A Comparison of Adh Granth and Bible
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan March 9,1894
نور افشاں مطبوعہ ۹مارچ ۱۸۹۴ ء
یہ نادر کتاب جو فی الحال مطبع امریکن مشن لودہیانہ میں اول مرتبہ چھپی ہے ۔ آدگرنتھ اور بائبل کے درمیان عجیب مطابقت (مشابہت۔برابری) ظاہر کرتی ہے۔ اس کے مولف (تاليف کرنے والا۔کتاب لکھنے والا)روشن ضمیر پنڈت والجی بھائی گجراتی نے سوال و جواب کے طور پر ہر ایک مذہبی تعلیم کو جو مسیحی مذہب کے متعلق ہے۔ آدگرنتھ اور بائبل کے اشلوک (نظم ۔شعر)اور آیات سے مطابق کر کے دکھایا ۔ اور ثابت کیا ہے۔ کہ نانک صاحب کی تعلیم کا ماخذ (بنياد) کیا ہے۔ اس کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے ۔ کہ نانک صاحب کا مذہب ہر پنتھ یا مکتی پنتھ کہلا تا ہے۔ وہ ۱۴۶۹ ء میں پیدا ہوئے۔ اور اس مذہب کی منادی انہوں نے ۱۵۰۰ء میں کرنی شروع کی۔ اکثر لوگ خیال کرتے ہیں کہ نانک صاحب دیدانتی تھے۔ لیکن یہ بالکل نادرست ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہندو اور محمدی مذاہب کو رد کیا ۔ اور ہندو دیوتاؤں اور اُوتاروں (خُدا رسيدہ آدميوں) کو اور وید(ہندوؤں کی مقدس کتاب) اور پُر ان( ہندووں کی مذہبی کتابيں ۔جن ميں سے ۱۸ پران مشہور ہيں)کو جھٹلایا ہے۔ ہم کو آدگر نتھ سے معلوم ہوتا ہے کہ نانک صاحب ایک دانا(عقلمند) اور خُد ا پرست شخص تھے۔ انہوں نے سادھوؤں اور گرؤوں کے بہت سے بھیکہہ پہنے اور سچائی کی تلاش میں بحالت تشنگی و گرسنگی(پياس و بھوک) صحرانورد(جنگلوں ميں رہنا)ر ہے۔ اور آخر کوست گرو ہری ابن اللہ سے آگاہ ہو ئے اور بدل و جان اس کی پرستش شروع کی۔ نہ انہوں نےفی الحقیقت اپنے گناہوں سے توبہ کی اور نہ ان کا اقرار کیا۔ نانک صاحب اور ان کے پیرو(پيچھے چلنے والے) بھی ہمیشہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتے اور قبول کرتے ہیں ۔ کہ ان میں کوئی ایسی نیکی نہیں ہے جس سے و ہ نجات کے مستحق (لائق)ہو سکیں۔ اور یہ بھی آدگر نتھ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے نیک کاموں کے سبب سے نجات نہیں پا سکتا ۔ (بشرطیکہ وہ خُدا سے فیصلہ کئے جائیں )۔ لیکن وہ صرف ہری(خُدا) ابن ِاللہ کی راستبازی کے وسیلے نجات پا سکتا ہے ۔ آدگر نتھ میں ہندو اور محمدیوں کو یکساں بتایا گیا ہے۔ اور ان کو بڑی ملامت (لعن طعن۔بُرا بھلا)کی گئی ہے۔ آدگرنتھ کے لکھنے والوں نے ہندو اور محمدیوں کو یکساں شمار کیا ہے۔ اور ہنددؤں کے دیوتاؤں کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثلاً اس میں ایسے نام ہندوؤں کے دیوتاؤں کابھی ذکر کیا ہے۔ جيسا کہ گوپال ۔ لال گوپال ۔گووند ۔ دمودر وغیرہ ۔ لیکن یہ بالکل خیال نہ کرنا چاہیے کہ ان کی پرستش واجب ہے۔
نانک صاحب نے نہ صرف اکثر آدگر نتھ میں ہندو دیوتاؤں اور اُوتاروں کی پرستش سے منع کیا ہے۔ بلکہ یہ بھی صاف بظاہر کیا ہے۔ کہ مندرجہ بالا دیوتاؤں میں کوئی نجات دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔کیونکہ وہ مایا(دنيا) کے بس میں گرفتار ہو گئے۔ اور مغلوب(زير) ہو گئے۔ وہ فقیر ہیں ۔ وہ دیوانے ہیں۔ وہ ويد سے بخوبی واقف نہیں۔ وہ سب غلامی میں ہیں ۔ اندر اور دیگر دیوتاروتے ہیں۔ وہ سب بیمار ہیں۔ ان سب پر مایا غالب ہو گئی ہے۔ بر مہا اور دیگر ہندو دیوتا سست گرو کی پرستش سے ناواقف ہیں۔ ان باتوں کے علاوہ آدگر نتھ میں ہندو دیوتاؤں کی نالیاقتی ۔ اور ان کی پرستش نہ کرنے ۔ اور اس بارہ میں کہ ان کے ذریعہ کسی کو نجات نہیں مل سکتی صاف بیانات پائے جاتے ہیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ جو نام ہندو دیوتاؤں کے انہوں نے لکھے ہیں ۔ خُدا سے منسوب ہیں اور ہری کی صفت و ثناء ظاہر کرتے ہیں۔