خَراب دُنيَا

Eastern View of Jerusalem

Bad World

By

Jameel Singh

جمیل سنگھ

Published in Nur-i-Afshan Apr 6, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۶ اپریل ۱۸۹۴ ء

خُداوند کا بندہ پُولس اہلِ گلتيہ کو خط لکھتے وقت اُس خط کے دیباچہ (تمہيد)ميں ہمارے مضمون کے عنوان کے الفاظ لکھتا ہے ديکھو (گلتيوں ۱: ۵)  اگر ناظرین ذرا سا بھی اِس پر غوروفکر کريں تو يہ بات نہايت ہی سچ اور درست معلوم ہوگی۔اور کسی کو بھی اِس ميں کلام نہ ہوگا

يہ بات صريح(صاف ) ظاہر ہے کہ جس قدر کاريگر زيادہ دانا اور عقلمند ہوتا ہے ۔اُسی قدراُس کی کاريگری بھی عمدہ اور مضبوط ہوتی ہے ۔اور صنعت اپنے صانع (بنانے والا)کی قدر اورعظمت ظاہر و آشکار کرتی ہے جتنی صنعتيں ہمارے ديکھنے ميں آتی ہيں دو طرح کی ہيں ۔اوّل قدرتی ۔دوم مصنوعی ۔

يہ دُنيا کہ جس پر ہم آباد ہيں اِن دو قسم کی کاريگريوں سے آراستہ اور پيراستہ(سجی اور سنواری) ہے قدرتی یعنی آسمان وزمين سورج اور چاند دريا ۔سمندر۔حيوانات اور انسان يہ سب قدرتی ہيں اور صنعتی جيسا کہ مکانات ۔کنوئیں۔سڑکیں۔پُل۔اور تمام سامان جو انسانوں کے لئے کار آمد ہے اور پھر اُن کی تقسيم يوں بھی ہے ۔اوّل وہ چیزیں جو آسمانی ہيں اوردوئم وہ چيزيں جو زمينی ہيں قدرتی چيزوں کا خالق خُدا ہے ۔اور مصنوعی چيزوں کا بنانے والا خاکی کوتاہ انديش ۔اور پُر از سہووخطا(غلطی و خطا)آدمی ہے ۔خالقِ عالم نے اپنی بے حد حکمت اور دانائی سے کوئی شے خراب نہيں بنائی۔کيونکہ اُس کے کسی کام ميں نقص پايا نہيں جا سکتا۔اور جو خراب اور ناقص شے ہے اُس کو خالق کا بنايا ہوا تصور کرنا آدمی جيسے ذی عقل (عقلمند)مخلوق کے لئے بعداز عقل(سمجھ سے باہر) ہے۔خالقِ مطلق نے پيدائش کے وقت جب سب کچھ نيست سے ہست(موت سے زندگی) کيا آپ کہا کہ ’’سب بہت اچھا ہے‘‘تو کيونکر ہوا کہ يہ دُنيا جو خالق نے اچھی بنائی تھی اب خراب ہو گئی؟اِس کا جاننا آدمی کے لئے ضرور ہے۔

اگر کوئی عام اِنسان دُنيا کو خراب کہے۔ تو اُس کی بات دفعتاً يقين کے لائق نہي

اگر کوئی عام اِنسان دُنيا کو خراب کہے۔ تو اُس کی بات دفعتاً يقين کے لائق نہيں ہو سکتی۔ليکن جبکہ کلامِ مقدس بائبل ميں خالق اپنے بندے کی معرفت اِس امر کا اظہار کرے۔تو يہ بات ضرور قابلِ تسليم ہےنہ رُسول دُنيا کو خراب کہتا ہے ۔تو آسما نی چيزيں اس سے مراد نہيں نہ اگر کوئی کہے کہ عزاريل فرشتہ بھی تو آسمانی مکانوں کا ساکن تھا۔اور وہاں بھی خرابی ہوئی۔ تو اُس کا جواب یہ ہے کہ شیطان نے جونہی مغروری اور سر کشی کی وہ وہيں آسمان سے گرايا گيا۔کيونکہ کوئی ناپاک چيز وہاں ٹھہر نہيں سکتی۔اِس لئے وہ وہاں نہ رہ سکا پر زمين پر گرايا گيا۔جب کہ دُنيا ايک ايسے بڑے دانا اور عظيم الشان خُدا سے بنائی گئی۔پھر وہ کيو نکر خراب ہو گئی؟اِس کا ذکر توريت ميں صاف صاف بيان ہوا ہے۔اِس کی پہلی خرابی کا سبب انسان کی پہلی حُکم عدولی ہوئی تھی۔جو پہلے انسان یعنی  بابا آدم نے باغِ عدن ميں کی۔جس سبب سے وہ وہاں سے نکالا گيا۔اور قسم قسم کی خرابی اپنے اور اپنی اولاد پر لايا۔جس کے سبب سے فرمانِ الہیٰ جاری ہوا۔’’زمين تيرے سبب سے لعنتی ہوئی‘‘(پيدائش ۳: ۱۷) ۔اب اس سے صاف مترشح(ٹپکنا) ہوتا ہے۔کہ دُنيا کی خرابی کا سبب آدم کا گناہ ہے۔اور پھر تمام دُنيا کے آدم زاد کے بے شمار گناہ ہيں جو اُس وقت سے اب تک ہوئے اور ہوتے جاتے ہيں۔

گناہ کا اثر مثل زہر قاتل کے انسان کے دل پر ہوا ہے۔اور دِل کے ناپاک اور نجس (گندہ)ہونے سے انسان کے تمام کام خالق کی نظر ميں بطالت(نکما پن) کے ہيں۔اور نہايت نفرتی اور ناکارہ ہيں۔اگر کوئی صاحب عقل و فہم سچائی سے اپنے دل کا حال لکھے۔تو وہ ضرور اُس مضمون کا عنوان’’ميرا بُرا دل‘‘رکھے گا۔واعظ نے سچ لکھا ہے ’’بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھراہے۔اور جب تک وہ جیتے ہيں حماقت(بے وقوفی) ان کے دل ميں رہتی ہے۔اور بعد اس کے مُردوں ميں شامل ہوتے ہيں‘‘(واعظ ۹: ۳)۔يہ دُنيا امورات ذيل کے سبب سے خراب ہے۔

پہلا امر۔کہ شیطان کی جائے سکونت ہو گئی ہے۔جس نے آدم اور ہوا کو نيکی اور مبارک حالت سے گِرا کر قہر الہٰی(خُداکا غصب)اور سزا و عتاب(غصہ) کا مستحق بنايا۔اور نہ صرف اُن کی بربادی کا سبب ٹھہرا ۔بلکہ تمام آدم زاد کی ۔اور اس پر اکتفا(گذارہ) نہ کر کے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔کہ کسی کو غافل(لاپرواہ) پائے۔اور پھاڑے اور خُدا کی فرمانبرداری سے منحرف(انکار )کر کے اپنے موافق ملعون (لعنتی)بنا ئے۔

دوسرا امر۔بُرے آدميوں سے بھر گئی ہے۔جو بھلوں کو ہر طرح سے تکليف ديتے۔اور ہر قسم کا گناہ کرتے۔اور دوسروں کو بُرائی کی ترغیب دیتےاور شیطان کے مدد گار بن کر خُدا کے دُشمن ہيں۔اس سے ايمانداروں کو آزمائش کا بڑا خطرہ ہے۔

تيسرا امر۔کہ گناہ کی شدت اور اُس کی بُرائيوں کےسبب سے يہ دُنيا خراب ہو گئی ہے۔گناہ انسان کی طبیعت اور خصلت(فطرت) ميں آگيا ہے۔اور اس سبب سے کوئی بشر دُنيا ميں پيدا ہو کر گناہ سے خالی نہيں رہ سکتا۔

چوتھا امر۔گناہ کے نتيجے جو گناہ يا نافرمانی کے سبب نکلے ہيں۔ مثلاً دُکھ۔بيماری۔ رنج وفکر۔اور محنت اور مشقت اور موت وغيرہ۔

ليکن شُکر کا مقام ہے۔ کہ اِس خراب دُنيا سے چھڑانے والا جس کا نام اسمِ بامسمٰی(وہ شخص جس کا نام اُس کی خُوبياں بيان کرے) ہے۔یعنی نجات دينے والاربّنا يسوع مسیح اِس دُنيا ميں آيا۔اور اب اُس کی بشارت عام دی جاتی۔اور جو چاہے مفت ميں نجات حاصل کرے۔

Leave a Comment