’’ہوشیار انسان بلا کو پیش بینی (دُور اندیشی)سے دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو چُھپاتا ہے پر نادان لوگ گزرتے ہیں اور سزا پاتے ہیں‘‘ (امثال ۲۲: ۳)۔
اِس قول سے ظاہر ہے کہ دشمن کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر لینا انسان کے بچاؤکے لئے ایک امر لابدی(لازمی) اور ضروری ہے یہی حال ہم جنگ گاہوں میں دیکھتے ہیں ۔جب تک دشمن کی فوج اور اُس کی طاقت کا پہلے سے اندازہ نہ کیا جائے تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ فتح حاصل ہو برعکس اس کے جب اس قسم کی پیش بینی میں کوتاہی ہوتی ہے تو ہزارہا طرح کی سخت دقتیں (پریشانی)پیش آتی ہیں بلکہ ناکامی پلے پڑتی ہے ۔اسی طرح سے جو شخص کسی بلا کو آتے دیکھ کر پیش بینی سے اُس کا علاج نہ کرے تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ اپنے بچاؤ کی راہ نکالے ۔برعکس اس کے جو پیش بینی کو عمل میں لاتا ہے وہ اُس بلا میں پھنسنے سے بچ جاتا ہے ۔اس قسم کی پیش بینیاں(پیش گوئی) ہر فرد ِبشر کے لئے نہایت ہی ضروری ہیں عام اس سے کہ وہ پیش بینیاں اس زندگی کے معاملات سے تعلق رکھتی ہوں یا آئندہ زندگی سے ہمارے روز مرّہ کے کام کاج ۔ہمارے اخلاقی چال چلن اور ہماری دینی اُمیدوں کے وسیع میدانِ جنگ میں ہزار ہا طرح کی بلائیں ہمارے برخلاف صف آرا (لڑائی کے لئے تیار کھڑے ہونا) ہیں اور اگر اُن سے بچنے کی خاطر از روئے پیش بینی انتظام کیا جائے۔ تو ہم کو اُس ہی میدان میں پناہ گاہوں کے ٹھکانے نظر آئیں گے
اوّل۔ہماری زندگی کے روزمرہ کے دنیوی کام کاج میں خواہ وہ زمینداری ،تجارت پیشہ یا نوکری چاکری ہوہم تجربے سے جانتے ہیں کہ بہت سی آفتیں ،دقتیں ،بلائیں ہمیں پیش آتی ہیں ۔مگر ہم حتیٰ المقدور(جہاں تک ہو سکے)پیش بینی کو کام میں لا کر اُن کا مقابلہ کرتے اور بچاؤ کی صورت نکالتے اور پناہ کے انتظام کرتے ہیں ۔مگر پھر بھی ایسے کم عقل کوتاہ اندیش(کم عقل) اشخاص پائے جاتے ہیں ۔جو بلا سوچے سمجھے کسی نہ کسی اُلجھاؤ میں گرفتار ہوتے اور اُس کا نتیجہ بد(بُرا) اُٹھاتے ہیں ۔
دوئم۔ہم اپنی زندگی کے اخلاقی میدان میں بھی دُشمنوں اور بلاؤں سے گھرے ہوئے ہیں ۔ایسی بلائیں کہ جن کو وہ لوگ جو حقیقت میں دانا ہیں بڑی گہری نظر سے دیکھتے اور جن سے بچنے کے لئے وہ اپنے آپ کو چھپاتے اور پناہ لیتے ہیں ۔مثلاً ہر ایک بُری عادت ،شراب خوری، بُرے اور دغاباز ساتھی۔دُنیا کی طرف لُبھانے والے نظارے وغیرہ وغیرہ ایسی بلائیں ہیں کہ جن کو اگر ہوشیاری اور پیش بینی سے دیکھا نہ جائے اور پناہ نہ لی جائے تو سخت گرد باد کی مانند ہر ایک شخص کو گھیر لیتی ہیں ۔اور بھوسے کی مانند اُڑا کر ضلالت(گمراہی) اور ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیتی ہیں ۔جہاں سے نکلنا نا ممکن ہوتا ہے ۔ہمارے مذکورہ بالا قول کے مطابق ایسی بلاؤں سے بچنے کی خاطر یہ عمدہ طریق بتلایا گیا ہےکہ ہم اپنے آپ کو ان سے چھپائیں۔
اب سوال لازم آتا ہے کہاں چھپائیں ۔وہ کون سی پناہ گاہ ہے کہ جہاں ہمارا دُشمن ہم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا دیکھو راقم زبور کیا لکھتا ہے۔’’خُداوند میری چٹان اور میرا گڑھ اور میرا چُھڑانے والا ہے ۔میرا خُدا، میری چٹان جس پر میرا بھروسہ ہے میری ڈھال اور میری نجات کا سینگ اور میرا اُونچا بُرج‘‘۔
سوم۔لیکن ان سب بلاؤں سے بڑھ کر وہ بلائیں ہیں جو گنہگار انسان پر آئندہ جہان میں آنے والی ہیں اور جن کو صرف ایمان کی آنکھ پیش بینی سے دیکھ سکتی ہے ۔بے تیاری لقمہ اجل(موت کا شکار ہونا) ہونا ۔بلا عذر عدالت کے تخت کے روبرو کھڑا ہونا گناہوں کی شامت کے مارے ہمیشہ کے لئے اندھیرے میں پھینکا جانا ۔یہ ایسی بلائیں ہیں کہ جن کے مقابلہ میں مذکورہ بالا بلائیں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں ۔لیکن اگرچہ یہ بلائیں عظیم بلائیں ہیں مگر تو بھی ہوشیار پیش بینی سے دیکھ سکتا ہے اور ایمان لانے والا اُن سے بچ سکتا ہے ۔پناہ گاہ موجود ہے ۔آج اس کا دروازہ کھلا ہے۔اگر ہوشیار آج داخل نہ ہو تو نادان پھر بند دروازہ پر بے فائدہ دستک دے گا۔دیکھو آج قبولیت کا وقت ہے دیکھو آج نجات کا دن ہے ۔لیکن افسوس ہے کہ مذکورہ بالا قول کا آخری حصّہ آج کل دُنیا پر نظر ڈالنے سے کس قدر ثابت ہوتا ہے۔’’نادان لوگ گزرتے ہیں اور سزا پاتے ہیں ‘‘۔