Christianity is for everyone
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan March 11, 1875
نور افشاں مطبوعہ۱۱مارچ ۱۸۷۵ ء
چند روز ہوئے ایک تربیت یافتہ ہندو ریئس نے ہم سے بیان کیا ۔ مسیح اخلاقی معلموں میں سے سب سے اچھا تھا اور ہر ایک بات جو اس نے فرمائی آپ کے لئے سچ و راست(درست۔ٹھيک) ہے ۔لیکن یہ تعلیم ہمارے لئے نہ تھی۔ بائبل میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ ہمارے لئے تھی۔ خیر دیکھا جائے گا ازروئے بائبل کے مسیح کی پیدائش سے تھوڑی دیر بعد ایک فرشتے نے کئی ایک چوپانوں(چرواہے۔گڈريے) پر ظاہر ہو کر کہا میں تمہیں ایک بڑی خوشخبری سناتا ہوں ۔جو سب لوگوں کے واسطے ہے یہ خوشخبری نجات دہندہ کی پیدائش تھی۔ اُسی جگہ لکھا ہے کہ مجوسی مشرق سے یروشلم میں اُس کی پرستش کرنے کو آئے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق کسی دُور کے ملک سے مراد ہے اغلب(يقينی) ہے کہ فارس ہو ۔پس مسیح کی پیدائش کے وقت کم سے کم دو قوموں کے لوگ اُ س پر ایمان لائے اور فرشتے نے بیان کیا۔ کہ وہ سب آدمیوں کے لئے بچانے والا ہو گا ۔تیس برس کی عمر میں مسیح منادی کرنے لگا ۔
اب دیکھنا چاہیے کہ اس نے کن لوگوں کو تعلیم دی اُس ایک آدمی نے ایک مذہب کی بنیاد ڈالنی چاہی کو ئی عیسائی نہ تھا کوئی ایسا آدمی نہ تھا جس نے اُسے پہلے قبول کیا ہو۔ تا کہ وہ اُس کی طرف مخاطب ہو کر اپنے مسائل سُنا سکے ۔اس بات پر اُس نے کبھی اشارہ نہ کیا ۔کہ میرے پیر و (پيچھے چلنے والے)صرف ایک ہی قوم کے آدمی ہو ں گے۔ الہٰی انتظام کے موافق وہ دُنیا میں یہودی ہو کر آیا اور یہودیوں کے درمیان منادی کرنی شروع کی۔ لیکن اُس نے اپنی تعلیم انہیں کے درمیان محدود نہ رکھی۔ سامری لوگ یہودیوں کے گروہ سے بالکل مختلف قوم تھی مسیح نے انہیں سکھلا یا ۔اور بعض ان میں سے اُس پر ایمان لائے رومی صوبہ دار اور کنعان کے بعض آدمیوں کا ذکر ہے جو عیسائی ہوئے۔ جب یروشلم میں سب قوموں سے بہت سے آدمی جمع ہوئے مسیح نے اپنی تعلیم میں کبھی نہ فرمایا ۔کہ میرا کلام بہ نسبت اور قوموں کے یہودیوں کے لئے زیادہ ہے اگرچہ اُس نے پہلے یہودیوں کے درمیان منادی کی تو بھی بہتیرے اُس پر ایمان نہ لائے ۔اسی لئے اُ س نے بعد ازاں اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ اور لوگوں کے پاس جائیں ۔
اب ہم اس کے کلام میں سے چند ایک باتیں پیش کریں گے ۔ جو اس مضمون پر گواہی دیتی ہیں۔ ہم انہیں متی کی انجیل سے نکالیں گے ۸ باب کی ۱۱ ۔ آیت میں لکھا ہے میں تم سے کہتا ہوں کہ بہتیر ے پورب اور پچھم سے آئیں گے۔ اور ابراہام اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہت میں داخل ہو نگے ۔ اس سے یہ معنی ہیں کہ بہت سی قوموں کے لوگ عیسائی ہو ں گے ۔ ۱۲ باب کی ۵۰ آیت میں مسیح نے فرمایا جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی پر چلے گا۔ وہی میرا بھائی اور بہن اور ماں ہے۔ جو کوئی خواہ یہودی یا غیر قوم انگریز یا ہندو خُدا کی مرضی پر چلتا ہے مسیح سے عز یز رشتہ رکھتا ہے۔ ۱۳ باب کی ۳۷ ، ۳۸ آیات میں اُس نے اپنے تئیں اور اپنے منادی کے کام کو ایک بیج بونے والے کسان سے تشبیہ دے کر فرما یا۔ کہ وہ جو اچھا بیج بوتا ہے ابن آدم ہے اور کھیت دُنیا ہے مسیح کی اکثر تعلیم میں صاف کہا جاتا ہے۔ کہ یہ اُن کے واسطے ہے جو سُنے اور جہاں یہ نہیں کہا جاتا تو بھی یہی مراد ہے ۔فقرہ ذیل ہندو ں کے حق میں کیسی اچھی مناسبت(باہمی تعلق) رکھتا ہے جن میں سے بعضوں کو اگر مسیح پر ایمان لائیں کیسی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔( ۱۶ باب کی ۲۴ سے ۲۷ آیت) تک یوں لکھا ہے اگر کوئی آدمی میرے پیچھے آنا چاہے تو وہ اپنا انکار کرے ۔اور اپنی صلیب اُٹھا کر میری پیروی (فرمانبرداری)کرے ۔کیونکہ جو کوئی اپنی جان کو بچانا چاہے اُسے بچائے گا ۔کیونکہ آدمی کو کیا فائدہ ہے اگر ساری ُدنیا کو حاصل کرے ۔اور اپنی جان کو کھودے یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے سکتا ہے۔ پھر ۱۸ با ب کی ۴ آیت جو کوئی اس چھوٹے لڑکے کی مانند اپنے تئیں حقیر(ادنیٰ۔چھوٹا) جانے گا وہی آسمان کی بادشاہت میں سب سے بڑا ہو گا۔ اور پھر ۱۱۔ آیت میں ابن آدم کھوئے ہوؤں کو بچانے کے لئے آیا ہے مسیح ہر ایک گنہگار کو جو خُدا سے برگشتہ(بھٹکاہوا) ہو ا بچانے کو آیا۔ ۲۴ باب میں مسیح دُنیا کے ختم ہونے سے پیشتر اپنی دوسری آمد کے علامات کے بیان کرنے میں ۱۴ آیت میں یوں فرماتا ہے۔ کہ بادشاہت کی یہ خوشخبری دُنیا میں سُنائی جائے گی۔ تا کہ سب قوموں پر گواہی ہو اور اُس وقت آخر آئے گا۔ بہت سی اور ایسی آیات پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہم صرف ایک اور پیش کریں گے ۔ سارے آسمان اور زمین کا اختیار مجھے دیا گیا ہے اسی لئے تم جا کر تمام قوموں میں منادی کرو اور باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو اور انہیں سکھلاؤ کہ ان سب باتوں کو جن کا میں نےتمہیں حکم دیا ہے مانیں اور دیکھو میں ہمیشہ دُنیا کے آخر تک تمہارے ساتھ ہوں۔
کیا ان الفاظ کا زیادہ تر صفائی سے بیان ہو سکتا ہے۔ کہ مسیح نے اپنی تعلیم سے ہندؤں اور انگریزوں کے لئے جیسا کہ یہودیوں کے لئے ارادہ کیا تھا اُس کے صعود (آسمان پر چڑھنا)سے صرف دس روز بعد بڑی عيد کے وقت جب کہ یروشلیم میں ہمیشہ بہت سے مسافر جمع ہو جاتے تھے۔ عیسائیوں پر وہاں رُوح القدس کا عجیب نزول (نازل )ہو ا ۔جس کے سبب سے تین ہزار آدمی عیسائی ہوئے۔ یہ بہت ہی مختلف قوموں اور ایشیاء افریقہ اور یورپ کے مختلف حصّوں کے تھی۔ اغلب(يقين) ہے کہ بہت سے اُن میں ہندوستان سے بھی دُور کے ملکوں سے آئے ہو ں گے ۔ لیکن امریکہ اور انگلستان سے نہیں آئے تھے۔ اگر بائبل باشندگان امریکہ کے لئے سچ ہے تو ہندوں کے واسطے بھی ویسی ہی سچ ہے۔ پس یہ مسیح کے اس ُدنیا کو چھوڑنے کے بعد جلد ظاہر ہوا کہ اُس کا آنا سب لوگوں کے لئے بڑی خوشی کا مثردہ(بشارت) ثابت ہونا تھا۔ فوراً شاگرد تمام ملکوں میں جانے لگے اور بعضوں نے ہندوستان میں بھی آکر مسیح کی نجات کی بشارت (خوشخبری)دی ۔
اب اگر مسیح نے ویسی ہی تعلیم دی جیسا کہ اُسی کے کلام سے ظا ہر ہوتا ہے کہ وہ سب گنہگار وں کے بچانے کو آیا اور اگر ہر ایک بات جو اُس نے فرمائی سچ ہے تو ہندوں کو اُسے قبول کرنا چاہیے۔
اگر ہندو کسی اور طرح سے نجات پا سکتے ہیں تو یا تو مسیح نے بہت ہی فریب(دھوکا) کھایا وہ ایک فریبی تھا کیونکہ اُس نے کہا کہ کوئی باپ کے پاس بغیر میرے آ نہیں سکتا۔ علاوہ ازیں اگر مسیح اخلاقی معلموں میں سب سے اچھا تھا جیسا کہ بہت سے ہندو قبول کرتے ہیں۔ تب کیوں ہندوں کو اچھی بات نہ ماننی چاہیے جب کہ وہ اس بات کو مان سکتے یا نہیں مان سکتے ہیں۔ دین ِعیسوی کا سب لوگوں کے لئے ہونا اُس کی ایک اعلیٰ فضیلت (علم و فضل) ہے خاص کر یہ اس وقت دلکش ہے۔ جب کہ وہ دینِ ہنود سے مقابلہ کیا جاتا ہے ۔جو اور سب کو رد کر کے کہتے ہیں کہ یہ صرف ہمارے ہی واسطے ہے۔ صرف ایک ہی خُدا ہے اور سب آدمیوں نے اُس کے حضور گناہ کیا ہے ۔لیکن خُدا نے اپنی مہربانی سے اپنی اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ۔
علاوہ ازین اُس نے فرمایا ہے زمین پر آدمیوں کے درمیان کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا۔ جس سے ہم نجات پا سکیں ۔اگر مسیح سب ہندوں کے واسطے موا ہے اور اپنے شاگردوں کو حکم دیا ہے کہ اُن کو مثل ساری دُنیاکو اس کی بڑی محبت کی خبر دیں تو کیا اور ملکوں کے عیسائیوں اور خاص کر اُن کو جنہوں نے اُن میں سے مسیح کو قبول کیا ہے۔ حتی الامکان کوشش نہ کرنا چاہے کہ اُس حکم کو مانیں ۔ اور اگر کوئی بھی حکم نہ ہوتا تو مسیح کی رُوح اُس کے پیرووں(پيچھے چلنے والے) کو ایسا مزاج بخشتی کہ وہ وہی خبر دیتے جس سے وہ خود برکت پاچکے تھے۔