آج یہ نوشتہ

Eastern View of Jerusalem

Although they claimed to be wise, they became fools

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan November 12,1891

نور افشاں مطبوعہ۱۲نومبر ۱۸۹۱ ء

اُنیس سو برس  کے قریب  گذرتے   ہیں کہ فقرہ  مندرجہ  عنوان   شہر ناصرت  کےعبادت   خانہ  میں بروز  سبت  اس قدوس  کی زبان   مبارک  سےیہودی  جماعت  پرستار  ان کے روبرو  نکلا تھا۔ جس کے حق   میں راقم(کاتب، لکھنے والا)  زبور  نے لکھا۔  کہ  ’’  تو حسن  میں بنی آدم  سےکہیں  زیادہ  ہے ۔ تیرے ہونٹوں  میں لطف   بٹایا  گیا ہے۔ اسی لئے  خدا  نے تجھ   کو ابد(ہمیشہ )  تک مبارک  کیا یہ کیسا  عجیب  منظر تھا۔  کہ وہ جو ہیکل  کا خداوند تھا  ۔ ناصرت  کے عبادت  خانہ   میں ایک مشتاق(طالب، آرزو مند)   و ہمہ  تن گوش (پوری توجہ سے سُننا) یہودی    جماعت  کو یسعیاہ  نبی  کی  کتا ب کھول  کر اس مقام کو ۔ جس میں سات سو برس   پہلے وہ باتیں  جو اس  کے حق   میں مندرج  کی گئی تھیں۔ نکال کر   بآواز(آواز کے ساتھ)   بلند   سناتا ۔    کہ “  خداوند   کی روح مجھ  پر ہے  ۔ اس نے اس لئے  مجھے مسیح  کیا۔  غریبوں   کو خوشخبری  دُوں ۔ مجھ  کو بھیجا  ۔  کہ ٹوٹے  دلوں کو درست  کروں  ۔ قیدیوں کو چھوٹنے، اور اندھوں کو دیکھنے کی خبر سناؤ۔اور جو بیٹریوں(زنجیروں)    سے گھائل(زخمی)    ہیں انہیں   چھڑاؤں   ۔ اور خداوند  کے  سال  مقبول  کی منادری  کروں”۔  اور پھر کتاب   ہند  کر کے   اور  خادم  کو دے کر   یہ کہہ  کر  بیٹھ  جاتا  ۔”  آج  یہ نوشتہ(لکھا ہوا، تحریری سند)   جو تم  نے سنا پورا   ہوا”۔ اور تمام  حاضریں  عبادت  خانہ  بڑے تعجب   و حیرانی   کے ساتھ  اس کو تک رہے(دیکھ رہے) ہیں۔  اور  بے اختیار  اُن  فضل(علم ہنر،جوہر)  کی باتوں پر گواہی   دے  کر  آپس   میں حیران   ہو کر کہہ  رہے ہیں۔ کہ  یہ باتیں  اس نے کہا   سے پائیں ؟  اور یہ کیا حکمت ہے۔  جو   اسے ملی  ہے”۔

 اس  نظارہ  کا خیال   کر کے ہم   بے ساختہ   یہ کہنے پر  مجبور   ہوتےہیں  ۔  کہ  عہد عتیق   جو آنے والے مسیح موعود (وعدہ کیا گیا، اقرار کیا گیا)  کا ایک مکمل  حُلیہ  تھا اور   جس میں   اس کے خط و خال   اور  صورت حال  (آج) کا نہایت  مفصل(تفصیلاً)  بیان انبیائے  واجب  الا حترام (احترام کے قابل)   نے قلمبند (لکھنا)   کر دیا تھا ۔ا گر وہ   مطابق   اصل نہ ہوتا  ۔ یا  وہ اس  کو محرف   و منسوخ (ختم کر دینا، رد کر دینا) ٹھہرا  کر  متروک التّلاوت(ترک کیا ہوا، چھوڑا ہوا)   ۔ اور غیر  ضروری   سمجھتا  تو وہ آج کے دن  تک ایک ایسا  سر بمُہر دفتر  رہتا ۔   کہ نہ کوئی یہودی   ۔ اور نہ غیر  یہودی  جان سکتا ۔  کہ وہ کیوں   لکھا گیا ۔   اور اس کا اصلی  مقصد  و مطلب  کیا ہے۔   لیکن مسیح  نے ان الہامی  نوشتوں کو اپنے دست (ہاتھ)  مبارک  میں لے  کر اور خود  پڑھ  کر ثابت   کر دیا ہے  کہ یہ نوشتے(تحریری سند) فی الحقیقت   وہی ہیں۔  جو اس پر  گواہی  دیتے ہیں۔  کہ “وہ جو  آنےوالا تھا  یہی ہے”۔

اب ہم اس  منظر   عجیب  کے خلاف  ایک دوسرے  منظر   کے  نقشہ  پر غور کرتے  ۔ اور دیکھتے  ہیں۔ کہ  ایک عربی  مدعی(دعوی کرنے والا)   نبوت  ۔ جس نے کتب عہد عتیق  کے من جانب اللہ ہونے  پر گواہی دی ۔  اور انہیں   ہدایت اور  نور  بخشنے  والی کتابیں بتایا  ۔ اور مُصدّقاًلما مععہ اُن کی نسبت   کہا  ۔  ایک جگہ کھڑا   ہوا ہے۔ او ر اس کے اصحاب  و احباب   اس  کے کے گرد حلقہ(گھیرا، احاطہ)  کئے ہو ئے  مودب(ادب سیکھانے والا)  استاد ہیں  ۔ کہ  اتنے  میں ایک   ذی رتبہ صحابی  توریت  کے اوراق (ورق کی جمع،صفحے)  ہاتھ  میں لئے  ہو ئے وہا ں  پہنچتا ۔   اور بآواز بلند(اونچی آواز میں) حاضر  ین کو  پڑھ  کر  سناتا ۔ جس کو سُن   سُن  کر  مدعی(دعوی کرنے والا)   نبوت  کا رنگ  چہرہ  متغیر  (تبدیل) ہوا جاتا  اور وہ  اس کو حکم  دیتا  ۔ کہ “اس کتاب   کو  نہ پڑھ  “۔  لیکن  وہ پڑھنے سے باز  نہیں  آتا ۔  اور یہ دیکھ  کر دوسرا   صحابی پڑھنے  والے کو ملامت  (بُرا بھلا، ڈانٹ ڈپٹ) کر کے وہ   اوراق  (ورق کی جمع، صفحے)اس کے ہاتھ  سے چھین  لیتا  ہے!  ناظرین  کیا آپ   ان دونوں منظروں میں   آسمان  و زمین کا فرق  نہیں دیکھتے ؟  اور خود   اپنےلئے عقل سیلم کو کام میں لا کر  درست  نتیجہ   نہیں نکال  سکتے؟ کہ کیوں  یہ ناضرین بااطمینان   و خوش دلی(خوش دل کے ساتھ) کتب  (کتاب کی جمع) عہد عتیق (کتھولک بائبل میں پیدائش کی کتاب) کو خود ہاتھ میں لے کر  کر پڑھتا ۔ اور سامعین(سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو)  کو سناتا  ۔ اور حکم   دیتا کہ“نوشتوں  میں ڈھونڈو۔ کیونکہ  تم گمان(اندازہ، شک وشبہ)   کرتے ہو  ۔ کہ ان  میں تمہارے   لئے ہمیشہ  کی زندگی  ہے  اور یہ وہی ہیں  جو مجھ  پر گواہی  دیتے ہیں  “۔ اور عربی  کا رنگ   چہرہ (چہرے کا رنگ) کتاب مقدس  کو  سُن کر کیوں  متغیر(تبدیلی)  ہوتا ۔ اور وہ  اس کے پڑھنے  کی  کیوں  ممانعت(منع کرنا) کرتا  ہے دفُتا مل ۔

Leave a Comment