عیسٰی کی انجیل

Eastern View of Jerusalem

Gospel of Issa

By

Allama Ahmed Shah Shiaq

احمد شاہ شائق

Published in Nur-i-Afshan Dec 28, 1894

نور افشاں مطبوعہ۲۸دسمبر ۱۸۹۴ ء

اگر چہ اس کی بابت اور کچھ  لکھنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے قبل ہی ولایت میں  راز سر بستہ(چُھپا ہوا) کھل  گیا ہے۔ اور ساتھ ہی اس کے حضرت  نو ٹووچ کی قلعی  (حقيقت ظاہر ہونا)بھی کھل گئی ۔ کہ وہ کیا ہیں۔ اور ہندوستان کے مشہور  و معروف  انگریزی  اخباروں نے بھی بڑے  زور سے نوٹووچ کی تردید(رد کرنا) کر دی۔ اور ان کا اگلا پچھلا حال بھی اپنے ناظرین کو سنا دیا۔ جنہوں  نے مارننگ پوسٹ اور پایو نیر کو برابر  پڑھا ہو گا۔ وہ اس حقیقت  سے بخوبی آگاہ ہو ں گے۔ مگر پھر  بھی ہم کو  اپنا وہ  وعدہ پورا کرنا  ضروری ہے۔ جو ہم اپنی تحریر میں جو ہمس کی خانقاہ سے سرسری(معمولی) طور پر لکھی تھی ۔ کیاتھا  ۔ اور جو نورِ افشاں  مطبوعہ  ۳۱ اگست ۱۸۹۴ء  میں شائع ہو کر پبلک  کے ملا حظہ سے گذر چکی ہے۔ اُس کے آخری الفاظ  ۔ کہ ’’ باقی پھر لکھوں گا ‘‘ ہم کو مجبور کر رہے ہیں۔ کہ ضرور کچھ لکھنا چاہیے ۔ اور بعض احباب کی بھی یہی خواہش  ہے جو اکثر  اپنے نواز ش نا موں میں اس کی بابت  اصرار (ضد)کرتے ہیں۔ لہذا  خیال  خاطر احباب چاہیے ہر دم ۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔

ناظرین کا بیش قیمت  و قت اور نورِافشاں کے قائل قدر کالموں کے وقف ہونے لئے  معاف کیا جاؤں ۔

کپتان ایس ایچ  گاڈفری صاحب برٹش جائنٹ کمشنر لداخ کی تحقیقات کا نتیجہ ۔

صاحب موصوف نے ہماری ونیزموریوین مشنری صاحبان کی درخواست  پر اس  امر میں بہ حیثیت  کمشنری تفتیش (تحقيقات) شروع کی۔ انہوں نے کپتان رامزی صاحب کو جو سابق میں یہاں کے برٹش جائنٹ کمشنر تھے ایک خط بدیں مضمون لکھا ۔ کہ ’’ کیا آپ کے زمانے میں کوئی شخص نکولس نو ٹووچ لداخ میں آیا تھا‘‘؟ انہوں نے اس کے جواب میں تحریر کیا ۔ کیا ’’ ہاں ۱۸۸۷ء ماہ اکتوبر  میں ایک شخص اس نام کا آیا تھا ۔ اور وہ دانت کے درد کی شکایت کرتا تھا جس کا معالجہ  ڈاکٹر مارکس صاحب نے ( جو اُس وقت لداخ  کے میڈیکل آفیسر تھے ) کیا تھا۔ اُس کا دانت انہوں نے اُکھاڑا تھا ۔ اور یہ شخص صرف دو تین دن لداخ میں رہ کر چلا گیا تھا‘‘۔ ڈاکٹر سورج مل  جو اُس زمانہ  میں یہاں دربار کشمیر کی طرف سے گورنر لداخ تھے۔ انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ۔ کہ نوٹووچ لداخ ۱۸۸۷ء میں آیا تھا۔ اور دو تین روز  رہ  کر چلا گیا تھا ۔ ان دونوں تحریروں سے ہم کو اس قدر تو ثابت ہو گیا۔ کہ نوٹووچ لداخ تک ضرور آئے۔ مگر اس سے یہ ہرگز ثابت نہ ہو گا۔ کہ وہ انجیلی عیسیٰ  کو ہمس سے لے گئے۔ اور اب تک اُس کے لئے  بہت کوشش کی گئی ۔ کہ کوئی ثبوت اس امر کا ملے۔ مگر کوئی کامیابی  کی صورت نظر نہیں آتی ۔

ہمس کی خانقاہ کے راہب(عيسائی عابد يا زاہد) کو بھی برٹش جائنٹ کمشنر صاحب نے ایک سر شتہ(محکمہ۔کچہری۔شعبہ ) کا خط لکھا۔ کہ آیا تمہارے یہاں کوئی شخص کسی وقت اس حالت میں خانقا ہ میں رہا۔ کہ ’’ اس کی ٹانگ ٹوٹی ہو۔ اور تم نے۔ یا تمہارے اور کسی  ساتھی نے اس کی خدمت کی ہو ۔ اور اگر تمہاری  خانقاہ میں کوئی ایسی  کتاب ہو جس میں یسوع مسیح کی زندگی کے حالات ہوں۔ یا کوئی دوسری  کتاب جو مذہب عیسوی سے تعلق رکھتی ہو ۔ اس بات کی بھی اطلاع دو۔ اور یہ بھی بتلاؤ کہ کیا کسی  رُوسی سیاح۔ یا اور کسی  شخص نے تمہاری  خانقاہ میں رہ کر کسی کتاب کا جو ’’ عیسیٰ ‘‘  سے منسوب(متعلق کيا ہوا) ہو ترجمہ کیا ‘‘؟

اس کے جواب میں وہاں کے ہیڈ لامہ نے جواب دیا۔ کہ ’’ نہ تو کوئی شخص ہمارے یہاں ٹوٹی  ہوئی ٹانگ  لے کر آیا ۔ کہ ہم نے اُس کی خدمت سے فخر حاصل  کیا ہو۔ اور نہ کوئی کتاب ہماری  خانقاہ میں مذہب  عیسوی کے متعلق ہے۔ اور نہ کسی  شخص  کو ہم نے کبھی  کوئی کتاب دی کہ وہ  ترجمہ کرتا ‘‘۔ یہ خلاصہ ہے کمشنر صاحب کی تحقیقات  کا ۔ ہم گذشتہ  ہفتہ پھر خانقا ہ ہمس کو گئے تھے۔ اور وہاں کے کل راہبوں سے جو شمار میں قریب  پانچ سو کے ہیں بذریعہ  مترجم دریافت کرتے رہے۔ مگر کسی نے بھی جواب اس بات کا نہ دیا ۔ کہ ان کو اس معاملہ سے کچھ خبر ہے۔ اُن کا بیان ہے۔ کہ ’’ اوّل تو کوئی ایسا شخص  یہاں آیا ہی نہیں ۔اور اگر انگریز  لوگ خانقاہ دیکھنے کے لئے آتے ہیں تو خانقاہ کے مکان کے باہر ایک باغ ہے۔ اُسی میں اپنا خیمہ لگا کر رہتے ہیں کوئی انگریز ۔ یا روسی کبھی خانقاہ کے اندر نہیں رہا ۔ نہ یہ ہمارا دستور(رواج) ہے۔ کہ کسی  کو خانقاہ کے اندر آنے کی اجازت دیں۔ اور نہ ہم کسی کو اپنی کتاب چھونے  دیتے ہیں۔ اور نہ کتاب کو خانقاہ کے باہر لے جاتے ہیں۔ اور نہ کسی  کو ایسا کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں‘‘۔

ریورینڈ ایف بی شاع اور مسٹر نو ٹووچ ۔

اخبار ڈیلی  نیوز لنڈن مطبوعہ ۲ جولائی ۱۸۹۴ء  میں پادری ایف بی ۔ شاع موریوین مشنری لداخ نے نوٹووچ صاحب کی تردید  میں ایک خط لکھا۔ کہ ’’ ہمس کی خانقاہ میں نہ تو کوئی  نسخہ پالی زبان میں ہے۔ اور نہ کوئی پالی زبان سے واقف ہے۔ حتی کہ کوئی شخص  پالی حروف کو پہچان بھی نہیں سکتا ۔ اور نہ کوئی شخص نوٹووچ نام کا ہمس کی خانقاہ میں آیا۔ اور نہ کوئی شخص ٹانگ  ٹوٹی ہوئی حالت  میں خانقاہ  ہمس کے راہبوں سے علاج کیا گیا۔ اور نہ کوئی ایسا شخص  کبھی خانقاہ میں رہا۔ وغیرہ ‘‘۔ اس کے جواب میں نوٹووچ صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ کہ ’’ ضرور انجیل عیسیٰ ‘‘ کا اصلی  نسخہ ہمس کی خانقاہ میں موجود ہے۔ بشرطیکہ اُس کو وہاں کے پادریوں نے وہاں سے علیٰحدہ نہ کر دیا ہو‘‘۔ اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھا ہے ۔ کہ ’’  میں سال آیندہ پھر لداخ کو جاؤں گا۔ اور ہمس کی خانقاہ میں اُس نسخہ کو تلاش کروں گا۔ اور اگر وہاں نہ ملا تو لاسہ کی خانقاہ میں جا کر تفتیش کروں گا‘‘۔ ہم نوٹووچ صاحب کی داد دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کو سوجھی بڑی دور کی آپ فرماتے ہیں ۔ کہ ’’ اگر پادریوں نے اس نسخہ کو وہاں سے الگ نہ کر دیا ہو‘‘۔ اے حضرت جب آپ خود اُس  کے خریدنے میں کامیاب نہ ہوئے اور بقول آپ کے ۔ کہ ’’ ٹانگ کی قیمت دے کر صرف ترجمہ ہی نصیب  ہوا ‘‘ ۔ تو پھر بے چار ے پادری کہاں سے اور کس طرح  اُس کے وہاں سے الگ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ؟ یہ صرف آپ کی بدگمانی ہے۔ جو اپنے جھوٹ کو لوگوں سے چھپانے کے لئے پیدا کی ۔ نوٹووچ صاحب کے اُس کی نقل ۶ جولائی ۱۸۹۴ء  کے ہوم نیوز میں بھی کی گئی ہے اُس میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’ نوٹووچ صاحب سال آیندہ میں پھر لداخ کو جائیں گے ‘‘۔ خیرو ہ آئیں ۔ ہم بھی اُن کا خیر مقد م کر نے کو یہاں بیٹھے ہیں۔ مگر ہم کو بھی  اس کے لئے منتظر  رہنا چاہیے ۔ کہ جلد ہم اس خبر کو کسی  انگریزی اخبار میں پڑیں گے ۔ کہ نوٹووچ صاحب سخت  بیمار ہو گئے۔ یا خدا نخواستہ  جس طرح ہمس  کی خانقاہ میں ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ اسی طرح اور کوئی عضو ناکارہ ہو گیا ۔ اس لئے وہ اب لداخ کو اس سال نہیں جا سکتے ۔ کیونکہ اگر وہ یہاں آئیں گے تو بنائیں گےکیا’’ انجیل عیسیٰ ‘‘ جہاں سے پہلے پیدا کی وہیں جائیں۔ ہمس اور لاسہ کو جانا فضول ہے۔

نوٹووچ صاحب کا صاف انکار کہ ان کی ٹانگ نہیں ٹوٹی اور  نہ انہوں نے نسخہ پالی زبان میں دیکھا ۔ بلکہ تبتی  زبان میں دیکھا ۔

چونکہ پادری صاحب نے نوٹووچ  صاحب کی تردید میں لکھا تھا کہ ’’ کوئی شخص ہمس کی خانقاہ میں ٹانگ 
ٹوٹنے  کی حالت  میں نہیں رہا ۔ اور نہ کوئی نسخہ  وہاں زبان پالی میں ہے ۔ اور نہ کوئی پالی جانتا ہے‘‘۔ اس پر نوٹووچ صاحب نے ایک آرٹیکل  ایک فرنچ اخبار میں جو پیرس سے نکلتا ہے اس طرز سے لکھا کہ ’’ میں نے کبھی  نہیں کہا ۔ کہ میری ٹانگ ٹوٹی تھی۔ اور ہمس کےمالکوں نے میری مددکی۔ بلکہ میں نے یہ کہا ۔ کہ میں بیمار تھا۔ اور اُس بیماری کی حالت میں ہمس کی خانقاہ میں رہا ۔ اور وہ نسخہ  پایا ۔ اور ترجمہ کیا ۔ اور میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ نسخہ پالی زبان میں میں نے دیکھا ۔ بلکہ یہ کہ اصل نسخہ پالی زبان کا لاسہ میں موجود ہے ۔ اور اُس کا ترجمہ تبتی زبان میں ہمس میں موجود ہے‘‘۔ نوٹووچ صاحب کا یہ بیان اخبار (Lintermedivere)جلد ۳۰ نمبر ۶۶۲ مورخہ ۱۰ ۔اگست  ۱۸۹۴ء میں شائع ہواہے۔ اور اپنے بیان میں انجیل  عیسیٰ  کے  ۱۴۸ صفحہ کا حوالہ دے کر وہی ذکر شروع کیا ہے۔ جو اکثر  اُردو  و انگریزی اخباروں میں عیسیٰ کی زندگی  کے متعلق شائع ہو چکا ہے۔ اُس کا اعادہ(دہرانا)  اس جگہ فضول ہے۔

اب مقام حیرت ہے ۔ کہ  ابتدا ابتداجب اخباروں میں یہ خبر مشہور ہوئی۔ تو انہیں دو عنوان ِنو (نيا)سے ہوئی تھی۔ اور نوٹووچ صاحب نے ذرا بھر اس کی مخالفت نہیں کی ۔ مگر جس وقت  پادری شاع صاحب کی طرف سے اس  پر نوٹس  لیا گیا۔ تو نوٹووچ  صاحب کو یہ سوجھی ۔ کہ ان دونوں باتوں سے انکار  کر جاؤ تو بہتر ہے۔ اور ہم یقینی  طور پر یہ کہتے ہیں۔ کہ ضرو ر  نوٹووچ صاحب بھی خود ان مذکورہ بالا خبروں کے مخبر( خبر رکھنے والا)ہوں گے۔ اور بعد کو جب دیکھا۔ کہ جھوٹ کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ تو جھٹ یہ سوجھ گئی۔ اب یا تونو ٹووچ صاحب  اس بات کی تصدیق  کرائیں۔ کہ کیونکہ اخبار نویسوں نے اس خبر کو شائع کیا۔ اور یا یہ کہیں۔ کہ پہلے میں نے اپنی بہادری دکھلانے کو یہ  کہہ دیا تھا۔ اب میں نے دیکھا۔ کہ اُلٹی آنتیں گلے میں پڑیں۔ اس لئے میں اپنے جھوٹ کو مان لیتا ہوں۔ سب سے اوّل ولایت  کے اخباروں نے نوٹووچ کا ساتھ دیا۔ اور وہیں سے یہ خبر  یں ہندوستان  میں پہنچیں  اور ہم آگے ثابت کر دیں گے۔ کہ نوٹووچ  صاحب  کی عادت جھوٹ کہنے کی ۱۸۸۷ء  سے ہندوستان میں ثابت ہے۔

آپ کا یہ کہنا ۔ کہ ہمس میں لاسہ والے پالی نسخہ کا ترجمہ ہے۔ آپ کی لیاقت  قا بليت کا ثبوت دے رہا ہے۔ کہ آپ نے اُس ترجمہ کو اصلی  کے ساتھ مقابلہ کرنے سے پہلے ہی  درست و صحیح  قرار دے دیا ۔ لاسہ آپ گئے نہیں ۔ اصلی نسخہ  کو دیکھا نہیں۔ اور یہ تو بتلائے ۔ کہ اُس  ترجمہ کا ترجمہ کس کی مدد سے آپ نے کیا؟ ہم کو ہمس میں ایک بھی شخص ایسا نظر نہیں آیا ۔ جو آپ کو انگریزی یا فرنچ یا اور کسی زبان میں اُس کا ترجمہ سمجھا کر کر ا سکتا ۔ شاید آپ نے خود تبتی میں اس قدر مہارت پیدا کی ہو گی ۔ مگر یہ بھی محال  معلوم ہوتا ہے ۔ خیر جو کچھ ہو ہم دیکھیں گے ۔ کہ کس طرح آپ اس کو یہاں آکر ثابت کرتے ہیں۔

پروفیسر مکس مولر صاحب کا مضمون نوٹووچ صاحب کی ’’ انجیل عیسیٰ پر ‘‘۔

 پروفیسر مکس مولر صاحب کے قابل  ِقدر قلم سے ایک مضمون اُنیسویں صدی بابت ماہ اکتوبر ۱۸۹۴ء  میں شائع  ہوا ہے۔ جس میں انہوں نے نوٹووچ صاحب کے دعوؤں کو ہر پہلو  سے جانچا ہے۔ ہم کو اُمید تھی ۔ کہ ضرور نوٹووچ صاحب پروفیسر  مکس مولر صاحب کی تردید  میں کچھ خامہ فرسائی (لکھنا)کریں گے ۔ مگر ہنوز(ابھی تک) انتظار ہی انتظار ہے۔ اور اُمید پڑتی ہے۔ کہ ہمیشہ  تک یہ  انتظار  باقی رہے گا۔

پروفیسر صاحب نے بہت واضح دلائل سے ثابت کیا ہے۔ کہ ’’انجیل عیسیٰ ‘‘ ہرگز ہرگز بودہ(کمزور، کم ہمت) لوگوں کے درمیان نہ کبھی تھی۔ اور نہ اب ہے ۔ اور نہ نوٹووچ صاحب نے کبھی ہمس کی خانقاہ میں ٹانگ ٹوٹنے کی حالت میں پناہ لی اور نہ اس مطلب کے واسطے انہوں نے کبھی  ٹانگ توڑی کہ ’’ انجیل عیسیٰ ‘‘ اُن کو دستیاب  ہو۔ اور اس بیان کی تائید(حمايت)  میں بہت سے سیاحوں اور مشنریوں کے حوالے دیئے  ہیں جو لداخ میں رہتے ہیں اور جو لوگ سیاحوں میں سے ہمس کو گئے۔ ایک لیڈی کے خط کا خلاصہ جو پروفیسر صاحب کو ۲۶ جون کو اُس لیڈی نے لداخ سےبھیجا ذیل میں ناظرین کے لئے ترجمہ کرتا ہوں۔ تاکہ ناظرین کو معلوم ہو جائے۔ کہ صرف ہم اور مشنری ہی ایسا نہیں کہتے ۔ بلکہ اور لوگ بھی جن کو اس سے کچھ تعلق نہیں ا س بات کی بابت کس قدر تلاش کرتے ہیں اور کیا رائے رکھتے  ہیں لیڈی کے خط کا خلاصہ ۔

’’ کیا آپ نے یہ سُنا کہ ایک روسی  جس کو خانقاہ کے اندر جانے  کی اجازت نہ ملی تھی ۔ تب اُس اپنی ٹانگ خانقاہ کے پھاٹک  کے باہر  توڑ ڈالی ۔ اور یوں خانقاہ کے اندر اُس کو پناہ دے گئی؟ اور اُس کا مطلب اس سے صرف یہ تھا۔ کہ بودہ لوگوں کے درمیان جو یسوع مسیح  کی سوانح عمری ہے اُس کو حاصل کرے اور وہ اسی خانقاہ میں تھی۔ اور اُس کابیان ہے۔ کہ اُس نے اُس حاصل کیا ۔ اور اُس نے اُس کو فرنچ زبان میں شائع  بھی کرا دیا ۔ اس قصہ کا ہر ایک لفظ سچائی سے خالی ہے۔ کوئی رُوسی  وہاں نہیں گیا۔ نہ کوئی شخص گذشتہ پچاس برس سے  ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی حالت میں اُس سیمنری میں داخل ہو ا اور نہ مسیح کی کوئی سوانح عمر ی وہاں موجود ہے‘‘ ۔ اس راقمہ کولداخ  سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ صرف بطور سیر کے یہاں آئی تھی۔ اور اس حالت  میں اُس نے اخبار وں میں اس خبر کو پڑھ کر پروفیسر صاحب کو اس سفید جھوٹ سے مطلع (اطلاع دينا)کیا۔

نیک نیت پروفیسر صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ ممکن ہے کہ نوٹووچ نے ہمس اور لداخ کا سفر کیا ہو۔ اور اُن کی سب باتیں  درست ہوں۔ مگر اس کا جواب نوٹووچ صاحب دیں۔ کہ کیوں ہمس کے راہب لداخ کے مشنیریوں و انگریزی سیاحوں ۔ اور دوسرے لوگوں کو اس بات کی شہاد ت نہیں دیتے۔ کونسا امر اُن کو مانع(منع کرتا) ہے‘‘ ۔ اور ہم بھی پروفیسر مکس مولر کے ہم زبان ہو کر یہی کہتے  ہیں۔ ہم نے بہت سے پوشیدہ وسیلے اس بات کے دریافت کرنے کے لئے برتے ۔ مگر کوئی بات بھی اس کے متعلق معلوم نہ ہوئی جس سے صرف یہ گمان کر سکتے کہ نوٹووچ ضرو ر ہمس میں آئے ۔ اور ’’ انجیل عیسیٰ ‘‘ اُن کو وہاں ملی۔

پایونیر کا ایک نامہ نگار نوٹووچ صاحب کی ۸۷ء کی جعلسازی کو ظاہر کرتا ہے۔

پایونیر میں  کسی نامہ نگار نے (نمبر کا پتہ میں نہیں دے سکتا ۔ کیونکہ جس پرچے میں میں اُس کو دیکھا اُس میں سے صرف اُسی قدر حصہ کا ٹ لیا۔ جو نوٹووچ صاحب سے  متعلق تھا۔ تاریخ و نمبر کا خیال نہ رہا۔  غالباً  ۸ اکتوبر  کے بعد کسی پرچہ میں یہ درج ہے)۔ لکھا ہے۔ کہ ’’ آپ کے  ناظرین میں سے بہتیرے ایک رُوسی مسمیٰ نکولس  نوٹووچ  کے نام سے مانوس ہوں گے جو ۱۸۸۷ء کی موسم بہار میں شملہ پر آیا ۔ اور وہاں اس کی زرق برق و طمطراق(شان وشوکت،رعب داب) کی باعث  اس پر لوگوں کی خاص تو جہ  مبذول ہوئی ۔ اس نے بیان کیا کہ میں رُوسی اخبار (Navoe upence)( جو رُوس میں بڑا مشہور اخبار ہے) کا خاص نامہ نگارہوں ۔

اور رُوسی فوج  میں عہدہ کپتانی پر مامور ہوں۔ جس وقت یہ خبر اخبار مذکور کے کان تک پہنچی  اُس نے بڑی صفائی کے ساتھ اس کی تردید(ردّ)  اپنے کالموں میں کی۔ اور بیان کیا کہ نہ وہ اُن کا نامہ نگار ہے۔ اور نہ کسی روسی  فوج کا افسر ہے۔ اور نہ کسی اور کام سے روس کے اُس کو تعلق ہے۔ وہ پیرس کو واپس گیا ۔ اور وہاں ایک کتاب یسوع مسیح کی سوانح عمری کے نام سے فرنچ زبان میں شائع کی ۔ جس میں وہ کچھ کامیاب ہوا۔ اور بہت سے اخبار کو دھوکا  دے کر اپنے ساتھ اس کی تائید (حمايت)کرائی۔ نامہ نگار مذکور لکھتا ہے۔ کہ مجھ کو بڑےافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ کہ بعض اُن اخباروں میں سے ہندوستان کے تھے۔ جن کو اس کی بابت زیادہ با خبر ہونا واجب (لازمی)تھا۔ پھر نامہ نگار مذکور نے نوٹووچ کی مترجمہ سوانح عمر الگزینڈر سویم مرحوم پر بھی ایک مزے دار چٹکی لی ہے۔ مگر وہ ہماری بحث سے خارج ہے اس لئے قلم انداز کئے دیتے ہیں۔

اب ناظرین خود نوٹووچ کی دیانتداری کو میزان انصاف (انصاف کا ترازو)میں تول لیں۔ ہم اپنی طرف سے کچھ نہ کہیں گے۔

شملہ پر نوٹووچ کو پولیٹکل مخبر ہونے کے لئے شبہ  کیا جانا اور ان کا فرار ہونا

جس وقت ہم سری نگر سے لداخ کو برٹش جائنٹ کمشنر صاحب کے ہمراہ آرہے تھے۔ تو راستہ  میں ہم کو ہمارے مہربان کرنل وارڈ صاحب ملے۔ اُن سے اثنائے گفتگو(دورانِ گفتگو) میں نوٹووچ ۔ اور اُن کی ’’ انجیل عیسیٰ ‘‘ کا ذکر ہوا۔ اُنہوں نے نوٹووچ کا نام سننے پر تعجب (حيران ہونا)کیا۔ اور بیان کیا۔ کہ ’’جب میں ۱۸۸۷ء  میں شملہ  پر گورنمنٹ  آف انڈیا کی طرف سے وہاں کا سپرنٹنڈنگ انجنیر تھا۔ تو میں نے نوٹووچ کو دیکھا تھا۔ اُس وقت وہ ایک رُوسی افسر کی وردی میں تھا۔ اور میں نے اُس کا فوٹو  لیا تھا۔ اور شملہ  میں اُس پر شبہ کیا گیا تھا۔ کہ وہ کوئی رُوسی  پولٹیکل مخبر(سياسی خبر  دينے والا)ہے۔ اس لئے پولیس  اُس کی نگراں رہی۔ اور اُس  کو گرفتار کرنا چاہتی  تھی۔ مگر وہ عیار(چالاک) پولیس  کو  جھا نسہ دے کر نکل گیا‘‘۔

اب گمان غالب ہے۔ کہ ضرور نوٹووچ صاحب پولیس کے ڈرسے شملہ سے بخط راست  لداخ  آگئے ہوں ۔ کیونکہ  شملہ  سے لداخ کو کلو کے  راستے  بہت  آسانی  ہوتی ہے۔ اور خصوصاً  ایسے پولٹیکل  مخبروں کے لئے عمدہ راستہ ہے۔ کیونکہ صدہا میل تک آبادی کاپتہ  تک نہیں  ۔ اور اکثرتاجران شملہ اسی راستے سے لداخ کو برائے تجارت آتے ہیں۔ ہر جگہ پر ہم کو نوٹووچ صاحب کے چال چلن کا ثبوت ملتا جاتا ہے۔ کہ وہ کیا ہیں۔ اور ان سب باتوں سے اُن کی ’’ انجیل عیسیٰ ‘‘ کی وقعت  (حيثيت)بھی ہم کو معلوم ہو گئی۔

نوٹووچ  صاحب کی تصوير فوجی وردی میں ۔

 پال مال بجٹ  جلد ۲۶ نمبر ۱۳۵۸ ء مورخہ ۱۴ اکتوبر ۱۸۹۴ء میں نوٹووچ صاحب کی تصوير شائع ہوئی ہے۔ جس کی بابت ایڈیٹر مخبر(خبر دينے والا) ہے۔ کہ یہ  وہ تصویر ہے جو نوٹووچ صاحب کے ہند میں موجود ہونے کے وقت لی گئی۔ اور یہ بھی کہ صرف دو سال  ہوئے  جب یہ تصویر ہندوستان  میں اُتاری گئی تھی۔ اس سے نوٹووچ صاحب کا عنقریب ۱۸۹۲ء تک ہندوستان ہی میں موجود ہونا ثابت ہے۔ تصویر بالکل فوجی  وردی  میں ہے۔ بڑے بڑے تمغے لگائے ہوئے ہیں۔ تلوار زیب کمر ہے۔ تصویر دیکھنے سے بالکل گبرو جوان معلوم ہوتے  ہیں۔ مگر روسی اخبار تردید کر رہا ہے۔ کہ وہ روس کی کسی فوج میں کوئی عہدہ نہیں رکھتا ۔ پس ثابت ہوا۔ کہ صرف عوام کو دھوکہ دہی کی غرض  سے یہ وضع تراشی (شکل۔صورت تراشنا)تھی۔ اور یوںہی ’’ انجیل عیسیٰ ‘‘ کا  ڈھوکسلاپیرس میں جا کر بگھارا ۔ اس تصویر سے ہم اپنے مہربان کرنل وارڈ صاحب کا فرمانا یاد آیا ۔ کہ انہوں نے نوٹووچ کو شملہ پر فوجی وردی میں دیکھا تھا۔

نو ٹو وچ صاحب کی ’’انجیل عیسیٰ ‘‘ کی طبع سویم اور انگریز ی ترجمہ۔

کسی اخبار میں ہم نے پڑھا ۔ کہ نوٹووچ صاحب کی ’’ انجیل عیسیٰ ‘‘ بارسویم طبع ہو چکی  یعنی  فرنچ زبان میں ۔ اور بہت  جلد انگریزی ترجمہ پبلک  کے پیشکش  کیا جائے گا۔ اس سے اس قدر تو ہم بھی سمجھ گئے۔ کہ نوٹووچ صاحب  کا مقصد  خاطر خواہ پورا ہو گیا۔ اور کچھ  عجب نہیں۔ کہ یہی مطلب   انکو مجبور کرے کہ ہمس کی خانقا ہ سے اس کا برآمد ہونا حتی ٰ الوسع (جہاں تک ہو سکے)کر ہی دکھائیں۔ اور ایسے  بہرو پئے  کے نزدیک یہ کوئی مشکل  امر نہیں ہے۔ مگر ساتھ  اس کے ہم کو یقین کامل ہے۔ کہ ہمس سے تو اُس کا برآمد ہونا مشکل ہے۔ مگر نوٹووچ نے اس کی  بھی پیش بندی کر لی ہے۔ وہ ہوم نیو ز۔ اور ڈیلی نیوز میں لکھتے  ہیں۔ کہ علاوہ  ہمس کے اور بھی خانقا ہوں میں اُس کی نقلیں  ہو نگی ۔ یہ صرف اسی سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اگر ہمس سے اس کا برآمد کرنا ناممکن ہو۔ تو اور کسی  جگہ  سے کسی کو کچھ لے دے کر اس کو برآمد کر دیں۔

ہم کو افسوس ہے۔ کہ باوجود اس قدر تردید(رد کرنا ۔جواب دينا)  کے جو ولایت کے انگریزی اخباروں میں ان کی انجیل کی بابت ہو چکی ہے۔ پھر بھی اس جعلی انجیل کی مانگ بدستور ہے۔ لوگ نہ معلوم کیوں اس کے شیدا  (فدا۔عاشق)ہیں۔ ہمارے خیال میں شیطان اپنے ایجنٹوں کی معرفت لوگوں کو ترغیب (لالچ)دے رہاہے۔ کہ وہ ضرور اُس کو جو اُن کے لئے زہر ہلا ہل کا اثر رکھتی ہے۔ خرید کر اپنی روحوں کو ہلاک کریں۔ ہرایک نئی شے کی قدر انگلینڈ میں بڑے تپاک سے کی  جاتی ہے۔ اور ان لوگوں کے لئے جو مذہب عیسوی کے مخالف ہیں مسٹر نوٹووچ اور ایم پال اسٹنڈاف جن کے مطبع (چھاپنے کی جگہ)میں یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ اپنے خیال میں ایک عمدہ اوزار تیار کر رہے ہیں۔  مگر آخر  کو یہ  اوزار ناکارہ ثابت ہو چکا اور ہو جائے گا۔ گو اس وقت نوٹووچ  اوراُن کے مطبع(چھاپہ خانہ) والوں کی چاندی ہو رہی ہے۔ مگر خدا ئے تعالیٰ کو اپنی ان کر توتوں کا جواب ضرور دینا ہو گا۔ ہمارے خیال میں مسٹر کوئیلم ۔ کرنل الکاٹ ۔ مسٹر الگزینڈر دیب ۔ اور اینی سینٹ سے نوٹووچ زیادہ ہی لے نکلیں گے۔ مگر ان کو خیال کرنا چاہیے۔ کہ ’’انسان اگر ساری دنیا کو کمائےاور اپنی روح کو ہلاک کرے تو اُس کو کیا حاصل ‘‘؟۔

اب ہم اس کا فیصلہ ناظرین پر چھوڑتے ہیں۔ کہ وہ ’’انجیل عیسیٰ ‘‘کی بابت کیا خیال کریں اور اُن اُردو اخبارات کو اپنی طرف سے مودبانہ صلاح(مشورہ) دیتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے  اخباروں میں نوٹووچ کی انجیل کو اصلی  خیال کر کے اُس پر لمبے چوڑے  حاشیہ  چڑھائے تھے۔ کہ اب اپنے اخباروں میں صرف اسی قدر  لکھ دیں ۔ کہ نوٹووچ کی انجیل اب تک زیر بحث ہے۔ اُس کا اصلی ہونا اب تک ثابت  نہیں ہوا۔ اور سال آیندہ  میں جب نوٹووچ صاحب یہاں آکر اس کو اصلی ثابت کر دیں۔ اُس وقت جو چاہیں سو لکھیں اُس وقت ہم بھی اُن کی بڑی ادب سے سنیں گے۔ اگر حق کا پاس ہو گا تو ضرور ہماری اس آخری مختصر تحریر کو اپنے  اخباروں میں جگہ دیں گے۔ باقی رہے انگریزی اخبار۔ سو بعض میں تو تردید ہو چکی۔ اور جن میں اب تک نہیں ہوئی اُن میں ہم خود سمجھیں گے۔

Leave a Comment