ہے؟ ہندوستان میں تاج محل ایک ایسی عمارت ہے کہ دُور دُور ملکوں میں کوئی اور مکان اس کا ثانی نہیں پایا جاتا ۔ ناظرین اسے دیکھ کر بنانے والوں کی خوب تعریف کرتے ہوں گے۔ اور ضرور کہتے ہو ں گے ۔ آفر ین اُ س اُستاد پر جس نے یہ عمارت تعمیر کی  ۔ لیکن ہم یہ نہیں مان سکتے کہ اس عمارت کی صنعت کو دیکھ کر ناظرین اُن معماروں کی خود خصلت  اور چال و چلن سے واقف ہو سکیں جنہوں نے اپنی کاریگری سے ان مکان کو تعمیر کیا۔ اگر کوئی تصویر دیکھ کر مصور کی نسبت یا عمارت دیکھ کر معمار کی نسبت یا کل دیکھ کر کل بنانے والے کی نسبت یہ جان سکتا ہے کہ وہ مغرور تھا یا خاکسار تھا۔ راستباز تھا یا دروغ گو تھا۔ اور لوگوں پر رحم کرنے والا تھایا اُن کو ستانے والا تھا۔ تو خیر ہم بھی یہ مان لیں گے کہ فقط چاند سور ج زمین اور آسمان پر نظر ڈالنے سے خدا کی محبت ، پاکیزگی اور اور باقی اوصاف کما ینبغی دریافت ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی جو کہے کہ میں نے یا فلانے نے ان باتوں کو دریافت کیا۔ تو ہم کہتے ہیں کہ ذرا اس بات کا جواب بھی دے دے ۔ کہ کبھی ’’ میں ‘‘ یا ’’ فلانا‘‘ ۔ ایسے زمانے میں بھی پیدا ہوا جب کہ الہٰام دُنیا میں نہ تھا ۔جس زمانے سے دُنیا کی معتبر تاریخ شروع ہوتی ہے۔ اُس سے کہیں پہلے الہٰام آچکا تھا۔ ابھی آدم عدن ہی میں تھا۔ جب خداوند رحیم نے اس کو یہ مثردہ دیا کہ عورت کی نسل سے ایک پیدا ہوگا جو سانپ کے سر کو کچلے گا۔ اگر الہٰام کو نہ ماننے والاخدا کی محبت اور رحمت وغیرہ کا حال بیان کرے تو کبھی نہ سمجھو کہ یہ اس کی سوچ و فکر کا نیتجہ ہے۔ ہر گز نہیں۔ وہ ایک طرح کی چوری کرتا ہے۔ اوروں سے سُنی ہوئی باتیں اپنی بناتا ہے۔

 انجیل کا دعویٰ یہ ہے ’’ خدا جو اگلے زمانے میں نبیوں کے وسیلے باپ دادوں سے بار بار اور طرح بطرح ہم کلام ہوا۔ ان آخری دنوں میں ہم سے بیٹے کے وسیلے بولا ‘‘۔ یہی ایک وسیلہ تھا جس سے ہم پر خدا کی محبت  ،اُس کی مرضی ، اُس کے احکام اور اُ س کے اوصاف ظاہر ہو سکتےتھے۔ اُ س کے بیٹے نے آکر ہم کو سکھا یا کہ خدا سے اور انسان سے کیسی اور کس قدر محبت رکھنی چاہیے ۔ یہ وہی تھا جس نے مُردوں کے جی اُ ٹھنے ۔ حشر کے دن حساب و کتاب ہونے ۔ بہشت کے ابدی آرام میں دخل پانے یا دوزخ کے مدام عذاب میں گرائے جانے کی نہایت وضاحت سے خبر دی ۔ یہ وہی تھا جس نے روح اور راستی سے بندگی کرنے۔ رسمی اور فضول عبادت سے کنارہ کش ہونے کا حکم کیا۔

اے پیارے ناظرین تم بھی مسیح سے یہ سوال کرو۔ میں کیونکر جانوں کہ تو مجھے پیا ر کرتا ہے؟ اگر یہ سوال کرواور انجیل میں اس کا جواب ڈھونڈ و  تو یہ آواز سنو گے۔ اپنے دل کا دروازہ کھول میں اندر آؤ ں گا۔ تیرے ساتھ رہوں گا۔ تیرے ساتھ کھاؤں گا اور پیوؤں گا۔

دوسری بات یہ ہے۔ کہ گو زبان سے محبت کا ظاہر کرنا لازمی تو ہے۔ لیکن کافی نہیں۔ جیسا ہم نے عنوان کے جواب میں پایا ۔ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے زبان سے اقرار کیا ہے۔ اور پھر عملی ثبوت دیا ہے۔یعنی اپنی تکلیفوں کا ذکر کیا ہے۔ چاہے یہ شخص مدتوں زبان سے کہا کرتا ۔ میں تمہیں پیا ر کرتا ہوں۔ میں تمہیں چاہتا ہوں۔ لیکن کچھ سود نہ ہوتا ۔ جب تک کہ وہ اپنے فعل سے بھی اپنی محبت کی صداقت ظاہر نہ کرتا ۔ اور ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں  کہ اگر کوئی زبانی جمع خرچ پر کسی کی محبت کا قائل ہو بیٹھے اور اس کے چال چلن سے محبت کا ثبوت نہ ڈھونڈے ۔ تو وہ بڑی غلطی پر ہے۔ خصوصاً اس شخص کا حال تو اور بھی بد تر بلکہ قائل رحم ہے۔ جو صریحاً یہ دیکھتا ہے کہ فلاں شخص میری محبت کا دم صرف اپنے ذاتی فائدہ کے لئے بھرتا ہے۔ پر پھر بھی اُس کی محبت کا قائل رہتا ہے۔ خداوند مسیح کی محبت ایسی محبت نہ تھی۔ ’’ضرور ہے کہ ابن آدم صلیب پر کھینچا جائے ‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو خداوند نے اپنی صلیبی موت سے پیشتر اپنے شاگردوں سے کہے تھے۔ یوں تو بہت سی کتابیں اور بہت سے ہادی ۔ گرو اور مرشد اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کہ ہم 

دُنیا کے لوگوں کے لئے کامل درجہ کی محبت رکھتے ہیں۔لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کی طرف کوئی فعل بھی ایسا پایا جاتا ہے جو اُن کے دعویٰ محبت کو ثابت کرتا ہو ۔شاید ایسے بھی بہت مل جائیں جنہوں نے تکلیفیں سہی ہوں ۔ لیکن ایسا کوئی نہ ملے گا۔ جس نے حملہ پر حملہ صدمہ پر صدمہ اُ ٹھا یا ہو۔ پر پھر بھی اپنی زبان اور اپنے ہاتھ کو بند رکھا ہو۔ آپ کو یاد ہو گا  اور اگر نہیں تو ہم یاد دلائے دیتے ہیں کہ جب یہودیوں کے پیادے مسیح کو پکڑنےگئے ۔ اور جب اُس پرہاتھ ڈالنے لگے ۔ تو اُ س کے شاگردوں میں سے ایک نے نیام سے تلوار سونپ کر مخالفوں پر حملہ کرنے کے لئے قدم بڑھایا۔ تو اُس محبت کے پتلے نے اُ س کی طرف نظر پھیر کر یہ کہا ’’ اپنی تلوار بند کر ‘‘ پھر جب اُ سے گرفتار کر کے حاکم کے رو برو لائے۔ تو وہاں اُ س کے ساتھ وہ سلوک کیا۔ جس کو سوچتے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ تمسخر سے کانٹوں کا تاج اُ س کے سر رکھا طمانچے اُ س کے مارے ٹھٹھوں میں اُ سے اُڑایا ۔ غرضیکہ اس کی تکلیفوں نے و ہ طول کھینچا کہ آخر کا ر صلیب پر کھینچا گیا۔ لیکن وہ ایسا رہا جیسے ’’ بّرہ ‘‘ اگر وہ چاہتا تو فرشتوں کے گرو ہیں اس کی مدد کو حاضر ہو جاتے ۔ لیکن نہیں اُ س کے چتون تک نہ بدلے۔ کیوں؟ اس لئے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اُ س کی محبت بے ریا اور بے نقص ہے۔ اے مسیح سے نفرت کرنے والو سنو وہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں تمہارے لئے ایسے ایسے دُ کھ سہے ایسی ایسی تکلیفیں جھیلیں اور تمہیں اب تک معلوم نہیں کہ میں تم کو پیار کرتا ہوں۔

Leave a Comment