دوستی

Eastern View of Jerusalem

Friendship

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Aug 31,1894

نور افشاں مطبوعہ۳۱اگست ۱۸۹۴ ء

کوئی   آدمی  اس دُنیا   میں مشکل   ملے گا ۔  جس کے دوست  اور  دشمن   نہ ہو ں  ۔ دوست   باہمی ہمدردی   اور مدد  کے واسطے   ضرور  ہے۔ اور چونکہ  انسان  کو خُدا تعالیٰ  نے مدنی   الطبع  (شہری پن،اپنے ساتھيوں کے ساتھ مل جُل کر رہنے والا)پیدا  کیا ہے۔ اس واسطے    بغیر   دوستوں  کے وہ رہ نہیں سکتا ۔  باہمی ایک  دوسرے   کی مدد   کرنا دوستی   کی  شرائط  میں داخل ہے۔ لیکن   بغور  دیکھو تو  کسی   کی مدد  کرنا دراصل   اپنی آپ    مدد  کرنا ہے۔  کلامِ الہٰی  میں یونتن  اور   داؤد  کی دوستی   غور طلب   ہے۔ آخر   الذکر(جس کا ذکر ايک کے بعد کيا جائے)  او­­ّل الذکر کے  مرنے پر کہتا   ہے۔ کہ تیری  دوستی  مجھ کوعورت   کی دوستی   سے زیادہ  تھی ۔ لیکن  سقراط  کہتا  ہے کہ جو محبت  عورت   سے ہوتی ہے۔ وہ دراصل   محبت نہیں ہے۔  ہمیشہ  کلیات   میں مستثنیات   ہو ا کرتی ہیں۔ 

جب ہم  کسی دوستانہ  مجلس  میں ہوتے ہیں تو جس  قدر  جماعت بڑی   ہو ا ُسی  قدر عام  طور پر موسم   و دستور   کی گفتگو   رہتی   ہے۔ یہی حال   دو آدمیوں   کی ابتدائے   ملاقات   کا ہوتا ہے۔ مگر حکیم  ٹلی  کہتا ہے کہ دوستی  خوشی  کو بڑھاتی ہے ۔ اور مصیبت   کو کم کرتی  ہے۔ اور لارڈ  بیکن   کا قول ہے۔  کہ دوستی   کے ہزاروں فوائدکے  ساتھ  یہ ہے۔   کہ دوست   مصیبت   کو بھی بانٹ  لیتا  ہے۔   چلیا  کے ایک   حکیم   کا قول   ہے۔ کہ میٹھی  باتوں  سے بہت   دوست  بن جاتے    ہیں اسواسطے  سب سے مل  کر   رہنا  چاہیے    اور ایک  کو  اپنا صلاح  کا  ر بنا رکھنا  چاہیے  دوستی   کے لئے سمجھ  واقفیت   و عمر  و دولت   کی مساوات چاہیے   ورنہ دوستی   قائم نہ  رہے گی  ۔  چاہیے کہ  نیکوں  کے ساتھ   دوستی   ہو کیونکہ  کون   ایسا   شخص   ہے جو نیکوں   کی  صحبت  میں ر ہ  کر  بڑائی   حاصل  نہ کرے۔ پھول کے پتوں  پر شبنم  کو دیکھو   شبنم  کے قطر ے چمک  میں موتی   کو بھی مات  کرتے ہیں۔  یہ  خوبی  اُن میں پھولوں  کی صحبت   اور قرابت   (نزديکی)سے آ گئی ہے۔ ویسے  ہی قطرے زمین  پر پڑے  تھے۔ جو مٹی  میں  مل گئے۔  دوستی  ہمیشہ   جوانی   میں ہوتی   ہے۔ جب ہر قسم   کا جوش   انسان  میں ہوتا ہے ۔ اور دراصل   حقیقی  دوست   بھی وہی ہو ا کرتے ہیں۔  بڑی  عمر میں نئے   دوست   پیدا نہیں  ہوتے۔  اور پرا  نے دوست   بعض  اوقات    بعض   بواعث(وجوہات )   سے ضائع   ہو جاتے ہیں۔  اس کا بیشتر  باعث  (وجہ)یہ ہے۔ کہ باہم  ایک   دوسرے   کے  عیوب(عيب کی جمع)   سے آگاہ  ہو جاتے ہیں۔  اور سلوک  میں کسی  طرح  سے کمی ہو جاتی  ہے۔ وقت   اور مواقع  ایسے نہیں رہا  کرتے ۔ لیکن اگر کوئی بھاری  سبب  نہ  ہو تو پھر ملاقات  سےوہی باہم  ویسے ہی  خوش  ہوتے ہیں۔

    ایک دانا (عقلمند) کا یہ بھی قول  ہے۔ کہ جو  دوست  کی تلاش   کرتا ہے وہ  اپنی تکلیف  کو بڑھاتا  ہے۔ کیونکہ اُس  کے  انکار  کا حصّہ  لینا  پڑتا  ہے۔ لارڈ  بیکن  یہ بھی کہتا  ہے۔ کہ کسی شخص  کو پہلے مرتبہ   ہی  بہت کچھ   نہ سمجھ  لیا جائے۔  کیونکہ کوئی شخص  اُمید  کی مقدار  پوری نہیں  کر سکتا ۔  روشنو  کا لڈ کہتا ہے کہ جس  وجہ سے  ہم  نئے دوستوں کو پسند  کرتے ہیں وہ اس  قدر   ہمارے  پہلے دوستوں کی طرف  سے دل   برداشتہ ہو جانے  یا نئی  چیز  سے لطف  پیدا ہونے  کے خیال سے نہیں۔ جس قدر اس دلگیری   کے باعث  ہے۔ کہ جو  اُن لوگوں سے حسب  دلخواہ تعریف   نہ حاصل   کرنے کے سبب  سے ہوتی ہے۔  جو ہم کو بہت   اچھی طرح  سے جانتے ہیں۔ اور اُن  لوگوں سے جوہم   کو ایسی  اچھی طرح   سے نہیں جانتے   زیادہ  تعریف   حاصل  کرنے کی  توقع  ہوتی ہے۔  ہم جنس  اور ہم خیال   میں دوستی    ہوا کرتی ہے۔ کم ازکم   ایک امر میں  مماثلت   (مشابہت)چاہیے۔   ورنہ  ہرگز   دوستی   نہ ہو گی ۔  مطلب   کے دوست    دُنیا  میں بہت   ہوتے ہيں ۔ جب   مطلب   نکل گیا ۔  یا مطلب   نہیں ہے۔  یا مطلب  نکلنے   کی اُمید   نہیں ہے۔   تو وہ دوستی   اور ملاقات   بھی جاتی  رہتی ہے۔ سچ پوچھو   تو دنیا  میں  کوئی کسی کا دوست  نہیں ہے۔  البتہ  سچے خدا پر  ست  خیر  خواہ  حقیقی  ہیں۔

دوست باہمی ہمدردی اور مدد کے واسطے ضرور ہے

مگر یہ سوال  ہے ۔ کہ حقیقی  خدا پرست   کون ہیں؟ وہ  نایاب(انمول)   ہیں۔ درخت   اپنے پھلوں  سے پہچانا  جاتا ہے۔  گر  جو زبانی   جمع  و  خرچ   کرتے ہیں۔  اور الفاظ  میں خیر   خواہی   جتلاتے  ہیں ۔ انہیں  بھی بمشکل  ایسا شخص  ملے گا  ۔  جو خُداوند   سے محبت  رکھتا  ہے یا سچا  خیر   خواہ  انسان کا   ہے وعظ  یا اُن  کی نرم   گفتگو  ثبوت   اس  امر کا نہیں  ہے۔ کہ جیسا  وہ کہتے ہیں  فی الحقیقت   ویسے   ہی ہیں۔  

وعظ  یہ ہے۔ کہ فریسیوں  کے موافق  نہ بنو مگر بے چارے  اپنے آپ  کو بھول گئے۔  کہ خود  فریسیوں  سے زیادہ  مکار  ی(فريبی)  اور ریا  (دھوکا)کے جال میں پھنسے   ہوئے ہیں۔ سچ  مچ  وہ یا تو فریب  خوردہ ہیں۔ یا فریب   دہندہ ہیں۔ حالت   اوّل  میں  معذور  ہیں مگر  یاد رکھیں۔  کہ دوسری  حالت  میں وہ اپنے افعال(کاموں)  کے جوابدہ  ہیں ۔ اکثر دوستوں  سے تکلیفات   ہوا کرتی ہیں۔ وہ خیالی  ہوں یا حقیقی  ۔ مگر ان کی  تعداد کم نہیں  ہے۔ وہ تکلیفات   بے وفا  کہلاتی  ہے۔ غالباً  فریقین ایسا   سمجھتے ہوں۔ کیونکہ  اپنے سلوکوں  کا اندازہ   ہر ایک زیادہ کیا کرتا ہے۔ اس واسطے   دوستی   کو قائم  رکھنے کے واسطے   معافی  بہت چاہیے ۔ اگر  اس میں فیاضی  نہ ہو تو دوستی  بہت دنوں تک  قائم نہ رہے گی ۔ ایسی حالت   میں کسی  کا شعر ہے۔

پس  دوستوں  کے ساتھ  برتاؤ   میں ہو شیاری   بکار  ہے۔ اور   جہاں تک   ہو سکے۔ ایک دوسرے   کو معاف  کرے۔ اور  اپنی عقل   کے اندازہ  کے مطابق   شناخت  بھی کر لے۔   جو اس میں  ہوشیار   ہیں وہ دغا  (دھوکا) نہیں کھاتے  ۔ اُن  کے دوست  تعداد میں گو کم  ہوں۔ مگر  پائیدار  ی  میں مضبوط  ہوں گے۔

ایک  دوستی  ریل کے سفر ۔ یا کشتی   میں۔ یا  راستہ چلتے   ( یکہ   میں )  ہو جاتی ہے۔ وہ صرف  اسی   وقت   کے واسطے   ہے۔  جب   ریل  سے اُترے   ایک دوسرے  کو نہیں پہچانتے ۔  اس دنیا  کی  دوستی   کا بھی قریباً  ایسا ہی حال ہے۔   صرف  عرصہ کا فرق  ہے۔ پس دوستی  کم ہو یا زیادہ    صرف  وقت کے واسطے  ہے۔ وقت پورا ہونے  پر نہ  وہ ہے۔ نہ یہ  ہے ۔ مگر  خداوند   وفادار  ہے۔ وہ آج  اور کل یکساں   ہے۔ وہ اپنی   وفا میں کامل (مکمل) ہے۔ دنیاوی  دوستوں  کی طرح بدلتا  نہیں۔   پس اُسی  پر اپنا   بھروسہ رکھ۔ جس  قدر اس  بھروسہ  میں کمی ہو گی ۔  اُسی  قدر  آزمائش   اور مصیبت  زیادہ ہو گی ۔  اور  تیری پریشانی   بطور  سزا  کے تجھ  کو دبائے  گی ۔  فقط

اس مضمون   پر کچھ  خیالات   پہلے  ظاہر  کئے گئے ہیں۔  مگر یہ   مضمون   ایسا وسیع   (لمبا)ہے۔ کہ جس  قدر  اس پر سوچو  یا  غور کرو   اُسی   قدر  زیادہ   خیالات   کی جولانی   (رفتار کی تيزی۔پھرتی)ہوتی  ہے۔ اور  پہلے   مضمون  کو  مد  نظر   رکھ کر  مشکل   معلوم ہوتا  ہے۔ کہ مختصر  فیصلہ   اس کی نسبت   کیا ہے۔  اس واسطے  چند  خیالات   اور  اقوال  اور ظاہر   کئے جاتے  ہیں۔ تاکہ  ناظرین  اپنے واسطے  خود  فیصلہ   کر لیں۔ 

کچھ   روز  ہوئے   ایک طالب   علم سکاچ مشن  سکول سیالکوٹ   نے اشتہار   دیا تھا۔   کہ ’’میں  سچے  دوست کی تلاش   میں ہوں۔  وہ مجھ کو مل جائے ‘‘۔  اُس  کے جواب   میں بہتوں  نے خامہ  فرسائی  (لکھنا)کی۔ اور نائب  تحصیلدارو  حید نے ایک شاعر   کا شعر  لکھ دیا  جس  کو  اڈیٹر  اخبار   نے آخر   فیصلہ   قرار دیا ۔  اور وہ  یہ ہے۔

کوئی کسی کا نہیں دوست  سب کہانی ہے

اس سے بھی   سچے  دوست  کے ملنے   کی مشکلات  ہی معلوم  ہوتے ہیں ۔ سقراط  حکیم  جس کی دوستی اور محبت  کے سینکڑوں  نہيں۔   بلکہ ہزاروں  خواہاں  تھے ۔ اس  شخص  کو جس نے  اس  کے  اتہنیزمیں ایک  چھوٹا  سا مکان   بنا نے پر کہا۔  کہ ’’ یہ  مکان  چھوٹا  ہے ‘‘ کہتا ہے کہ  ’’ اگر یہ سچے  دوستوں  سے بھرجائے  تو میں اس گھر  کو بڑا عالیشان  اور باسامان  سمجھوں گا ‘‘۔ اس جواب  سے اس  روشن ضمیر انسان  کی رائے   ظاہر  ہوتی  ہے۔ کہ اس   کو بھی سچے   دوستوں  کے ملنے   کی ایسی   تو قع نہ تھی۔   کہ وہ تنگ   مکان  اُن  سے بھر  جاتا ۔  ارسطو  کہتا ہے۔  کہ اگر کسی  شخص  کو دوستی  کی ضرورت  نہ ہو۔  تو وہ انسان  نہیں  ہے ۔ اپنی خوشی  کے لئے ضرور  ہے۔ کہ وہ کسی  کو اپنا  دوست    بنا ئے ۔ یہ حکیم   اس امر کا  قائل تھا ۔  کہ بعض آدمی  ایسے سوچنے   والے   ہوتے ہیں۔ کہ  وہ اپنے  واسطے   کافی ہیں۔  اور ظاہر  ی حالات  اُن  کے ایسے ہیں۔   کہ وہ کسی کے محتاج  نہیں اس   واسطے   وہ  خد ا کی طرف   متوجہ   رہتے ہیں۔   مگر افلاطون  اس کے خلاف  کہتا  ہے۔ کہ ’’ محض  تنہائی   سے خدائی  صفات  نہیں آتیں ۔ راہب (عيسائی۔عابد)اس واسطے  خلوت   گر(تنہائی ميں بيٹھنے والے) میں ہوتے ہیں۔  کہ خاص  مجلس  میں بیٹھیں ۔ اور  خدا  سے   باتیں کریں  ۔ مسیحی بزرگوں اور عالموں   کی کچھ عرصہ   سے یہ رائے   ہے۔ کہ  خلوت   سے جلوت(تنہائی سے مجمع)   بہتر   ہے۔ کہ اس   سے اپنے  عیوب(برائياں،گناہ)  معلوم ہوتے ہیں۔  اور انسانوں  کو فیض  (فائدہ)پہنچایا   جاتا ہے۔  اسی واسطے   بزرگ   اگسٹین  کہتا ہے۔  کہ ’’ راہب  نیکیوں   کو جنگل  میں لے جاتے  ہیں۔ اس واسطے شہر نیکی  سے خالی ہو جاتے ہیں‘‘۔ دراصل   اس    شخص  کی تنہائی   سب سے زیادہ  مصیبت  ناک ہے۔   جس کے سچے  دوست  نہ ہوں ۔ کیونکہ  سچے  دوستوں  کی دُنیا  ایک   ویران  جنگل  ہے۔ دوستی  کا سب سے بڑا   پھل  بکثرت  رائے   یہ بیان  کیا جاتا ہے۔ کہ اُس   سے دل   ہلکا   ہو جاتا ہے۔  جو باتیں  دل میں بھری  ہوتی ہیں۔  سب زبان  پر آجاتی  ہیں۔   کیونکہ   سب سے زیادہ  تکلیف  آدمی کو دل کے  گھٹنے   سے ہوتی ہے۔  پس ایسے  ہی دل  کا حال ہے۔  کہ اگر    دوست نہ ہوں ۔ تو بڑا  گھٹتا  ہے۔ یہ بڑے   تعجب   (حيرانگی)کی بات  ہے۔ کہ  اس دوستی  کو شاہان  و فرمانبرد ایاں الو العزم اپنی جان اور شان  کو خطرہ  میں ڈال  کر خریدتے ہیں۔ کیونکہ  بادشاہ   اور رعایا  کے رُتبہ  میں زمین  و آسمان  کا فرق  ہوتا ہے۔   اس واسطے   اُن  کو دوست   بنانے  کے واسطے  ضرور ہے۔ کہ رعایا میں سے   لوگوں  کو اوّل  ادنیٰ  درجہ سے اعلیٰ  پر پہنچایا  جائے اور پھر ان کو  اپنا   رفیق  (ساتھی)بنا دیں۔  اوراس کام  کے سرانجام  کرنے کے لئے  اُن  کو بہت  تکلیفات  اور مصائب  اُٹھانی  پڑتی  ہیں۔  بادشاہ  اہل دل  ۔ بہادر   ۔ عاقل  سب جانتے ہیں۔ کہ بغیر  دوستوں کے  اُن  کو آرام  نہیں ملتا   ۔ اور ان  کے کام  ادھورے  رہتے ہیں۔   جو تسلی  دوستوں  سے ہوتی  ہے ۔ وہ بھائی  بندوں  سے نہیں ہوتی ۔ یہ بھی  حضرت  سلیمان  کا قول  ہے کہ ’’ دوست  خوشی کے واسطے   اور بھائی   مصیبت   کے واسطے   ہے ۔  یہاں   سے بھی سچے   دوست کی نایابی   ظاہر ہے۔ کیونکہ   تکلیف  میں مدد دینے    کے واسطے   صرف بھائی  ہے اور  یہ سچ ہے۔

دوستوں کا نہ ہونا اور جو تنہائی بغیر دوستوں کے ہو وہ ایک قسم کی سزا ہے۔

تاہم  دوستوں  کا نہ ہونا  ۔ اور جو تنہائی   بغیر   دوستوں  کے ہو ۔ وہ ایک قسم  کی سزا ہے۔   اور یہی  وجہ ہے کہ یہ   سزا  بڑے مجرموں  کو دی   جاتی  ہے۔ معتقد  مین (اعتقاد رکھنے والے)کی رائے ہے کہ دوست   اپنی ذات   ثانی ہے۔ اس کا  ایک جسم   ہے اس واسطے وہ ( انسان  )  ایک ہی جگہ   موجود   ہوتا ہے۔ مگر  جس کے دوست  ہوں۔ وہ   انسان بہت   جگہ کام  کر سکتا  ہے ۔ اگر کسی  کی قبضہ  میں ساری  دنیا   ہو  مگر  اس  کا کوئی دوست  نہ ہو۔   اوّل  تو ایسے شخص  کے قبضہ   میں کچھ نہیں  ہو سکتا  ۔ تو سب ہیچ  (نکما)ہے۔ مگر  مشتبہ دوست سے ایسا   خوف  ہوتا  ہے۔  جو دشمن  سے نہیں ہو تا  جو آدمی  اپنی ذات   سے محبت   رکھتا ہے۔ لیکن  اس کا کوئی دوست   نہیں ۔ وہ  نہ صرف  الزام  کے لائق  ہے۔ بلکہ نیکی  کے بڑے حصّہ   سے محروم  ہے۔  دنیا   میں دوستی  کا حال موسم  خزاں  کے موافق ہے۔ جب تک  درخت  میں پتوں   کی  غذا موجود  ہے۔ وہ لگے  رہتے  پھر اسے   چھوڑ  جاتے ہیں۔  ایسا   ہی حال   انسانوں  کا ہے۔ کہ جب تک  ان میں طاقت  ہے  دوست  موجود ہے۔  تب تک  وہ قائم   ( دوستی  میں ) رہتے پھر چھوڑ  جاتے ہیں۔

دُور  کیوں جاتے ہو ایک زمانہ تھا   جب پرنس  بسمارک  وزیراعظم ملک   جرمنی  کا تھا ہر ایک ہوشیار  شخص   کو اس سے تشبیہ  دی جاتی تھی۔ مشکل   سے کوئی اخبار  ہوتا تھا۔  جس میں کچھ  نہ کچھ  اس کا تذکرہ  نہ ہوتا  ہو ۔  لیکن جب   سے وہ عہدہ  سے برطرف  ہوا کوئی  پوچھتا بھی  نہیں۔  گویا و ہ  جیتا  ہی مرگیا ۔  ایسا حال  ہر روز  ہم عہدہ  داران  کا دیکھتے  ہیں۔ جب  و ہ پينشن لے لیتے ہیں۔ ان کو  کوئی پوچھتا  تک نہیں۔ جو دوستی  ان سے لوگ کرتے تھے۔ وہ مطلب  کی دوستی  تھی۔جب  مطلب   نہ رہا۔ تو دوستی  بھی نہ  رہی۔  مگر جو باہم سچے دوست ہیں۔ وہ ایسے   نہیں کسی  کا قول  ہے۔ کہ وہ دوستی  چاند کے گرہن کو دیکھنے   کے لئے  اور دشمنی پورا  چاند  دیکھنے  کے لئے  آنکھیں  بند کر لیتی  ہے۔  اس کا مطلب   یہ ہے۔ کہ دوست  دوست   کی تھوڑی  تکلیف  دیکھنے  کو راضی  نہیں اور  دشمن  اس کا پورا   جلال  نہیں دیکھ  سکتا  ۔ یعنی دشمن دشمن  کی پوری  عزت  دیکھ  سکتا  ۔ جو دوستی  دنیاوی  خواہشوں  کے پورا  کرنے کے  واسطے   نہ ہو  بلکہ پاک  دوستی   براہ  خدا ہو۔  اس میں موت  سے پہلے کمی  نہیں ہوتی  ۔ بلکہ مرنے  کے بعد  آلائش  (آلودگی)سے دوستی پاک  ہو جاتی ہے۔ اور اس وقت  دوست  کے عیب  نظر نہیں  آتے ۔  اور اس کی خوبیاں  قبر  کی تاریکی  میں روشن  نظر آتی ہيں  ۔ پس  اس سے بھی یہی  نتیجہ  نکلتا  ہے۔ کہ خداوند  کے واسطے   انسانوں  سے اور دیگر  مخلوقات  سے  دوستی  کر ۔ اس کی بنیاد  قائم  ۔ اور خداوند  سے محبت  صرف اس کے واسطے کرو کیونکہ  وہ وفاداری ہے۔ ( باقی  پھر  کسی وقت )

دُوستی  کی نسبت  دو ایک   آرٹیکل  نور  افشاں   میں شائع   ہو چکے ہیں۔ جن   میں  بعض  خیالات  عمدہ ظاہر  کئے گئے ہیں۔  واقعی  یہ مضمون  بہت   وسیع  ہے جہاں تک  غور  کیا  جائے  ایک نہ ایک  بات نئی  نکل  ہی آتی  ہے۔ یہ  ۔۔۔۔بھی   اپنا   خیال  ظاہر کرنے کی  جرات  کرتا ہے۔

آج  کل  کے زمانہ   میں اگر  حقیقی  دوست   کی تلاش  کی جائے   تو اس میں  کامیابی   کی اُمید  اگر  ناممکن   نہیں تو  مشکل   ضرور  ہے کیونکہ   آدمی   جیسا کہ ظاہر ی  صورت   میں ایک  دوسرے  سے فرق   رکھتے   ہیں۔ ویسا  ہی سیرت  میں بھی ۔  جہاں  دو  کی  طبیعت  ایک طرح    کی مل   گئی وہاں   ہی دوستی   کی بنیاد  یہی پڑگئی ۔  اس میں نہ دولت   و ثروت   کوئی  ر کاوٹ  ہو سکتی  ہے  نہ علم  و ہنر  کوئی سد  راہ ۔

حقیقی  دوستی  وہی ہے جب ایک  دوست   دوسرے دوست  کی مصیبت   و تکلیف   کو یہ  سمجھے  تکلیف  و مصیبت  میرے دوست  پر نہیں   آئی ہے بل  کہ مجھ  پر ۔ اور  اس کا   بوجھ  ہلکا  کرنے میں حصہ  لے  مگر عموماً  ایسا نہیں  ہوتا ۔  جہاں  دوست  پر  مصیبت   آئی  باتیں تو  بہت سی  بنائی جاتی   ہیں۔   دلجمعی  کی جاتی  ہے تسلی   بھی دی جاتی  ہے مگر  محض   بے سود  جہاں  کسی قسم کی امداد  کی استدعا  کی گئی سینکڑوں   عذرو بہانے  بنائے   جاتے ہیں۔  اور  روپوشی  اختیار  کی جاتی ہے۔  اور آخر  کو یہ بھی  خیال  نہیں رہتا  کہ اس شخص  سے کبھی  ہماری   ملاقات  تھی بقول   حضرت  سفیر   ۔ نعمت  میں  بار غار   مصیبت   میں بر کنار  ۔ دنیا   پر ست دیکھنے  والے  ہو ا کے ہیں۔  اور جہاں  کہیں   راستہ   پر آمنا  سامنا ہو بھی   گیا ۔ تو نظر  تک اُٹھاکے    نہیں دیکھے   بات  چیت  کرنا تو درکنار  ۔ سچ تو یہ ہے کہ  بُرا  وقت نہ دکھلائے   خدا ۔   دوست     پھر جاتے  ہیں دشمن  کی شکایت   کیا ہے۔ حقیقی  دوستی   میں دوست    کی مصیبت   دیکھی   نہیں جاتی  ۔ جب تک  کہ وہ مصیبت  اس  پر سے ٹل  نہ جائے  دوست   کی طبیعت   برابر   بے چین   رہتی  ہے۔ مصیبت   زدہ   دوست   کی امداد    کرنے    کو دل   خواہ  مخواہ  تحریک   کرتا ہے۔  اُبھارتا   ہے۔ شوق   دلاتا ہے۔ اور یہ فرض  منصبی  ایک گو نہ راحت   معلوم ہوتا  ہے۔ سینکڑوں  تدبیریں  سوچی  جاتی ہیں۔  کہ کسی طرح  دوست   کی مدد ہو کسی   نے خوب کہا  ہے۔ دوست  آل  دانم  کہ گیر دوست  ۔ در پریشاں حالی  دو ر ماندگی  ۔ مگر یہ امداد   و ہمدردی  کا اظہار  بے  غرض و بے لوث  ہونا چاہیے   تب ہی حقیقی   دوستی   کی بنیاد   قائم رہتی   ہے مگربہت   لوگ  ایک شخص   کی مصیبت   میں اس  کی امداد کرنے سے  اس پر ایک   طرح کا دباؤ  ڈال  کر اپنا   کوئی مطلب   نکالنا   چاہیے   ہیں ہمارے   تجربہ  میں  کئی  شخص  اس قسم کے آئے ۔  اُن  کے واسطے  یہی کہا  جا سکتا ہے۔  شعر   جستجو  ئے  دگرے  داشت  چو پر  سیدم   ازو منفعل   گشت  و ہمن  گفت  ترامی خواہم ۔ اور   اس پر طرح یہ ہے  کہ   جب اپنا مطلب  نکلتا   نہیں دیکھتے  تو دشمن  ہو جاتے  ہیں۔   دوست کی پہچان   میں کسی   کا مقولہ   ہی  کہ دوست   کو آد ہی   رات کو جگا  کر اس  سے کوئی رقم   بطور  قرضہ  مانگی   جائے۔

حقیقی  دوست   کی پہچان   ایک   یہ   بھی  ہے کہ دوست کے عیوب   آئینہ   کی مانند   و برو صاف   و صریح  ظاہر کر دے مگر  تجربہ   میں ایسا  بھی ہو تا   کم دیکھتے  میں آیا  ہے مل کہ  اس  کے برعکس   تلق  و چاپلوسی  کو کام میں لایا   جاتا ہے جھوٹی  خوشامد س آسمان   پر چڑھا  دیا   جاتا ہے۔  آپ ایسے   آپ  کے باپ   کے دادا  ویسے    تلق   و  خوشامد   کی عادت   جس  شخص   میں ہو اس کی دوستی  کا اظہار  قابل  اعتماد   نہیں۔  خوشترآں  باشد  کہ سرد لبراں   ۔ گفتہ آید در حدیث   دیگراں۔

 دُوستی   کے خاص  آئین   میں جن  کا لحاظ  رکھنا واجبات  سے ہے۔  رشک   و حسد   کو پاس   نہ پھٹکنے دے  غیبت   کے عادی   نہ ہونا چاہیے  ۔ دوست  کی عزت   آبرو   خیر خواہی   مدنظر رہے۔ 

خیال   خاطر احباب  چاہیے ہر دم ۔ انیس  ٹھیس   نہ لگ جائے  آہگینوں  کو ۔ صاف باطنی و سینہ   بے کینہ  ہونا چاہیے  ۔ تحمل  بردباری  و برداشت   کی عادت  ہونا   چاہیے   وغیرہ وغیرہ  ۔ ان ہی   پر دُوستی  کے قائم   رہنے  کا   دارو مدار  موقوف ہے۔

دُوستی   وہ  ہی  سچی  ہوتی ہے۔  جو دیر  میں پیدا ہو ۔ چٹ  روٹی  پٹ دال   سے کام نہیں چلتا  اور یہی   سبب ہے کہ دوستوں  سے اکثر   ٹھوکریں  پہنچتی  ہیں۔

دوستوں  سے اس قدر صدمے  اُٹھائے   جان پر ۔  دل سے دشمن  کی عداوت  کا گلہ   جاتا رہا ۔ 

کسی نے کہا  ہے  دیر آید درست  آید۔  جو چیز  جلد گرم   ہو جاتی ہے وہ  ٹھنڈی  بھی جلد ہوتی ہے۔ مگر  جو دیر   میں گرم   ہوتی ہے۔   وہ دیر میں  ٹھنڈی  ہوتی ہے۔  اگر دوستی   میں یہ   باتیں  ہیں تو وہ دوستی  کہلائے  گی  ۔  ورنہ    یہ شعری  کہا جا سکتا ہے۔   خدا ملے   تو ملے آشنا   نہیں ملتا  ۔ کوئی  کسی  کا نہیں دوست  سب کہانی ہے۔

یوں  تو مطلب  کے یار  بہت  مل جاتے ہیں۔ اور آخر  یہی ہو تا  ہے ۔ سلفی یارکس  کے ۔ دم لگایا اور  کہسکے۔

دُوستی   کے مختلف  مراتب   ہیں ایک وہ جس کو انگریزی  میں  اینٹی میسی ( Intimacy) کہتے  ہیں۔ جس  میں ایک دوست  دُوسرے  دوست   کا ہمدم   و ہمراز ہوتا  ہے  دوسرے کو فراینڈ  شپ  کہتےہیں جس میں  ذرہ کھل کر برتاؤ  ہوتا ہے۔ تیسرے  کو ایکو  نیٹنس کہتے ہیں۔ یعنی  جان پہچان  جس میں معمولی   علیک  سلیک   ہی ہوتی  ہے ۔ زیادہ   زیادہ بے تکلفی  نہیں ہوتی ۔ واضح  رہے  کہ  لوور  عشق  دوسری  بات ہے۔ دُنیوی   دوستی   تو صرف  دنیا  ہی کے واسطے   ہے  عاقبت  میں کام  نہیں آئے گی  لازم  ہے  کہ عاقبت کے واسطے   بھی ایک  حقیقی  ۔

Leave a Comment