But if it is from God
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan December 10,1891
نور افشاں مطبوعہ ۱۰دسمبر ۱۸۹۱ ء
’’۔۔۔کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگرآدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہوجائے گا۔ لیکن اگر خُدا کی طرف سے ہے تو تُم اِن لوگوں کو مغلوب نہ کرسکو گے‘‘(اعمال ۳۸:۵۔۳۹)۔
گملی ايل فریسی ایک معزز معلم شریعت کی عمدہ و مصلحت آمیز صلاح (اچھا مشورہ۔مناسب تجويز) جو اس نے قومی خیر خواہی و ہمدرد ی کے جوش میں اپنے اکابر (اکبر کی جمع۔بڑے لوگوں)قوم کو دی ۔ آیاتِ مذکورہ بالا کی باتیں اٹھارہ سو برس سے کیسا صاف ثبوت دکھا رہی ہیں۔ اور موافق و مخالف (مطابق و بر عکس)طوعاً و کرہا(خواہ مخواہ) ان کی صداقت (سچائی)کے مقر (اقرار کرنے والے)ہیں ۔ جو لوگ علم ِتواریخ کے ماہر ہیں جانتے ہیں۔کہ رسولوں کے زمانہ سےآج تک اس تدبیر یا کام ( مسیحیت ) کو ضائع کرنے والے اور خُدا سے لڑنے والے کیسے کیسے زبردست لوگ دُنیا میں ہوئے اورا ب تک ہیں ۔ مگر فتح مند و کامیاب نہ ہوئے اور نہ ہوں گے۔
گملی ايل اس وقت تک نہ جانتا تھا ۔ کہ وہ ناصری جس نے ایسا بڑا دعویٰ کیا کہ ’’ راہ حق اور زندگی میں ہو ں ‘‘ وہ ہی ہے جو اسرائیل کا مخلصی و نجات دینے والا خُدا وند ہے۔ اور اسی کےنام کی منادی یہ گلیلی لوگ کرتے ہیں ۔ جو قوم کے نزدیک واجب القتل (قتل کرنے کے قابل)ٹھہرے ہیں۔ مسیحیت کو وہ ’’ تدبیر یا کام ‘‘ سمجھا ہوا تھا۔ جو خواہ اِنسان یا خُدا کی طرف سے ہو ۔ اس نے اس کا فیصلہ تجربہ پر چھوڑا ۔ اور اس وقت اپنی قوم کو رسولوں کے قتل کر ڈالنے سے باز رکھا ۔ اگرچہ اس وقت انہیں دھمکا کے اور کوڑے مار کے چھوڑ دیا۔ اور حکم محکم (مضبوط حُکم)دیا۔ کہ یسوع کے نام پر بات نہ کریں۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں یہودیوں کی آتشِ غضب (غصہ کی آگ)پھر مشتعل(بھڑکی) ہوئی ۔ اور ستفنس کو سنگسار (پتھر مار مار کر ہلاک کرنا) کر کے یروشلیم کی کلیسیاء پر جو ابتدائی حالت میں بہت قلیل(کم) اور کمزور تھی، بڑا ظلم کیا ، مسیحیوں کو ستایا ، قید اور قتل کیا،اور مسیحیت کے نیست و نابود(تباہ و برباد) کرنے کےلئے مقدور(طاقت) بھر زور مارا۔ مگر آخر کو تھک کر بیٹھ گئے ۔ اور اپنے دلوں میں قائل (تسليم کرنے والے)ہو ئے کہ ہم اس تدبیر یا کام ‘‘ کو ضائع نہیں کر سکتے ۔ رومی شہنشاہوں اور حکام نے مصمم (پکا)ارادہ کیا۔ کہ اس مسيح مخالفِ قیصر ۔ اور اس کے روز افزوں پیرؤں (پيچھے چلنے والوں)کو جو ہمارے دیوتاؤں کے آگے سر بجود(سر جھکانا) نہیں ہوتے ۔ صفحہ ہستی سے مٹا دیں، انہوں نے مسیحیوں کو مارا ، جلایا ، درندوں سے پھڑ وایا، اور بالآخر حیران ہو کے کہا کہ ’’ملک عیسائیوں سے بھر گیا ۔ کہاں سے اتنی تلواریں آئیں جو ان کو قتل کیا جائے ‘‘ یونانیوں نے اپنے علم و حکمت کے آگے مسیحیت کو حقیر (بے قدر۔چھوٹا)جانا ۔ اور اسے ٹھٹھوں (مذاق) میں اُڑایا ۔ مبشروں کو بکواسی اور بیوقوف سمجھا ۔ اور آخر کو مسیح مصلوب کے آگے سر جھکایا ۔ چھ سو برس بعد کُتبِ مقدسہ کی پیشین گوئیوں کے مطابق ملکِ عرب سے ایک دھواں دھار مخالفت نے سر اُٹھایا ٍ۔ ابتداً تو مسیح اور مسیحیوں کی بڑی تعریف و توصیف (خوبی)کا اظہار کیا۔ مسیح کو ر وح مُنہ اور کلمتہ اور آیتہ للعالمین وغیرہ اعلیٰ خطاب دئيے ۔ اور مسیحیوں کو اہلِ مود ّ ت(محبت کے لائق) ۔ یہودیوں سے زیادہ نرم دل ۔ مشرکوں (بُت پرستوں)کی دوستی پر بھروسا نہ رکھنے والے۔ عالم اور سچے ۔ عابد(عبادت کرنے والا) صومعہ نشین(راہب) ۔ تکبر (غرور)نہ کرنے والے ۔ حق کو ماننے والے وغیرہ بتایا ۔ اور پھر دوست نما دشمن بن کر ان کی اور ان کے دین کی بیخ کنی (نيست و نابود کر دينا)کی ۔ خلیفہ ثانی نے تو غضب(عذاب)ہی ڈھایا۔ بے شمار مسیحی مردوں اور عورتوں کو تہ تیغ(تلوار سے قتل کرنا) بے دریغ کیا ہزار ہا گرجا مسمار (گرا دينا)کر ڈالے ۔ اور بیش قیمت کُتب خانوں کو جلا کر راکھ کر دیا ۔ یہ طوفان ِ بے تمیزی اس وقت سے شروع ہو کر آج تک مسیحیت کی بربادی و بیخ کنی پر ہر وقت امڈا (تيار)رہتا۔ اور فی زمانہ اس کی ساتھ تلخ عداوت(سخت دُشمنی) و مخالفت میں غیر اقوام خواہ موحد(پکا مسلمان) ہوں۔ یابُت پرست و ملحد(کافر)ہوں سب ایک ہو جاتے ۔ اور متفق(اکٹھے) ہو کر حملہ کرتے ہیں۔ لیکن مٹرکے چھرے جبرا لٹر کے قلعہ کی مستحکم و مضبوط دیواروں پر کیا اثر پہنچا سکتے ہیں۔ باوجود ان سخت مخالفتوں اور مجنونانہ حملوں کے۔ مسیحیت کی روز افزوں (روزانہ)ترقی ۔ ملک ِ ہند اور دیگر ممالک میں دیکھ کر ہمیں گملی ايل کی داناصلاح(دانشمند مشورہ) کی باتیں اس وقت یاد آتی ہیں۔ اور تجربہ ہمیں سکھا اور بتا رہا ہے کہ ’’ اگر یہ تدبیر یا کام اِنسان سے ہوتا تو کبھی کا ضائع ہو جاتا ۔ مگر چونکہ یہ خُدا سے ہے ۔ کوئی اِنسا نی مخالف کوشش اور جدوجہد اس کو ضائع نہ کر سکی۔ اور نہ کر سکے گی ۔ اور جو لوگ اس کی مخالفت میں کوشاں(کوشش ميں) ہیں خُد اسے لڑتے ہیں جس کا نتیجہ انہیں کی شکست فاش (ہرانا)ظہور(ظاہر ہونا) میں آئے گا۔