اُٹھ اَے خُداوند

Eastern View of Jerusalem

Arise , O Lord,

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Noor-e-Afshan 22nd March 1895

نور افشاں مطبوعہ ۲۲ مارچ ۱۸۹۵ء

اُٹھ اَے خُداوند !

 اُس کا سامنا کر ۔اُسے پٹک دے ۔اپنی تلوار  سے میری جان کو شریر سے بچا لے ۔اپنے ہاتھ سے اَے خُداوند !مجھے لوگوں سے بچایعنی دُنیا کے لوگوں سے جِن کا بخرہ اِسی زندگی میں ہے  اور جن  کا پیٹ اپنے ذخیرہ سےبھرتاہے۔ اُن کی اَولاد بھی  حسبِ مراد  ہے ۔ وہ اپنا مال اپنے بچوں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں ۔پر میں تو صداقت میں تیرا دیدار حاصل کروں گا ۔میں جب جاگوں گا تو تیری شباہت سے سیر ہوں گا (زبور  ۱۷ : ۱۳ ۔۱۵)۔

 مندرجہ بالا باتیں داؤد کی دُعا میں سے چند فقرے ہیں ۔اس دُنیا کی مسافرت(سفر۔ پردیس) میں دو قسم کے لوگ ہم سفر ہیں اور ظاہرہ صورت میں دونوں پر یکساں واقعات گزرتے ہیں لیکن دونوں کی جائے مقصود(منزل) ایک نہیں ۔ایک کی منزل آخر میں آسمانی ، روحانی اور جاودانی(ازلی۔ ہمیشہ کے لئے) جائے   آرام(آرام کی جگہ ) ہے  جس کی خوشیوں کا پورا اندازہ اس دُنیا میں ہو نہیں سکتا جبکہ دوسرے کے سفر کے آخر میں بر عکس اس کے  ابدی ہلاکت  اور تباہی رکھی ہوئی ہے ۔اگرچہ ان کے انجام بالکل مختلف ہیں لیکن اس دُنیا میں ان کا سفر اکٹھا  ہے۔اور دونوں کی چال چلن اور رفتار وگفتار(چال چلن اور گفتگو ) میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ دونوں کی اُمید میں بھی ازحد اختلاف ہے ۔ایک قسم کے لوگوں کی اُمید صرف اِسی زندگی میں ہے اور موت کے بعد منقطع (ختم )ہوجاتی اور دوسرے قسم کے لوگوں کی اُمید اس دُنیا سے گزر کر عالمِ بقا (ہمیشہ رہنے والی دنیا)تک پہنچتی ہے ۔

 لیکن جائے تعجب (حیرت کا مقام)ہے کہ وہ لوگ جن کا بخرہ(حصّہ۔ٹکڑا۔تقسیم) اس زندگی میں ہے دیندار لوگوں کو جن کا  خیال  فانی چیزوں   پر نہیں بلکہ غیر فانی اور آسمانی  چیزوں پر لگا ہوا ہوتا ہے تکلیف دیتے ہیں اور ان  کے بر خلاف ضد اور مخالفت کی روح سے بھرکر دن اور رات نقصان پہنچانے کے در پے رہتے ہیں ۔اُن کی راہ میں راہِ راست سے بھٹکانے کے لیے انواع و  اقسام  (طرح طرح کے )کے جال پھیلاتے ہیں ۔اپنی بناوٹی اور ساختہ باتوں سے اُن کو گمراہ کرنے کے واسطے سعی و کوشش کرتے رہتے ہیں ۔اپنی دُعا میں نبی ایسے لوگوں سے رہائی چاہتا ہے ۔

 دُنیا اور اُس کے لوگوں سے رہائی پانا انسان کے لیے مشکل امر ہے ۔اس میں الہٰی طاقت کی مدد کی ضرورت ہے ۔اس لیے داؤد بادشاہ خُدا کی جو اپنے بندوں کی پُشت و پناہ ہے مدد چاہتا ہے لیکن باوجود ایسی سخت مخالفت اور ضد اور دُشمنی کے طوفان کے جو ایمانداروں کی ایام ِزندگی میں ہر روز چاروں طرف  جوش و خروش کے ساتھ چلتا رہتا ہے وہ اس دُنیا کو ہیچ و پوچ (حقیر۔بیہودہ۔نکما) سمجھ کر اپنی ایمان کی آنکھوں کو آسمانی اور حقیقی نعمتوں کی طرف لگا کر داؤد کی طرح کہنے کو تیار ہوتے ہیں کہ ’’میں جو ہوں صداقت میں تیرا مُنہ دیکھوں گا‘‘اور اس دُنیا سے اپنے خیالات کو بہت دُور عالمِ بقا کی لازوال برکتوں پر ٹکا کر خوشی کی آواز کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’جب میں تیری صورت پر ہو کر جاگوں گا تو میں سیر ہوں گا‘‘۔

 اَے ناظرین آپ بھی اس زندگی میں مسافر ہو لیکن غور و فکر سے سوچو کہ آپ کس قسم کے لوگوں میں سے ہو ؟آیا اُن میں سے جن کا بخرہ (حصّہ) اسی زندگی میں ہے یا اُن میں سے  جو صداقت میں خُدا کا مُنہ دیکھیں  گے اور خدا کی صورت پر ہو کر جاگیں گے اور سیر ہو جائیں گے؟

Leave a Comment