Always Be Ingenious
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-e-Afshan Feb 22, 1895
نور افشاں مطبوعہ 22فرورفروی ۱۸۹۵ ء بروز جمعہ
’’ہمیشہ مستعد رہو کہ ہر ایک کو جو تم سے اس اُمید کی بابت جو تمہیں ہے پوچھتے فروتنی اور ادب سے جواب دو‘‘۔
(ا۔پطرس ۳: ۱۵)
یہ ایک مشہور مثل ہے کہ ’’ صحبت کی تاثیر تعلیم کا اثر‘‘ خداوند یسوع مسیح جب کہ وہ اس دنیا میں تھا اپنے قول و فعل سے نہایت حلیم و فروتن اور خاکسار و متحمل پایا گیا اور اس کے شاگرد جو اس کی صحبت میں رہے اور اس سے ہدایت و تعلیم پاتے رہے وہ بھی ایسے ہی فروتن اور حلیم الطبع بن گئے یہاں تک کہ جو پہلے نہایت سخت دل اور تیز مزاج تھے مسیحی ایمان کے سپرد ہو کر نہایت بردبار اور غریب مزاج ہو گئے کہ لوگوں سے ہر چند ستائے گئے پر ہرگز مقابلہ نہیں کیا بلکہ صبر سے برداشت کی۔ تواریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ مسیحی نہایت متحمل اور بردبار (برداشت کرنے والا)پائے گئے ہیں۔
آج کل بھی جہاں کہیں مسیحی اپنا کام کرتے ہیں اس مندرجہ بالا ہدایت کے بموجب چلتے ہیں۔ جب کہ بازاروں میں بشارت کا کام کرتے ہیں اگر کوئی آکر کچھ سوال کرتے تو وہ نہایت ادب کے ساتھ جواب دیتے اور شائستگی کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور اگر کوئی کتاب شائع کرتے ہیں حتی المقدور دوسروں کے دل آزردہ کرنے والی باتوں اور سخت کلامی سے پرہیز کرتے ہیں پر دیکھا جاتاہے کہ جب کبھی غیر مذہب والا کسی مذہبی معاملے میں قلم اُٹھاتا ہے تو وہ ضرور لعن طعن اور طعنے تشنیع (بُرابھلا)اور سخت باتوں کو درمیان میں لاتاہے کیا یہ بات صاف ظاہر نہیں کرنی کہ یہ تفاوت (دوری) محض سبب تعلیم کی تاثیر کے ہے؟ ضرور یہ ہی سبب ہے نہیں تو کوئی دوسرا سبب بتا دے۔
ہم عصر شحنہ ہند مطبوعہ ۲۴ جنوری ۱۸۹۵ء میں ایک مضمون بہ عنوان ’’ یہودیت و عیسائیت سے اسلام کا مقابلہ‘‘ ہماری نظر سے گزرا ۔ ہمارا ارادہ نہیں کہ اس وقت اس کا جواب لکھیں یا اس کی نسبت اپنی کچھ رائے ظاہر کریں۔ پر صرف اتنا کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ راقم مضمون نے جس مسخرا پن اور دل لگی کے ساتھ اس مضمون کو لکھا ہے وہ اہل علم کو بالکل زیبا نہیں ۔ اس سے نہ صرف تحریر کنندہ مضمون کی ناشائستگی ہے پائی جاتی ہے بلکہ سراسر بد اخلاقی جو عقلمندوں کی نظروں میں سبب حقارت کاہے۔ تحریر اور گفتگو میں سنجیدگی اور متانت نہایت ضرور ہے ورنہ ایسی تحریر سے صاف صاف لڑکپن پایا جاتاہے ۔ جس سے مطلق کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔