Mirz Gulam Ahmed was not the Promised Messiah
G.L.Thakkur Dass
Published in Nur-i-Afshan April 02, 1885
مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود نہیں
نور افشاں مطبوعہ ۲۳ اگست۱۸۸۳ء
جناب مرزا صاحب کا نامہ واشتہار براہین احمدیہ کی بابت انگریزی واُردو میں اس کم ترین کے پاس بھی پہنچا ہے ۔براہین(دلائل) احمد یہ کو شہرت دینے کی عمدہ تجویز نکالی ہے۔ اُن تحریروں میں مرزا صاحب نےحسب ذیل دعوےٰ کئے ہیں ۔
اوّل ۔ یہ کہ میں مسیح کے اپنے وقت کا ریفارمر(اصلاح کار) مقرر ہوا ہوں تا کہ بنی آدم کے اخلاق درست کروں ۔ اور کہ میری روحانی خوبیاں یسوع مسیح کی خوبیوں کے برابر ومطابق ہیں ۔ اور کہ مجھے بہ سبب پیروی محمد صاحب کے اور اولیاؤں سےاعلیٰ درجہ دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے ہوئے ۔ اس لئے میری پیروی میں خیرہے اور مخالفت میں نقصان ہے ۔
دوم ۔ میری اس الہٰی تقرری کا مقصد یہ ہے کہ عوام الناس کو بتلاؤں کہ خداکی مرضی کے موافق فقط ایک ہی مذہب ہے یعنی اسلام اور القرآن اُس کی کلام ہے ۔
سوم۔ ان دوو عدوں کو ثابت کرنے کے لئے میں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملہم دمامورہو کر کتاب ’’براہین احمد یہ ‘‘تالیف کی ہے جس کی تردید کے واسطے دس ہزار(۱۰۰۰۰) روپیہ کا انعام ہے ۔
چہارم ۔ جو اسلام کی صداقت کا شاکی ہو وہ میرے پاس قادیاں میں اگر ایک برس رہے اور معجزے دیکھے ۔ اور اسلام قبول کرنے کی غرض سے آئے۔ آپ تحریروں کا یہ خلاصہ معلوم ہوتا ہے ۔
اب مراز صاحب کی بہتری اور جھوٹھی امید سے رہائی کے واسطے کم ترین برادر انہ طور سے آپ کوآگاہ کرتا ہے کہ آپ کے اشتہار میں غلطی اور دھوکا ہے اور مسیح خداوند کا پیرو اور ایلچی ہو کر آپ کی منت کرتا ہوں کہ خدا سے میل کرو اور اپنی ہلاکت کی تجویزوں کو ترک کرو ۔
اوّل ۔ واضح ہو کہ (۱) اگر آپ مثلاً یسوع مسیح کے ریفا ر مربنے ہیں تاکہ انسان کے اخلاق درست کریں تو یہ اصلاح محمد صاحب کی اصلاح کے موافق نہ ہو گی ۔کیونکہ خداوند مسیح اور محمد صاحب کی اصلاحوں میں بہت فرق ہے۔ حتٰی کہ محمد صاحب کی اصلاحیں اکثر باتوں میں خودہی ترمیم طلب ہیں اور مسیح کی اصلاح تو اخلاق کا ایک کامل نمونہ ہے۔ اگر آپ اپنے تئیں اپنے پیشوا کی مثلاً ایک ریفار مرتصور کرتے تو آپ کے مقصد کے لئے زیبا ہوتا ۔ آپ چوک گئے۔
(۲) پھر روحانی خوبیوں میں آپ اپنے تئیں مسیح کے مطابق و برابر سمجھتے ہیں چاہئے تھا کہ آپ کی روحانی خوبیاں محمدصاحب کے مطابق ہوتیں جس کے آپ مدت سے پیرو ہیں نہ کہ مسیح کے موافق جس کے ساتھ آپ سروکار نہیں رکھتے۔ یہ تو ہم عیسائیوں کی کوشش ہے کہ مسیح کے موافق ہوں۔ آپ سوچو تو سہی کہ آپ پیرو کس کے اور مطابقت کس سے! قطع نظر اس کے اگر آپ کا دعویٰ سچ ہے تو ہم بڑی خوشی سے آپ کو مبارک باد دیتے ہیں کہ آپ محمد صاحب کی نسبت بہت اچھے آدمی ہیں اور اپنے سے ادنٰی کی پیروی میں نقصان ہے اور ظاہر ہے کہ محمد صاحب میں حقیقی روحانی خوبیاں بہت کم تھیں۔
دوم ۔آپ کے دوسرے اور تیسرے دعویٰ میں آپ کی اعلیٰ تقرری اور قرآن کے کلام اللہ ہونے کی دلیل آپ کی کتاب’’ براہین احمد یہ‘‘ ہے سو بشرط زندگی وفرصت ہم اُسی کی تفتیش کریں گے ۔ اور آپ کی براہین کا وزن معلوم کریں گے کہ وہ وزن میں ہلکی ہیں ۔آپ میرے اس کہنے سے تنگ ہوں جیسا آپ نے اور پادریوں اور پنڈتوں کے اعلانوں کی نسبت براہین احمد یہ کے مقدمہ کے ماقبل صفحہ میں کہا ہے کہ جس کتاب کوابھی نہ دیکھا اور نہ بھالا نہ اُس کی براہین سے کچھ اطلاع نہ اُس کے پایہ تحقیقات سے کچھ خبر نہ اُس کی نسبت جھٹ پٹ منہ کھول کر رد نویسی کا دعویٰ کردینا ۔ کیا یہی اُن لوگوں کی ایمان داری اور راستبازی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پہلے آپ نے اس طور سے منہ کھولا اور دوسروں کا زور آزمائے بغیر یوں لکھ دیا کہ اس کا جواب قیامت تک اُن سے میسرنہیں آسکتا (مقدمہ صفحہ ۹۳) جس قدر کم ترین نے ’’براہین احمدیہ‘‘ کو دیکھا ہے یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ وہ لا جواب کتاب نہیں ہے ۔اُس میں بحث کا وہی پُرانا مولویوں والا ڈھب ہے ۔البتہ کبھی کبھی نئی طرز بھی ہے ۔ آپ اپنے منہ سے اُس کی ثناخوانی(تعریف) کر رہے ہیں ذرہ صبر سے انتظاری کرو کہ دوسری طرف سے کیا آواز آتی ہے ۔ دس ہزار(۱۰۰۰۰) روپیہ کے انعام کو آپ اپنی دلیلوں کی پختگی کا ثبوت سمجھتے ہیں۔ مگر آپ ہی ایسا سمجھتے ہیں ۔ہم براہین کی قیمت روپیوں سے نہ جانچیں گے مگر اُنہیں انصاف کے ترازومیں تو لیں گے اور تحقیق سے کام لیں گے ۔
سوم ۔آپ اپنی کتاب کی نسبت الہٰامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ مگر ہم کواس میں دھوکا دہی معلوم ہوتی ہے ۔کیونکہ جب آپ نے کتاب تالیف کرلی اور کسی قدر چھپ بھی گئی تب آپ کو الہٰام ہوا کہ اور مرزا صاحب !! تم نے تو ’’براہین احمد یہ‘‘ الہٰام سے لکھ ڈالی ہے اس کے الہٰامی ہونے کا اشتہار دےدو ۔ ورنہ پیشتر آپ کا خیال کچھ اور تھا جیسا براہین احمد یہ کے (مقدمہ صفحہ ۹۰ )میں مسطورہی ۔ کہ اس کتاب کی تالیف سے پہلے بڑی تحقیقات کی گئیں اور ہر ایک مذہب کی کتاب دیانت اور امانت اور خوض سے دیکھی گئی اور قرآن مجید اور اُن کتابوں کا باہم مقابلہ کیا گیا اور زبانی مباحثے بھی اکثر قوموں کے بزرگ علماء سے ہوتے رہے ۔ غرض جہاں تک طاقت بشری ہے ہر ایک طور کی کوشش جان نشانی اظہار حق کے لئے کی گئی وغیرہ ۔ ظاہر ہے کہ آپ کو اس وقت الہٰام سے دکھنے کا خیال نہ تھا بلکہ اپنی طاقت بشری کی زور آزمائی پر اپنی خود ہی اور فخر کو پیش کیا ۔ اب آپ کو الہٰام کی سوچ آئی ہے۔ یہ دھوکا نہیں تو اور کیا ہے ؟ معلوم ہوا کہ الہٰام کی نسبت دنیا میں کم سے کم دو قسم کے بیان ہیں ۔ ایک وہ جو خدا کی طرف سے مقدس لوگوں کو کس طرح ہوتا تھا دوسرا اُس کا نقلی گمان جو مولوی سیداحمد خان صاحب بہادر نے اپنے اہل وطن کو بھی سنا دیا یعنی سوچتے سوچتے دفعتاً کسی بات کا دل میں آجانا ۔ اُس کو بھی خدا کی طرف سے کہا ہے اور ہر زمانہ اور ہر قوم میں ہوتا رہا ہے ۔یورپ میں اُسے انتھوزی ازم یا مسٹی سیزم کہتے ہیں ۔ اُس کی کیفیت یہ ہے کہ جب انسان کا وہم زور کرتا ہے تو پھر ہر خیال کو الہٰامی قرار دیتا ہے ۔کیونکہ اُس کے اسباب کو نہیں دیکھتا اور بعض حالتوں میں فریب کھاکے یا فریب دینے کی غرض یوں بھی کہہ دیتے ہیں کہ فلاں امرکاخدا کی طرف سے الہٰام ہوا ۔ اپنی تحقیقات کی روسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد صاحب ایسے ہی الہٰام کے پھیرمیں آگئے تھے ایسی حالتوں میں یاد رکھنا چاہیے کہ بعض موقع بعض امور یا صداقتیں عقل ایسی جلد معلوم کر لیتی ہے اور نتیجہ بتلاتی ہے کہ عقل کا عقلی عمل چھیا رہتا ہے۔ وہ درمیانی اسباب جنہوں نے اس نےنتیجہ کی تحصیل کی خوشی یا غرور کے سبب بھول جاتے ہیں اور یوں لوگ اپنی عقل کے طریق معلومات کی نسبت دھوکا کھانے یاغلطی کرتے ہیں۔ سو مرزا صاحب میں آپ کو آگا ہ کرتا ہوں کہ آپ دھوکا دیتے ہیں اور اس مسٹی زم کے پھیر میں آگے ہیں اگر ضرورت ہوتی تو ہم آپ کو ایسے مدعیوں کی بہتری نظریں دے گے ۔ اور ثابت کریں گے کہ لوگوں پر ایسی حالت بھی ظاہری ہوتی ہے اور ناظرین سے بھی التماس ہے کہ مرزا صاحب کے دعویٰ سے مطلق نہ گھبرائیں، اگر چاہیں تو سب مصنف ایسا دعویٰ الہٰام کر سکتے ہیں مگر جن میں وہم زور کر جاتا ہے وہ تو بے تامل ایسا ہے بول اُٹھتے ہیں ۔
چہارم ۔ آپ کا چوتھا دعویٰ وہ لوگ مانیں جنہیں قرآن کی ماہیت کی واقفی ہو یا وہ جو آگے ہے اولیاؤں کے فریب میں آئے ہوئے ہیں اور یا وہ جنہیں ’’براہین احمد یہ‘‘ کا جواب لکھنے کا حوصلہ اور ملکہ نہ ہو ۔
تنبیہ
بہت جھوٹھے نبی اُٹھیں گے جو بہتوں کو گمراہ کریں گے اور بے دینی کے بڑھ جانے سے بہتوں کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی (متی۲۴: ۱۱ ) ۔جھوٹھے مسیح اُٹھیں گے اور ایسے بڑے نشان اور کرامتیں دکھائیں گے کہ اگر ہو سکتا تو وہ برگزیدوں کو بھی گمراہ کرتے ۔اگر ہم یا آسمان سے کوئی فرشتہ سوا اُس انجیل کے جو ہم نے تمہیں سنائی دوسری انجیل تمہیں سنائے سو ملعون ہو (گلتیوں ۱: ۸ ) یہ اُسی انجیل کا بیان ہے جس کو محمد صاحب قرآن میں بارہا کلام اللہ قبول کرتے ہیں مگر انجیل کو کلام خدا مان کر تو حضرت اپنا اور اپنے پیراؤوں کا ناس کر گئے ہیں ۔ کیا آپ کو سمجھ نہیں کس گرداب(بھنور) میں پڑکر ایسے اشتہار دے رہے ہو ۔
راقم
جے ۔ایل ۔ٹھاکرداس