اے بوجھ سے دبے ہوئے

Eastern View of Jerusalem

All you who are weary and burdened

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan October 18,1895

نور افشاں مطبوعہ۱۸اکتوبر ۱۸۹۵ ء

اگر کوئی شخص  حق کا طالب  ہو کر سوال کرے  ۔کہ کس طرح  نجات پاؤں  گا اس کے لئے یہ  اچھا  اور تسلی   کا جواب ہے۔ کہ اگر تو سچ مچ  فضل  کا محتاج  اور دل کے آرام  اور حیات ابدی  کا آرزو  مند ہے ۔ تو جو تُو چاہتا  ہے  سو پا سکتا  ہے مسیح کی طرف  رجوع  کر کہ وہ بچانے  کو  دنیا  میں آیا اور اپنے کلام  کےسابق  الذکر آیت   میں تجھے  اپنے پاس  بلاتا   تجھ سے  محبت   رکھتا  اور  بہت بہت  چاہتا  ہے کہ تجھے  بچائے  اور خُدا سے  ملا ئے  سو ہم اس وقت  اس کے فضل سے اس مطلب  کا بیان  کریں    گے کہ خُداوند  یسوع مسیح  ہمیں نجات   دینے  کا بہت  آرزو  مند ہے۔

اس بڑی  بات کے بیان   کرنے میں چاہیے   کہ سب سے پیشتر  اس پر نظر  کریں جو  اس نصیحت  کی آیتوں  میں آدمیوں  کو اپنے  پاس   بلاتا  اور انہیں آرام  دینے  کا وعدہ کرتا ہے وہ کون  ہے یسوع مسیح ہی  حیات  کا سورج  نجات  کا تارا سچائی  کا چشمہ  جسے خُدا نے ہمارے  لئے حکمت  اور  راستی  اور پاکیزگی  ٹھہرایا ہے۔ اس نے  ہمارا   سچا  سردار  کاہن ہو کے اپنا  ہی لہو  بہایا   اور اپنی  ہی جان دی  ہے  تاکہ  گنہگاروں  کے لئے  ایسا   کفارہ جو خُدا  کو مقبول  و منظور  ہوا ور  ہمیشہ  قائم رہے  حاصل  کرے پس یہ اس  آسمانی  بادشاہ  سے مراد   ہے جو  اپنے   سب ایماندار  معتقدوں(اعتقاد رکھنے والوں )  کو بادشاہت  ذوالجلال   اور تاج  لازوال  دے گا ۔  کیونکہ وہ  سب چیزوں  کا مالک  اور سب خوبیوں  کا بانی اور دینے  والا ہے سنو یہ بڑا  بادشاہ  یہ دولت مند  مالک  یہ کریم  الرحمان خُداوند   لا چارو  خاکسار  آدمیوں کے   پاس آیا کہ انہیں اپنے نزدیک  کر ے کیونکہ  بہت چاہتا ہے کہ انہیں بچائے اور آسمان  کا وارث  ٹھہرائے۔

سو وہ یوں  پکار کر ہمیں  بلا تا ہے کہ ادھر  میرے پاس   آؤ  اس کی میٹھی  آواز  اور کریم  بلاہٹ  ہے وہ بے شک  ہماری بہتیری  چاہتا  اور ہماری نجات  کا مشتاق  (منتظر)ہے اور گویا  ہاتھ پھیلا  کر اس کا آرزو  مند ہے کہ جس طرح  مرغی  اپنے بچوں  کو اپنے پروں تلے  جمع  کرتی ہے  اسی طرح ہمیں   اپنے فضل  کے  سائے  میں پناہ  دے۔  جب مسیح  نے پکار  کے مذکورہ  باتیں   کہیں  اس وقت  بہت بہت  اور طرح طرح  کے آدمی  اس کے آگے  کھڑے تھے۔  ان میں سے بعض  دولت  مند  بعض  غریب  کئی بزرگ  کئی حقیر  تھے۔  بلکہ  پھٹے  اور میلے کپڑے  پہنے ہوئے آدمی بھی حاضر تھے۔ ان سب کو پکار  کر کہا اے سب  لوگو  میرے پاس  آؤ  اس نے اسرائیل  کی سب کھوئی  ہوئی بھیڑوں  کو اپنے پاس  بلایا  کہ انہیں  نجات  دے  ہاں جہاں  کے سب باشندوں  پر کرم   کی نظر کر کے انہیں بلایا  اور آج تک بلاتا  ہے  اور کہتا  ہے کہ اے سب لوگو  ادھر میرے  کہنے پر آؤ  پھر آئندہ   زمانہ کے لوگوں کو  جو آگے پیدا ہو ں گے  اپنے دائمی  کلام سے  پکار   کے فرماتا  ہے کہ آؤ سب  میرے پاس آؤ وہ  ہرگز کسی  کو اپنے فضل  سے  محروم  نہیں کرنا  بلکہ   چاہتا  ہے  کہ سب کے سب خواہ  دولت مند  خواہ کنگال  چاہے  عزت دا رہوں چاہے خاکسار  اس کے شریک  اور شامل   ہوں ۔ ہاں ان کو بھی جو سب  سے غریب   سب سے  حقير و فقير ہيں ۔اپنے پاس   بلاتا ہے اور ان  میں سے جو آتے  ہیں کبھی  کسی کو نامنظور  نہیں کرتا بلکہ انہیں خوشی  سے قبو ل کرتا ہے ۔ تجھے بھی اے ۔پڑھنے والے بُلاتا ہے ۔ تُو بھی   اسکی  پسند اور اس کا محبوب   و مقبول  ہے کس  مرتبے اور  درجے  کا آدمی تو کیو ں نہ ہو  اگر مسیح  کی آواز  سن کے اور مان کے اس کے  پاس آئے  مقبول ہو گا  کیونکہ  خُداوند  ان کو جو تھکے   ماندے اور بوجھ سے دبے  ہیں بلاتا  اور وعدہ  کرتا ہے کہ جو کوئی عاجز ہو کے میرے  پاس آئے میں اسے ہرگز  نہیں نکالوں گا  ۔ یوحنا  ۶ باب ۳۷ آیت ۔

’’کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھ پر بوجھ نہیں بلکہ ہر ایک آدمی اپنا خاص بوجھ رکھتا ہے ‘‘۔

پھر یسوع  مسیح تھکے  ماندے اور بوجھ  سے دبے لوگوں  کا ذکر اس  لئے کرتا  اور انہیں پکارتا ہے  ۔  کہ ان لفظوں   سے  ہماری تکلیفوں  اور غموں  اور دُکھ  درد  وں  کو خواہ جسمانی  ہوں  خواہ  روحانی  ظاہر کرے  اور شوق  دلائے  کہ سچے اور حقیقی  غریب پر ور یعنی خُدا ئے  پرودگار   کے پاس  آئیں اور اس کی مدد  کے منتظر  رہیں اور جو ہم لوگ اپنی اپنی حالت  کو غور  سے سوچیں  تو یقیناً  یہ معلوم ہوتا ہے  کہ سبھوں   کے اُوپر  کسی طرح  کا بوجھ ہے کوئی نہیں کہہ سکتا  کہ مجھ پر  بوجھ  نہیں بلکہ  ہر ایک آدمی  اپنا خاص  بوجھ رکھتا ہے ہر ایک کو کسی   نہ کسی طرح  کا غم یا رنج  یا  دکھ ہے اور جو بوجھ سب سے بھاری  اور سخت  ہے سو گناہ کا ہے جس  سے ہم سب  لوگ دبے ہیں۔ مگر تو اے دوست  اس بھاری  بات سے واقف  نہ ہو یا واقف  ہو  چاہےتُو  مت کہہ کہ مجھ پر  گناہ  کا بوجھ  نہیں بلکہ  اپنے  خیالوں  اور باتوں اور کاموں  کو پرکھے   کہ ان کی حقیقت  کو خوب سوچ اور  اس عادل منصف کے  حضور  جو دل کے اندر دیکھتا  اور پوشیدہ (چُھپی ہوئی)باتوں  سے بھی واقف ہے دریافت کر کہ تُو لڑکائی(لڑکپن) سےاب تک کیا کیا کام عمل میں لایا۔ تو تُو جان جائے گا کہ گناہ  کا بوجھ  تجھ پر بھی لدا  اور تجھے  بھی دبا دیتا ہے۔  اور اگرچہ  شاید اس  کا دبانا تجھے  معلوم نہ ہوئے  تو بھی تجھے  دبا لیتا  ہے  ۔ کیونکہ تیری ناخوشی اور بے آرامی  تیرا وہ  خوف  جو کبھی کبھی  تیرے دل میں معلوم ہوتا ہے ۔ کہاں اور  کس سبب سے ہے کیا یہ اس بوجھ کا جو تیری گردن  پر لدا ہے  نشان  نہیں۔ یقیناً  اسی سے ہے اگر تو مانے یا نہ مانے پر گناہ  کا بوجھ  تجھ پر  ہو کے تجھے یہاں  تک دباتاہے ۔کہ تو اپنی  آنکھیں  خُدا اور آسمان  کی طرف نہیں اُٹھا  سکتا ۔  علاوہ  اس کے اور طرح کی دشواریاں(مشکلات)  اور تکلیفیں  اور آفتیں  ہمیں کبھی  ظاہر کبھی  باطن (پوشيدہ۔اندرونی حصہ)میں  دباتی  ہیں ۔یعنی  اس دُنیا  کے سب روک ٹوک  ،دکھ  درد  وغیرہ  جن کا ہر ایک  آدم زاد  حصہ  دار ہے۔ غرض اس دُنیا کی ساری  زندگی  ایک بوجھ ہے جو صرف  مرتے وقت  اُتارا جاتا ہے ۔پس ظاہر  اور باطن میں زیر بار (بوجھ کے نيچے)اور باردار(پھل دار۔صاحبِ اولاد)ہو کر آدمی  زندگی گزارتے  اور لاچار(محتاج۔مجبور) ہو کر  قبر کی طرف  جو خُد اکی درگاہ اورعدالت  کا دروازہ  ہے چلے جاتے ہیں۔

پھر خُداوند  رحیم  ہو کر اس لئے  ان سب  کمبخت  مسافروں  کو بلا  بلا  کر کہتا ہے ۔کہ اے سب لوگو جو تھکے  ماندے اور زیر بار  (بوجھ کے نيچے)ہو ۔میرے پاس آؤ  کہ میں تمہیں  تازہ دم اور آرام بخشوں گا۔ اور اس لئے  یہ روحانی  خوبیاں اور نعمتیں انہیں  دکھلاتا  اور پیش کرتا ہے  ۔کہ  ان  کے دیکھنے  اور چکھنے  سے ان لا چاروں (مجبوروں) کے دلوں  میں مسیح کے   پاس آنے کا شوق  پیدا ہو ۔ سو اَے دوست  کان دھر  اور سُن لے کہ تو  بھی جس  کا دل بے آرامی اور غم  سے بھرا  ہے۔  اور تو بھی  جس پر شریعت  کی لعنت  اور سزا کا حکم ہے ۔ اور تُو بھی جو اپنے راہوں  اور  طریقوں میں عبث  (فضول)مدد اور  رہائی ڈھو نڈ کر دُنیاو ی چیزوں  سے تسلی  نہیں پا سکتا ۔ اور تُو بھی  جس کو اس کی زندگی کی آندھیاں  اور مخالفوں  اور شیطان  کے مقابلوں  میں پناہ  نہیں ملتی۔  اور خاص کر تُو بھی جس کے گناہ کا بوجھ  بھاری  معلوم  دیتا  بلایا جاتا ہے ہاں تم سب کو اے گنہگار  اور لاچار  آدمیوں خُداوند   یسوع مسیح  بلاتا تمہیں  تازہ کرنا اور چین  دینا چاہتا ہے ۔ جیسے  کہ اوس  آسمان  سے اور  مینہ  بادل سے سوکھی  زمین پر  پڑکے اسے ترو تازہ کرتے۔  اور جس طرح  میٹھے  پانی کا کنڈا  ور ہر ے درختوں کا جھنڈ  تھکے   اور  ماندے  مسافر کو تازگی  دیتے ہیں۔ ویسے  ہی روحانی رہائی اور جانی تازگی  اور دلی آرام  یسوع مسیح  سے ملتا ہے۔

  وہ ہمیں اپنی صلیب  اور لہو  اور دکھ درد  اور جاں  کنی جن سے  ہم لوگوں کے لئے صلح  اور زندگی  اور خوشی  حاصل ہوئی  دُکھاتا  اور گویا یوں کہتے ہوئے  تسلی دیتا  ہے ۔کہ میں نے تمہارے قرض ادا کئے  تمہاری سزا اپنے ذمہ  لی  سو تم خُدا سے مل گئے اور اس کے لے پالک  بیٹے اور بیٹیاں   ہوئیں   ۔اور اگر مجھ پر  سچا  ایمان  لاؤ اور  بھروسا  رکھو  تو تم کو نہ دُنیا  میں نہ  آخرت  میں خوف  و خطرہ  ہو گا ۔میں  طرح آدمی  کا بوجھ ہلکا  ،جوا ملائم،  دل تازہ اور خاطر جمع  ہوتی ہے  ۔ اور ایسا  شخص  کہہ سکتا  ہے کہ میں تسلی  کا محتاج  تھا پر تو نے  اَے خُداوند  میری جان  پھیر لا کر ہلاکت  سے بچائی  ۔ کیونکہ تو نے میرے سارے گناہ  اپنی نظر  سے دُور  کئے خُداتُو میری روشنی  اور مخلصی  (نجات)ہے۔ پس کس  سے ڈروں وہ میری  زندگی  کی قوت  ہے  کس سے خوف کروں ۔

Leave a Comment