Don’t Let Your Hearts Be Troubled
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Feb 16, 1894
نور افشاں مطبوعہ۱۶فروری ۱۸۹۴ ء
’’تمہارا دل نہ گبھرائے ـتم خُدا پر ايمان لاتے ہو مجھ پر بھی ايمان لاؤ ‘‘(یوحنا ۱۴: ۱)۔
خُداوند مسیح نے يہ تسلّی بخش باتيں عيدِفسح کے موقع پر شام کا کھانا کھانے کے بعد اپنے شاگردوں سے کہيں کيونکہ وہ اِس پيش خبری کو سُن کر کہ ’’ايک تم ميں سے مجھے پکڑوائے گا ‘‘اور يہ کہ ’’ميں تھوڑی دير تک تمہارے ساتھ ہوں تم مجھے ڈھونڈھوگے اور جہاں ميں جاتا ہوں تم نہيں آسکتے‘‘
نہايت مضطرب وحيران (بے چين وپريشان )تھے اِس لئے خُداوند نے انہيں تسلی دےکر فرمايا’’تم خُدا پر ايمان لاتے ہو مجھ پر بھی ايمان لاؤ ‘‘
خُدا پر اور اُس کے بیٹے ہمارے خُداوند يسوع مسیح پر ايمان لانا بے شک موجب تسلی واطمينان کامل ہے ـاور دلی اضطراب اور گبھراہٹ کے دفعيہ (دفع کرنا )کا يہی ايک مجّرب علاج (آزمايا ہوا علاج)ہے صرف خُدا پر ايمان لانا اور اُس کے بیٹے خُداوند يسوع مسیح کا انکار کرنا ہرگز کامل اور نجات بخش ايمان نہيں ہوسکتا ۔
خُداوند مسیح کے شاگردجو يہوديوں ميں سے تھے کتب ِعہدِعتيق کے مطابق خُدا پر ايمان رکھتے تھے وہ اُس سے ناواقف نہ تھے اور غير اقوام کے لوگوں کی مانند اُنہيں قائل خُدا کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔ پر صرف يہی ضرورت تھی کہ وہ جيسا خُدا پر ايمان رکھتے ہيں ويسا ہی خُداوند مسیح پر بھی ايمان رکھيں۔
يہ باتيں نہايت غور طلب ہيں ـاگر مسیح خُدا نہ ہوتا ـاور محض انسان ہی ہوتا ۔تو ايسا کہنا ہرگز جائز نہ ہوتا کيونکہ کسی محض انسان کا لوگوں سے اپنے اوپر ايسا ايمان لانا طلب کرنا۔ جيسا وہ خُدا پر ايمان لاتے ہيں داخل کفر ہے۔ يوحنّا رُسول نے اِسی بارے ميں يوں لکھا ہے ’’کون جھوٹا ہے ؟مگر وہ جو انکار کرتا ہے کہ يسوع وہ مسیح نہيں ـجو باپ اور بیٹے کا انکار کرتا ہے وہی مخالفِ مسیح ہے ـجو کوئی بیٹے کا انکار کرتا ہے سو باپ سے بھی اُس کو واسطہ نہيں ہے ـپر وہ جو بیٹےکا اقرار کرتا ہے وہ باپ سے بھی واسطہ رکھتا ہے ‘‘(۱۔ يوحنا ۲ :۲۲ ،۲۳)۔
بعض آدمی جو انجيلی بشارت بخوبی سُن چکےہيں ـاور اپنی گناہ آلودہ حالت اورنجات حاصل کرنے کی ضرورت سے بھی کسی قدر واقف ہو گئےہيں مگر کھُلا کھُلی مسيحی مذہب کو قبول کرکےبپتسمہ لينے اور مسیح کے مبارک نام کا علانيہ اقرار کرنے کی ہمت وجرأت نہيں رکھتے ـکيونکہ ايسا کرنے کے لئے اُنہيں ذات برادری اور خانگی(ذاتی) تعلقات وغيرہ کے خيالات روکتے ہيں اپنے دلوّں کو يوں تسلی ديئے ہوئے ہيں کہ اگر ہم خُدا پر علانيہ ايمان رکھيں اور مسیح کو اگر وہ بھی خُدا ہے ـاپنے دل ميں سچّا نجات دہندہ جان کر مخفی (چُھپا ہوا-) ايمان رکھيں تو يہی بس ہے ہم ضرور نجات پائيں گے ـ
چنانچہ راجپوتانہ کے ايک مُعلّم مشن سکول نے جو محمدی فرقہ غير مقلّد(پيروی نہ کرنے والا)سے تھا اور بائبل سے بھی واقف تھا ـايک روز اثنائےِ گفتگو (بات چيت کے دوران )ميں بيان کہ’’ميں مسیح کو کُل انبيا سے اعلیٰ تر اور افضل سمجھتا ہوں مگر اُس کی الوہيت ميں کچھ شک ہے ـاور اگر وہ فی الحقيقت خُدا بھی ہے تو خير ميں خُدا پر ايمان رکھتا ہوں اور يہی کافی ہے ـ
مسیح کے شاگرد بھی ايسا کہہ سکتے تھے ليکن اُنہوں نے مسیح کے جواب ميں ايسا کہنے کا خيال نہ کيا ـاور جيسا وہ خُدا پر ايمان لائے ـويسا ہی خُدا کے بيٹے يسوع مسيح پر ايمان لائے ـاور حقيقی تسلی واطمينان اُس کامل ايمان کے ذريعہ اُنہيں حاصل ہوا‘‘ ۔