Don’t Say if in Prayer
By
One Disciple
Published in Nur-i-Afshan July 6,1894
نور افشاں مطبوعہ۶جولائی ۱۸۹۴ ء
کو کب ہند ایک بڑے بے دین خاندان کا ذکر کرتا ہے۔ اس خاندان میں ایک لڑکی تھی۔ وہ ایک پادری صاحب کی میم صاحب کے پاس نوکری کرنے کو گئی ۔ وہاں پر انجیل کی تعلیم پا کے اس نے نئی پیدائش حاصل کی۔ اور بڑی دیندار ہو گئی۔ وہ پر یر مٹینگ ( مجلس دُعا) میں جایا کرتی تھی۔ جہاں پُرانے پُرانے عیسائیوں کی دُعائیں سنیں۔ جو بڑی سر گرمی کے ساتھ خُدا کی روح کی بخشش مانگتے تھے۔ اور کہتے تھے۔ ’’ اگر تیری مرضی ہو تو یہ برکتیں عنایت کر ‘‘ اور جیسا کہ چاہیے اُنہیں رُوح کا بپتسمہ نہیں ملتا تھا۔ ایک روز یہ لڑکی پادری صاحب کے دفتر میں گئی ۔ اور اس کے چہرہ پر گھبراہٹ معلوم ہوتی تھی۔ پادری صاحب نے پوچھا ۔ کہ ’’ تم کیوں اُداس معلوم ہوتی ہو ؟ اس نے جواب دیا۔ کہ ’’ پر یر مٹینگ میں لوگ خُدا کی رُوح مانگتے ہیں۔ کہ اگر تیری مرضی ہو تو یہ برکت ہمیں دے ۔
بائبل میں ان برکتوں کا وعدہ صاف صاف کیا گیا ہے۔ اور میری سمجھ میں صاف ظاہر ہے کہ دینا اس کی مرضی ہے۔ اور دُعا میں اگر لگانا اس کی بے عزتی ہے۔ اور لوگوں کا اس سے نقصان ہوتا ہے۔ صاحب نے کچھ دلیلیں پیش کیں ۔ جن سے ثابت ہوا کہ اس طرح دُعا مانگنا لائق اور مناسب ہے۔ لڑکی ان دلیلوں کا کچھ جواب نہ دے سکی۔ پر اس کے دل کو کچھ بھی تسلی نہ ہوئی ۔ اور روتی ہو ئی چلی گئی۔ جب پادری صاحب نے اس کے رنج (دُکھ)کو دیکھا۔ ان کے دل میں بھی کچھ گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ اور وہ اس معاملہ پر زیادہ غور کر کے خُدا کی ہدایت کے لئے دُعا کرنے لگے نئی روشنی ان کے دل میں آئی تو معلوم کیا۔ کہ لڑکی کی رائے درست ہے۔ انہوں نے گرجا میں جا کر اس بات کا کل بیان کیا۔ لوگوں نے اگر کو چھوڑا ۔ اور ایمان کے ساتھ دُعا کی۔ نیتجہ یہ ہوا۔ کہ خُدا کی روح نازل ہوئی۔ اور خُدا کا بڑا کام اس جگہ میں پھیل گیا اگر شک کی دلیل(گواہی) ہے۔ اور شک سے دُعا کی تاثیر بگڑ جاتی ہے۔
پس خُدا کے سب بندے جب رُوح اور اس کی سب نعمتیں مانگتے ہیں ۔ اگر کو اپنی دُعا میں جگہ نہ دیں ۔ ایمان سے مانگیں ۔ اور لیں۔