پیدائش۱۰:۲۸۔۱۵

Eastern View of Jerusalem

Genesis 28:10-15

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Jan 11, 1895

نور افشاں مطبوعہ ۱۱جنوری ۱۸۹۵ ء

۱۰ ويں آيت پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ميں يہ ايک عجيب خاصيت ہے کہ موجودہ حالت کی بہ نسبت جب اُسے کچھ تکليف پيش آتی ہے اپنی پچھلی حالت کو اکثر ياد کرتا ہے۔چنانچہ  يعقوب کے حال سے ہم  کو اس کی شہادت بھی ملتی ہے جيسا لکھا ہے کہ وہ حاران کی طرف گيا۔شہر حاران کسديوں کے اُور سے جنوب مغرب کی طرف ۲۰ ميل کے فاصلہ پر ہے۔جہاں تارح معہ  اپنے خاندان کے ۱۵ برس تک رہا۔ اور جس کو ابراہام نے تارح کی موت کے بعد بالکل چھوڑ ديا تاکہ وہ خُدا کے حکم کے مطابق ملکِ موعود(وعدہ کيا ہوا ملک) کو جائے۔اسی طرح بنی اسرائيل جب کہ مصر سے نکل کر بيابان ميں سفر کر رہے تھے ذرا ذرا سی تکليف کے خيال سے ہائے مصر ہائے مصر پکارنے لگتے تھے۔با وجود يہ کہ مصر ميں وہ غلامی کی حالت ميں تھے اور جو کچھ خُدا اُن کے ساتھ مہر بانياں کرتا تھا اُن سے واقف تھے۔ليکن يہاں يعقوب اور بنی اسرائيل اگرچہ مصر کو لوٹ نہيں گئے پر تو بھی سوائے يشوع اور کالب کے سب کے سب بيابان ميں ہی ہلاک ہوئے۔اور يعقوب اگرچہ حاران کو گيا بھی اور وہاں رہا بھی فريب سے برکت بھی حاصل کی۔ليکن خُدا وند نے اُسے نہايت برکت  بيوياں ،اولاد، مال اسباب،چار پائے سب کچھ مرحمت(کرم، مہربانی) فرمايا اور پھرکنعان ميں واپس لايا۔اب اگر کوئی پوچھے کہ ايسا کيوں ہوا تو ہم کہينگے کہ خُدا کی مرضی۔يہاں سے بر گزيدگی کی تعليم کی تائيدہوتی ہے کہ برگزيدوں کو خُدا کبھی ہلاک نہ ہونے دے گا۔پس ياد رکھنا چاہيے کہ اسی صورت سے ہم ميں بھی يہی کمزوری پائی جاتی ہے۔ليکن جسے خدا نے چُن ليا ہے اُس کو اِس سے کچھ نقصان نہ ہو گا۔پر شرط يہ ہے کہ خُدا کی روح کو رنجيدہ نہ کريں۔بلکہ اُس کی ہر ايک ہدايت پر عمل کرنے کو تيار رہيں۔جيسا کہ ۱۲ويں آيت ميں يعقوب کو سيڑھی  دکھائی گئی۔سيڑھی کے بيان سے پيشتر ہم يہ ظاہر کريں گے کہ ايماندار پر مصيبت کا آنا ضروری ہے۔

۱ ۔آدم پر غور کروخُدا نے اُسے اپنی صورت پر بنايا۔ وہ ہر دم خُدا کی حضوری ميں نہال(خوش) رہتا تھا۔سوائے خوشی کے رنج نام کو بھی نہ تھا پر جب گناہ آيا تو وہ سخت  مصيبت ميں پڑ گيا ۔باغِ عدن سے نکالا گيا خُدا کی قربت سے محروم ہوا۔

۲۔ہابل راستباز جس کی قربانی خُدا نے قبول کی جان ہی سے مارا گيا۔

۳۔ابراہام کو جب خُدا  نے بُلايا تو اُسے اپنا وطن اپنا شہر اپنا خاندان زمين جگہ سب کچھ چھوڑنا پڑا۔

۴۔پھراضحاق اپنے باپ کا اکلوتا جو وعدہ کا کہلاتا ہے اُس کے ذبح کئے جانے کا حکم ہوا۔

۵۔يعقوب برکت پاتے ہی حاران کو بھاگا۔

۶۔يوسف سورج چاند اور ستاروں کا مسجود(جس کو چاند ستارے سجدہ کريں ) ہو کر غلامی کی حالت ميں مصر کو گيا قيد ميں پڑا۔

۷۔موسیٰ مصر سے جان کو بچا کر بھاگا۔

۸۔خُدا وند  يسوع  مسيح کوجب کہ وہ گنہگاروں کے بچانے پر مقرر ہوا ۔آسمانی تخت چھوڑنا اور انسانی بدن غريبی کی حالت ميں اختيار کرنا پڑا۔پھر جب بپتسمہ پاتے وقت روح پاک اُس پر نازل ہوا تب بيابان ميں ۴۰ دن تک شيطان سے آزمايا گيا۔

۹۔مسيح کے رسول بھی روح القدس پاتے ہی سخت اذيتوں ميں پڑے مصلوب ہوئے مقتول ہوئے۔

۱۰۔زمانہ  بہ زمانہ مسيح کے شاگردبُت پرست بادشاہوں حاکموں رعايا سے ستائے گئے ۔يہاں تک کہ شہيدوں کا خون کليسيا کا بيج ہوا۔پس سوال ہے کہ برگزيدوں کے واسطے مصيبتيں کيوں ضروری ہيں۔توجہ اب يہ ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہيں اور جب فرزند ہوئے تو وارث بھی اور ميراث ميں مسيح کے شريک بشرطيکہ ہم اُس کے ساتھ دکھ اُٹھائيں تاکہ اُس کے ساتھ جلال بھی پائيں۔

روميوں ۸۔۱۵،۱۶  کيونکہ ميری سمجھ ميں زمانہ حال کے دُکھ درد اس لائق نہيں کہ اُس جلال کے جو ہم پر ظاہر ہونےوالا ہے مقابل ہوں۔روميوں ۸۔۱۸

اب ہم سيڑھی پر غور کرتے ہيں ۔يوحنا ۱۔۱۵ کے لحاظ سے اگرچہ اس سيڑھی سے ابن ِ ا ٓدم  مراد ہے۔پر ہماری رائے ميں يہاں سيڑھی کو صليب سے زيادہ مناسبت پائی جاتی ہے۔کيونکہ وہ ملاپ جو خُدا اور انسان ميں  ازسر نو پھر قائم ہوا وہ ابنِ آدم کے وسيلہ سے ہے۔ ليکن اُس کے قائم ہونے کا طريقہ مسيح کا دکھ اور اُس کی صليبی موت ہے کيونکہ جو کاٹھ پر لٹکايا گيا سو لعنتی ہو۔اُسی نے ہم کو مول لے کے شريعت کی لعنت سے چھڑايا ۔کہ وہ ہمارے بدلے مصلوب ہو کر لعنتی ہوا۔جس طرح يعقوب نے خُدا وند کو اُس کے اُوپر کھڑا ديکھا ۔اُسی طرح ہم مسيح خُداوند کو صليب پر ديکھتے ہيں۔کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ پھيلائے ہوئےبرگزيدوں کو بلاتا ہے۔کہ آو خُدا وند سے ملاپ کرو۔ دنيا ميں بھی ملاپ کا يہی نشان ہے۔کہ جب وہ مخالف باہم ميل کرتے ہيں تو چھاتی سے لگا ليتے ہيں۔۱۳ويں آيت ميں خُداوند يعقوب سے کہتا ہے کہ ميں تيرے باپ ابراہام کا خُدا ہوں حا لانکہ رشتہ کے لحاظ سے وہ اس کا دادا تھا۔يہاں اُس ملاپ کے حاصل کرنے کا وسيلہ بتلايا جاتا ہے کہ ابراہام ايمانداروں کا باپ ہے۔جو ايمان لاتا ہے وہ ابراہام کا فرزند ہے۔ اب جو ايمان لاتا ہے وہ ابراہام کا فرزند ہے اب جو ايمان لاتا ہے خُداوند اُس کا خُدا ہے اور وہی اُس ملاپ کو  حاصل کر سکتا ہے۔

۱۴ ويں آيت ميں ہے کہ تيری نسل کو ۔يہاں نسل سے خاص طور پر مسيح مراد ہے ۔کيونکہ ابتدا ہی سے ہاں باغِ عدن کے وعدہ سے وہ نسل کہلايا۔اور عام طور پر اُس کی کليسيا کيونکہ لکھا ہے کہ تو پورپ پچھم اُتر دکھن کو پھوٹ نکلے گا سو ديکھ لو کہ مسيح کی کليسيا کا يہی حال ہے ۔ليکن يعقوب کی جسمانی اولاد يہودی جو اب صرف ستر لاکھ ہيں مراد ليں تو نہايت مشکل ہے۔کہ دنيا کے تمام گھرانے اُن سے برکت پائيں۔وہ تو آپ ذليل و حقير ہو رہے ہيں خُدا اُن پر رحم کرے کہ وہ بھی مسيح سے برکت پائيں۔

۱۵ ويں آيت ميں ہے کہ ميں تيرے ساتھ ہوں تيری نگہبانی کروں گا۔اور تجھے اس ملک ميں پھر لاوں گا۔يہاں ايمانداروں کے لئے بڑی تسلی کی بات ہے کہ خُدا اُن کے ساتھ ہے۔مسيح نے فرمايا کہ زمانہ کے تمام ہونے تک ہر روز تمہارے ساتھ ہوں کچھ پرواہ نہيں ۔کہ ماں باپ بھائی عزيز و اقارب سب چھوڑ ديں ليکن خُدا ساتھ ہے۔وہ اُن کی نگہبانی کرتا ہے جس طرح گڈريا بھيڑ کی تاکہ وہ بھيڑ يا جو شيطان ہے يا جو اُس کے ہم شکل ہيں پھاڑ کھا ئيں۔اور سب سے زيادہ يہ کہ اس جہان کی مسافرت اور دوڑ دھوپ کے بعد حقيقی کنعان  ميں پھر لانے کا وعدہ کرتا ہے ۔جہاں ہميشہ کا آرام ہميشہ کی زندگی سب کچھ موجود ہے۔

Leave a Comment