Essa is called the son of God
By
G.H.Daniel
جی۔ایچ۔ ڈینئیل
Published in Nur-i-Afshan Sep 13,1895
نور افشاں مطبوعہ ۱۳ستمبر ۱۸۹۵ ء
یہ سچ ہے کہ عیسائی خداوند عیسٰی مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے اور اس کہنے پر محمدی بہت تکرار (بحث)کرتے اور لڑتے ہیں ۔ کہ جو کہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے سو کافر ہے ۔ بلکہ اگر ان کو کچھ قدرت (اختيار) ہو تی جان سے بھی مارڈالنے پر آمادہ (راضی)ہیں جیسے کہ خود محمد صاحب اور ان کے خلیفوں (خليفہ کی جمع) کے زمانے میں ہوا ۔ پر جو شخص جس کتا ب کو الہامی اور خدا کی جانتا اُسے مناسب ہے کہ اس کتاب کے موافق کہے چنانچہ محمد ی قرآن کے مطابق دین کی بابت کلام کرتے ہیں اور جو کوئی اس کے موافق نہیں کہتا تو وہ سچا محمدی نہيں ہے۔مگر ہم سب انجيل ِ مقدس پر ايمان لائے ہيں کہ وہ اللہ کا کلام ہے ۔اس لئے جيسا اُس ميں پاتے ہيں ويسی ہی گواہی ديتے ہيں ۔ کتاب کی بابت ہر ايک کو تحقيق اور دريافت کرنا واجب (ضروری)ہے ۔ کہ وہ کتاب خدا کا کلام ہے کہ نہیں ۔ اگر دلیلوں سے ثابت ہو کہ وہ خدائی کتاب ہے تو یہ درست ہے۔ کہ جو بات اس میں پائے اُس پر یقین لائے ۔ اور اس کے موافق کہے ۔ پس انجیل شریف کے حق میں ۔ جو ہم نے دریافت اور تحقیق کیا یقین جانتے ہیں کہ وہ بےشک آسمانی کتاب اور خدا کا کلام ہے۔ اور اس میں صاف لکھا ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا کہلاتا ہے کیونکر فرشتے نے اس کی والدہ بی بی مریم صاحبہ سے کہا کہ وہ بزرگ ہو گا۔ اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا ۔ اور پھر کہا کہ وہ پاک لڑکا جو تجھ سے پیدا ہو گا۔ خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ دیکھو لوقا کی انجیل ۱: ۳۲، ۳۵ اور خدا نے خود اُسے بیٹا کہا چنانچہ متی کے ۲: ۱۶، ۱۷ ۔ اور دیکھو آسمان سے ایک آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ۔ دوسرے مقام پر کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے اس کی سنو ۔ لوقا ۹: ۳۵ ۔ اور ۲ پطرس ۱: ۱۶، ۱۷ یسوع نے بھی خدا کو اکثر اپنا باپ کہا ہے ۔ سردار کاہن نے اس سے پوچھا کیا تو مسیح اس مبارک کابیٹا ہے اس نے جواب دیا ( میں وہی ہوں ) مرقس ۱۴ : ۶۱، ۶۲ پس ظاہر ہے کہ انجیل میں ابتدا سے انتہا تک مسیح کو خدا کا بیٹا لکھا ہے۔ پھر ہم کون ہیں جو کہیں کہ یہ غلط ہے کیا انجیل کے لکھنے والوں اور خدا سے جس نے اس کی معرفت اپنی مرضی ظاہر کی ۔ اس راز سے ہم زیادہ واقف ہیں اب ہم دریافت کریں کہ سید صاحب کا دوسرا دعویٰ کہاں تک سچ ٹھہر سکتا ہے یا نہیں۔ اس دعویٰ کی تردیدميں ہم قرآن ہی سے دلیلیں پیش کرتے ہیں قرآن سے صاف ظاہر ہے کہ محمد صاحب کے وقت توریت اور انجیل کے صحیح نسخے موجود تھے۔ یہ بات ذیل کی دلیل سے ثابت ہوتی ہے۔
۱۔ محمد صاحب کے دنوں میں یہودی توریت صحیح کو سنا کرتے تھے چنانچہ سورہ بقر رکوع ۹ میں لکھا ہے کہ یعنی اب کیا تم مسلمان توقع رکھتے ہو کہ وہ مانے تمہاری بات کہ الخ پھر سورہ بقر رکوع ۱۴ میں یہ مرقوم (رقم کرنا ۔لکھنا)ہے یعنی یہود نے کہا نہیں نصارا کچھ راہ پر اور کہا نصار انے نہیں یہود کچھ راہ پر اور وہ سب پڑھتے ہیں کتاب وغیرہ ان آیتوں سے ظاہر ہے کہ وہ کتاب جو قرآن میں کلام ِخدا کہلاتی ہے پڑھی اور سُنی جاتی تھی ۔ اگر کوئی کوئی کہے کہ محمد صاحب کے بعد یہ نوشتے بگڑ گئے۔
تو محمدی لو گ خود اس بات کے ذمہ دار ہوں گے ۔ کیونکہ صحیح نسخے کثرت سے ان کے ہاتھ میں آگئے تھے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ کیونکہ ۔
۱۔ بائبل کے نسخے اس وقت موجود ہیں جو محمد صاحب کے مدت پیشتر لکھے گئے۔ مثلاً کوڈکس سے نائیٹکس تیسر ی صدی کا اور کوڈکس چراچوتھی صدی کا موجود ہیں وغیرہ ۔
۲۔ بائبل کے ترجمے بھی موجود ہیں جو محمد صاحب سے پیشتر رائج تھے۔ جیسا کہ پشتو سریانی زبان کا جو پہلی صدی عیسوی میں کیا گیا موجود ہے۔ وغیرہ پھر۔
۳۔ بائبل کا اقتباس کی ہوئی آیتیں کثرت کے ساتھ قدیم تصنیفات میں پائی جاتی ہیں ۔ پس ان کتابوں کے وسیلے سے یہ بات اچھی طرح سے ثابت ہو سکتی ہے کہ حال کے نسخے انجیل شریف کے قدیم نسخوں کے ساتھ ملتے ہیں اور کہ وہ تحریف شدہ(تبديل شدہ) نہیں ہیں۔ اس بات کے بارہ میں ہم کو یاد کرنا چاہیے کہ کلام کی ہر قسم کی عبارت منسوخ نہیں ہو سکتی مثلاً وہ آیتیں جو خدا کی پاک ذات و صفات کو بیان کرتی ہیں یا وہ جو تواریخی وارداتوں کی خبر دیتی ہیں یا وہ جو پیشن گوئیوں کاذکر کرتی ہیں وہ جو انسان کی بد حالت اور اس سے نجات پانے کی تجویز کو پیش کرتی ہیں یہ سب آیتیں منسوخ ہونے والی نہیں ہیں۔ اور بائبل کی اکثر عبارت اس ہی قسم کی ہے ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ بائبل کے نوشتے صحیح ہیں۔ اور کہ وہ محمد یوں کے خیال کے موافق منسوخ نہ ہوئے۔ ہاں ہم اتنا مانتے ہیں کہ قرآن میں صدہا آیتیں ناسخ(منسوخ کرنے والا ) منسوخ کی پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ وہ انسانی کلام ہے۔