GODDESS OF IDOL WORSHIPERS
By
Allama G.L.Thakkur Dass
علامہ جی ایل ٹھاکر داس
Published in Nur-i-Afshan Aug 17, 1894
نور افشاں مطبوعہ۱۷اگست ۱۸۹۴ ء
اگرچہ بت پرستوں کی دیوی دیوتا شمارمیں تینتیس(۳۳) کڑور بتلاے جاتے ہیں۔ مگر ان میں سے بہتوں کےنام اُنہیں خود معلوم نہیں۔ اَور نہ اُن کی مورت کسی صورت و شکل کی ان معبدوں(عبادت گاہ) میں پائی جاتی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جب انسان ایک سچے خدا کو چھوڑ کر غیر معبودوں کا پرستار بن جاتا ہے۔ تو پھر وہ کسی دیوی دیوتا کی پرستش سے بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ اَورہمیشہ نئے معبود کی تلاش و خواہش حیران و سرگرداں(حیران وپریشان ،آوارہ) رہتا ہے۔ یہ بات بھی نہائت عجیب معلوم ہوتی ہے۔ کہ اگرچہ ہندی صناعی(ہُنرمندی،کاریگری) مشہور ہے۔ لیکن جو مورتیں اَور تصویریں اکثر دیکھنے میں آتی ہیں۔ نہائت بھیانک اَور بے ڈول(بدنما) ہوتی ہیں، جن کے بعض اعضا انسانی اَور بعض اعضا حیوانی معلوم ہوتے ہیں۔ شائد ان کے پرستاروں کے خیال میں اس کی کوئی وجہ ہو گی۔ جس کو وہی لوگ جانتے ہوں گے۔ خیر اب یہ شکائت بھی رفع (دور)ہو جائے گی۔ کیونکہ مہرنیمروز لکھتا ہے۔ کہ
’’ ہندوں کے دیوتاوں کی تصویریں ولائت سےآ کر ہندوستان میں دو دو پیسے کو بکنے لگی ہیں۔ جو بہرکیف(ہرحالت میں ،ہرصورت میں ) صاف اَورعمدہ ہوتی ہیں۔ پھرکیا فائدہ کہ معبودوں کی تصاویرکُھردری اَورناہموار لے کرپوچی جائیں‘‘۔
اس پرہمیں ایک ذکریادآگیاجو چند روز گزرے آگرہ کے ایک مسیحی نے کیا۔ اَور اُس کے اس بیان کی تصدیق ہو گئی کہ کیوں کر ہوشیار ہندی برہمن ولائت کی بنی ہوئی مورتوں اَور تصویروں سے جہلائے(جاہل کی جمع،ان پڑھ) عوام کو دھوکہ دے کر ذاتی فائدہ اُٹھاتے اَور روپیہ جمع کر لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں۔ کہ
’’شہر آگرہ میں سیتلا دیوی کا ایک میلہ فراہم ہوتا ہے۔ سیتلا دیوی کے میلے تو ہندوستان میں کئی ہوتے ہیں۔ یہ تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر میلے میں ایک طرف سے یکایک یہ آواز سننا کہ ’’ولائت کی دیوی کو پوجو‘‘۔ نہائت تعجب انگیز معلوم ہوا۔ آواز پر کان لگا کر اُس طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا سیتلا کے دو چھوٹے چھوٹے مندروں کے وسط میں ایک مختصر زمین افتادہ(ناکارہ زمین) ہے جس پرمٹی کا ایک چبوترہ بنا ہوا ہے۔ اَور اُس پر وہ ولائت کی دیوی رکھی ہوئی ہے۔ جو درحقیقت چینی کی ایک گڑیا تھی جس کو عوام الناس پوجتے اَور چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ اَور پُجاری ایک برہمن کا لڑکا تھا۔ جو پرستاروں کو بلاتا اَور چڑھاوے بٹوررہا تھا۔ اسی اثنا میں سی۔ایم۔ ایس کے مناد بھی وہاں پہنچ گئے۔ اَور لوگوں کو بتلایا کہ ارے نادانو یہ تو چینی گڑیا ہے جو بچوں کے کھیلنے کی ایک چیز ہے۔جسے تم ولائت کی دیوی سمجھ کر پُوج رہےہو۔بعدہ (اس کے بعد) لڑکے سے جو اُس کا پُجاری تھا۔دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ گڑیا اُس کی بہن کو بپٹسٹ مشن کی مِس صاحبہ نے انعام کے طور پر دی تھی۔ یہ کہہ کر وہ لڑکانذراَور چڑھاوں کا ذخیرہ فراہم کرکے اس ولائتی دیوی کو بغل میں دبا کر چھپ گیا۔ اَور پرستاران خوش اعتماد دیکھتے رہ گئے‘‘۔ اس حکائت کو بیان کرکے وہ مسیحی صاحب یہ راے ظاہرکرتے ہیں کہ’’ اگر مشنری لیڈیاں (خواتین) ان نادان لوگوں کو ایسی چیزیں انعام میں نہ دیں تو بہتر ہو گا‘‘۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتے یہ رائے کہاں تک درست ہے۔ یہ بات تو صاف ظاہر ہے۔ کہ مشنری لیڈیاں لڑکیوں کو خوش کرنے اَور کھیلنے کے لیے ایسی ولائتی چیزیں دیتی ہیں۔ اُنہیں یہ خیال مطلق نہیں ہوتا۔ کہ اِن چیزوں کو یہ ہندی لوگ ایسے طور پر استعمال کریں گے۔ جو اُن کے بالکل خلافِ منشا ہے۔ انسان جو گناہ کے باعث خود بگڑ گیا ہے۔ ہرایک چیزکو بُرے طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔