اسلامی کہہ مکرنیاں

Eastern View of Jerusalem

False Stories of Islam

 

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Sept 17, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۱۷ستمبر ۱۸۹۱ ء

جنرل پنچ ضمیمہ(وہ شے جو کسی اور شے پر بڑھا کرلگائیں ،تکملہ،اخبار کی معمول سے الگ اشاعت) گوہر آصفی کلکتہ مطبوعہ ۳۱ ۔اگست میں کسی خادم قوم ن۔ن کا ایک مسدس(نظم کی وہ قسم جس کے ہر بند میں چھ مصرعے ہوں ) شائع ہواہے ۔ جس میں بانیِ اسلام اوردینِ اسلام کی ازحد تعریف بیان کرکے مسلمانوں کی موجودہ تنز لی (گراوٹ)وادبار (مفلسی،بدنصیبی،پیٹھ دکھانا)پر گویا مرثیہ (وہ نظم جس میں مردے کے اوصاف بیان کئے گئے ہوں)لکھا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ مصنفِ مسد س کا طرز ِکلام بہت عمدہ اور بلحاظ ایشائی شعر گوئی فصیح وبلیغ(شیریں کلام ) اور بہت شستہ(صاف کیا ہوا) ہے ۔لیکن ابتدائی بندوں میں جو مُصنف نے محمد صاحب کی تعریف وتوصیف(خوبی بیان کرنا) لکھی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ فنافی الرسول والوں کے زمرہ میں سے ہیں ۔ اگرچہ گوہر آصفی کے لائق ایڈیٹر نے اُن کے کلام کی تعریف میں لکھ دیا ہے کہ ’’تمہارے راقلم چومنے کو جی چاہتا ہے ‘‘ مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ ’’یار ثنا کرتے وقت جوش میں آکر حد سے کسی قدر آگے بڑھ گئے ۔اور آیہ کریمہ (ومااناالابشر مثلکم یوحی لیّ ۔الخ)کوملحوظ خاطر نہ رکھا‘‘۔اب مصنف مسدس کا محمد صاحب کی ثنا میں دوسرے بند میں یہ لکھنا کہ ’’وہ گویا بشریت میں خدا جلوہ نما تھا ‘‘۔ایڈیٹر گوہر آصفی کے نزدیک ’’کسی قدر ‘‘حد سے آگے بڑھنا ہے ۔نہ یہ کہ وہ بالکل خلاف ِقرآن واحادیث صحیحہ۔بلکہ کفر ہے ۔

کوئی اشارہ یاکنا یہ محمد صاحب یاعلی کی نسبت نہیں پایا جاتا

اہل ِاسلام میں محمد صاحب اورحضرت علی کی نسبت بہت سے اقوال اس وقسم کے مشہور میں جن سے صاف معلو م ہوتا ہے کہ اُن کے مداحوں (تعریف کرنے والے) کامطلب و مقصد دلی یہی  ہے کہ ممدو حین(ممدوح کی جمع،وہ لوگ جن کی تعریف کی جائے) درجہ الوہت ضروررکھتے تھے ۔اگر قرآن میں ذرا سااشارہ بھی اپنے کلام کی تائید میں پاتے تو معلوم نہیں کیا کچھ کہتے ۔ اب تو صرف کہہ مُکریا ں(ایک قسم کی ہندی چومصرعی پہیلی جن کے اول تین مصرعوں میں جو بیان ہوتا وہ آخری مصرع کے مضمون کو کسی اور طرف منسوب کرکے سب کو اُلٹ دیتا ہے ۔اسے کہہ مکرنی بھی کہتے ہیں) کہہ کے ا پنے دلوں کو خوش کرلیتے ہیں ۔ اور نہیں جانتے کہ ایسے غلط خیالات عام پھیلانے اورحد سے بڑھ کر اپنے نبی وعلی کی تعریف کرنے کا انجام کیاہوگا ۔ البتہ اگر مذہبی کتاب جس کو منجانب اللہ تسلیم کئے ہوئے ہیں۔ اُن کے ممدوحو ں کی الوہیت کی تعلیم صر یحاً یاکنا یتاً(صاف یا اشارۃً) دیتی ۔تو  پھر وہ ایسا ظاہر وبیان کرنےمیں کسی قدر معذور سمجھتے جاتے۔ لیکن درحالیکہ قرآن میں ہرگز ایسا کوئی اشارہ یاکنا یہ محمد صاحب یاعلی کی نسبت نہیں پایا جاتا۔ توبھی اس قسم کی باتیں اُ ن حق میں اپنے دل سے گھڑ کر اپنا فخر سمجھتے ہیں اور مسیحیوں  پر لعن طعن کرتے ہیں ۔ بادجود یہ کہ اُن کی کتبِ مقدسہ مسیح کی الوہیت پر بصراحت(صاف طور پر) شہادت دے رہی ہیں۔ مسیحی اپنے نجات دہند ہ کہ الوہیت کے ظاہر کرنے کو کہہ مُکر ی ہرگز کام میں نہیں لاتے  ۔بلکہ صاف صاف کہتے ہیں کہ ’’ابتدا میں کلام میں تھا اور کلام خد  اساتھ اور کلا م خدا تھا ۔اور کلام خدا تھا۔کلام مجسم ہوا ۔اور فضل اور راستی سے بھر پور ہوکے ہم میں سکونت کرتارہا ۔ اور ہم نے اُس کاجلا ل دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے جلال ‘‘۔’’الوہت کاسارا کمال اُ س میں  مجسم ہورہا ہے‘‘۔ ’’وہ ان دیکھے خدا کی صورت اور ساری خلقت کا پہلوٹھا ہے۔کیونکہ اُسی سے سب کچھ پید ا ہواجو آسمان اورزمین پرہے۔ دیکھا اور اندیکھا کیا مسند یں  ۔کیا خاوندیاں کیا سرادریاں ۔کیا مختاریاں ۔ساری چیزیں اُس سے اور اس کے لیے پیداہوئیں ۔ اور سب سے آگے ہے ۔اورسب کچھ اُس میں بحال رہتا ہے ۔ اور بدن یعنی کلیسیاکاسر ہے ۔ وہی شروع اورمردوں میں سے  پہلوٹھا ہے۔ تاکہ سب میں اوّل ہو‘‘ ۔ اب اگر خادم قوم ن۔ن اپنےکلام کی سند میں کوئی قرآنی آیت جیسا کہ انجیل میں مسیح کی نسبت صاف وصریح آیات بکثرت موجود ہیں کہ وہ ’’بشریت میں خد ا جلوہ نما ‘‘ تھا۔ محمد صاحب کے لیے پیش کریں تو ان کا تعریف وثنا کرنا درست ٹھہرے گا۔ ورنہ اس وقت میں شاعر انہ کہہ مُکریاں سےکچھ کام نہیں  نکل سکتا ۔ کیونکہ مباحثہ اعلی ٰ درجہ تک پہنچ گیا ہے۔

جس طرح سُنیوں میں فنافی الرسول والے صوفیہ غلبہ عشق احمد میں بلامیمؔ احد کے نعرے مارتے ہیں ۔اسی طرح شیعوں میں فنافی الوصی والے  اخبار یہ علی کو  ہم نام خدا کہہ کے علی الا علی پکارتے ہیں ۔ گزشتہ اشاعت میں ہم  نے ایک نئی روشنی کے محمد ی شاعر کے مسد س سے ناطرین کو ایک کہہ مُکرنی سنائی  ۔ جس میں  محمدصاحب کا ’’بشریت میں خد ا کا جلوہ نما ‘‘ہونا اور اہل ِصفا کا اُن کو خدانہ کہہ سکتا ۔تاہم غیر خدا نے نہ سمجھا ظاہر کیاگیا تھا ۔اب ہم شعیوں کےملہم(وہ شخص جس کے دل میں غیب سے کوئی بات پڑے) شاعر دبیؔر صاحب آنجہانی(عالی قدر) لکھنئو ی کے چند بندجو اُنہوں نے علی کی تعریف میں لکھے سناتے ہیں ۔

ا ب دیکھئے جو کام علی سے منسوب کئے گئے ہیں وہ سب خدا کے کام ہیں ۔ اور شیعہ لوگ اس قسم کی تعریف  علی کی سن کر بڑے خوش ہوتے ۔ مگر ذرا  نہیں سوچتے کہ اس طرح کی مبالغہ آمیز باتیں تعریف نہیں بلکہ کفر میں داخل ہیں ۔ باجود اس کے مسیحیوں پرجو اپنے اعتقادات جنابِ مسیح کی نسبت کتب ِمقدسہ سے ثابت کرتے ہیں زبا ن طعن دراز(بُرابھلا کہنا) کرتے ہیں کہ’’یہ لوگ کافر ہیں کیونکہ مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ‘‘۔

Leave a Comment