کیا سائنس و علوم جدیدہ کی ترقی مسیحیت کو کچھ صدمہ پہنچا سکتی ہے؟

Eastern View of Jerusalem

Does the Development of Science and modern science can harm Christianity

By

One Disciple

Published in Nur-i-Afshan June 15,1894

نور افشاں مطبوعہ۱۵جنوری ۱۸۹۴ ء

یہ سوال فی زمانہ نہایت  غور طلب   ہے۔ ہمارے  لوکل ہمعصر  سیول  اینڈ  ملٹری   نیوز  کے خیال میں تو سائنس   اور علوم  ِ جدیدہ   کی ترقی   مسیحیت   کو نہ صرف صدمہ    پہنچا سکتی  ہے۔  ’’ بلکہ   بڑا   صدمہ  پہنچایا  ہے  وہ لکھتا ہے۔  کہ ’’ فرانس   اور امریکہ   میں فیصدی  ۹۰ آدمی ایسے   ملیں گے۔  جو تثلیث  کے معتقد (اعتقاد رکھنے والے)نہیں  ہیں۔ اور بائبل  کو الہامی کتاب  نہیں مانتے۔  اور اپنے خیال  کے ثبوت  میں لکھتا  ہے۔ کہ ’’ انگلستان    میں بھی جہاں متمول(دولت مند)  اور خوش  اعتقاد  عیسائی  اشاعت  مذہب  کے لئے فیاضی (سخاوت)کا نمونہ  دکھاتے تھے۔  اب روز   بروز  ایسے شخصوں   کی تعداد  کم ہو رہی ہے۔

 چنانچہ   اکثر  مشنری   سو سائٹیاں  مالی مشکلات   میں مبتلا  ہوتی جاتی ہے۔  سال  گذشتہ   میں چرچ   آف  انگلينڈ   مشن  کے فنڈ  میں سال  ماسابق  سے ۱۵ ہزار پونڈ کم  آمدنی ہوئی۔  لنڈن  مشنری  سوسائٹی کے  خزانہ   میں ۳۳ ہزار پونڈ۔ اور  وسلئین  مشنری   سوسائٹی  کے فنڈ   میں ۶۰ ہزار   پونڈ۔  بیپٹسٹ  مشنری سوسائٹی  کی آمدنی  میں  ۱۴ ہزار  پونڈ کا گھاٹا  تھا۔ اس مالی مشکلات   نے نہ صرف   اسی قدر  مسیحی مذہب  کو صدمہ پہنچایا ہے۔ بلکہ  ہمعصر   موصوف   اس امید   میں مسرور   (مگن)معلوم ہوتا ہے۔  کہ  زر(دولت۔ پيسہ)  کی  کمی   جو بوجہ   ترقی   سائنس   یورپ  و امریکہ  میں بے اعتقادی  پیدا ہونے سے واقع  ہو گی۔  وہ مسیحیت   کو صفحہ   دُنیا سے  نیست  و  نابود(تباہ)  کر ے  گی۔  غالباً   اس نے مسیحی  کلیسیاء  کی تواریخ   کو نہیں  پڑھا۔ ورنہ   اس کو معلوم ہوتا ۔   کہ مسیحیت   چنداں  محتاج  زر(دولت کی ضرورت)  نہیں ہے۔ اور وہ  اس  کے قدموں  سےلگا ہوا ہے۔ وہ غریب   و بے زر  لوگوں سے دُنیا   میں پھیلی   اور بڑھی  ۔ اور اس کے واعظین  اولین   مفلس  (غريب)و نادار  لوگوں  میں سے تھے۔   لکھا ہے  کہ پطرس  نے ایک  مادرز اد(پیدائشی) لنگڑے  کو جو  کچھ  پانے کی اُمید  میں تھا۔  چنگا کرنے سے پہلے یہ  کہا۔  روپيہ اور سونا میرے پاس نہیں۔ پر جو میرے پاس  ہے تجھے    دیتا ہوں۔ یسوع مسیح ناصری  کے نام  سے اُٹھ اور چل۔  مسیحیت  روپیہ  کی نہیں  بلکہ روپیہ  مسیحیت   کا ہے۔’’  چاندی  میری ہے، اور سونا  میرا ہے، رب الافواج  فرماتا ہے‘‘۔  حجی  ۲۔ ۸۔

 ہمارا  ہمعصر   بعض   مشنری  سوسائٹیوں  کی کم آمدنی  سے متفکر(فکر مند) نہ ہو۔   کیونکہ اکثر  ایسا ہو  ا ہے۔  اور ہوتا  رہے گا۔  کہ ایک کی کمی  کو دوسرے   کی مسیحی  سخاوت(فياضی،بخشش)   پورا کر دیتی ہے۔  مسیحی   کلیسیاء    اپنے قیام  و ترقی  کے لئے کسی  دنیوی   فانی   شے کی دستِ نگر (محتاج) نہیں ہے۔  اور اپنا   کامل بھروسا   اپنے آسمانی باپ  کےوعدوں   پر رکھتی   ہے۔ جو اس کی  اقبالمندی(خوش نصيبی)   اور غلبہ(برتری)   کی نسبت   کئے گئےہیں۔

دیوی دیوتا کو اپنی نجات کا وسیلہ سمجھا ہے۔

اے بیٹی سن۔غور کر  اور کان لگا۔ اپنی قوم اور اپنے باپ کے گھر کو بھول جا۔ اور بادشاہ  تیرے  حُسن   مشتاق  ہوگا۔کيونکہ وہ تیرا  خُدا وند ہےتو اسے سجدہ کر۔ اور صُورکی بیٹی   ہدیہ لے کر حاضر ہو  گی۔ قوم  کے دولت   مند تیری رضا جوئی  کریں   گے ۔  زبور  ۴۵۔ ۱۰، ۱۱، ۱۲۔

پھر  سائنس  اور علوم   جدید  ہ کی ترقی و اشاعت   سے بھی مسیحیت   کو کچھ صدمہ   پہنچنے  کا  اندیشہ   مطلق(بالکل ڈر )  نہیں ہے۔  بلکہ   وہ انہیں  اپنے فرمانبردار   خادم    قبول  کر کے بہ شکر گزاری ان کی خدمات   سے فائدہ   حاصل  کرے گی۔   جیسا کہ  زمانۂ   حال  کے ایک مستند  و نامور  (مانا ہوا مشہور)عالم الگزینڈر مئرڈی۔ ڈی نے لکھا ہے۔  کہ  ’’ مسیحیت   نے علم  ِطبیعی   کی صحتوں  کو خود  اپنے۔ اور اپنی  خدمت   کے لئےمنسوب   کرنے۔اور نئی   اور اصلی    تحقیقات   کے ساتھ  اپنے   علاقہ   کو ٹھیک  کرنے  میں کبھی کوئی شکل  در پیش   نہیں پائی۔  اور   یہ  اس صاف  وجہ   سے ہوا کہ وہ حق باتیں  تھیں۔ بہت   سے عیسائی  ٹولمک کے پُرانے   نظام   شمسی   کی شکست   پر۔ جس کے مطابق   زمین  عالم کا مرکز   قرار دی  گئی تھی۔  خوف   زدہ ہوئے ۔ اس   حقیقت  کا بیان  کرنا ضرور  نہیں کہ  کو پرنیکس ۔ جس نے اس سچی سائنٹیفک  رائے کو سوچا۔   خود ایک  مذہبی  ۔ اور نہایت   فروتن    ایماندار   شخص  تھا۔   اور ہم بدلجمعی  کہہ سکتے  ہیں۔ کہ اندنوں   میں کوئی ہوشیار   عیسائی  کو پرنیکن  رائے کو قبول  کرنے میں کوئی مشکل  نہیں پاتا ہے۔ جب کہ  علمِ ترکیب  زمین کے عالموں  نے زمین   کی قدامت   معہ  اس  کی کثیر   نباتی اور حیوانی  قسموں  کے ثابت   کرنی شروع کی۔   تو بہت خوف  اور بدعت کی پکار  بے  لحاظی  سے ہوئی تھی۔  لیکن اب  کوئی صحیح  المزاج  عیسائی زمین کی قدامت کی حقیقت   کو قبول  کرنے۔  اور اس بات  کو ظاہر   کرنے کےلئے علم  کا شکر   گزار   ہونے میں کوئی  عظیم  مشکل   نہیں پاتا ہے۔   اور ایسا   ہی برتاؤ  سائنس    کے صحیح   اظہارات   کے ساتھ   جہاں  وہ روایتی   علم الہٰی  کی رایوں  کے ساتھ  ٹکر کھائیں گے۔  آئندہ   زمانے  میں ہو گا۔  خواہ  وہ ابتداء   میں کیسے   ہی اضطراب(بے چینی)  کا باعث  ہوں۔ مسیحی   دین جلد   اپنےآپ  کو ان کے ساتھ  ٹھیک   بنانے  کے قابل ہو گا۔   اور عیسائیوں  کو اصلی   سچائی   ظاہر  کرنے   کے لئے ۔ اور  خدا کی پیدا  کرنے والی  دانائی   کا کامل  تر اور صاف  اظہار  بخشنے   کےلئے علم   ِطبعی   کے شکر  گزار  ہونے کا معقول  سبب ہو گا۔

بنظر  اس  سب   کے جو بیان  کیا گیا ہے۔ فکر   مند  دل  کو یہ صاف  ظاہر  ہو گا کہ۔ کوئی ضرورت  اس حرارت   مائل اندھے۔  اور نامناسب  خوف  کی نہیں ہے۔ جو اکثر  عیسائیوں   پر سائنس   کی وجہ  سے قابض  ہوتا۔ اور انہیں  مضطرب  کرتا ہے۔علمِ  طبعی نہ  تو اس سچے   مذہب   کا دشمن  ہے اور نہ حقیقت   میں ہو سکتا ہے۔ زیادہ   تر بنسبت  اس کے کہ۔ علم   ِترکیب زمین   علم ِریاضی  و ہندسہ   کا دشمن   ہو سکے۔  یا نظام   شمسی  مینٹل فلاسفی یا ملکی   کفایت  شعاری   کا دشمن   ہو سکے۔  سچا علم  طبعی  کبھی سچے مذہب  کو نقصان   پہنچا  سکتا ہے۔ اور ایسے   خیال   سے اس کے برخلاف   ایک اندھا  دُھند   خوف  اور دشمنی   رکھنا ناواجب   ہے۔ ایسا  کرنا   مسیحی   دین میں اعتقاد  پر نہیں۔   لیکن اس  میں  اعتقاد  کی کمی پر ۔ ہاں  سچائی   اور سچائی   کے خدا میں اعتقاد   کی ایک کمی   پر دلالت(بحث)   کرتا ہے۔ المختصر  سائنس  کا اندھا   دُھند   خوف   صرف   خدا سے بے اعتقاد   ہوتا۔  اور بے ایمانی  کی ایک صورت ہے۔

Leave a Comment