A Great Forgiver
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan September 14,1894
نور افشاں مطبوعہ ۱۴ستمبر۱۸۹۴ ء
کسی شخص کو اس کی محنت کی اُجر ت(مُعاوضہ) دینا بخشش نہیں ہے۔ پر بلا محنت اور کام کے کسی کو کچھ دینا بخشش(انعام، معافی) ہے۔ دنیا میں لوگوں کو ان کی ملازمت۔ خدمت اور مزدوری کا حق ملتا ہے۔ لیکن بعض صاحب دولت (دولتمند لوگ) کسی اپنے ہو شیار اور محنتی کارندے(مزدور،محنتی کام کرنے والا) کو کبھی کبھی کچھ بخشش بھی دیا کرتے ہیں۔ اور اگرچہ وہ بھی ا س کی عمدہ خدمت کے سبب سے ہی ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ بخشش کنندہ (عفو درگزر کرنے والا) کی خوشنو دی(رضا، خوشی) مزاج (عادت، رویہ) اور مہربانی کا اظہار ہے۔ جس کا پانے والے کو کوئی حق نہیں ہوتا۔ پھر اگر کسی نیک خدمت کے عوض(بدلے میں) میں ۔ اور نمک حلالی(وفاداری) اور دیانت داری (ایمانداری)کے بدلے میں ایک آقا اپنے خادم کو علاوہ اس کی اجرت(معاوضہ) اور محنت کے کچھ دیتا ہے۔ اوربخشش کنندہ کہلاتا ہے تو کیا وہ بلا محنت اور مشقت کے آپ جیسے ناواقف لوگوں کو بڑی بڑی عجیب و غریب آسمانی اور روحانی برکتیں عنایت کرے تو وہ بڑ ا بخشندہ نہ ہو گا؟
اب میں ناظرین سے اس بڑے بخشندہ کی بخششوں کا مختصر بیان عرض کرنا چاہتاہوں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے۔ کہ یہ بڑا بخشندہ اپنی بخشش عام دنیا کے تمام باشندوں (ساکن، بسنے ولا) کو دینا چاہتا ہے۔ کسی قوم ، یا ذات ، یا درجے کےلیے کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ وہ بڑا بخشندہ خداوند یسوع مسیح ابن اللہ(اللہ کا بیٹا) اور ابن آدم(آدم کی اولاد) ہے۔ جو ۱۹۰۰ برس سے رحمت اور بخشش کا دروازہ کھولے ہوئے سب کو صرف ایک آسان سی شرط کے قبول کر لینے سے برکتوں پر برکتیں دیتا ہے۔ وہ شرط صرف ایمان ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بےکس (بے یارو مددگار)،لا چار (محتاج) اور گم گشتہ(کھویا ہوا، بھاگا ہوا) گنہگار اس سے مفت میں الہٰی نعمتیں پائیں۔ اس کی بخشش میں ذیل کی بڑی بڑی باتیں شامل ہیں:۔
۱۔ وہ بہتوں کےلئے اپنی جان فدیہ میں دیتا ہے متی باب ۲۰ آیت ۲۸ ۔’’ بلکہ ہر ایک گنہگار رسول کی طرح پر کہہ سکتا ہے کہ اس نے آپ کو میرے بدلے دے دیا‘‘۔ نامہ گلتیوں ۲ باب ۲۰ آیت’’ یہ کیسی عجیب بخشش ہے‘‘؟ اے ناظرین اگر آپ ذرا سوچو تو اس عجیب بخشش کی اشد (انتہائی) ضرورت کو آپ معلوم کر لو گے۔ گنہگار یہ سبب( کی وجہ سے) اپنے گناہوں کی سزا اور عذاب ابدی (ہمیشہ کا عذاب، کبھی نہ ختم ہونے والی سزا یا تکلیف) کا مستوجب (واجب کرنے ولا،لازم ہونے ولا) ہو چکا ہے۔ اگروہ خود اس کو اُٹھائے تو ہلاک ہوجائے لیکن گنہگار کا عوضی ہو کر یسوع مسیح اپنی جان دےکرپھر زندہ ہو ا۔ اور گناہ کی سزا کو خود سہہ لیا۔ اور خدا کے عدل (انصاف) کو پورا کر دیا۔ اور رحمت الہٰی ککا دروازہ گنہگار کےلئے کھول دیا۔ جس کے ذریعہ سے گنہگار موت اور عذاب سے بچتا ہے۔ اور ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے۔
۲۔ دوسری بخشش(انعام، معافی) جو یہ بخشش کنندہ(معاف کرنے ولا) دیتا ہے دلی آرام ہے۔ متی ۲۱ باب ۲۸ آیت’’ گناہ کے ساتھ بے آرامی اور بے چینی ہے۔ جب کہ مسیح نے اپنی جان دے دی۔ اور گناہ کی سزا اٹھائی ۔ تو گنہگار کو سزا کا اندیشہ اور دھڑکا ۔ بلکہ دلی تسلی اور اطمینا اس کو حاصل ہوا‘‘۔
۳۔ وہ اپنی سلامتی دیتا ہے۔ جب کہ اس بخشش کنندہ (عفو درگزر کرنے ولا)نے گناہ کی سزا اُٹھائی۔ اور آرام دیا۔ تو پھر اب سلامتی ہے۔ خطرہ جاتا رہا۔ آسمانی اور روحانی برکتیں اور نعمتیں گنہگار کو ملیں گی۔ اور پھر کوئی خوف اس پر نہ آئے گا۔ بلکہ اس کے تمام دشمن دور دوفع ہوجائیں گے۔ اور وہ سلامتی میں آجائے گا۔
۴۔ ’’پھر وہ اپنے ایمانداروں کو حیات ابدی اور ہمیشہ کی زندگی کی بخشش دیتا ہے‘‘ (یوحنا۱۰ باب ۲۸آیت)۔
۵۔ ’’ وہ ا ن کو زندگی کا پانی دیتا ہے ‘‘( یوحنا ۴ باب ۱۰آیت)’’ بلکہ وہ زندگی کے پانی کا چشمہ دیتا ہے‘‘(مکاشفہ ۲۱: ۶)۔
۶۔ ’’وہ اپنے ایمانداروں کو جلال کی بخشش دے گا ۔ جو کبھی جاتا نہ رہے گا‘‘( یوحنا ۱۷ باب ۲۲ آیت)۔
مندرجہ بالا تمام روحانی بخشش(انعام) یہ بڑ ا بخشندہ (بخشنے ولا)یسوع مسیح گنہگار وں کو دیتا ہے۔ اب اگر کوئی گنہگار چاہے کیسا ہی بڑا گنہگار کیوںنہ ہو نجات اور آسمانی برکتیں چاہیے۔ تو مسیح کے پاس آئے ۔ اور و ہ یہ تمام برکتیں مفت میں پائے گا۔