جواب اشتہار واجب الاظہار مرزا قادیانی

Eastern View of Jerusalem

Answer to the Advertisement of Mirza Qadiani

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan July 27,1894

نور افشاں مطبوعہ۲۷جولائی  ۱۸۹۴ ء

مرزا  صاحب  لکھتے ہیں کہ  حضرت عیسیٰ   کے چار حقیقی  بھائی  اس پر ایمان  نہیں   لائے تھے۔

معلوم   نہیں   مرزا   صاحب نے حقیقی  کا لفظ کہاں سے اختراع  (ایجاد )کر لیا۔  انجیل  شریف   میں خُداوند  کے بھائی   تو کئی ایک   مقام   میں آیا  ہے۔ مگر   حقیقی  بھائی  ایک جگہ   بھی مسطور(لکھا گيا)  نہیں ۔ اور یہ بھی  کلام الہٰی  سے ظاہر   ہے۔ کہ خُداوند   کے بھائی ایماندار   تھے ۔ چنانچہ   گلتیوں   ۱: ۱۹  اور  ۱ کرنتھیوں   ۹: ۵  سے ثابت   ہے۔ البتہ   شروع   میں وہ  ایمان  نہیں  لائے۔ جیسے   یوحنا  ۷: ۵  سے ظاہر ہے۔

مگر   مرزا   صاحب  نے خواہ   مخواہ   طوفان   باندھ  لیا  ہے۔ اور ہمارے   خُداوند   کے حق    میں کفر   بکا   ہے جس کا جواب   اُنہیں اُسی  کو دینا   پڑے گا۔   پس ایک ایسے صاف   جھوٹ   کا جواب ہم مرزا   صاحب  کو کیا دیں؟  سوائے    اس کے   کہ آپ  کا بیان   غلط  ہے۔  ’’غلط  گو اپنی  بدنامی  سے ڈرتو   ‘‘۔

مرزا  صاحب    اگر آپ  ذرا  کسی  مسیحی   شخص  سے انجیلِ    شریف   کی تعلیم  حاصل کرتے ۔  اور شاگرد  کہلانے   سے پرہیز   نہ کرتے ۔   تو آج کل   اس قسم  کی ذلتیں   آپ کو اُٹھائی نہ پڑتیں۔  جو آپ انجیل   ِشریف   کے مقا صد  اور  مطالب  سمجھنے میں اُٹھاتے ہیں۔ اور  کم علم مسیحیوں  کی نظر میں بھی ایسی  واہی  نکتہ   چینیوں   کے باعث   حقیر(ادنیٰ)  ہو جاتے ہیں۔

اب   یہودا  ہ کا حال سنو ۔  یہو   داہ  اسکر  یوتی   کی بابت   لکھا ہے۔ کہ  خُداوند   شروع   سے اس کو  جانتا تھا۔  کہ وہ مجھے   پکڑوا  دے گا ۔ یوحنا   ۶ : ۴۷ یعنی   وہ میرا   دشمن  ہے۔ اور  پر لے  درجے  کا  لالچی  ۔ بلکہ اس  کی نسبت   لکھا  ہے۔ کہ وہ  چورتھا ۔ مگر  باوجود  اس کے خبث   (بُرائی)اور بے  ایمانی   کے بھی خُداوند   نے اس کو   اپنے حضور   سے نکال   نہ دیا ۔  بلکہ   ہمیشہ   اس پر  اپنے فضل   اور مہربانی   اور محبت  کی بارش   برساتا رہا ۔   اس نے اپنے شاگردوں  کو تعلیم  دی تھی۔  کہ ’’تم رحیم   (رحم کرنے والا)ہو  جیسا   کہ خُدا رحیم  ہے‘‘۔ اور اس نے یہوداہ  کے احوال  میں خود   ظاہر  کیا۔ کہ میں کیسا رحیم  ہوں ۔ ہاں  اس نے دشمنوں   کو پیار  کرنے کاحکم دیا۔  اور نہ صرف  حکم دیا ۔  بلکہ   یہوداہ کے احوال  میں جو اس  کا جانی دشمن  تھا۔  اس حکم  کو پورا  کر کے دکھلا    دیا ۔ اگر یہودا  ہ کے احوال   سے اور کوئی فائدہ نہ ہوتا۔تو يہ کافی تھا ۔کہ خُدا وند ايسے بے ايمان شخص کو اپنی  محبت میں  رکھے۔اور  اپنے تابعين کے لئے ايک نمونہ قائم کر دے۔مگر اُس کے علاوہ  مرزا صاحب آپ کے  اور اُن سب کے لئے جو ہمارے خُداوند کے  حق ميں  اپنی زہريلی زبان کو    ہلاتے ہيں۔ايک عمدہ سبق يہوداہ کے احوال ميں موجود ہے ۔ یعنی  یہ کہ جو لوگ   مسیح خُداوند  کے جانی دشمن  اور جنہوں   نے پیٹ  کو اپنا  خُدا بنا یا ہے۔  اور ہر  طرح   کی راستی    سے دور  ہیں۔ ان میں  سے ایک  کو خُداوند  اپنے حق  میں گواہی   دینے کے لئے  مقرر کرے۔ اور وہ ایسے  طور پر   گواہی   دے۔  کہ اس کے باقی   ہم جنسوں   کا کوئی   عذر(بہانہ)  باقی نہ رہے۔  

اب ہم مرزا   صاحب  سے دریافت   کرتے ہیں۔   کہ کیا آپ   کو مسیح   خُداوند   کی بے گناہی  کی بابت کچھ شک  ہے؟  اگر  ہے تو یہودا  ہ کی گواہی  پر کان دھرئے شاید   آپ کو  تسلی   ہو جائے۔ یہودا   ہ کی بابت   یہ تو آپ  مانتے   ہی ہیں۔  کہ اس نے    تیس   روپے  کے لالچ   سے مسیح    کو  پکڑوا  دیا ۔  (  یا  مرتد ہو گیا   جیسا  آپ نےلکھا  ہے)  ۔ لیکن جب   یہو  دی اس کو پکڑ   کر لے گئے۔  اور اس    پر قتل  کا فتویٰ   دیا۔  یہودا   ہ خود  گواہی  دینے  کے لئے  چلا آیا۔   اُس کے ضميرنے اس  کو ملامت(لعن طعن)   کی اور اس کوچپ   رہنے نہیں دیا۔  وہ ہیکل   میں جہاں  یہودی  اور کاہن  جمع  تھے۔  دلیری   سے آیا   اس  نے سبھوں  کے سامنے  اقرار کیا۔   کہ میں   نے گناہ  کیا ۔  کہ بے گناہ   کو قتل  کے لئے حوالہ  کیا۔  وہ تیس   روپے  بھی اپنے ہاتھ   میں لا یا۔   اور جب یہودیوں نے روپے  واپس  نہیں لئے۔ اور   نہ خُداوند   کو چھوڑا   ۔ تو لکھا   ہے۔ کہ وہ  روپے  ہیکل   میں پھینک   کر چلا گیا ۔ اور جا کر اپنے  آپ کو  پھانسی   دی ۔ اللہ  اکبر۔

وہ شخص  جس کے خمیر  (فطرت۔طبيعت) میں گویا  لالچ  داخل  ہو گیا تھا۔  اور جس نے اپنی عمر  کا  سب  سے اچھا   حصّہ  چور   ی   اور بے ایمانی   میں خرچ   کیا تھا۔  اب روپے  اس کو ایک  بھاری   بوجھ  سے بھاری معلوم ہوتے ہیں وہ ان کی کچھ  پرواہ  نہیں کرتا ۔ وہ ان کو یوں  ہی پھینک   دیتا ہے۔ اور نہ صرف   یہ ۔ بلکہ  وہ  اپنے اس  فعل  مذموم  (بُرے کام)سے  ایسا  نا دم  (شرمندہ )ہے۔ کہ اس کو زندگی   تلخ (سخت۔کڑوی)معلوم   ہوتی ہے۔  وہ سمجھتا  ہے کہ  میں  نے ایسا  بھاری   گناہ  کیا ہے۔ جس کی معافی  نہیں ہو سکتی ۔  پس مسیح   خُداوند  کی بے گناہی پر اپنے خون سے مُہر  کرتا ہے۔ اور کہتا   ہے کہ میں نے  گناہ  کیا کہ بے گناہ  کو قتل  کے لئے پکڑوا  دیا۔

 مرزا  صاحب  آپ ذرا غور  فرمائے۔ کہ ایک  منکر اور بے دین  شخص    کیسی    عالیشان   گواہی دے رہا  ہے۔ کیا کسی  کو اس  کی گواہی   میں شک   ہو سکتا ہے۔  ہرگز  نہیں ۔ کیونکہ  یہ شخص  دشمن  اور بے دین  ہو کر ہمیشہ   خُداوند   کے پاس رہا۔  اس کے افعال  اور اقوال  کو سنتا   اور دیکھتا   رہا ۔ وہ ان کو دوست ہو کر نہ سنتا   اور نہ دیکھتا  ہے۔ مگر ایک دشمن  اور نکتہ   چین ہو کر  خُداوند  کی   طرف تک(ديکھ)   رہا ہے۔  مگر اس نے خُداوند   میںسوا    نیکی کے  کچھ  نہ پایا ۔ لیکن اپنے  آپ کو نالائق  گنہگار   مان کر  خُداوند  کے حق   میں   دشمنوں  اور بے دینوں  کے لئے  ایک مضبوط  گواہی  چھوڑ گیا ۔ الغرض   خُداوند  نے رحم  کر کے یہوداہ  کو باوجود   اس  کی بے ایمانی  کے اپنی پاک  محبت  میں رکھا  ۔ تا کہ  بہت سے بے دین  یہوداہ  کی گواہی   کو  سنکر   خُداوند   کی بے گناہی  کے  قائل  ہوں ۔ اب  مرزا صاحب  کو چاہے  ۔ کہ  اپنے اشتہار   کو ہمارے   جواب  کے  ساتھ   ملا کر پڑھیں ۔ تو ان کو   اپنے اشتہار  کا لچر  (بے ہودہ)اور پوچ(حقیر)   ہو نا خود  بخود   ظاہر  ہو جائے گا۔

Leave a Comment