Counted righteous by having faith in Jesus Christ
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Jan 11, 1895
نور افشاں مطبوعہ۱۱جنوری ۱۸۹۵ ء
ہم جو پيدائش سے يہودی ہيں۔اور غير قوموں ميں سے گنہگار نہيں۔يہ جان کر کہ آدمی نہ شريعت کے کاموں سے ۔بلکہ يسوع مسيح پر ايمان لانے سے راستباز گنا جاتا ہے ۔ہم بھی يسوع مسيح پر ايمان لائے۔تاکہ مسيح پر ايمان لانے سے۔نہ کہ شريعت کے کاموں سے راستباز گِنے جائيں۔ کيونکہ کوئی بشر شريعت کے کاموں سے راستباز گنا نہ جائے گا۔گلتيوں ۳۔۱۶،۱۵
مسيحی مذہب اور ديگر مذاہب دُنيا ميں يہ ايک نہايت عظيم فرق ہے۔کہ وہ گنہگار انسان کی مخلصی و نجات اور حِصولِ قربت و رضا مندی الہیٰ کو اُس کے اعمال حسنہ کا اجر و جزا نہيں ٹھہراتا۔بلکہ اُس کو صرف الہیٰ فضل و بخشش ظاہر کرتا ہے۔جبکہ ديگر مذاہب تعليم ديتے ہيں۔ کہ پہلے کام اور بعدہ انعام ۔مسيحی مذہب تعليم ديتا ہے۔کہ پہلے انعام اور بعدہ کام۔يہ تعليم گنہگار لاچار وخوار انسان کے ليے۔جس ميں نيک کام کرنے کی طاقت مُردہ۔اور قوائے نفسانی و جسمانی زندہ زور آور ہيں۔کہ’’تو پہلے نيک کام کر تو نجات پائے گا۔‘‘کيسی نا ممکن التعميل اور سخت و نا گوارمعلوم ہوتی ہے۔کيا کوئی طبيب حاذق(ماہر ڈاکٹر) کسی مريض کو جو عرصہ دراز سے ايک مرض ِجانستاں(جان کو ستانے والا روگ) ميں مُبتلا رہ کر يہاں تک نحيف و ناتواں(کمزور ولاچار) ہو گيا ہو۔کہ وہ اُٹھنے بيٹھنے اور چلنے پھرنے کے بالکل نہ قابل ہو۔قبل صحت يہ حُکم دے سکتا۔کہ تو چہل قدمی کيا کر۔اور ترش و بادی اغذيہ (غذا کی جمع)سے محترز(پرہيز کرنا) رہ ؟پس وہ مذہبی ہادی و معلم جو اپنے پيروؤں کو ۔جو محتاجِ نجات ہيں۔يہ تعليم ديتا ہے کہ اگر تم نيک کام کروتو آخر کو نجات پاؤگے۔
اُسی طبيب کی مانند ہيں جو مريض کو قبل شفا يابی حصولِ طاقت و توانائی کے لئے چہل قدمی کرنے ۔اورتندرست رہنے کے لئے ناموافق و ثقيل اغذيہ(ٹھوس غذا) سے پرہيز کرنے کی صلاح ديتا ہے۔اس ميں شک نہيں۔ کہ وہ جو بذريعہ ٔ اعمال حصولِ نجات کی تعليم ديتے اور جو ايسی تعليم کو پسند اور قبول کرتے ہيں انسان کی دلی خراب حالت۔اور پيدائشی بگڑی ہوئی طبعيت سے بالکل ناواقف اور محض نا آشنا ہيں۔مگر يہ بھی سچ ہے کہ جنہوں نے کلامِ اللہ سے بگڑی ہوئی انسانيت کے حال کو معلوم نہ کيا ہو ۔وہ کيوں کر اُس کی بُرائی کو بخوبی سمجھ سکتے ہيں۔کيونکہ کلامِ اللہ ہی صرف ايک ايسا آئينہ مصفیٰ و مجلّٰی ()ہے۔کہ جس ميں بگڑی ہوئی انسانيت اور اس کے دل کی صيحح تصوير معہ اُس کے عيوب و قبايح (عيب وبرائی کی جمع)کے صاف طور پر کھينچی اور دکھلائی گئی ہيں۔ہر چند کہ خود پسند انسان ايسی کر يہہ المنظر(بد شکل) تصوير کو ديکھنا پسند نہيں کرتے۔تاہم نہايت ہی مناسب اور ضروری معلوم ہوتا ہے۔کہ اُن فريب خوردہ اشخاص کے لئے جو ’’ پہلے کام۔اور پيچھے انعام‘‘ کی تعليم پا کر نجات اُخر وی کے اُميدوار ہيں اُس کے ہر دو تاريک پہلو کسی قدر کتابِ اللہ سے دکھلائے جائيں۔
پيدائش کی کتاب کے ۶ باب ۵ آيت ميں قبل طوفان يوں لکھا ہے ۔کہ ’’ خُدا وند نے ديکھا کہ زمين پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی۔اور اُس کے دل کے تصور اور خيال روز بروز صرف بد ہی ہو تے ہيں۔‘‘اور يہ کہ خُدا نے زمين پر نظر کی اور ديکھا کہ وہ بگڑ گئی۔کيونکہ ہر ايک بشر نے اپنے اپنے طريق کو زمين پر بگاڑا تھا۔‘‘پيدائش ۶۔۱۲ ۔
پھر اُسی کتاب کے ۸ باب ۲۱ آيت ميں لکھا ہے۔ کہ ’’انسان کے دل کا خيال لڑکپن سے بُرا ہے۔‘‘ايوب کی کتاب کے ۱۵ باب ۱۴ آيت ميں مرقوم ہے ۔کہ ’’انسان کون ہے کہ پاک ہو سکے۔ اور وہ جو عورت سے پيدا ہوا کيا ہے کہ صادق ٹھہرے۔‘‘راقم زبور ناقل (نقل کرنا)ہے ۔کہ ’’ديکھ ميں نے بُرائی ميں صورت پکڑی۔اورگناہ کے ساتھ ميری ماں نے مجھے پيٹ ميں ليا۔‘‘زبور ۵۱۔۵ ۔پھر وہ فرماتا ہے کہ ‘‘خُدا وند انسان کے خيالات کو جانتا ہے۔کہ وہ باطل ہيں۔‘‘زبور ۹۴ ۔۱۱ ۔يرمياہ نبی نے انسانی خراب دل کی نسبت يوں لکھا ہے ۔’’دل سب چيزوں سے زيادہ حيلہ باز ہے۔ہاں وہ نہايت فاسد (فسادی،بگڑا ہوا)ہے۔اُس کو کون دريافت کر سکتا ہے‘‘؟يرمياہ ۱۴۔۹ ۔خُدا وند مسيح نے ۔جس سے بہتر انسان کی ماہيت(مادہ، فطرت) کو جاننے والاکوئی نہيں ہوا۔يوں فرمايا ہے کہ’’بُرے خيال ۔خون ۔زنا ۔حرام کاری۔چوری۔جھوٹی گواہی۔کُفر۔ دل ہی سے نکلتے ‘‘۔متی ۱۵۔۱۹۔بالآخر پولوس رسول چودہويں زبور کی تائيد کر کے بوضاحت تشريح کرتا اور انسان کے سراپا کی يوں تصوير کھينچتا ہے۔کہ ’’کوئی راستباز نہيں ايک بھی نہيں۔ کوئی سمجھنے والا نہيں۔ کوئی خُدا کا طالب نہيں۔ سب گمراہ ہيں۔ سب کے سب نکمے ہيں کوئی نيکوکار نہيں۔ايک بھی نہيں۔اُن کا گلا کھُلی ہوئی گور(قبر)ہے۔اُنہوں نے اپنی زبان سے فريب ديا ہے۔اُن کے ہونٹوں ميں سانپوں کا زہر ہے ۔اُن کے منہ ميں لعنت اور کڑواہٹ بھری ہيں۔اُن کے قدم خون کرنے ميں تيز ہيں۔اُن کی راہوں ميں تباہی اور پريشانی ہے۔اور اُنہوں نے سلامتی کی راہ نہيں پہچانی۔اُن کی آنکھوں کے سامنے خُدا کا خوف نہيں۔‘‘روميوں ۳۔۱۰ سے ۱۸ تک۔
انسان کی نسبت کتبِ مقدسہ ميں ايسے صاف اور بے لاگ (بے غرض)بيانات کا مذکور ہونا بھی اُن کے منجانب اللہ ہونے کی ايک دليل منجملہ ديگر دلائل ہے۔کيونکہ کوئی انسان اپنی تصنيف ميں انسانی بُری حالت اور دلی خرابی کی ايسی بد ۂيت تصوير ہرگز نہيں کھينچ سکتا ۔کيونکہ بقول راقم زبور اپنی بھول چوکوں کو کون جان سکتا ہے‘‘۔اور يہی سبب ہے کہ ديگر اہلِ مذاہب گناہ کو ايک خفيف(معمولی) بات جان کر ظاہری شست و شو (دھو کر صاف کرنا)اور ادائے رسميات و دستورات مذہبی کے ذريعے معاف ومحوہو جانے کے خيال ميں مطمين پائے جاتے ہيں۔پس جب کہ انسان کی طبيعت و فطرت گناہ کے باعث اس قدر بگڑ گئی ہے۔کہ بقول يسعياہ نبی تمام سر بيمار ہے۔اور دل بالکل سست ہے۔ تلوے سے ليکر چاندی تک اُس ميں کہيں صحت نہيں بلکہ زخم اور چوٹ اور سڑے ہوئےگھاؤ(زخم ) ہيں ۔جو نہ دبائے گئے نہ باندھے گئے۔نہ تيل سے نرم کيے گئے ہيں‘‘۔
تو اُس کو اعمال ِ حُسنہ (نيک کام)کے ذريعہ حصولِ مغفرت و نجات(معافی ورہائی) کی تعليم دينا اُس کو دھوکے اور اُميدِباطل (جھوٹی اُميد)ميں رکھ کر ہلاک کرنے کے سوا اور کچھ نہيں ہے۔ضرور ہے کہ پہلے وہ نئی پيدائش جس کو نيکديمس جيسا ذی علم(عالم) يہودی نہ سمجھ سکا۔حاصل کرے اور ايک مستقيم(درست ،راست،مضبوط) روح اُس کے باطن ميں نئے سرے سے ڈالی جائے۔اور ايک پاک دل اُس کے اندر پيدا کيا جائے۔تب اعمالِ حُسنہ کے اُس سے سرزد ہونے کی اُميد ہو سکتی ہے۔ ورنہ بقول ايوب کون ہے جو نا پاک سے پاک نکالے؟کوئی نہيں ‘‘ايوب ۱۴۔۴ تاہم ياد رکھنا چاہيےکہ موجودہ بگڑی ہوئی اور گری ہوئی انسانيت کے سُدھارنے ۔اور اُس کو اُٹھانے کے لئے صرف تعليم ہی کافی نہيں ہو سکتی۔بلکہ ايک کامل نمونہ کی ضرورت ہے۔ جس کی نسبت پھر لکھيں گے۔