رات کو جب ہم سوتے تھے

Eastern View of Jerusalem

At Night When We Used to Sleep?

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Nov 23, 1894

نور افشاں مطبوعہ۲۳نومبر ۱۸۹۴ ء

تم کہو۔ کہ رات کو جب ہم سوتے تھے اُس کے شاگرد آکر اُسے چُر ا لے گئے۔

متی ۲۸۔ ۱۳۔

رومی سپاہی بطمع زر(پيسے کا لالچ)۔ اور وعدہ حفاظت  از سیاست اس دروغ(جُھوٹ) بے فروغ کو ۔ جو اُن کی۔ اور اُن کے سکھلانے والوں کی حماقت  (بےوقوفی)محض کو ظاہر کرتا تھا۔ عوام میں مشہور کرنے پر رضا  مند ہو گئے ۔ لیکن چونکہ کوئی زمانہ دانا اور عقل  مند انسانوں سے خالی نہیں ہوتا ۔ اور جیسا کہ فی زمانہ ہم لوگ ان سوئے ہوئے گواہوں کی گواہی  کو ہر ایک پہلو  سے جانچ  سکتے ہیں۔ ویسا ہی اُس زمانہ کے لوگو ں نے بھی اس پر بخوبی غور کر کے اس کے تصنع(بناوٹ،جُھوٹ) کو ضر ور دریافت کر لیا ہو گا ۔ ’’  جب ہم سوتے تھے اُس کے شاگر د آکر اُ سے چُر ا لے گئے ‘‘ سوئے ہوؤں نے کیونکر جانا۔ کہ مسیح  کے شاگرد یا اور لوگ اُس کی لاش کو نکال لے گئے؟ اور بفرض محال شاگرد  ہی لے گئے۔ تو انہوں نے لاش کو کیا کیا؟ لاش کو لے جا کروہ دو ہی  کام کر سکتے تھے یا تو اُس کو کسی دوسری جگہ میں دفن کرتے ۔ یا مصریوں کی طرح امبام ( لاش میں مسالا بھرنا) کر کے کہیں نہ کہیں  رکھتے مگر ان ہر دو صورتوں سے نہ صرف اُن کا کچھ مطلب نہ نکل سکتا بلکہ خلاف ِمطلب ظہور میں آتا۔

پس اس گواہی کو لغو (فضول)اور بے بنیاد سمجھ کر مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے مخالف اہلِ خیال نے یہ قیاس بھی پیش کیا ہے۔ کہ مسیح حقیقت  میں بالکل مر نہیں گیا تھا۔بلکہ وہ صرف ایک حالت ِغشی میں۔ بوجھ تکلیف اور خون بہہ جانے کے پڑگیا تھا اور تھوڑے عرصہ میں غالباً اُن خوشبوؤں تازہ کُن دماغ کے اثر سے ۔ جن سے اُس کے معتقد  ین (پيروکار)مثل نيکديمس  وغیرہ نے اُس کے لاش کو حنوط کیا (چند خوشبودار چيزوں کا  ايک مرکب  جو مُردے کو غسل دينے کے بعد اُس پر ملتے ہيں) تھا۔ اور بہ افراط قبر میں رکھ دیا تھا۔ وہ پہر بحال اور تازہ دم ہو گیا ۔ اور قبر سے نکل کر چلا گیا ۔ اس پر الگزینڈر میئر ڈی ڈی لکھتے  ہیں کہ ’’  اگر اس خیال کو بفرض محال(نا ممکن کو فرض کرنا) تسلیم بھی کر لیا جائے تو اُس کی پسلی کے زخم ِ کاری (گہرا زخم)کی نسبت جس سے لہو اور پانی بہتا تھا کیا تصور کریں؟ پہر اُس حقیقت کی نسبت ۔ کہ رومی سپاہیوں نے ۔ جنہیں  ایسے معاملات  میں تجربہ حاصل تھا اُس کو مُردہ معلوم کیا۔ اور اُن یہودیوں کے عمل کی نسبت جو اُس کو مُردہ جان کر اُس کے دفن کر نے میں شریک تھے کیا خیال کریں اور عہد جدید کے اُن بیانات کو جن میں ہر کہیں اُس کی موت کو ایک یقینی اور واقعی  ماجرا بیان کیا ہے کیا سمجھیں ؟ کیا جی اُٹھنے کے بعد وہ ایک مطلق(بالکل)  گمنامی  اور تاریکی کی حالت میں زندگی بسر کرتا رہا ۔ اور اپنے شاگردوں کو ایک دروغ عظیم (بڑا جُھوٹ)کی منادی کرنے۔ اور ایسے  ایک سفید  جھوٹ کے لئے جان تک دے دینے  کی نصیحت کر گیا ؟ کون دانا اور عقل مند شخص  ایسی باتوں کو ذرا بھی معتبر  (درست۔اعتبار کيا گيا)اور قابلِ  یقین  تصور کر سکتا ہے ؟

اسٹراؤس  ۔ جو مسیحی  مذہب کا بڑا  مخالف ۔ اور مسیحیت  کے مخالف مشہور مصنف ہوا ہے۔ یوں لکھتا ہے۔ کہ  یہ غیر ممکن  ہے۔ کہ ایک شخص  جو ادہ مُوا  قبر میں سے  چھپ کے نکلا ہو ۔ جو کن زور اور ماندہ(تھکا ہوا) ۔ اور طبی  معالجہ  کا محتاج ہو۔ جس کو مرہم پٹی کی ضرورت  ہو۔ اور جو طاقت  پانے اور بیمار داری کی احتیاج(حاجت۔ضرورت)  رکھتا ہو۔ اور جو بالا ٓخر  اپنی اذیتوں کا مغلوب(عاجز۔دبا ہوا) ہو گیا ہو۔ وہ اپنے شاگردوں کے دل پر یہ  نقش  کر سکے ۔ کہ میں زندگی کا سلطان ۔ موت اور قبر پر فتح  مند ہوں۔ اور یہ وہ نقش تھا جو اُن  کی آیندہ  خدمت  کی بنیاد تھا۔ ایسی عارضی تازگی  اُس نقش کو ۔ جو یسوع نے بحالت  زندگی بوجہہ احسن  اُن کے دل پر کر دیا تھا صرف کمزور کر سکتی تھی ۔ لیکن ممکن نہ تھا ۔ کہ اُن کے غم کو خوشی  و سرگرمی سے ۔ اور اُن  کی تعظیم کو عبادت  سے بدل سکتی ۔

پس رومی سپاہیوں کا یہ بیان ’’ کہ رات کو جب ہم سوتے تھے اُس کے شاگرد آکر اُسے چُرا لے گئے ‘‘۔ اور خوش فہم مخالفوں کا یہ قیاس (اندازہ) کہ مسیح در حقیقت  موُا نہیں تھا ۔ اور خوشبوؤں کی تاثیر سے بحال ہو کر قبر سے نکل کر چلا گیا کامل تحقیقات کے روبر و بالکل  ہيچ(کم)اور پوچ (حقير)ٹھہرتے ہیں۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ’’ مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ۔ اور اُن میں جو سو گئے ہیں پہلا پہل ہوا ۔

Leave a Comment