قرآن کا بابت ایک عالم عرب کی رائے

Eastern View of Jerusalem

The Opinion of an Arab Scholar about the Quran

By

Baajwa

باجوہ

Published in Nur-i-Afshan Feb 19, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۱۹فروری ۱۸۹۱ ء

خلیفہ مامون کے عہد میں جو جواب عبداللہ ولد اسمعیل ہاشمی کو عبد المسیح ولد اسحٰق کندی نے دیا اُس میں وہ لکھتا ہے کہ مسیحی راہبوں میں (راہبان کے طریقہ کایہاں بیان کربا ضروری نہیں )سرجیوش نامی ایک شخص تھاجس سے کوئی ناملایم (سخت)حرکت سرزدہوئی جس کے سبب مسیحی جماعت نے اُس کو خارج کر دیا اور اُس سے راہ ورسم تر ک کردی (جیسا کہ ہمیشہ سے اُ ن لوگوں کا دستورہے )اس سےسرجیوش نہایت نادم ہوا اور شہر تھامہ کو چلا گیا ۔ یہاں تک کہ مکہ کی سر زمین میں پہنچا۔اُس وقت وہاں دوقسم کے مذہب رائج تھے(یہودیت پرست)یہ شخص ہمیشہ محمد صاحب سےملتا رہا اور اُس کا دوست بن گیا۔یہاں تک کہ اُس کو اپنی رائیوں کے ساتھ ملالیا اور اپنا نام اُن کے سامنے نسطوریس (اس طریقہ کا بیان کرنا یہاں ضرور نہیں )ظاہر کیا ۔ اور اس تبدیلی نام سے اس کا مطلب یہ تھا کہ جس نسطور یس کا وہ معتقد تھا اُس کے مذہب کی اشاعت کرے اور اُس رائے (نسطور یس )کو ثابت کرے ۔ چنانچہ وہ ہمیشہ محمد صاحب کے پاس رہتا اور گفتگو کرتا رہتا تھا یہاں تک کہ اُس کو (محمد صاحب کو)بت پرستی سے بالکل ہٹا دیا اور ا پناتابع اور شاگردبنا کر نسطوریس طریقہ کی طرف دعوت کرنے لگا ۔

ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے

جب یہودیوں کو خبرملی تو اُس پرانی دعوت کے سبب (جو یہودونصاری ٰ میں چلی آتی ہے) بھی مخالف ہوگئے۔ مگر سرجیوش کی صحبت کایہ اثر ہو اکہ قرآن میں مسیحیوں کی یا د الہٰی کا ذکر ہے اور اُس میں اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ محمدیوں کے نزدیک سب سے وہ لو گ ہیں (محبت میں )جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اور اُ س میں عالم ودرویش ہیں اور وہ لوگ تکبر کرتے (دیکھو سورۃمائدہ ۸۲ )لیکن اسی عرصہ میں سرجیوش (یا نسطوریس )نے انتقال کیا۔ اُس کے بعد عبداللہ بن اسلام اور کعب یہودی عالموں نے ازراہ مکر وفریب محمد صاحب سے رفاقت کرلی (کیونکہ نسطوریس سے اُن کا مقابلہ تھا جو انتقال کرگیااب انہوں نے سمجھا کہ محمد صاحب کو اپنی طرف کرنا چاہئے )اور یہ ظاہر کیاکہ ہم آپ کی رائیوں کے تابع اور آپ کے مسائل کے قابل ہیں مگر اپنے دل کا راز پنہاں رکھا حتی ٰ کہ محمد صاحب کے انتقال کے بعد جب ابو بکر کو حکومت ملی تو اُنہوں نے علی کو اُبھار اکہ تو نبوت کا دعویٰ کیوں نہیں کرتا ہم تیرے شریک حال اُسی طرح سے ہیں جس طرح تیرے حضرت کا شریک نسطوریس نصرانی تھا ۔ گو علی نسطوریس راہب کاحال معلوم تھا مگر محمد صاحب کی صحبت کو وقت وہ کم عمر تھا اور ان دونوں نے علی کو یہ بھی سکھا دیا کہ کسی کویہ بات نہ بتائیں اورعلی نے کم عمری اور سادہ دلی ناتجر بہ کاری سے عبداللہ اور کعب کی بات مان لی مگر خدائے تعالیٰ کو یہ بات منظور نہ تھی ۔ ابوبکر  پریہ راز افشاہوگیا ۔ وہ علی کے پاس آئے اور حرمت کی یاد دلائی اور علی نے جب ابوبکر کی طرف نگاہ کی تو ان کی قوت کو دیکھا  اور  اپنے دلی ارادہ سے بازرہا ۔

مگر یہ اثر ان  دنوں یہودی عالموں کا ہوا کہ جو کتاب موافق مراد انجیل کے محمد صاحب کی طرف سے علی ہاتھ آئی تھی اُس میں تصرف کیاگیا ۔ توریت کے کچھ اخبارو احکام اورشہر وں کے حالات اُس میں داخل کئے گئے ۔کچھ گھٹایا کچھ بڑھایا   اور ان سب غیر مستند باتوں کو اُس میں ملا دیا (سورہ بقر آیت ۱۰۷ )اور اس طرح سورہ نحل ونمل وعنکبوت وغیر ہ میں ہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ مختلف گروہ کی طرف خطاب ہے اور یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں پس ظاہر ہے کہ محمد صاحب نے کچھ تعلیم سرجبوش عیسائی اور عبداللہ و کعب یہودی عالموں کے قرآن کے مصامین لکھے یالکھوائے اورچونکہ بعد میں اُس کے ترتیب دینے اور جمع کرنے میں مختلف اشخاص کا ہاتھ اس واسطے توریت اور انجیل کے حقیقی قصص (قصے ، واقعات)میں فرق آگیا ۔یہی وجہ ہے کہ بائیبل اور قرآن کے مضامین میں تفاوت ہے اس پرانے عالم عرب کی رائے پر محمد یو ں کو غور کرنا چاہیےاور بجائے اُس کے کہ وہ قرآن کی تعلیم کو زمانہ کے موافق کرنے کی کوشش کریں۔اُس چشمہ کی تعلیم کو قبول کریں جس کی روشنی سے منور ہوکر نیچری (فطرت کے ماننے والے)اور فلاں بنتے پھرتے ہیں۔یہ ریت کے ومدمے کب تک ؟آخر وہی غالب ہے جو کہتا ہے کہ اپنے گھر کی بنیاد چٹان پررکھو تاکہ طوفان ہواور بارش سے صدمہ نہ پہنچے ۔

Leave a Comment