کوئی دوسری نیو

Eastern View of Jerusalem

Any Other Foundation

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Noor-e-Afshan Dec 28, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۲۸دسمبر۱۸۹۴ ء

’’کیونکہ سو اُس نیو کے جو پڑی ہے۔ کوئی دوسری نیو ڈال نہیں سکتا۔ وہ یسوع مسیح ہے‘‘(۱ ۔کرنتھیوں۱۱:۳)۔

ایک غیر مقلدمحمدی تعلیم یافتہ نے یہ سوال کیا تھا۔ کہ اگر ’’ ہم مسیح اور محمد دونوں پر ایمان رکھیں تو کیا قباحت ہے‘‘؟ وہ شخص اسی اعتقاد پر مطمین ہے۔ اور اکثر یہ بھی کہتاہے۔ کہ ’’ میں مسیح کو سب نبیوں سے افضل  و اعلی ٰ تر سمجھتا ہوں۔ لیکن اس کی الوہیت (ربانیت) کا قائل و معتقد نہیں ہوں‘‘۔  وہ بائبل اور قرآن اپنے پاس رکھتا۔ اور دونوں کتابوں کی تلاوت کرنا داخل عبادت سمجھتا ہے۔ ہم نہیں سمجھ سکتے ۔ کہ باوجود ہر دو کتب میں اکثر اصولی مسائل اور تواریخی واقعات میں اختلاف عظیم ہونے کے کوئی ذہنی علم و عقل محقق کیونکر دونو ں کو منزل  من اللہ تسلیم کر سکتا ہے۔ اور کیونکر ان ناممکن الطبیق امور کی کوئی تاویل(شرع ، بیان، ظاہری بات سے کسی مطلب کوپھیردینا) و تشریح کر کے اپنا دلی اطمینان حاسل کر سکتاہے۔ جن کے درمیا ن آسمان و زمین کا فرق ہے؟ ممکن ہےکہ فی زمانہ اس خیال کے ااور محمدی اشکاص بھی موجود ہوں۔  جو بائبل و قرآن دونوں کو کتاب اللہ جان کر ان کی تلاوت کرتے  ہوں۔ اور مسیح و محد دونوں کو نبی بر حق جان کر ایمان رکھنے میں کچھ قباحت نہ سمجھتے ہوں۔ اسلیے نہایت  مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم پہلے اس مسیح کا جس کلیان بائبل میں پایا جاتاہے ان کے لیے کچھ ذکر کریں۔ کہ وہ کون تھا کیوں آیا تھا۔ اور کیا کام کیا۔ اور اگر محمد صاحب میں  مسیح کے سے کمالات وصفات نہ وں ۔ تو ان پر ایمان لانے اور  مسیح  کے مناسب جلیلہ میں انہیں اس شریک ٹھہرانے میں بڑی قباحت ہے۔

وہ یسوع تھا اور اس کا یہ نام بحکم خدا جبرائیل فرشتے کی معرفت رکھا گیا۔ جس کے معنی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے بچانے ولا ہے۔ وہ گم شدہ بنی آدم کو ڈھونڈنے اور بچانے کے لیے اس دنیا میں آیا               ( متی ۱۱:۱۸) (لوقا۱۰:۱۹) ۔

 اس کے اسکام کی نسبت ۵۸۷ برس پیشتر حزقی ایل نبی کی معرفت یوں پیشینگوئی کی گئی تھی۔ ’’ میں اس کو جو کہو یا ڈھونڈ ہوں گا۔ اور اسے جو ہانکا گیا ہے پھیر لاؤں گا۔ اور اس کی ہڈی کو جو ٹوٹ گئی ہے۔ باندھوں گا اور بیماروں کو تقویت دوں گا‘‘۔(حزقی ایل ۱۶:۳۴)

پس اس عظیم کام کے سر انجام کے لیے صرف اسی ایمان رکھنا واجب ہے۔ اور پس  ’’ وہ لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں ۔بلکہ بچانے آیا‘‘ (لوقا ۵۶:۹) ۔

ان کے بچانے کےلیے اس نے اپنی بے نظیر محبت کو ظاہر کیا جس کا بیان یوحنا رسول یوں کرتاہے۔ کہ ’’ ہم نے اس سے محبت کوجانا کہ اس نے ہمارے واسطے اپنی جان دی‘‘               (۱۔یوحنا ۱۶:۳) ۔

پولوس رسول لکھتا ہے۔ کہ ’’خدا نے اپنی محبت ہم پر یوں ظاہر کی ۔ کہ جب ہم گنہگار ٹھہرے تھے مسیح ہمارے لیے موا‘‘                  (رومیوں ۸:۵) ۔

اس کے ایسا کرنے کی نسبت یسعیاہ نبی نے  ۷۱۲ برس پیشتر یوں نبوت کی تھی۔

  ’’ لیکن خداوند کو پسند آیا ۔ کہ اسے کچلے اس نے اسے غمگین کیا۔ جب اس کی جان گناہ کےلیے گذرانی جائے‘‘(یسعیاہ ۱۰:۵۳) ۔

اس لیے صرف اسی اکیلے پر ایمان رکھنا چاہیے ۔ نہ کسی ایسے شخص پر جو اس کی کفارہ آمیز موت کا منکر ہو کر اس کے جھٹلانے کی کوشش کرے۔ اور اس عظیم حقیقت پر پردہ ڈالے۔ چنانچہ محد ساحب نے ایسا کیا۔ اور اس لیے  مسیح کے ساتھ محمد پر ایمان رکھنے میں بڑی قباحت ہے۔

سوال مذکورہ کا قطعی فیصلہ کر دینے ولا جواب انجیل مقدس سے یہ ملتا ہے کہ  ’’ کسی دوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے  آدمیوں کو کوئی دوسرا نام (بجز یسوع مسیح) نہیں بخشا گیا۔ جس سے ہم نجات پا سکیں‘‘(اعمال ۱۲:۴) ۔

’’خدا ایک ہے۔ اور خدا اور آدمیوں کے بیچ ایک آدمی بھی درمیان ہے۔ اور وہ یسوع مسیح ہے‘‘ (۱ تھیموتھیس ۵:۳) ۔

Leave a Comment