اور خدا کے دہنے ہاتھ پر بیٹھا

Eastern View of Jerusalem

Christ is, seated at the right hand of God

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Nov 01, 1883

نور افشاں مطبوعہ یکم نومبر ۱۸۸۳ء

انجیل میں ہم پڑھتے ہیں کہ خداوند صعود کے بعد خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا اب ہم یہ دریافت کریں گے کہ اس کا کیا مطلب ہوا ؟اتنا تو ظاہر ہے کہ یہ کلام مجازی ہے کیونکہ خدا جسم سے پاک ہے ہاتھ پیر نہیں رکھتا اور ’’دہنے ہاتھ پر بیٹھنے ‘‘سے یہ مراد ہے کہ وہ خدا کے ساتھ جلال و حکومت میں شریک ہے ۔ انجیل کی یہی تعلیم ہے کہ یہ شراکت نہ صرف کلمتہ اللہ کو بخشی گئی جو ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا اور خود خدا تھا اور جس نے مسیح میں مجسم ہو کر اپنا جلال ظاہر کیا بلکہ انسانیت کو یہی عطا ہوئی ۔یعنی مسیح کی کل ذات مرکب ازانسانیت و الوہیت جا اس میں موجود تھیں اس جلال میں شریک ہوئے۔

مسیح نے خدا کی صورت میں ہو کے خدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا

اس شراکت کے دو سبب ہیں پہلا مسیح کی الہٰی ذات و صفات دوسرا کام جو مسیح نے نجات کے واسطے پورا کیا ان دونوں کا تذکرہ عبرانیوں کے پہلے باب کی ۳ میں پایا جاتا ہے وہاں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ یعنی مسیح بلندی پر جناب عالی(خدا تعالیٰ)کے دہنے ہاتھ جا بیٹھا ۔ پہلا اس واسطے کہ وہ اس جلال کی رونق اور اس کی ماہیت کا نقش تھا اور سب کچھ اپنی ہی قدرت کے کلام سے سنبھالتا تھا دوسرا اس نے آپ سے ہمارے گناہوں کو پاک کیا یہی مضمون (فلپیوں ۲: ۶ ۔۱۱)میں پایا جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ اس نے یعنی مسیح نے خدا کی صورت میں ہو کے خدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا بلکہ اپنے آپ کو مرتے دم تک یعنی صلیبی موت تک فرمانبردار رکھا اس واسطے یعنی ان دوشیوں (گناہگاروں )کے لئے خدا نے اسے بہت سرفراز کیا اور اس کو ایسا نام جو سب ناموں سے بزرگ ہے بخشا تاکہ یسوع کا نام لے کر ہر ایک کیا آسمانی کیا زمینی کیا وہ جو زمین کے تلے ہیں گھٹنا ٹیکیں (افسیوں ۱: ۲۰ ۔ ۲۲ )اس حوالہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ خدا نے مسیح کو مردوں میں سے جلایا اور اپنے دہنی طرف آسمانی مقاموں پر بیٹھایا اور ساری حکومت اور اختیار اور ریاست اور خداوندی پر اور ہرایک نام پر جو نہ صرف اس جہاں میں بلکہ آنے والے جہاں میں بھی لیا جاتا ہے بلند کیا اور سب کچھ اس کے پاؤں تلے کر دیا یہ آخری فقرہ آٹھویں زبور میں سے ہے اور انجیل میں اکثر اقتباس کیا گیا ہے ۔یہ ثابت کرنے کو کہ مسیح کی حکومت کل موجودات پر ہے جس حالت میں سب کچھ اس کی اطاعت میں لایا تو اس نے کوئی چیز نہ چھوڑی جو اس کی تابع نہ کر دی( عبرنیوں ۲: ۸ ، ۱۔ کرنتھیوں ۱۵ : ۲۷ )ان حوالاجات میں یوں بیان ہوا ہے جب کہ اس نے سب کچھ اس کے تابع کر دیا تو ظاہر ہے کہ وہی الگ رہا جس نے سب کچھ اس کی اطاعت میں کر دیا کوئی مخلوق اس کی حکومت کے باہر نہ رہا خود خداوند یسوع مسیح نے اس حکومت کا دعویٰ کیا ہے (متی۲۸: ۱۸ ) یسوع نے ان سے کہا کہ آسمان و زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ہے ۔(پطرس ۳: ۲۲ )میں یوں کہا گیا ہے کہ وہ آسمان پر جا کر خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے اور فرشتے اور حکومتیں اور ریاستیں اس کے تابع ہیں پرانے عہد نامہ میں بھی مسیح کی حکومت عامہ کا تذکرہ جگہ جگہ میں ملتا ہے خاص کر (زبور ۲باب ، ۴۵باب ، ۷۲ باب ، ۱۱۰ باب)اور(یسعیاہ ۹: ۷ ، دانی ایل ۷: ۱۴ )اب ظاہر ہے کہ اس قسم کا اختیار اور حکومت صرف انسان نہیں پاسکتا صرف اسی مسئلہ سے مسیح کی الوہیت ثابت ہے اسے پوری طرح ادا کرنے کو ضرور ہے کہ وہ قادر مطلق ہوا اور سب جگہ حاضر ناظر اور کامل دانائی اور نیکی سے معمور ان اور صاف بغیر جو کہ الہٰی صفات میں کوئی شخص کل مخلوقات اور موجودات پر حکومت نہیں کر سکتا بائبل میں صاف مذکور ہوا ہے کہ خدا نے فرشتوں کو بھی اس قسم کی عزت نہیں بخشی (عبرانیوں ۱ باب )بلکہ ان کو حکم دیا کہ بیٹے کو سجدہ کریں۔

جیسا صدر میں مذکور ہوا کل مطلق حکومت کا ملک یسوع مسیح خدا ئے مجسم ہے شاید کوئی سوال کرے کہ یہ حکومت جو اوپر مذکور ہوئی مسیح کی الوہیت کرتی ہے باانسانیت یا دونوں مل کر پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ اس کا مالک دونوں مل کر ہیں یہ میں نہیں بتا سکتا کہ کس قدر الوہیت اور کتنی انسانیت اس میں شراکت رکھتی ہے لیکن یہ معلوم ہے کہ دونوں شریک ہیں یہ کچھ تعجب کی بات نہیں تم خود اپنے وجود پر نگاہ کرکے دیکھو کہ یہ جسم اور روح سے مرکب ہے جو کہ ایک دوسرے کا مخالف اور ضد میں ہے جب تم بولتے ہو یا لکھتے ہو تب دونوں شریک ہوا کرتی ہیں لیکن تم یہ نہیں بتا سکو گے کہ ان فعلوں میں روح کی شراکت کس قدر ہے اور جسم کی کس قدر یہ ہم جانتے ہیں کہ مسیح میں الوہیت اور انسانیت دونوں موجود تھیں انجیل کی یہ گواہی ہے اور یہ ان معجزوں سے بھی ثابت ہوتا ہے جو مسیح نے کر دکھائے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مسیح کے کاموں میں اس کی دونوں ذاتیں شریک ہوئیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کسی خاص کام میں کس قدر اور کس نہج (طور)پر دونوں ذاتیں شریک ہوئیں یہ ہم جانتے ہیں کہ اس کی الوہیت انسانیت نہیں بنی اور نہ اس کی انسانیت الوہیت بن گئے دونوں مل کر اور کبھی الگ الگ اپنا کام دیتی رہیں یہ بعینہ ایسا ہے کہ انسان کے بعض کاموں میں فقط بدن کارگر ہے اور بعض میں روح اور بعض میں دونوں مل کر کام دیتی ہیں لیکن کب اور کس طور پر دونوں ملتی ہیں اور کب الگ ہوتی ہیں یہ ہماری دریافت سے باہر ہے بائبل کی تعلیم اتنا ہی بتا رہی ہے کہ کل خلقت کی حکومت اور انتظام خدا نے اسی شخص کے ہاتھ میں سپرد کیا ہے جس میں الوہیت کا کمال بستا ہے اور جس میں انسانیت بھی ہے اور جس اس حلیمی اور محبت اور برداشت سے معمور ہے جو مسیح نے اس دنیا میں ظاہر کیا وہ یہ مطلق اور عام حکومت خداوند کو نجات دہندہ کی حیثیت پر سپرد ہوئی جو سب پر حاکم ہے وہ کلیسیا کا بھی سر ہے اور یہ کلیسیا کی خاطر ہے کہ وہ سب موجودات کا حاکم بنایا گیا تاکہ نجات کا کام پورا ہو خدا کے برگزیدہ اکٹھے کئے جائیں اور جماعت میں داخل ہو کر روحانی پرورش پائیں اور آخر کو خدا کے سامنے بے عیب اور بے داغ پیش کئے جائیں جب یہ خاص کام پورا ہو جائے تب خداوند مطلق اور عام حکومت پہلے الگ ہو کر اور اس کو خدا کے ہاتھ میں سپرد کر کے آپ فقظ کلیسیا کے اوپر ابد تک بادشاہی کرے گا۔

Leave a Comment