مقدس تثلیث

Eastern View of Jerusalem

Holy Trinity

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan July 15, 1895

نور افشاں مطبوعہ۱۵جولائی ۱۸۹۵ ء

یہ امرتو پوشیدہ(چُھپا ہوا)  نہیں ہے۔ کہ محمدی  صاحبان  ہم مسیحیوں سے  گفتگو و    بحث کے  وقت   زیادہ  ترانہی   دو  باتوں  یعنی

 اوّل۔  مسئلہ   پاک تثلیث   اور

دوم  ۔الوہیت   خُداوند   یسوع مسیح  پر اکثر    تکرار کیا کرتے ہیں   ۔

اور بے شک  یہی   دونوں   باتیں   مسیحی  مذہب   کی خاص   و ضرور ی باتیں۔   بلکہ اعلیٰ   اصول   ہیں۔  جن پر  انسان   کی نجات   کا دارو مدار ہے۔  اور چونکہ وہ  اسرار الہٰی  ہیں۔ اس لئے   اُن کا  پورے طور   پر سمجھ  میں آنا بھی دائرہ  محدود  عقل   انسانی  سے بالکل   باہر اور ناممکن   امر ہے۔ جب کہ  ہم انسان   اپنی ہی  ماہیت(حقيقت)   کو پورے   طور پر  سمجھنے   میں قاصر(مجبور۔عاجز)   ہیں۔ تو   اس قادر  خالق ۔ لا  انتہا  و لامحدود  خُدا کی  ماہیت   کو بھلا کیونکر  سمجھ  سکتے ہیں۔  تو بھی  جہاں تک  یا جس قدر  خُدا  نے اپنے پاک  کلام   میں ان کی  بابت  ہماری  تعلیم  کے لئے   ظاہر کر دیا۔ اکثر   علماء  مسیحی  نے اس کو اپنی  تصانیف(تحرير کی ہوئی کتابيں)  میں صاف  و صریح   (واضح)طورپر  بیان بھی کر دیا ہے۔  جو چاہے   اُن کا مطالعہ  کر کے معلوم  کر سکتا اور تسلی  پا سکتا ہے۔

مگر مصنف  قرآن   نے جس تثلیث کا تثلیث   الہٰی  خیال  کر کے انکار کیا ۔ ہم مسیحی  بھی اس کے منکر(انکار کرنے والے)  ہیں۔ بلکہ  اس کو کُفر (بے دينی۔خُدا کو نہ ماننا۔نا شُکری) سمجھتے  ہیں۔ چنانچہ  قرآن  میں مذکور  ہے۔ اے عیسیٰ  بیٹے  مریم کےکيا  تو نے  کہا تھا  لوگوں کو کہ پکڑ   و مجھ  کو اور ماں میری  کو’’ معبود  سوائے اللہ  کے‘‘ ۔سورہ المائدہ  رکوع  ۱۶۔

واہ قرآنی  خُدا کی  عالم الغیبی  جس کو اس قدر بھی خبر نہیں  کہ کس انجیل  میں عیسیٰ  نے یہ کہا۔  کس میں نہیں  ۔ صریح  بہتان(واضح الزام)  ہے۔ صرف  رومن  کيتھولک  عیسائیوں   کو مریم  کی زیادہ  تر تعظیم  (عزت)کرتے ہوئے  دیکھ کر مصنف   قرآن نے مریم  کو تثلیث  اقدس   کا اقنوم  ثالث(۔تيسرا)  قرار دے دیا۔  اور جن کی  ابطال(جھوٹ)  میں دلیل (گواہی)  بھی فوراً  پیش کر دی کہ ’’ عیسیٰ  اور مریم  دونوں  کھانا  کھایا  کرتے تھے۔  دیکھو  کیسی  عمدہ  دلیلیں  ان دونوں  کے ابطال  الوہیت  پر بیان کرتے  ہیں۔ پر دیکھو  وہ نہیں   مانتے  ‘‘  سورہ  ایضاً  رکوع  ۱۰۔

سبحان   اللہ بہت   بہت عمدہ  دلیلیں   ہیں ۔  مگر مانیں  کیونکر   مریم تو انسان تھی۔  جس کو کبھی کسی  عیسائی  نے آج تک  پاک تثلیث  کا اقنوم   ثالث  قرار نہیں   دیا۔  مگر ہاں  خُداوند  یسوع مسیح  انجیل مقدس  کے موافق   کامل   خُدا  او ر  کامل انسان  دونوں  ظاہر  ہے۔ ( فلپیوں  ۲: ۵ ۔۱۱ ۔اتميتھيس۳: ۱۶ و کلسیوں  ۲: ۹ )  جس کو الوہیت   کی دلیلوں  سے الوہیت   کا ثبوت  اور انسانیت  کے کاموں  سے انسانیت  کا ثبوت  ہے۔ مگر کھانا  کھانا  اگر خُدا کے  نزدیک   ناپسند   و مکروہ ہے  تو تعجب  ہے کہ بقول  محمدیوں  خُداوند   یسوع مسیح  کا وہی کھانا  کھانے والا  جسم   کیونکر   خُدا کے پاس  آسمان  پر زندہ  چلا گیا ؟  ضرور  تو یہ تھا  کہ اس  کی الوہیت   کی دلیلیوں   کو رد کر  کے  اس کا ابطال(جھوٹ)  ظاہر  کرتے ۔  مگر یہ ناممکن  امر تھا کیونکر  ہو سکتا ۔ چنانچہ  کلامِ مقدس  بائبل  کے موافق  اس  کی الوہیت(خُدائی)   کی دلیلوں  میں سے بعض  یہ ہیں۔

’’ساری باتوں کو آزماؤ ۔ بہتر کو اختیار کرو ‘‘ ۔۔

۱۔ نبوت  کا کلام  ۔ یسعیاہ   ۹:۶ ۔یرمیاہ  ۲۳ : ۶ ۔میکاہ  ۵: ۲۔۶

۲۔  خُداباپ کی گواہی   ۔ متی  ۳: ۱۷  ، ۱۷: ۵ ۔

۳۔  یوحنا   بپتسمہ  دینے والے کی گواہی  ۔ یوحنا  ۱: ۱۵۔  ۲۷۔

۴۔  خود مسیح  کا قول۔  یوحنا  ۸: ۴۲ ، ۵۸ ۔ ۱۴: ۱۱ ، ۱۶۔ ۱۷ :۵۔

۵۔ اُس  کا زندہ  ہونا ۔ متی  ۲۸: ۵ ۔۸۔

۶۔  رسولوں   کی گواہی   ۔ یوحنا  ۱: ۱۴ رومیوں   ۱:  ۳۔ ۴۔

۷۔  روح القدس  کی گواہی  ۔ (بموجب قول  مسیح   یوحنا  ۱۶: ۱۳ ۔ ۱۴ ) ۱۔کرنتھیوں  ۱۲:  ۳۔

ماسوا  ان کے قرآن  میں بھی درج ہے۔ کہ عیسیٰ  بیٹا   مریم کا رسول  اللہ  کا ہے اور کلمہ ہے اس کا ڈال  دیا  اس کو طرف  مریم  کے اور روح ہے اُس  کی طرف سے  الخ۔ سورہ النساء  رکوع  ۔

۲۳۔ (بھلا کیا یہ عجیب  خطاب  کسی اور نبی  کی طرف  بھی منصوب  ہو ئے ؟  ہرگز  نہیں )۔

پس  ظاہر ہے کہ مصنف  قرآن نے مریم  کو پاک  تثلیث  کا  اقنوم   ثالث   خیال کیا ۔ جس پر کل  مفسر  (تفسير کرنے والے)قران  بھی متفق  ہیں۔  کہ محمد  صاحب   ضرور  مریم  کو تثلیث کا اقنوم   ثالث  سمجھتے تھے۔ جس کو ہم مسیحی  بھی کفر  سمجھتے  ہیں۔ مگر  بعض محمدی  صاحبان  نے مسیح  اور روح  القدس  کا جو انکار  کیا۔ وہ پیچھے  کا خیال  ہے۔ جو  انہوں نے عیسائیوں  سے سُنا  ہے۔

علاوہ اس کے آیت  قرآنی  مذکورہ  بالا کے آخر  میں  جو  یہ  الفاظ  مذکور  ہوئے  کہ ’’ مت  کہو تین  خُدا  ہیں ‘‘  صریح  بہتان(صاف جھوٹ)  ہے کیونکہ  عیسائیوں  کے عقیدہ  میں تین  خُدا کہنا  یا ماننا  بالکل  کفر  ہے۔ بلکہ   وہ صرف  ایک واحد  خُدا کے قائل  ہیں (  استثنا   ۶ : ۴ رومیوں   ۱۶ : ۲۷  ۔ ۱ تميتھيس  ۱:  ۱۷ یہوداہ  ۱ : ۲۵ ) مگر  ایک خُدا میں اقانیم  ثلاثہ  یعنی  اب ۔ ابن اور روح القدس  (باپ ،بيٹا اور روح القدس)کے بھی  قائل ہیں  ۔ جن  سے تین خُدا لازم  ہرگز نہیں آتے  ۔ بلکہ تین  اصول  جو فی الحقیقت  شخصیت  میں الگ   الگ  مگر ذات  و صفات  اور جلال  میں واحد  ( متی  ۲۸ : ۱۹ ۔۱ کرنتھیوں  ۱۳: ۱۴ )۔ اُس   الہٰی   ازلی   و حقیقی   وحدانیت میں  جو سرالہٰی  ہے۔ کلام  الہٰی  کے موافق   قبول  کرنا منافی(خلاف)  اُس  وحدت(ايک ہونا ۔يکتائی)  کے نہیں جو اللہ  کی وحدت  ہے۔ مگر  ہاں وحدت  مجرد(تنہا) یا  اُس  وحدت  کے ضرور  خلاف  ہےجو  عقلی   وحدت  ہے۔ کیونکہ  اللہ کی وحدت  میں عقلی وحدت  کا قائل  ہونا ہی کفر ہے۔ جس کے  اقرار  وایمان  سے مطلق  کوئی  فائدہ  نہیں ہے ( یعقوب ۲: ۱۹)  کیونکہ  خُدا کی وحدت  وہ وحدت  ہے جو قیاس  و گمان  انسانی  (سمجھ انسانی)سے بالاتر  ہے۔ اس میں نہ وحدت  وجود  ہی  نہ عقلی   نہ وحدت  عددی  ہے۔ بلکہ  وہ غیر  مدرک  ( نہ سمجھنے والا۔)ہے جومتشابہات(قران شريف کی وہ آيتيں جن کے معنی سوائے خُدا تعالیٰ کے کوئی نہيں جانتا۔جن کے ايک سے زيادہ معنی ہو سکتے ہيں) میں سے ہے۔ جس کا  مطلب  آج  تک کوئی  نہیں سمجھ  سکا ۔ اور نہ  انسان  کی طاقت  ہے کہ اُس  کو سمجھ  سکے۔

پس اس  تثلیثِ  الہٰی  کو قبول  کرنا  کلام اللہ  کے موافق  ہر انسان  کا فرض  عین(درست۔حقيقت)ہے۔  مگر وہ صرف  ایمان  ہی کے  ذریعہ  قبول  کی جاتی  ہے۔ کیونکہ ’’ نفسانی آدمی  خُدا کی  روح  کی باتیں  قبول نہیں کرتا ۔  کہ وہ اُس  کے آگے  بیو قوفیاں ہیں  اور نہ اُنہیں جان سکتا ۔  کیونکہ وہ روحانی  طور  پر بوجھی  جاتی ہیں۔  ۱ کرنتھیوں  ۲ : ۱۵۔

پس اس لئے ہر فرد  بشر  پر کمال  ضرور ی ہے کہ ان باتوں  پر دل کی غریبی  سے غورو فکر  کر کے اُس  کے خالص  و پاک  کلام کی  سچائی  و راستی  کا خواہاں  ہو۔ تاکہ وہ روز  عدالت  سرخرو ہو  کہ خُدا  کے حضور  ہمیشہ  کی ابدی  و لاثانی  خوشی کو حاصل  کرے ۔

نبی کا  فرمان  ۔ ’’  آؤ  کہو جئیں  اور اپنی   راہوں  کو جانچیں  اور خُداوند   کی طرف پھریں  ‘‘۔  یرمیاہ  کا نوحہ  ۱۳: ۴۔

رسول  پولوس  کا قول  ’’ساری  باتوں  کو آزماؤ  ۔  بہتر  کو اختیار  کرو ‘‘ ۔ ۱ تھسلنیکیوں ۵ : ۲۱۔

Leave a Comment