As The Rain Come Down from Heaven
By
G.L.Thakur Dass
علامہ جی ایل ٹھاکرداس
Published in Nur-i-Afshan Feb 23,1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۳فروری ۱۸۹۴ ء
کيونکہ جس طرح آسمان سے بارش ہوتی اور برف پڑتی ہے۔ اور پھر وہ وہاںواپس نہیں جاتی بلکہ زمین کو سيراب کرتی ہے۔ اور اس کی شادابی اور روئیدگی کا باعث ہوتی ہے تا کہ بونے والے کو بیج اور کھانے والے کو روٹی دے۔ اُسی طرح میرا کلام جو میرے منہ سے نکلتا ہے ہوگا۔ وہ بے انجام ميرے پاس واپس نہ آئے گا ۔ بلکہ جو کچھ میری خواہش ہو گی وہ اسے پورا کرے گا۔ اور اس کام میں جس کے لئے میں نے اُسے بھیجا موثر ہو گا۔ یسعیاہ ۵۵۔ ۱۰، ۱۱ ۔
جب اس بات پر خیال کیا جاتا ہے۔ کہ قریب ایک سو برس سے اس ملک میں مسیحی مذہب کی اشاعت ہو رہی ہے۔ اور سینکڑوں ولايتی مشنری ۔ اور ان کے ہزاروں دیسی مسیحی مددگار صدہا مختلف طریقوں سے انجیلی تعلیم لوگوں میں پھیلانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ اور کروڑوں روپیہ اس کام کے لئے خرچ ہو چکا ہے۔ تاہم اس کے بالمقابل اس ملک کے بہت تھوڑے لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا ہے۔ تو ایک انسانی معمولی دل یاس (نااُميدی) سے بھر جاتا ۔ اور پست ہمتی سے مغلوب(شکست خوردہ) ہو جاتا ۔ اور سمجھتا ہے کہ نہ معلوم کس قدر عرصہ دراز ۔ اور دولت کثیر ہندوستان کو مسیحی ملک بنانے ۔ اور قوموں کو مسیح کے زیر ِسایہ لانے میں درکار ہے۔ ایسے خیال والے شخصوں کو یسعیاہ کی اس نبوت کے۔ جو اس نے مسیح کے مبارک زمانہ کی نسبت تھی۔ کہ جس طرح پانی سے سمندر بھرا ہوا ہے۔ اسی طرح زمین خُداوند کے عرفان (معرفت۔پہچان)سے معمور ہو گی ۔ تکمیل کو پہنچنے میں بے قیاس(بے شمار) تو قف(دير۔وقفہ) اور لامحدود عرصہ معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن وہ مسیحی جو کلامِ اللہ کے ان بکثرت وعدوں پر ۔ جو مسیحی سلطنت کے تمام دُنیا میں قائم ہو جانے ۔ اور صلح و سلامتی زمین پر پھیل جانے کی نسبت مرقوم (لکھا ہوا)ہیں۔ اعتقاد کامل(مکمل يقين) رکھتا ہے ۔ ان کی بروقت تکمیل کے بارہ میں۔ عرصہ کی درازی ۔ اور کامیابی کی کمی کے باعث کبھی مایوس و متشکی (شکايت کرنے والا)نہیں ہوتا ۔ اور بے یقین تمام جانتا ہے۔ کہ بلاریب وہ دن آئے گا ۔ جب کہ ہر ایک گھٹنا اس کے سامنے جھکے گا۔ اور ہر ایک زبان اقرار کرے گی کہ یسوع مسیح خُداوند ہے۔
غیراقوام کے لوگ جب دیکھتے ہیں۔ کہ مسیحی مشنریوں کی حد درجہ کی کوششوں اور کمال جانفشانیوں کے مقابلہ میں ان کے کام کا پھل بہت تھوڑا نظر آتا ہے۔ تو خیال کرتے ہیں ۔ کہ شاید یہ لوگ بالآخر تھک کر اس کام سے کنارہ کش ہو جائیں گے۔ اور مسیحیت کو ہندوستان میں کبھی ترقی و غلبہ حاصل نہ ہو گا۔ اور یوں وہ اپنے دلوں کو مطمئن و مسرور کرتے ہیں ۔ مگر نہیں جانتے کہ یہ صیلب کے سپاہی فتح کا کامل یقین رکھتےہوئے میدان کارزار سے کبھی نہ ٹلیں گے۔ اور مخالفتوں اور مشکلات کے باعث پسپا(شکست کھايا ہوا) ہونے کے بجائے وہ ہمیشہ آگے بڑھیں گے ۔ تاوقتیکہ یہ ظہور میں آجائے۔ کہ تمام ہندوستان مسیح کی زیر ِفرمان ہو گیا ہے۔
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس ملک میں مسیح کی بادشاہت پھیلانے کے لئے جس قدر محنت وز ر(پيسہ)صر ف ہو رہا ہے۔ کچھ بھی ضائع نہ ہونے پائے گا۔ جیسا کہ ہم کو نیو یارک ( امریکہ ) کے ایک کارخانہ کی کیفیت تعلیم دے رہی ہے۔ کہ اس عظیم الشان شہر میں Waltham Watch Company کا ایک کارخانہ تھا۔ جس میں گھڑیوں کے ڈھکنے بنائے جاتے تھے۔ اس کارخانہ کی عمارت سہ منزلہ (تین منزلہ)تھی۔ اور زمین پر تختے بطور فرش جڑے ہوئے تھے۔ برسوں تک کارخانہ مذکورہ میں ڈیڑھ ہزار ڈالر سے لے کر تین ہزار ڈالر تک کا سونا روزانہ گلایا جاتا اور کام میں لایا جاتا تھا۔ چند مہینے گذر ےکا ر خانہ دوسری عمارت میں منتقل کیا گیا ۔ اور پہلی عمارت کے وہ تختے جو فرش میں جڑے ہوئے تھے۔ بڑی حفاظت سے نکالے گئے۔ ان تختوں کو جلا کر خاکستر کرنے ۔ اور ازروئے حکمت خاک کو صاف کرنے سے کمپنی مذکور کو خاک سے ۶۷۰۰۰ ڈالر کا سونا دستیاب ہوا۔ سونے کے ذرے جو وقتا ً فوفتاً تختوں پر گرے ضائع نہ ہوئے۔ بلکہ سب مجتمع (جمع) ہو کر ایک رقم کثیربن گئی۔ اسی طرح جو زور وزراس ملک میں خدا کا کام و کلام پھیلانے کے لئے صرف ہو رہا ہے۔ اگرچہ وہ ذرہ ذرہ منتشر (بکھرنے والے)رہے۔ لیکن بالا ٓخر مجموعی طور پر صاف ظاہر ہو جائے گا۔ ہم اُمید رکھتے اور يقين کرتے ہيں کہ وہ دن جلد آئے گا۔جبکہ ہندوستان میں کسی غیر ملکی مشن کی ضرورت نہ رہے گی۔ لیکن اگر ضرورت ہو گی ۔ تو ہندوستان کے مسیحی دیگر بُت پرست ملکوں میں اپنے مشنریوں کو بھیجیں گے۔