رُوح القدس اور محمد

Eastern View of Jerusalem

Holy Spirit and Muhammad

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Jan 12, 1891

نور افشاں مطبوعہ۱۲جنوری ۱۸۹۱ ء

لیکن   جب رُوح  القدس   تم  پر آئے   گا   تو  تم قوت   پاؤ گے ۔ اور یروشلیم   اور   سارے  یہودیہ  و سامریہ  میں بلکہ زمین  کی حد  تک میرےگواہ  ہو گے ( اعمال  ۱: ۸)۔

لوقا  کے چو  بیسویں  با  ب  کی ۴۹  ويں آیت   میں خُداوند  مسیح  نے رُوح القدس کو موعود  (وعدہ کيا گيا)فرمایا  اور شاگردوں  سے  کہا۔   دیکھو   میں اپنے باپ  کے اس موعود  کو تم  پربھیجتا   ہوں۔ لیکن تم جب تک  عالم  بالا  کی قوت  سے ملبس  (قوت سے بھرنا) نہ  ہو یروشلیم  میں ٹھہرو ۔   یہ  خُداوند   کی آخر  ی  تسلی  بخش   بات تھی۔  جس میں ایک ایسا   وعدہ  شامل تھا  ۔ کہ جب  تک  وہ پورا   نہ ہو لیا   مسیح   کے رسول  اس کی گواہی    دینے  کے قابل   نہ ہو سکے۔   کیونکہ   صرف رُوح القدس  ہی  قوت   و قدرت   کا وہ سر چشمہ  ہے۔  جس   سے سب مقدسوں  میں قوت  اور ہمت   و  جرأت  پیدا  ہوتی  ۔ اور کلام    کے سمجھنے  ۔ مضامین   روحانی   کی برداشت   روحانی   جنگ   کی قوت  ۔  کلام  کی خدمت   اسی کی  مدد   سے ہوتی  ہے  ۔ معلوم   ہوتا ہے  کہ مسیح   کےآسمان   پر عروج(اُٹھايا جانا)    فرمانے  کے بعد  سب شاگرد   یروشلیم  ہی میں ایک  بالا خانہ    میں فراہم(اکٹھے)   رہ کر اس  موعود  مسعود  (مبارک وعدہ)کی انتظاری  میں شب   و روز  دُعا مانگنے  اور عبادت   کرنے میں مشغول(مصروف)  رہے۔ اور  جب  عید  ِپنتکوست   کا دن آیا   تو وہ وعدہ  عجیب  طور   سے پورا ہوا   ۔اور جب کہ  عید مذکورہ   کی تقریب  کے باعث  تخمیناً   پچپس   لاکھ   یہودی   ممالک   مختلفہ   کے یروشلیم   میں جمع   تھے۔  سب  کے دیکھتے   ہوئے  روز  روشن   میں  مجمع   عام  میں  آتشی   زبان   کی  صورت   میں نازل   ہو کر ان  بے علم اُمی(ان پڑھ)  گلیلی  مچھووں  کو غیر زبانوں  میں خُدا  کی عمدہ  باتیں   بولنے اور مسیح  کے نجات  بخش نام   کی نہایت   دلیری  و استقلال (مضبوطی) کےساتھ   گواہی دیکھنے   کے قابل  کر دیا۔   ضرور تھا  کہ اولاً  مسیح   کی خوشخبری   یہودیوں  کو دی جائے ۔  اور یروشلیم  سے یہ کام   شروع کیا جائے ۔ جہاں  کے ہزاروں  آدمیوں   نے مسیح  کو مصلوب  ہوتے ہوئے  دیکھا تھا۔ 

اس کی  زندگی   میں اس  کے کلام کو   سنا تھا ۔ اور   اُس کو بخوبی  جانتے  پہچانتے   اس    کے معجزات   کو مشاہدہ  کرچکے   تھے۔ کیو نکہ یہ  باتیں کو نے  میں نہیں ہوئیں ۔ پس رسولوں  نے اس وقت سے ایک  عرصہ تک  مسیح کی  گواہی  یروشلیم  شہر میں بڑے  جو  ش   و خرو ش  کے ساتھ دی۔   اور  سب سے  زیادہ زور اسی   ایک  بات  پر دیا کہ یسوع   وہی مسیح   ہے   جس کا ذکر   نوشتوں  میں کیا گیا ۔ جس  کو  قوم   یہود  نے  پلا طوس سے درخواست   کر کے صلیب   دلوا  د  ی   اور قتل  کیا۔  اور وہی یسوع  مُردوں ميں سے جی اُٹھا ہے۔ آخر   دن میں وہی   دُنیا کی عدالت  کر   نے کو  پھر  آئے گا۔  اور یہ  کہ اس کے سوا   اور کوئی نجات   دہندہ نہیں۔  جو اس  کے نام  پر ایمان  لاتا  ہے۔ سو  و  ہی   نجات  پائے گا۔

اگر چہ  یہ حکم  خُداوند  نے اس وقت  ان ہی  شاگردوں  کو جو حاضر  تھے دیا۔  مگر اس  کی  تعمیل(عمل کرنا)   ہر ایک مسیحی   ایماندار  پر فرض ہے۔  ہر ایک مسیحی    مومن   خُداوند   مسیح کا  گواہ ہے۔  اور واجب   ہے  کہ وہ اپنے    اعمال  و اقوال   ۔ حر کات   و سکنات   زندگی   اور موت   سے اپنے نجات   دہندہ   کی گواہی  دے اور ایسا   کرنے سے وہ اپنے  کو  فرشتوں  ۔ نبیوں  اور رسولوں  کا ہم خدمت  ثابت  کرے گا۔ 

اور ميں اپنے باپ سے درخواست کرونگا۔اور وہ تمہيں دوسرا تسلی دينے والا دے گا۔کہ تمہارے ساتھ ابد تک رہے۔يعنی سچائی کا رُوح جسے دُنيا نہيں پا سکتی۔کيونکہ اُسے نہيں ديکھتی نہ اُسے جانتی ہے۔ليکن تم اُسے جانتے ہو۔کيونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے۔اور تم ميں ہو گا۔يوحنا:۱۴۔۱۷:۱۶ ۔

دوسرا تسلی دينے والا

جس يونانی لفظ کا ترجمہ ہے وہ دراصل پار اقليتس (دوسرا مدد گار)ہے۔محمدی اس کو فارقليط(تعريف کيا گيا) کہتے اور محمدؐ صاحب کی خبر سمجھتے اور کہتے ہيں۔کہ فارقليط کے معنی احمد ہيں۔اسی ليے قران ميں آيا ہے کہ مسيح نےکہا ۔اِنّی مُبشرِاً بِرُسول ياتی من بَعدی اسمہ احمد ۔يعنی ميں خوشخبری ديتا ہوں ايک رُسول کی جو ميرے بعد آئے گا۔اُس کا نام  احمد ہو گا۔تمام عہدِ جديد(نيا عہد نامہ)ميں  يہ ہی ايک ايسا مقام ہے۔جس پر محمديوں نےحضرت کو رُسول موعود (وعدہ کيا ہوا)ٹھہرانے کے ليےبہت زور مارا ہے۔مگر مسيحيوں نے مقدوربھر(طاقت کے مطابق)  ان کی غلط فہمی کو رفع(دور) کرنے کی کوشش کی۔اور مُدلل (درست)طور پر بہت کچھ لکھا۔تو بھی ابھی تک محمدی يہ ہی سمجھتے ہيں کہ ضرور  فارقليط سے مُراد محمدؐ صاحب ہی ہيں۔ليکن اگر اُن تمام آيات پر جو اُس موعود کی نسبت انجيل ميں پائی جاتی ہيں۔بخوبی غور کيا جائے تو صاف معلوم ہو جائے گا۔کی مسيح خُدا وند نےجو کا م اور صفتيں اس سے منسوب کی ہيں وہ کسی انسان کے درکنار(جُدا۔ الگ)۔کسی فرشتے کے ساتھ بھی  ہرگز منسوب کی جا سکتی ہيں۔اور يوں تو محمدؐ صاحب کو  کيا ہر ايک شخص کو جس کا نام ہو اختيار ہے۔کہ وہ اپنے کو فارقليط تصور کر کے موعود تسلی دينے والا  ظاہر کرے۔ چنانچہ اکثروں نے مسيح کے بعد ايسا دعویٰ کيا ہے۔ اور بعض محمديوں نے بھی جن کے نام ميں لفظ  احمد شامل تھا۔اپنے کو اور ديگر محمدی اشخاص کو  دھوکہ ديا۔ منجملہ ان کے ايک مرزا غلام احمد صاحب قاديانی ہيں ۔جو اس آيت قرآنی کو  اپنے اوپر جماتے اور کہتے ہيں کہ ميں آيا ہوں۔اور ميرا نا م احمد ہے۔ديکھو ازالہ صفحہ ۶۷۳۔

ليکن  جيسا کہ توزين الاقوال سے ظاہر ہوتا ہے ۔پندرھويں صدی سے اس انيسويں صدی تک ہندستان ميں چار احمد ظاہر ہو چُکے ہيں۔ جنہوں نے دينِ اسلام کی مرمت اور سلطنتِ اسلاميہ کے بارہ ميں فکر کيا ہے۔اور مجدد(پُرانے کو نيا کرنے والا۔تجديد کرنے والا) ہونے کے مدعی(دعویٰ  کرنے والا) ہوئے ہيں۔

پہلا احمد۔شيخ احمد سر ہندی ہيں۔ جن کا انتقال ۱۳۴ہجری ميں  ہوا۔اور شہر سر ہند ميں ان کا مقبرہ ہے۔ وہ مذہب اسلام کے ايک جيد عالم (زبردست  علم رکھنے والا)اور صوفی (پرہيز گار)تھے۔ ان کو  محمديوں نے مجدد  الف ثانی کا خطاب ديا تھا۔ جو اب تک ان ميں مقبول ہے۔ يعنی وہ دينِ اسلام کے مجدد يا ريفارمر  (درست کرنے والا)اور احمد  ثانی کہلائے۔پہلا احمد محمدؐ صاحب ہوئے۔اور دوسرا احمد يہ حضرت سمجھے گے۔آخر کار ان کے خيال  ميں بھی کچھ ايسا آ گيا ۔کہ ميں دوسرا احمد ہو کہ محمدؐ صاحب کے قريب آ گيا ہوں۔ضرور دوسرے اصحابِ رُسول  سے مجھے سبقت(برتری) حاصل ہوئی ہے ۔ايسے خيال کی بُو دريافت(معلوم)  کر کے بعض محمدی اُن پر طعن کرنے لگے تھے۔ تب انہيں کہنا پڑا کہ يہ غلط ہے۔ ميرا گمان(خيال) ايسا نہيں ہے۔(سفنيتہ الاوليا) مگر

 تانبا شد اند کے مردم نگو يند چيز ہا۔

دوسرا احمد۔ سيد احمد غازی ہيں۔ اُن کا حال ناظرين بغور سُنيں۔کيونکہ مرزا صاحب نے اُن کی تقليد (نقل۔پيروی)کر کے نبی اور مسيح ہونے کا دعویٰ کيا ہے۔ اور اس طرح کے کچھ بندوبست نظر آتے ہيں۔ يہ حضرت قوم سے سيد اور رائےبريلی کے باشندے تھے۔اور سيدھے مزاج کے آدمی بے علم شخص تھے اور اولاًنواب ٹونک کے سواروں ميں ملازم تھے۔شاہ عبدالعزيز  کی شہرت سن کے دہلی ميں آئے اور سرائے ميں اترے۔ارادہ تھا کہ شاہ صاحب  کے مريد(چيلا) ہو کے واپس چلے جائيں گے۔

اُس وقت دو مولوی صاحب  ہمراز دوست اور دُنيا کی طرف سے تنگ ۔اور شاہ صاحب سے با باطن کشيدہ  خاطر ۔بظاہر اُن کے عزيزکسی منصوبہ ميں گُشٹ کيا کرتے تھے ۔يعنی مولوی اسمعٰيل اور مولوی عبدالحی۔ مولوی اسمعٰيل بڑا لسّان  (خوش گفتار)اور عمدہ واعظ  شاہ صاحب کا بھتيجا تھا۔ اُس کو اُميد تھی کہ شاہ صاحب جو لا ولد(بے اولاد) تھے اپنی ميراث ميں سے اِس بھتيجے  کو حصّہ ديں گے ۔ليکن شاہ صاحب اُن کے مقلدی(پيروی) خيالات سے خوش نہ تھے۔کچھ ترکہ (ميراث)نہ ديا۔سب کچھ اپنے داماد کے نام لکھ ديا۔تب اسمعٰيل  نےسخت ناراض ہو کے مقلدين فرقہ کی بيخ کنی (نيست و نا بود کر دينا)کی۔ اور اپنی معيشت دُنياوی کے فکر ميں ہوگئے ۔اور عبدالحی اُن کے دوست جو ميرٹھ کے کسی سرکاری دفتر ميں محرر تھے ۔بر خواست ہو کے دہلی ميں آگئے تھے  ۔دونوں فکر مند دوست ہمراہ چلتے پھرتےاور کسی تجويز (رائے۔صلاح)کے درپے تھے ۔ناگاہ سرائے ميں سير کے لئے گئے ۔وہاں  سيد احمد صاحب کو مسافرانہ اُترتے ہوئے پايا۔ ملاقات ہوئی اور حال پوچھا   ۔ مزاج   دیکھا۔  اور  جہاد کی  پٹی   پڑھائی  ۔ اور اپنے  پنجہ   میں  پھنسا  لیا۔  اور   منصوبے  باندھ  لئے ۔ اور شاہ صاحب  کے پاس  مرید(چيلا ۔پيروی کرنے والا) کرانے  کو لے گئے۔ جب   وہ مرید ہو کے  باہر  نکلتے پالکی  موجود تھی انہیں  سوار  کیا۔  اور ایک مولوی  دہنے ایک  بائیں ہوا۔  اور ادب  سے پالکی  کے ساتھ دوڑتے تھے۔  اور  جب   وہ جامع مسجد  میں نماز جمعہ  کے لئے  آتے  ۔ تو مسجد   کے دروازہ   پر ایک جوتی   ان کی مولوی  اسمعیل  ۔ اور دوسری   جوتی مولوی   عبدالحی   ادب سے اُٹھا  لیتے۔  اور دست  بستہ(ہاتھ باندھ کر) پیچھے   کھڑے  رہتے تھے۔  لوگ حیران  تھے کہ  یہ  کیا معاملہ   ہے۔  کہ ایسے بڑے  بڑے   مولوی   اس شخص   کی پائے خاک  (پاؤں کی خاک)  ہو گئے ہیں ۔ یہ کون  صاحب   ہیں۔ تب یہ دونوں  مولوی  کہتے تھے۔  کہ حضرت   سید احمد  صاحب  بڑے ولی اللہ   ہیں۔  یہ حضرت  محمد صاحب  کے مشابہ  پیدا ہوئے ہیں۔

 خُدا  نے ان کو  بھیجا   کہ سلطنت   اسلامیہ  کو قائم  کریں  اور  دینِ اسلام   کو  رونق   دیں۔  اور خُدا  نے ان سے ہم کلام   ہو کے  بڑی  فتح  مندی  کے  وعدے   فرمائے ہیں۔ اب  یہ حضر ت  امام ہو کے جہاد(دين کی حمايت کے ليے ہتھيار اُٹھانا)   کریں گے۔  اور کافروں  کو مار   کے ہندوستان   سے نکال  دیں گے۔   تمام مسلمانوں  کو چاہیے   ۔ کہ اپنی  جان  سے  اور مال  سے ان کی  مدد   کریں  ۔  اور ان   کے ساتھ   ہو کے جہاد میں جانا  ایسا   سمجھیں  جیسے   رسول  اللہ کے ساتھ   گئے۔  دیکھو  کتا ب صراط  المستقیم   تصنیف  مولوی   اسمعیل   ،جو   انہیں  ایام   میں جلد  لکھی   گئی  ۔  دیباچہ   میں لکھا  ہے کہ جناب   سید  احمد  کا نفس  عالی جناب   رسالت   مآ  ب   کے ساتھ  کمال   مشابہت  پر بدو فطرت   میں پیدا   کیا گیا  ہے۔  اور  خاتمہ  میں لکھا   ہے  کہ حضرت  نبی  صاحب   کو سید صاحب   نے خواب  میں  دیکھا  اور نبی   صاحب نے اپنے ہاتھ  سے ان  کو خرمے(کھجور کی شکل کی مٹھائی)   کھلائے  ۔ پھر  کسی  روز  حضرت علی   اور حضرت   فاطمہ   بھی خواب   میں ان   سے ملنے  کو آئیں  ۔ علی  نے بدست   خود  ان کو غسل  دیا اور  فاطمہ  نے بدست   خود ان   کو عمدہ  پوشاک  (لباس)پہنائی  ۔ پھر ایک   روز خواب  میں ان سے   خُدا  تعالیٰ  نے ملاقات کی۔ اور   اپنی قدرت  کے ہاتھ   سے ا ن کو پکڑ  لیا ۔ اور پاک  چیزیں   ان کے سامنے   رکھ  کے کہا   کہ یہ چیزیں   میں نے تجھے   دیں  اور  آئندہ   کو اور چیزیں   بھی تجھے  دُوں گا۔ غرض  سید صاحب   کو پیر بنا کے  لے   اُڑ  ئے ۔ اور تمام  ہندوستان  میں پالکی   لے کے پھر  گئے۔  اور جابجا  وعظ   کر کے ملک   کے مسلمانوں  کو اپنی  طرف   کھینچ  لیا ۔ بے شمار   روپیہ  جمع  کیا   اور جا بجا  ہنڈوی  بھیج  کے مہا جنوں (خزانچی)میں جمع  کرایا۔   اور ہزار ہزار  جاہل نمازی  مسلمان  جہاد کے لئے   تیار  کر کے  کچھ  آگے   بھیج   دیئے    کچھ ہمراہ  لئے۔  اور شہر شہر  سید صاحب   کے خلیفے   بٹھائے  تا کہ روپیہ  اور آدمی  بھی پیچھے   روانہ  کرتے  رہیں۔

  جب انگریزوں  نے پوچھا   کہ یہ کیا  معاملہ    ہے؟ تو کہا کہ  ہم آپ لوگوں   سے نہیں  پنجاب  کے سکھوں   سے جہاد کرينگے۔وہ وقت ايسا تھا کہ انگريز بھی مصلحتاً چپ کر گئے ۔اور يہ حضرت فوج بنا کے برائے سندھ سوات بونير تک پہنچےتاکہ اس طرف سے سکھوں پر حملہ ہو۔۔ اُمید تھی   کہ افغان  بھی  ساتھ  ہو جائیں گے  اور جب ملک پنجاب  سکھوں   سے خالی  کرا لیں گے ۔  تب انگریزوں  کو سمجھ  لیں گے ۔اور  یوں  سلطنت  اسلامیہ   قائم  ہو جائے  گی ۔  مولوی   عبدالحی  کوئٹہ  کی راہ میں بعارضہ   تپ  لرزہ    انتقال   کر گئے۔  اور  اسماعیل    و سید  احمد  وہاں پہنچے  ۔ کئی دن فوج  لے کے کچھ  لڑے  ۔  آخر  کار بعض پٹھانوں  کی مدد سے سکھوں  نے رات  کو ایسا اُن پر   چھا پا مارا  کہ سب کو  قتل  کیا۔ مولوی  اسمعیل   وہاں مارے گئے  ۔ اور سارے  مومنین  مجاہدین  قتل  ہوئے سید  احمد صاحب   کی ٹانگ  میں گولی  لگی تھی۔  اور وہ میدان  میں بیٹھ  گئے تھے۔  اسی جگہ   مر گئے  کوئی   کہتا ہے کہ ایک پٹھان   ان کو اپنے  گھر اُٹھا   لے گیا  تھا۔ وہاں  جا کے مرگئے   ۔ کوئی آدمی  بھاگ   کے بہ مشکل   واپس   آیا تھا۔   اور یہ واقعہ   ۱۸۲۷ء   میں واقع  ہو  اتھا ۔  ( دیکھو   کتاب مولوی  غلام   حسین    ہو شیار  پوری  و انور العارفین  تصنیف   محمد  حسین   مراد  آبادی)۔ 

جب تک  اس  پشت  کے لوگ   نہ مرے ان کو یہی   خیال  رہا  کہ سید صاحب   پہاڑوں  میں پوشیدہ  (چھپے)ہیں۔   کسی  وقت نکلیں گے۔  اس منصوبہ  اسمعیل   کا نتیجہ   کیا نکلا؟   یہ کہ انسانی   چالاکی تھی  رسولی   مشابہت  اور وہ سب  خواب  باطل  (جھوٹے)تھے   ۔ سب دوڑد  ھوپ   برباد ہوئی  ۔ آپ بھی مارے گئے  ۔   اور صدہا  جاہل  نمازی  اطراف   پورب(مشرق)   کے مومنین  قتل  کر و  ا دئے۔   ان کی عورتیں   رانڈ(بيوہ) ہوئیں   بچے یتیم   ہو کے محتاج  ہوئے ۔ خانہ خرابیاں  ہو گئیں  بادشاہی  ہاتھ  نہ آئی  ۔ ہاں  اسلام کی اس  قدر  مرمت  ہوئی   کہ غیر  مقلد   فرقہ ان  کے  وعظوں  سے اور  ان  کی کتاب،   تقویت   لایمان   وغیرہ  سے پیدا  ہو گیا۔

اب مزرا  قادیانی  صاحب  کا وہی  طور(طريقہ)  نظر   آتا ہے وہ خود  مسلمانوں  کو سکھاتے ہیں  ۔  ( فتح   الا سلام صفحہ  ۸، ۷۱ )   کہ رسمی   علوم  اور قرآن   و احادیث   کے ترجموں  کی اشاعت  سے اسلام  کی مرمت   نہیں ہو سکتی ۔ آسمانی   سلسلہ  کی طرف   دیکھنا   چاہیے    ۔ مطلب   میں   آسمان   کی  طرف  سے نبی  اور مسیح  مقر  ر  ہو کے آیا  ہوں۔  میری اطاعت(طابع داری)  سے مرمت   السلام  ہو گی  نہ تمہارے   رواجی   دستو رات سے ۔  اور اپنی   بے شمار  تعریفیں   آپ  اپنے منہ سے کرتے ہیں کہ میں  بڑا  کامل (مکمل) شخص   ہوں۔  اور جیسے  سید   احمد غازی کو دو  مولوی  اُڑانے  والے  مل گئے تھے۔ ان کو  بھی حکیم  نورا لدین   اور غلام  قادر   فصیح   صاحب   اور مولوی  محمد  احسن   صاحب مل گئے ہیں۔  ان کا انجام  ان سے زیادہ   خطرناک  ہو گا۔  سُنی  مسلمانوں  نے جو مرزا  کو رد کیا دانش مندی  سے اپنے مذہب  کے موافق  کام کیا ہے۔ اور محمد حسین   بٹالوی تحسین   (تعريف)کے لائق   ہیں۔ اور وہ   جو  مزرا صاحب  کی صلاح(مشورہ) میں  شریک   ہيں  اپنے  مذہب  کے اور عقل   ِسلیم  (پوری عقل)کے   خلاف   کام کرتے ہیں۔

تیسرا  احمد ۔

سید  احمدخان صاحبِ   بالقابہ ہیں۔  انہوں نے سب سے زیادہ   اسلام   کا تجدد کیا۔ اسلام  قدیم کو کاٹھ  کی ہنڈیا(جھوٹ اور دغا بازی)   بتاکے چھوڑ   دیا۔ اور قرآن  و حدیث   کو نیچریت  کے پیرایہ  میں لا کے   اسپات(فولاد)  کی ہنڈ یا  بنا یا۔   اور قرآن کی تفسیر  نیچری  لکھی۔   محمد صاحب   نے اپنے  السلا م  کا رخ   انبیائے  بنی اسرائیل  کی طرف   کچھ کچھ    رکھا تھا۔   سید صاحب  نے اُدھر   سے بمشکل کھینچا  ۔ اور   فلاسفی   کی طرف کر دیا۔  اس  کے سوا  اور کچھ   نہیں کیا۔  لیکن  یہ عمارت   جو انہوں  نے اُٹھائی   ہے طالبِ   حق  کے دل میں کچھ   تسلی  تو  پیدا  نہیں کر سکتی۔  اور نہ کچھ  پائیدار  (مضبوط)ہے۔  بلکہ بہت   جلد  گر ئے   گی ۔   کیونکہ الفاظ  قرآن سے ان  کے مضامین  مخترع (بانی۔ايجاد کرنے والا)  کو کچھ  علاقہ(تعلق)  نہیں ہے۔  ان کے  بیان ان  کی تفسیر   میں مرقوم  (لکھاہوا)پڑے   رہیں گے۔ اور الفاظ   و عبارات   قرآن  اپنے معنی و مضامین   لازمہ کو ہرگز  نہ چھوڑ  یں گے۔   اور وہ جو محقق(تحقيق کرنے والا)  پیدا ہو ں گے  ۔  ہمیشہ   اہلِ زبان  سے معنی  دریافت کریں گے۔  سب سے بڑی عقلی  تفسیر   (عقل سے تشريح کرنا)قرآن   کی  امام فخرالدین  رازی [1]نے لکھی   ہے۔ جہاں سے سید صاحب   نے بہت کچھ  لیا۔ تو بھی  فخر الدین صاحب  کے مضامین  عقلیہ   مسلمانوں  کے ایمان  میں شامل  نہ  ہوئے  بلکہ جلال  الدین   سیوطی   نے اس  کے تفسیر   کو چند  سطروں میں ذلیل    کر دکھلایا ۔ اور لکھا   ہے۔

امام  فخرالدین

نے اپنی تفسیر  کو اقوالِ  حکماء  اور فلا سفہ وغیرہ   سے بھر دیا ہے۔ اور ایک  سے  دوسری بات کی  طرف  نکل گیا۔  یہاں  تک کہ ناظر  (ديکھنے والا)کو  موردآیت   کے ساتھ   عدم   مطابقت(موافق نہ ہونا) سے تعجب(حيرانگی)   ہوتا  ہے۔  ابوحیان  نے کہا  کہ  رازی  نے اپنی   تفسیر    میں  نحوی  باتیں(گرائمری باتيں)۔ جن کی  علم  تفسیر   میں حاجت(ضرورت)   نہیں ۔  بکثرت  لمبی   چوڑی  بھر ی ہیں۔   اسی واسطے   بعض   علما نے   کہا  ۔  کہ اس کی   تفسیر  میں  سب کچھ   ہے ۔  لیکن  قرآن  کے معنی  نہیں۔ 

اس  بدعتی   کا اور کچھ   ارادہ   نہیں ہے۔  مگر   یہ کہ آیتوں  کو  تحریف (ردوبدل)   کرے۔  اور اپنے  فاسد(بے کار)  مذہب   کے برابر  بنا ئے۔  اس طرح   سے  کہ جب   اس کو کوئی  دُور  سے دوڑتا ہو  ا وہم  (گمان۔شک)نظرآگیا۔  تو اسی کے درپے   ہو لیتا  ہے  ۔  یا کوئی   ایسی جگہ  مل جائے   جہاں ذرا   کھڑا   ہو سکے۔  تو اُدھر   دوڑ  پڑتا   ہے۔  یہی  حال ان سب نيچریوں  کا ہے۔    آپ  قرآن  کے تابع    نہیں ہوتے  ۔ مگر قرآن  کو اپنے تابع   کرتے ہیں اور اپنے ذہن  میں  کچھ  مذہب   کہیں   سے لا کے  قائم  کر لیا  ہے۔ اس  کے موافق   قرآن  کو بناتے  چلے  جاتے ہیں۔  فی  الحقیقت   تفسیر   نیچری  انہیں  دو چار  لفظوں  سے گر  جاتی  ہے۔ کہ وہ  قرآن  کی اصلی   وضع  کے خلاف  ہے۔

چوتھا  احمد۔

مرزا  غلام   احمد ہیں ۔وہ احمد   سوئم  کا مذہب   رکھتے  ہیں۔ اور احمد   دوئم  کی روش(طريقہ)  پر چلتے ہیں  ۔ اور قرآن  و حدیث  کو  نہ بسمت    انبیاء   ۔  اور  نہ  بسمت  فلاسفہ   مگر بسمت  دریائے   خبط   کھینچ   رہے ہیں۔   اور احمد   چہارم   رہنا نہیں   چاہتے  ۔ احمد اوّل  بننے   کا اشتیاق(شوق)  ہے۔ اسی  لئے قرآن  میں ہاتھ   ڈالا  ۔ اور اسمہ  احمد   وہاں  سے  اپنے لئے  نکالا  ۔ جو سابق  کے کسی احمد  کو نہ سوجھی تھی۔  ابھی کیا   کوئی  دن میں   احمدبلا میم  اپنا نام رکھیں گے۔  کیونکہ  صوفی   بھی ہیں۔  اور ابھی  دیکھ لو  وہ کہتے   ہیں ۔  کہ  خُدا نے مجھ سے کہا  اے  مرزا   تو مجھ سے  ہے  ۔ اور میں تجھ  سے ہوں  ۔ گویا  مرزا   خُدا  سے پیدا ہوئے   اور خُدا  مرزا   سے پیدا ہو ا ہے ۔ اگر کچھ   اور مطلب   ہو تو   ان کے ذہن   میں ہو گا  عبارت  کا مطلب  یہی ہے۔

اور  اگریہ  دو معنی کلام ہے   تو ایسی   دو معنی  کلام بولنا  جس کے  ایک معنی   سے خُدا  کی تحقیر (کم تر سمجھنا)ہو   بے ایمان  آدمی کا کام  ہے۔


[1] ۔  دراصل اے زیئی   باشندہ   نے  متصل  بخارا۔ 

Leave a Comment