Although they claimed to be wise, they became fools
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan November 12,1891
نور افشاں مطبوعہ۲۵اکتوبر ۱۸۹۵ ء
وُہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے( رومیوں ۱ باب ۲۲ آیت )۔ پولوس رسول نے شہر روم کے مسیحیوں کو خط لکھتے وقت یہ فقرا اس وقت کے علما اور فضلا اور یونانی اُستادوں کے حق میں لکھا ۔جو خُدا کے کلام کی نسبت اپنے علم و حکمت کی رو سے مخالفت ظاہر کرتے تھے۔ اور ضد اور تعصب (مذہب کی بے جاحمايت۔طرف داری)سے اندھے ہو کر مسیحیوں کو ستاتے اور تکلیف پر تکلیف دیتے تھے۔ ان کے دانا (عقل مند)اور حکیم (ہوشيار۔طبيب)اور صاحبِ علم ہونے پر رُسول نے کچھ اعتراض نہیں کیا۔ اگر چہ پولوس خود ایک بڑا عالم و فاضل (بہت پڑھا لکھا ودانا)تھا۔ اور اگر کوئی بات علم و عقل کی بابت قابل ِگرفت تھی۔ (اعتراض کے لائق) ہوتی تو و ہ ضرور اس کا نوٹس لے سکتا تھا ۔اس نے ان کے دنیوی علم کی نسبت ان کو نادان (بے وقوف)نہیں کہا ۔ بلکہ اس کو اس ’’ جہاں کی حکمت ‘‘ کہا ۔( ۱ کرنتھیوں ۳ باب ۱۹ آیت ) ۔ مگر دینی علم و سمجھ کی بابت ان کو صاف کہا کہ وہ نادان (ناسمجھ۔بے وقوف)ہو گئے ۔ گنہگار اِنسان کے بچانے اور اس کی نجات کے بارے میں کوئی تجویز(رائے۔صلاح) کسی عالم نے جو دُنیاوی علم میں کیسا ہی ما ہر (تجربہ کار)کیوں نہ ہو۔ اور علمِ فلسفہ اور دانائی سے پُر ہوا ب تک نہیں نکالی ۔اور کوئی تدبیر(تجويز۔سوچ بچار) حکمت اِنسان سے بن نہ پڑی بلکہ وہ سب دانائی سر اسر (تمام) بیوقوفی ٹھہری۔ کیونکہ انسان کے گناہ معاف کرانے اور دوزخ کی سز ا سے رہائی دلانے اور پاک و صاف بنانے میں عالموں کا تمام علم و دانائی اور کل تدبیریں ناقص (خراب) اور ردی بلکہ محض بیوقوفی ٹھہریں ۔ جس طرح اس وقت کے عالم و فاضل لوگوں کا یہ حال تھا۔
اس طرح ہر زمانے میں ایسا ہی رہا ہے۔ چنانچہ آج کل بھی ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ بڑے بڑے عالم وفاضل لوگ اپنے علم و عقل کے دیوانے ہو کر مسیح اور مسیحی دین کی مخالفت میں زبان کھولتے اور بُرا بھلا کہتے اور لکھتے ہیں ۔ وہ اپنی عقل پر تکیہ(بھروسہ) کر کے خُدا کی قدر ت کے منکر (انکار کرنے والے)بن جاتے ۔ اور رفتہ رفتہ حق سے دور جا پڑتے ہیں اور دانا ہو کر نا دان بنتے ہیں۔ آج کل محمد ی اخبارات مقام لو ر پول میں ایک پادری صاحب کے مسلمان ہو جانے کا ذکر بڑے فخر کے ساتھ درج کرتے ہیں ۔ اس کو دین ِمحمدی کی صداقت(سچائی) تصور کرتے ہیں ۔ اگرچہ اس خبر کی صحت میں تو قف(دير۔وقفہ) اور کلام (اعتراض) ہے ۔لیکن تعجب(حيرت) نہیں کہ یہ درست ہی ہو۔ اگر کسی پادری یا بشپ صاحب نے ایسا کیا بھی ہو تو اس نےبُرا کیا ۔ اور ہم کو اس کے حال پر افسوس آتا ہے کہ وہ روحانی نعمتوں کا مزہ چکھ کے گر گیا ۔ اس نے شاید اس دُنیا کی حکمت کو جس کو خُدا بے وقوفی ٹھہراتا ہے پسند کیا یا جسمانی اور نفسانی خیالات میں مبتلا ہو کر ان کا مغلوب (ہارا ہوا۔زير)ہو گیا ۔ہم صا ف کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اس جہان کی بیش قیمت اور ہمیشہ تک رہنے والی برکتوں کو اس دُنیائے دون(دُنيا کی خواہش) کے عوض (بدلے)میں بیچ ڈالا جس کا انجام آخر کو پچھتانا اور افسوس کرنا ہوگا۔ اور زیادہ تر افسوس ان صاحبان پر آتا ہے کہ جو ایسے لوگوں پر نازاں(فخر کرنے والے) ہوتے ہیں۔