Holy Trinity
By
Abnash Chander Ghosh
ابناش چندر گھوش
Published in Nur-i-Afshan August 16,1895
نور افشاں مطبوعہ ۱۶اگست ۱۸۹۵ء
یہ مانی ہوئی بات ہے کہ مسیحی عقائد(مذہب کے اُصول۔ايمان) میں ثالوث(مقدس تثليث) کا مسئلہ سب سے مشکل اور آخر کار برتر ازعقل ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی ہیں کہ عقل اس کے ثبوت میں دوباتیں بھی نہیں کہہ سکتی ۔ عقل اس کے ثبوت میں دو چھوڑ بہت سےدلائل(گواہياں) بیان کر سکتی ہے۔ ان میں سےچند خُدا کی مدد سے ہم یہاں بیان کرتے ہیں ۔اوّل ہم بیان کرتے ہیں کہ مسئلہ ثالوث ہے کیا؟۔ جو اس کا پورا بیان پڑھنا چاہے انگریزی کلیسیاء کی نمازکی کتاب میں سے اتھاناسیس کا عقیدہ پڑھ لے۔ مختصر طور پر یہ مسئلہ یوں بیان ہو سکتا ہے۔ ذات ِ باری میں جو بے مثل اور واحد ہے تین اقانیم یا شخصيتيں ہیں ۔یعنی باپ بیٹا اور رُوح القدس۔ بیٹا باپ سے مستخرج ( نکلا ہوا) ہے اور رُوح القدس باپ اور بیٹے سے صادر(نافظ) ہے۔ یہ تینوں اقانیم درجہ میں برابر اور ہم قدم ہیں۔ لفظ تو حید(وحدانيت۔خُدا کے ايک ہونے پر يقين کرنا) کا اطلاق(جاری کرنا۔عائد ہونا) ذاتِ خُدا پر ہے نہ شخصیت خُدا پر شخصیت تین ہیں لیکن ذات واحد(ايک) ہے۔ اس کو تو حید فی الثالوث کہتے ہیں۔ ہمارے مضمون کے دو حصے ہوں گے۔
۱۔ جس میں ثالوث کا عقلی ثبوت دیا جائے گا ۔
۲۔ جس میں عقلا ًثابت کیاجائے گا کہ جو رشتہ اور تعلق اقانیمِ ثلاثہ کے درمیان کلیسیاء مانتی ہے بالکل درست ہے۔
(ا) ہمیں دُنیا میں ہر شے کی تین حالتیں نظر آتی ہیں۔
۱۔ پیدائش
۲۔ اصلی حالت پر قائم رہنا جس میں ترقی شامل ہے ۔
۳۔ بگڑ کر پھر اصلی اور درستی کی حالت پر بحال ہوتا۔
دُنیا میں جتنی چیزیں ہیں ان کی بہت سی حالتیں ممکن ہیں۔ لیکن ان تمام حالتوں کو جو ممکن ہیں ہم ان تینوں حالتوں میں سےکسی نہ کسی کے تحت میں لاسکتے ۔ ان سے اور کوئی چوتھی حالت ممکن نہیں ۔ پس ان تین حالتوں کو دیکھ کر ہم کہتے ہیں کہ ایک طاقت ہے جو پیدا کرتی ہے اس کو ہم خُدا باپ کہتے ہیں۔ دوسری طاقت ہے جو پیدا کی ہوئی چیز کو بحال رکھتی ہے یا ترقی دیتی ہے اس کو ہم رُوح القدس کہتے ہیں۔ تیسری طاقت ہے جو بگڑی ہوئی شے کو اس کی اصلی حالت پر پھر لاتی ہے اس کو ہم خُدا بیٹا یا کلام اللہ کہتے ہیں۔
اب معلوم ہوا کہ انسانی مشاہد ہ گو ثالوث کی ہستی کا کامل ثبوت تو نہیں دیتا ( اور یاد رہے کہ کوئی ایسی عقلی دلیل(گواہی) آج تک ایجا د نہیں ہوئی جس سے خُدا کی محض ہستی کا ثبوت کامل(مکمل) طور پر ہو ا ہو )۔تاہم اس کی طرف ایک باریک اور پُر زور اشارہ کرتا ہے۔ لیکن اس دلیل پر ایک بھاری اعتراض آسکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کیوں یہ تین حالتیں ایک ہی طاقت کی طرف منسوب(قائم) نہ کی جائیں ۔ اس کے دو جواب ہيں ۔
اوّل ۔ یہ کہ کیوں ہم ان تین حالتوں کو ایک طاقت کی طرف منسوب کریں ۔ ایک کام کے کرنے کے لئے تو دلائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے نہ کرنے کے لئے بھی دلائل چاہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ وہ کون سی دلیل(گواہی) ہے جو ہم کو کہتی ہے کہ ان تین حالتوں کو تین طاقتوں کی طرف منسوب نہ کرو۔ دوسرا جواب ذرا طویل(لمبا) ہے ۔ ہم کو دُنیا میں چیزیں نظر آتی ہیں نیکی اور بدی۔ اور ہم نے نیکی کے بانی کو خُد اکہا اور بدی کے بانی کو شیطان ۔
اب ہم معترض سے پوچھتے ہیں کہ کیوں تمہارے اصول کے مطابق ہم یہاں بھی دو اشیاء کو ایک ہی طاقت کی طرف منسوب(قائم) نہ کریں۔ یعنی اگر عقل کا یہ تقاضا ہے کہ سب چیزیں ایک ہی خالق کی طرف منسوب کی جائیں ۔ تو بدی اور نیکی کیوں خُدا ہی کی طرف منسوب نہیں کی جاتیں اور کیوں بے چارے غریب شیطان کو ایجاد کر کے اس کو گالیا ں دینا شروع ہوا۔ اور اگر اس وقت سے بچنے کی خاطر کوئی مان لے ۔ کہ بدی اور نیکی دونوں کا موجد (بانی۔ايجاد کرنے والا)خُدا ہے اور شیطان کچھ نہیں تو ہم پوچھیں گے کہ پھر اس کا انصاف کہاں گیا کہ وہ بدوں کو سزا دے گا ۔ اور نیکوں کو جزا(ثواب) ۔ کیاوہ عرش پر بیٹھا ہم غریب بے کس انسانوں کے ساتھ تماشہ کر رہا ہے۔ ہمیں وہ ایسے حکم دیتا ہے جن کی اصل اور حقیقت ہی نہیں اگر خُدا ایسا ہے تو ہم نے آج سے دہریت اختیار کی اور اُمید ہے کہ ایسے خُدا کو دُنیا جلد فراموش(بھولا دينا) کرے گی۔
پس جب یہ ماننا درست آیا کہ دو چیزوں کو دو خالقوں کی طرف منسوب کرنا درست ہے تو اس کے ماننے میں کون سی عقلی دقت(مشکل) ہے کہ دُنیا میں جو ہر شے کی تین حالتیں نظر آتی ہیں ان کو بھی تین مختلف طاقتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں کوئی عقلی غلطی نہیں۔ ظاہر ہے کہ ثالوث کے ماننے میں کوئی ایسی دقت نہیں جو محض خُدا کی ہستی اور صفات کے ماننے میں بھی نہ ہو۔ گویا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمانوں جیسی توحید(خُدا کے ايک ہونے پر يقين کرنا) قائم کرنا اور ثالوث کا امکان ہی اُڑا دینا چاہے تو اس کو ضرور ہو گا کہ تمام دُنیا کے مجموعے کو خُدا مانے اور بدی اور نیکی دونوں کو خُدا کی طرف منسوب کرے اور اپنے آپ کو خُدا کا ٹکڑا مانے اور اگر چاہو کہ خُدا شیطان اور دُنیا کو علیٰحدہ علیٰحدہ وجو د مانوں تو ہمارا مسئلہ ثالوث بھی اپنے لئے ازروئے عقل گنجائش پیدا کرے گا ۔ کوئی دلیل نہیں جس سے ثابت ہو کہ اشیاء کی پیدائش بحال رہنے اور بحال ہونے کو خُدا باپ خُدا رُوح القدس اور خُدا بیٹے کی طرف منسوب کرنا غلط ہے۔ اور خاص کر جب اس کی تائید میں مسیح اور اس کے حوارین(شاگرد) کے اقوال موجود ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ اشیاء کی تین حالتوں کے علاوہ موت کی ایک چوتھی حالت ہے تو یاد رہے کہ موت دوقسم کی ہے۔
(۱)ایک تو وہ موت جو محض نقل مکانی یا نقل حالت ہے اور یہ بحال رہنے کی ایک شاخ ہے اور رُوح القدس کی طرف منسوب ہو سکتی ہے ۔ (۲)دوسری موت وہ جو گناہ کے باعث ہے اور اس کا بانی تو شیطان مان ہی رکھا ہے ہم نے اپنے مضمون میں لفظ طاقت کا استعمال بہت کیاہے۔
اور یہ ا س لئے نہیں کیا کہ بعض ملحدوں(جس کا کوئی مذہب نہ ہو ) کی طرح ہم خُدا کو محض ایک طاقت مانتے ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ لفظ ہمارے مطلب کو خوب ادا کرتا ہے ۔ یہ ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ اصلی طاقتیں سب شخصی طاقتیں ہیں۔ اور کوئی طاقت بغیر شخصیت کے کچھ اصل نہیں رکھتی ۔