Father don’t Judge Anyone
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Apr 13, 1894
نور افشاں مطبوعہ۱۶مارچ۱۸۹۴ ء
’’باپ کسی شخص کی عدالت نہيں کرتا بلکہ اُس نے ساری عدالت بيٹے کو سونپ دی ہے تاکہ سب بيٹے کی عزت کريں جس طرح سے کہ باپ کی عزت کرتے ہيں‘‘(يوحنا ۵: ۲۲۔۲۳)۔
معلوم نہيں کہ الوہيت وابنيتِ (شانِ خُداوندی اور خُدا کا بيٹا)مسيح کے مُنکروں (انکار کرنے والے)نے انجيل يوحنا کی آيات مندرجہ بالاکے معنی ومطلب پر کبھی غور وفکر کيا ہے يا نہيں۔ جو لوگ مسیح کو ايک اولوالعزم (صاحبِ عزم)نبی سمجھتےہيں اور بس يا وہ جو اُس کی ابنيت (خُدا کا بيٹا)کے تو ايک معنی سے قائل ہيں اور اُس کو افضل الانبيا(نبيوں ميں برتر)اور شفيع المذنبين(گناہگاروں کی شفاعت کرنے والا)وغيرہ سب کچھ جانتے اور مانتے ہيں مگر اُس کی الوہيت کےقائل ومتعقد(بولنے واعتقاد رکھنے والا)نہيں اُن کے لئےآيات مذکورہ الصّدر کا مضمون بڑی حيرانی وپريشانی کا باعث ہوگا خواہ وہ اِن آيتوں کی کچھ ہی تفسيرو تاويل (بيان وتبديلی کرنا)کريں مگر جب تک کہ يہ عقدہ(مشکل بات) حل نہ ہو کہ محض اِنسان کيونکر تمام دُنيا کی عدالت کر سکتا ہے اور کيوں خُدا کے برابر سبھوں سے عزت طلب کرتا ہے ؟کوئی تفسيروتاويل طا لبِ حق (سچائی کا طالب)کے دل ميں ہرگز تسکين وتشفی(تسلی واطمينان) پيدا نہيں کر سکے گی دُنيا کی عدالت کرنا ايک الہیٰ منصب (خُدائی اختيار)ہے جس کے لئے عالم الغيب (غيب کا علم جاننے والا)اور عارف القلوب (دل کی بات جاننے والا)ہونا نہايت ضروری ہے کيونکہ انسانوں کے دلوّں اور گُردوں کا جانچنے والا اور اُن کے پوشيدہ عملوں سے واقف وعليم(علم رکھنے والا) صرف خُدا ہے جيسا کہ وہ فرماتا ہے ’’کہ ميں خُداوند دل کو جانتا ہوں .اور گردوں کو آزماتا ۔تا کہ ميں ہر ايک آدمی کو اُس کی چال کے موافق۔اور اُس کے کاموں کے پھل کے مطابق بدلہ دوں‘‘(يرمياہ ۱۷: ۱۰)۔
پس اس صورت ميں کيونکر ممکن ہے۔کہ کوئی اِنسان محض دُنيا کی عدالت کر سکے۔اور ہر ايک فردِ بشر کو اُس کے اعمال کے مطابق جزاوسزا کے لائق ٹھہراے؟اگر يہ کہا جائے کہ خُدا تعالیٰ اپنی طرٖف سے کسی کو اگر چاہے تو ايسی عدالت کرنے کا منصب و اختيار بخش سکتا ہے۔ليکن پھر بھی عقل سليم (پوری عقل)يہ ہرگز قبول نہيں کر سکتی۔کہ وہ اپنی صفت عالم الغيبی و عارف القلوبی جو انسانوں کی آخری عدالت کے لئے امر لازمی ہےکسی مخلوق کو عطا کر سکتا ہے۔مسیح خُداوند اسی لئے دُنيا کا عادل و منصف ہو گا کہ وہ گاڈمين (خُدا انسان)ہو کر انسانی ماہيت کا تجربہ اور واقفيت رکھنا۔اور عارف القلوب و ہمہ دان(ہر فن مولا)ہے۔چنانچہ لکھا ہے ۔کہ’’وہ سب کو جانتا تھا اور محتاج نہ تھا۔کہ کوئی انسان کے حق ميں گواہی دے۔کيونکہ وہ آپ جو کچھ انسان ميں تھا جانتا تھا‘‘(يوحنا ۲: ۲۵)۔
پھر اُس نے خود بھی فرمايا ہے۔کہ ’’ميں وہی ہوں جو دلوں اور گُردوں کا جانچنے والا ہوں۔اور ميں تم ميں سے ہر ايک کو اُس کے کاموں کے موافق بدلا دوں گا‘‘(مکاشفہ ۲: ۲۳)۔