Christ Suffered
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Nov 30,1894
نور افشاں مطبوعہ ۳۰نومبر ۱۸۹۴ ء
اور (یسوع نے ) اُن سے (عماؤس بستی میں دو شاگردوں سے ) کہا۔ کہ یوں لکھا۔ اور یو ں ہی ضرورتھا ۔ کہ مسیح دُکھ اُٹھائے اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے۔
انجیل شریف بہ مطابق راوی لوقا ۲۴۔ ۴۶۔
اب ہم مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے مخالف ایک تیسرے قیاس(ذہن۔سوچ بچار) کا ذکر کریں گے ۔ جس کو یورپ کے مشہور ملحدوں (بے دين۔کافر)مثل اسٹراؤس ۔ رینن وغیرہ نے پسند کر کے پیش کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جی اُٹھے مسیح کی رویتیں(رويت کی جمع ،صورت کا نطر آنا) حقیقی و خارجی نہ تھیں ۔ بلکہ صرف اندرونی تصورات معتقدین(اعتقاد رکھنے والے)۔ اور اُن کی نظر کا دھوکہ تھیں۔ جو اکثر خواہش و سر گرمی اور انتظاری سے بہرے ہوئے دلوں میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ اس قیاس (اندازہ)کے جواب میں ہم بمعقولیت کہہ سکتے ہیں ۔ کہ مسیح کے شاگردوں کو ہرگز یہ یقین نہ تھا۔ کہ وہ پھر جی اُٹھے گا ۔ درحالیکہ نہایت پُر اذیت موت کے صدمہ سے مُو ا ۔ اُس کے ہاتھوں اور پاؤں میں آہنی میخیں(کيل) ٹھونکی گئیں۔ اور اُس کا پہلو بھالے سے چھیدا گیا ۔ اور اس درد ناک حالت میں وہ چھ گھنٹے تک برابر اُسی صلیب ِجان ستاں (جان لينے والا)پر آویزاں(لٹکا) رہا۔ وہ کیونکہ ایسے مصلوب و مقتول کے جی اُٹھنے کے منتظر ہو سکتے تھے؟ عقلِ انسانی ہرگز اس امر محال(ناممکن کام) کو تسلیم نہیں کر سکتی ۔ کہ کسی ایسے مقتول ِجفاء (ظلم وذيادتی سے قتل ہوا )کے پہر زندہ ہو جانے کا کوئی شخص منتظر ہو سکے علاو ہ ازیں بقول یوحنا رسول ’’ وہ ہنوز اُس نوشتہ(لکھا ہوا۔تحريری سند) کو نہ جانتے تھے۔ کہ مُردوں میں سے اس کا جی اُٹھنا ضرور ہے‘‘۔ یوحنا ۲۰۔ ۹ اور ’’ وہ اُس کلام کو آپس میں رکھ کے چرچا کرتے تھے۔ کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے کیا معنی ہیں‘‘ ۔ مرقس ۹۔ ۱۰ پس ہم رینن کے فرضی قیاس کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے کہ مسیح کے جی اُٹھنے اور نظر آنے کی حقیقت صرف اُس کے شاگردوں کی خواہش و انتظاری اُن کے دلوں میں پیدا ہو جانے پر مبنی (بنياد رکھنے کی جگہ)ہے۔ ماسوا اس کے ۔ کہ وہ جی اُٹھے مسیح کی رویتوں کے دیکھنے کے لئے منتظر اور پیش میلان(توجہ۔خواہش) حالت میں نہ تھے۔ مسیح نے اُن پر اپنے کو صرف ایک ہی دفعہ۔ اور ایک ہی طور و طریق پر ظاہر نہیں کیا ۔
بلکہ مختلف اوقات میں اور ملک کی متفرق جگہوں میں ایسے صاف طور پر ظاہر کیا۔ کہ جو خیالی رویت کے خیال سے مطلق(آزاد) کچھ بھی علاقہ نہیں رکھتا ۔ چنانچہ لوقا لکھتا ہے۔ کہ اُسی دن ان میں سے دو شخص جو یروشلیم سے عماؤس بستی کو ۔ جو پونے چار کوس کے فاصلہ پر تھی۔ ان واقعات کی نسبت آپس میں بات چیت کرتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ کہ یکایک ایک تیسرا شخص اُن کے پاس پہنچا ۔ اور اُن کے ساتھ ساتھ اُن کی باہمی گفتگو کو سنتا ہو ا اُن کے ہمراہ ہو لیا۔ جس کو انہوں نے اپنی مانند کوئی مسافر سمجھا۔ اور نہ جانا کہ وہ خداوند مسیح ہے۔ اور جب اُس نے اُن سے کہا۔ کہ یہ کیا باتیں ہیں ۔ جو تم آپس میں کرتے جاتے ۔ اور اُداس نظر آتے ہو ؟ تو انہوں نے اس تازہ ماجرے کا بیان بہ تفصیل تمام اُس سے کیا جس کو سن کر ’’ اُس نے اُن سے کہا۔ کہ ‘‘ اے نادانو۔ اورنبیوں کی ساری باتوں کے ماننے میں سست مزاجو۔ کیا ضرور نہ تھا ۔ کہ مسیح یہ دُکھ اُٹھا ئے ۔ اور اپنے جلال میں داخل ہو ‘‘؟ اور باو جو دیکہ ’’ اُس نے موسیٰ اور سب نبیوں سے شروع کر کے وہ باتیں جو سب کتابوں میں اُس کے حق میں تھیں اُن کے لئے تفسیر (تشريح۔تفصيل)کیں ‘‘ تاہم انہوں نے اس وقت تک نہ جانا ۔ کہ یہ مسیح ہی ہے۔ جو ہم سے باتیں کر رہا ہے ۔ یہ خیالی رویت(نظارہ۔ديدار) کا خاصہ نہیں ہے۔ کہ وہ اتنی دُور تک ۔ اور اتنی دیر تک کسی کے ساتھ رہ کر اتنی باتیں اُس سے کرے۔ پھر لکھا ہے۔ کہ جب وہ عماؤس کے قریب پہنچے ۔ اور وہ تیسر ا شخص اُن سے آگے بڑھا چاہتا تھا ۔ تو انہوں نے یہ کہہ کر اُسے روکا ۔ کہ ہمارے ساتھ رہ ۔ کیونکہ شام ہوا چاہتی ہے۔
اور وہ اُن کی درخواست پر مکان میں جا کر اُن کے ساتھ رہا ۔ اور جب کھانے کے وقت اُس نے روٹی لے کر اُسے متبرک(پاک) کیا۔ تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں۔ اور انہوں نے اُس وقت پہچانا ۔ کہ وہ خداوند مسیح آپ ہے۔ تب وہ اُن کی نظروں سے غائب ہو گیا۔ اب کون منصف(انصاف کرنے والا) اور محقق (تحقيق کرنے والا)شخص رینن کے قیاس(اندازہ۔سوچ بچار) کو دم بھر کے لئے بھی قبول کر سکے گا۔ کہ وہ صرف ایک خیالی رویت تھی۔ جو مریض اعصاب والے شخصوں کی غمگین جانوں ۔ اور خواہش و سر گرمی ۔ اور انتظاری سے بہرے ہوئے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے؟ مگر اس حقیقت کو قبول کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ راست ہے اور وہ یہ کہ مسیح خداوند فی الوقع جی اُٹھا ۔ اور موت اور قبر پر فتح مند ہوا ہے۔ اور اُس کا یہ کلام حق ہے۔ کہ ’’ میں مُوا تھا اور دیکھ میں زندہ ہوں۔ اور عالم غيب (عالمِ ارواح)اور موت کی کنجیاں ميرے پاس ہیں ‘‘۔ مکاشفات ۱۔ ۱۸۔