For to us a child is born
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Dec 21, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۱دسمبر ۱۸۹۱ ء
ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوتا ۔ اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا ۔ اور سلطنت اُس کے کاندھے پر ہو گی۔ اور وہ اس نام سے کہلاتا ہے۔ عجیب ۔ مشیر ۔ خدائے قادر ابدیت کا باپ ۔ سلامتی کا شہزادہ ۔ا ُ س کی سلطنت کے اقبال(خوش قسمتی) اور سلامتی کی کچھ انتہانہ ہو گی۔ وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابدتک بندوبست کرے گا۔ اور عدالت و صداقت (سچائی)سےا ُسے قیام بخشے گا۔ رب الافواج کی غیوری (بہت غيرت کرنے والا)یہ کر ے گی۔
یسعیاہ ۹۔ ۶، ۷۔
اس میں شک نہیں ۔ کہ خداوند تعالیٰ جو تمام دنیا مافیہا کا خالق و مالک ہے۔ حقیقی بادشاہ ۔ اور کُل خلقت پر مسلط (حاکم۔مقرر کيا گيا)ہے۔ اور اپنے تخت ِسلطنت پر متمکن (قائم۔جگہ پکڑنے والا)ہو کر ازل سے ابدتک غیر مرئی(جو چيز ديکھی نہ جائے) طور پر حکمران ہے۔ چنانچہ راقم زبور کہتا ہے۔ کہ ’’ سلطنت خداوند کی ہے۔ قوموں کے درمیان وہی حاکم ہے ‘‘ ۔ زبور ۲۲۔ ۲۸۔ لیکن اُس نے زمین بنی آدم کو عنایت(عطيہ) کی۔ کہ وہ اُس پر سلطنت و حکومت کریں۔ جیسا لکھا ہے۔ کہ ’’ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اور انہیں برکت دے کر کہا۔ کہ پھلو۔ اور بڑھو اور زمین کو معمو(آباد)ر کرو۔ اور اُس کو محکوم(رعايا۔حکم کيا گيا) کرو۔ اور سمندر کی مچھلیوں پر۔ اور آسمان کے پرندوں پر ۔ اور سب چرندوں پر جو زمین پر چلتے ہیں۔ سرداری کرو ‘‘۔ پیدائش ۱۔ ۲۸ ۔ اگرچہ خدا تعالیٰ غیرمرئی(جو چيز ديکھی نہ جائے) طور پر بنی آدم پر حکمران اور اُن کا حقیقی سلطان (بادشاہ)تھا ۔ تاہم اُس نے نہ چاہا۔ کہ وہ بغیر انسانی انتظام سلطنت کے مطلق العنان(خود سر،آزاد) رہ کر طایف الملوکی کے وحشیانہ طریقہ کو اپنا دستور العمل بنائیں۔ اس لئے ایک عظیم الشان انسانی سلطنت کی بنیاد ڈالنے کے لئے روئے زمین کی قوموں میں سے ایک دیندار و با خدا خاندان ابراھیمی کو چن لیا۔ جس کو دنیا کی تمام قوموں کی برکت یابی کا باعث ٹھہرایا ۔ اور جس سے ایک خاص قوم ایسی پیدا کی۔ جس کو آئین و قوانیں ملکی و مذہبی دے کر اپنے لئے اس ارادہ سے مخصوص کیا۔
کہ سلطنت مذکورہ اُس میں قائم ہو کر تمام روئے زمین پر حکمران رہے۔ اور وہ سلطنت ایک ابدی سلطنت ہو اس قوم کے مشہور و معروف بادشاہ داؤد کو مقبول و پسندیدہ فرما کر خدا وند خدا نے اُس سے عہد کیا۔ کہ ’’ تیری سلطنت ہمیشہ تک تیرے آگے قائم رہے گی۔ تیرا تخت ہمیشہ ثابت ہو گا۔ ۲۔سموائیل ۷۔ ۱۶ ۔ اس عہد کی نسبت اُس نے فرمایا ۔ ’’ میں اپنے عہد کو نہ توڑوں گا۔ اور اُس سخن (بات۔کلام)کو جو میرے منہ سے نکل گیا ۔ نہ بدلوں گا ۔ میں نے ایک بار اپنی قدوسی کی قسم کھائی۔ میں داؤد سے جھوٹ نہ بولوں گا۔ اُس کی نسل ابد تک قائم رہے گی۔ اور اُس کا تخت میرے آگے سورج کی مانند ۔ وہ چاند کی طرح ۔ اور آسمان کے سچے گواہ کی مانند ابد تک قائم رہے گا ‘‘۔ زبو ر ۸۹۔ ۳۴، ۳۵، ۳۶۔ پھر جس قدر اس سلطنت عظیم کے قائم ہونے اور اُس بادشاہ جلیل القدر کے ظہور(اظہار۔اعلان) پُر نور کا وقت قریب آتا گیا ۔ اُسی قدر اُس کی نسبت پیشن گوئیاں اور نبوتیں زیادہ تر وضاحت و صراحت (تشريح)کے ساتھ اُس قوم کے ملہم (الہام رکھنے والے) اشخاص کی معرفت بیان ہونے لگیں ۔ جن سب کو مجتمع (اکٹھے)کر کے دیکھیں تو ایک مکمل اور صحیح حُلیہ بعينيہ اُس سلطان السلاطین(بادشاہوں کا بادشاہ) کا پیش نظر معلوم ہوتا ہے۔ ان ملہم اشخاص میں سے یسعیاہ بن اموص نے جس کو اگر انجیلی نبی کہا جائے۔ تو نہایت مناسب و موزوں ہو گا۔ اس قدر بوضاحت اُس کا بیان اپنے صحیفہ میں کیا۔ کہ گویا ایک تصویر اُس کے سراپا(سر سے پاوں تک۔حليہ) کی کھینچ دی ۔ تاکہ جب وہ ظاہر ہو ہر ایک بہ آسانی اُس کے ساتھ مطابق کرلے۔ سند کی آیت بالا میں نبی نے ایسی طرزِ عبارت میں اُس کی ولادت با کرامت (معجزانہ پيدائش)کا نقشہ کھینچا ہے۔ گویا کہ وہ اُس واقعہ کو بچشم خود(اپنی آنکھ ) دیکھ رہا ہے۔ اور اُس مولود مسعود (نيک۔مبارک) کی سلطنت لازوال کے اجلال و اقبال پر ابتدا سے انتہا تک نظر کر رہا ہے اور جیسا کہ اسی باب کی تمہیدی عبارت میں بیان ہوا وہ ’’ ایسا خوش ہوتا جیسے درو(فصل کی کٹائی)کے وقت اور غنیمت (مفت ملی ہوئی چيز) کی تقسیم کے وقت لوگ خوش ہوتے ہیں‘‘۔
اس نبوت کے سات سو چالیس برس بعد اُس کی تکمیل ۔ اور مولودِ موعود (وعدہ کيا ہوا بيٹا)کے ظہور موفورالسرور(بہت اظہار والا بادشاہ) کا وقت آپہنچا۔ اور یہ وہ وقت تھا کہ جس میں تمام یہود ایک بڑے بادشاہ کے پیدا ہونے۔ اور تختِ داؤد ی پر متمکن (جگہ پکڑنے والا) ہو کر ایک باامن و اقبال عا لمگیر سلطنت کرنے کے لئے منتظر اور چشم براہ (انتظار کرنا)تھی۔ اور نہ صرف قوم یہود میں۔ بلکہ غیر اقوام میں بھی یہ انتظار و اشتیاق(شوق) تھا۔ کہ کوئی عظیم الشان و رفیع المکان بادشاہ اس زمانہ میں ظاہر ہونے والا ہے۔ چنانچہ طاسیطس ۔ اور سیو ٹینیو س مورخان رومی اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں۔ کہ اُس زمانہ میں تمام دنیا میں ایک بادشاہ کی انتظاری تھی۔ جو ملک یہودیہ سے انتظامِ الہٰی کے مطابق نکلنے والا تھا۔
’’ پس جب وقت پورا ہوا۔ تب خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا ۔ جو عورت سے پیدا ہو کر شریعت کے تابع ہو ا۔ تاکہ وہ اُن کو جو شریعت کے تابع ہیں مول لے۔ اور ہم (مسیحی ) لے پالک ہونے کا درجہ پائیں ‘‘ گلتیوں ۴۔ ۴، ۵ ۔
پس ہم بھی جو مسیحی ہیں انجیلی نبی کے ساتھ اپنے مسیح بادشاہ کی ولادت باسعادت (خوش نصيبی)کی یادگار میں ایسے خوش ہوں ۔ جیسے درو کے وقت اور غنیمت کی تقسیم کے وقت لوگ خوش ہوتے ہیں۔ اور منت کے مولود مقدس سے چند بنداپنی تفریح طبع کے لئے دُہرائیں۔ عورت کی نسل عدن میں جس کو کہا گیا۔
موسیٰ نے جس کو ایک نبی کا لقب دیا۔
کہتا ہے بادشاہ جسے داؤ د بادشاہ ۔
کاہن کا بھی خطاب جسے پیشتر ملا مرد آشنا ئے رنج و الم جس کا نام ہے۔ قادر خدا کا نجات دہ خاص و عام ہے۔
پیدا ہو اوہ بیت لحم کی سرا میں آج ۔شادی کی دھوم کیوں نہ ہو ارض و سمان میں آج ۔
کیوں سانپ مبتلا نہ ہو بھا ری بلا میں آج ۔ہوتا ہے میل خلق اور اُس کے خدا میں آج۔
اب برگزیدے ہاتھ نہ شیطان کے آئیں گے۔ اپنے نجات بخش کے قدموں میں جائیں گے ۔