وہ ناصری جس نے ایسا بڑا دعویٰ کیا کہ ’’ راہ اور حق اور زندگی میں ہوں ‘‘ وہی ہے جو اسرائیل کا مخلصی و نجات دینے والا خُداوند ہے۔ اور اسی کے نام کی منادی یہ گلیلی لوگ کرتے ہیں۔ باقی پڑھیں
جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھیں گے ۔ اور ایسے بڑے نشان اور کرامتیں دکھائیں گے ۔ کہ اگر ہو سکتا تو برگزیدوں (خُدا کے چُنے ہوئے)کو بھی گمراہ (بہکا ہوا۔بے دين)کرتے ۔ ہم آج کل اپنے ہی ملک میں کیسا صاف دیکھ رہے ہیں۔ کہ کوئی مہدی اپنے کو ظاہر کرتا ۔ تو کوئی اپنے کو مثیل مسیح ٹھہراتا ہے۔ باقی پڑھیں
وُہ ( خُدا ) چاہتا ہے کہ سارے آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں ۔کيونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور اِنسان کے بیچ ميں درمیانی بھی ايک يعنی مسيح يسوع جو اِنسان ہے۔ باقی پڑھیں
اِنسان کی زندگی میں خاص تین حالتیں ہیں یا یوں کہو کہ اِنسان کے ایام ِزندگی تین بڑے حصوں میں منقسم (تقسيم) ہیں۔ بچپن ۔ جوانی ۔ بڑھا پا ۔ ان میں سےعمر کا پہلا حصّہ والدین کی نگرانی اور اُستادوں کی سپردگی میں گزرتا ہے ۔ اور نابالغ ہو نے کی صورت میں دوسروں کی مرضی اور خواہش کے موافق چلنا پڑتا ہے باقی عمر دو حصوں کا بہت کچھ دارو مدار(انحصار) اسی پر منحصر (متعلق۔وابستہ)ہے۔ باقی پڑھیں
ہم کو نجات کی ضرورت ہے اس واسطے کہ ہم بڑے خطر ے میں ہیں۔ بلکہ واجب الموت ۔ گناہ گار ہو کر غضبِ الہٰی کے سزاوار۔ انجیل ہم کو مسیح کے وسیلہ اس گناہ اور موت سے چھٹکارا کی خبردیتی ہے ۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ ’’ آیا ہے کہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈھے اور بچائے ‘‘۔ ہم کو بہت چیزوں کی ضرورت ہے مگر ہماری اشد ضرورت نجات ہے ۔ بھوکے کی اشد ضرورت روٹی ۔ پیاسے کی پانی ۔ ڈوبتے ہوئے کی نکالا جانا ۔ گنہگار غضب ِالہٰی کے سزا وار کی اشد ضرورت نجات ہے۔ باقی پڑھیں
ہم کو آدگر نتھ سے معلوم ہوتا ہے کہ نانک صاحب ایک دانا(عقلمند) اور خُد ا پرست شخص تھے۔ انہوں نے سادھوؤں اور گرؤوں کے بہت سے بھیکہہ پہنے اور سچائی کی تلاش میں بحالت تشنگی و گرسنگی(پياس و بھوک) صحرانورد(جنگلوں ميں رہنا)ر ہے۔ اور آخر کوست گرو ہری ابن اللہ سے آگاہ ہو ئے اور بدل و جان اس کی پرستش شروع کی۔ باقی پڑھیں
اب وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں ۔ کہ اگر مسیح خُدا ہے۔ تو اس کو ایسی کیا غرض اور ضرورت تھی ۔ کہ وہ اوروں کے بدلے دنيا میں آ کر دُکھ اُٹھائے ۔ اور صلیبی موت کو اختیار کرے ۔ گم شدہ اِنسان کی قریب الہلاکت حالت پر ۔ اور خُداوند کی محبت اور اس کے رحم و کرم پر کچھ غور و فکر کریں۔ تو معلوم ہو گا کہ مسیح کا مجسم ہو کر دُنیا میں آنا ۔ باقی پڑھیں
یہ جواب افسس شہر کے ان شاگردوں نے پولوس رُسول کو دیا تھا۔ جب کہ وہ اُوپر کے اطراف ملک میں انجیل سُنا کر افسس میں پہنچا ۔ اور اس نے پوچھا۔ کیا تم نے جب ایمان لائے رُوح القدس پايا ؟ اگرچہ یہ لوگ کمزور ۔ اور بغیر رُوح القدس پائے ہو ئے عیسائی تھے۔ تو بھی شاگرد کہلائے کیونکہ وہ مسیح خُداوند پر ایمان رکھتے تھے۔ باقی پڑھیں
گملی ايل اس وقت تک نہ جانتا تھا ۔ کہ وہ ناصری جس نے ایسا بڑا دعویٰ کیا کہ ’’ راہ حق اور زندگی میں ہو ں ‘‘ وہ ہی ہے جو اسرائیل کا مخلصی و نجات دینے والا خُدا وند ہے۔ اور اسی کےنام کی منادی یہ گلیلی لوگ کرتے ہیں ۔ جو قوم کے نزدیک واجب القتل (قتل کرنے کے قابل)ٹھہرے ہیں۔ مسیحیت کو وہ ’’ تدبیر یا کام ‘‘ سمجھا ہوا تھا۔ جو خواہ اِنسان یا خُدا کی طرف سے ہو ۔ باقی پڑھیں
’’ یہ سب دیکھو ‘‘ ۔ یعنی مسیح کے آنے کی علامتیں ۔ منجملہ جن کے یہ کہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھیں گے۔ اور ایسے بڑے نشان اور کر امتیں (انوکھا پن)دکھائیں گے۔ کہ اگر ہو سکتا تو برگزیدوں (خُدا کے چُنے ہوئے)کو بھی گمراہ کرتے ‘‘۔ ہم آج کل اپنے ہی ملک میں کیسا صاف دیکھ رہے ہیں۔ کہ کوئی مہدی اپنے کو ظاہر کرتا ۔ تو کوئی اپنے کو مثيلِ مسیح ٹھہراتا ہے۔ باقی پڑھیں