Deny Yourself
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-e-Afshan 11 jan,1994
نور افشاں مطبوعہ ۱۱جنوری ۱۸۹۴ء
بالا تفاقی موسیٰ کی کتاب توریت سے قدیم تر کوئی کتاب دنیا میں پائی نہیں جاتی لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ایوب کی کتاب اس سے بھی زیادہ قدیم ہے ایک نہایت مشہور منجم ڈاکڑ ہلیز صاحب نے ایوب ۹:۹ پھر ۳۸ باب ۳۲،۳۱ کے مطابق حساب کر کے بتایا کہ ایوب کی کتاقبل از مسیح ۲۱۳۰ ابراہام سے ۱۸۴ پیشترتصنیف ہوئی لیکن اکثر کا گمان ہے کہ ایوب کی کتاب کو موسیٰ نے اس وقت تصنیف کیا جبکہ وہ مصر سے بھاگ کر مدیان میں اوقات بسری کرتاتھا بہر حال اس کا توریت سے قدیم ہونا دونوں صورتوں میں ظاہر ہے۔ ہماری سند کی آیتیں اسی کتاب کے ۴۲ میں مندرج ہیں۔ چونکہ آدمی کی بالطبع یہ خاصیت ہے کہ وہ قدیم سے قدیم کتاب کا پڑھنا اور اس پر غور کرنا چاہتاہے اور گذرے زمانوں کے حالات کا موجودہ حالت سے مقابلہ کر کے دریافت کرنا چاہتا ہے کہ زمانہ کے روزانہ انقلاب نے قدیم بات کی آج کیا حالت پیدا کر دی ہے۔ اسی طرح مذہبی باتوں میں جب ایسا سلسلہ ہاتھ آجاتاہے تو ناظرین کے دل پر کسی تاثیر پڑتی ہے عیسائی مذہب کی تعلیمات کا یہی حال ہے وہ ایک زنجیر ہے جو مختلف زمانوںمیں مختلف کاریگروں کے ہاتھ سے بنائی گئی اور جس میں ۶۶ کڑیاں ہیں۔ مگر جب انکی یکسانیت پر غور کیا جاتاہے تو صاف معلوم ہوتاہے کہ درحقیقت ان ۶۶ کڑیوں کا بنانے ولا ایک ہی لوہار ہے جب یہ حال ہے تو ہم دیکھیں۔ کہ اس پُرانی تعلیم سے آج ہمارے لیے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور خدا جو اگلے زمانوںمیں نبیوں کے وسیلے باپ دادوں سے باربار اور خاص کر ایوب سے بگولے اور گرد باد میں کلام کرتا رہا اس آخری زمانہ میں بیٹے کے وسیلے ہم سے کیا بولتا ہے۔
ان آیتوں میں ایک ہی مضمون ہے یعنی اپنا انکؔار کرنا ۔ ایوب کی ابتدائی حالت اور شیطان کے اعتراض سے ظاہر ہوتاہے کہ بسا اوقات خدا سے ہر قسم کی دنیاوی برکتوں کو حاصل کرتے ہوئے دینداری وہ درجہ نہیں رکھتی جو تکلیف اور مصیبت میں وقعت پاتی ہے۔ ہاں سونا سونا تو ہے مگر آگ میں تایا جا کر کندن بنتا ہے اور یہی ایک کسوٹی ہے۔ جس پر ہم ایمان کے سونے کو کس کر دیکھ سکتے ہیں۔ کتاب کی آخری حصہ سے ظاہر ہوتاہے کہ خدا کو بھی یہی منظعر تھا کہ ایوب کی آزمائش ہے۔ سچ ہے کہ وہ جو اپنے ہی فرزند کو روح کے وسیلہ بیابان میں آزمائے کو لے جاتا ہے وہ ایوب کو کب بغیر آزمائے ہوئے چھوڑ دیتا ہے دیکھو متی ۱:۴ جب ہرے درخت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں تو سوکھے کے ساتھ کیا نہ کیا جائے گا لوقا ۲۳:۳۱ کیونکہ خدا کے حضور کسی کی طرفداری نہیں ہوتی ۔ روم ۱۱:۲ لیکن شیطان کی آزمائش کی غرض ہلاکت اور بربادی ہے مگر خدا کی غرض آزمائش میں دینداری کی روحانی ترقی اور برکتوں کا سبب ہے۔ ایوب کے اس اقرار سے کہ مینے تیری خبر کانوں سے سنی تھی پر اب میری آنکھیں تجھے دیکھتی ہیں معلوم ہوتاہے کہ اگرچہ وہ کامل صادق خدا ترس تھا تو بھی اس میں ایک چیر کی کمی تھی جیسا ہمارے خداوند نے اس دولتمند سے فرمایا کہ تو بھی تجھ میں ایک چیز باقی ہے جا اور جو کچھ تیرا ہو بیچ ڈال ۔ اور غریبوں کو دے۔ مرقس۲۱:۱۰ اور وہ بھی یہی چیز تھی کہ جب اس نے کسی نہ کسی صورت سے خدا کو آنکھوں سے دیکھا تو اقرار کیا کہ میں اپنے ہی سے بیزار ہوں ۶:۴۲ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ خدا کو کسی نے کبھی نہ دیکھا یوحنا ۱۸:۱ پر تو بھی عبرانی ۲:۱۰ اور یوحنا ۱۸:۱ اور یشوع ۱۴:۵ کے مقابلہ سے واقع ہوتاہے کہ بائبل میں جہاں کہیں خدا کے ظہور کا بیان ہے وہاں ہمارے خداوند یسوع مسیح سے مراد ہے اور اسکا دیکھنا ۔ خدا کا دیکھنا ہے۔ جیسا کہ اس نے آپ ہی فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا ہے اس نے باپ کو دیکھا ہے۔ یوحنا ۹:۱۴ اور خود ایوب ہی اس خدا کی بابت جس کے آیندہ دیکھنے کی بھی امید رکھتاہے ایک ایسا لقب استعمال کرتاہے۔ کہ ہم کو کچھ شبہ نہیں رہتا کہ وہ مسیح ہی ہے ۔ وہ کہتاہے ۔’’ کیونکہ مجھ کو یقین ہے ک میرا فدیہ دینے والا زندہ ہے۔ اور وہ روز آخر زمین پر اُٹھ کھڑا ہوگا اور ہر چند میری پوست کے بعد میرا جسم کرم خوردہ ہوگا لیکن میں اپنے گوشت میں سے خدا کو دیکھوں گا‘‘۔ ۱۹: ۲۶،۲۵ ۔ ساتھ ہی اس کے ہم کو یاد رکھنا ہے کہ مسیحی خود انکاری اور غیر قوم کی خود انکاری میں فرق ہے۔ ہندو مذہب کا ویدانتی فرقہ اس بات پر بہت زور دیتاہے کہ ہم کچھ نہیں اور خلقت کچھ نہیں جو کچھ ہے سو خدا ہے اسی بیہودہ خیال سے ہمہ اوستی کی تاریکی نے ہماری ہندو بھائیوں کو اندھیرے میں ڈال دیا ہے چاہیے کہ ہم اس تارکی سے دور ہیں اور بائبل کی سچی خود انکاری کا سبق سیکھیں۔ وہاں اس سے بہت تعلیم ہم کو یہ ملتی ہے۔ کہ ہماری ہستی تو قائم رہتی ہے اور ہمارے حواس خمسہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم موجود ہیں مگر صاف ظاہر ہوتاہے کہ جو کچھ اچھا ہو سکتاہے یا اچھا کہا جا سکتا وہ ہم سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ جیسا رسول فرماتاہے کہ ’’مسیح کے ساتھ صلیب پر کھینچا گیا لیکن زندہ ہوں پر تو بھی میں نہیں بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے‘‘۔ ۲۰:۲ غرضکہ انجیل تعلیم سچی خوچ انکاری سکھاتی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ خدا کی باب ہم نے اور اور لوگوں نے بہت کچھ سنا اور سنتے ہیں۔ دنیا کے معلم یہی کرتے رہے اور کرتے ہیں یہاں تک کہ لوگ سنتے سنتے سن ہو گئے۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی خوبیوں کو دیکھتے دیکھتے خودی نے یہاں تک لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا کہ خدا کو سوں دور ہو گیا اور تمام انسان اس اونٹ کی مانند شتر بے مہار ہوگئے جو اپنے آپکوتمام موجودات سے اونچا اور بلند سمجھتا ہے لیکن پہاڑ کے نیچے جا کر اسے معلوم ہوتاہے کہ میں تو بالکل چھوٹا اور ناٹا ہوں اسی طرح گھمنڈی آدمی۔ جب روح کی مدد سے خدا کے پہاڑ تلے آکر صاف جانتا ہے کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی اچھی چیز نہیں بستی روم ۱۸:۷ اور کیا روزانہ تجربہ نہیں دیتا کہ سب کے سب گناہ کے تلے دبے ہیں‘‘۔ کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں۔ کوئی سمجھنے ولا نہیں کوئی خدا کا طالب نہیں سب کے سب گمراہ ہیں سب کے سب نکمے ہیں کوئی نیکو کار نہیں ایک بھی نہیں‘‘۔جب یہ حال ہے تو کیا ایوب کے دوستوں کی مانند خدا ہم سے نہیں کہتا کہ اپنے لیے سوختنی قربانی گذرانو۔ پر خدا کا شکر ہو کہ خدا نے اپنا برہ بھیج دیا جو جہان کے گناہ اُٹھا لے جاتاہے آؤ آج ہم اسے اپنا کفارہ سمجھ کر خدا کے حضور گناہوں کی معافی حاصل کریں اور دیکھیں کہ خود انکاری میں کون کون باتیں شامل ہیں کیونکہ یہ امر اسلیےفرمایا اور بھی ضروری ہے کہ خداوند مسیح نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ جو کوئی میرے پیچھے آیا چاہیے کہ وہ اپنے سے انکار کرے مرقس ۹: ۴،۳۔
ذات سے انکار
بہتیرے مسیحی خاصل کر انجیل کے کادم بھی کوئی کوئی اس پھندے میں پھنستے ہیں وہ غیر قوموں سے کہتےکہ ذات پانت کچھ نہیں مگر آپ ہی غیر قوموں کی مانند اپنے کو اونچی ذات اور دوسروں کو نیچ ذات سمجھ کر بہتیروں کے واسطے ٹھوکر کا سبب ہیں۔ چاہیے کہ ہم اس سے انکار کریں۔
خاندان سے انکار
یہ بھی ایک خدا سے دور ی اور کمال مغفرت کا باعث ہے کہ ہم تو اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے لیکن ناصرت سے کوئی اچھی چیز نہیں نکل سکتی ہے۔ اس سے بھی انکار کرنا چاہیے ۔
دنیا کے عیش و عشرت سے انکار
جب مسیح نے صاف فرمایا کہ انجیل اور میرے لیے ہر طرح کے دکھ درد میں مبتلا ہونا ضروری ہے۔ تو کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ جو رانذن دنیا وی عیش و عشرت میں پڑ کر انجیل اور مسیح کے صلیب سے کوسوں بھاگتا ہے خداوند کا شاگرد یا منادہے؟ نہیں ۔ پس ایسے آرام سے بھی ہم کو انکار کرنا چاہے۔
نیک کاموں سے انکار
اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم نیک کام نہ کریں جس حال میں کہ ہم مسیح میں اس لیے سر نو پیدا ہوئی کہ نیکی کریں۔ لیکن غرض یہ ہے کہ ان کاموں کو نیک سمجھ کر اپنے آپ کو نیک نہ جانیں کیونکہ ہمارے خداوند کا فرمان ہے کہ نیک کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا پس ایسی نیکی سے بھی انکار کرنا ضروری ہے۔
حاصلِ کلام
آج کی وعظ سے ہم کو کئی باتیں معلوم ہوئیں۔
۱۔ ایماندار کی کل زندگی جو اس دنیا میں بسر ہوتی ہے آزمائشی ہے۔
۲۔ دینداری جو دولتمندی میں ہے وہ مصیبت اور تنگی میں رہے تو دینداری ہے ورنہ مکاری۔